(۱)

            نام کتاب             :           بصری ائمہ نحات

             (ترجمہ: اخبار النحویین البصریین)

            مترجم                 :           مولانا کفیل احمد میواتی معین مدرس دارالعلوم دیوبند

             صفحات               :           ۲۳۹                  قیمت: ۶۵ روپے

            اشاعت              :           ۲۰۲۲ء/۱۴۴۳ھ

            ناشر                   :           الفلاح اکیڈمی، دہلی۔9634113051

            تعارف نگار           :           ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

====================

            ہرعلم پہلے نومولود تھا، پھر بڑھا، جوان ہوا اور اپنی آخری منزل کو پہنچا، خدمت کرنے والے زمانے کے اعتبار سے مقدم اور موٴخر ہیں، پہلے والوں کو متقدمین اور بعد والوں کو متأخرین کہتے ہیں، اہلِ علم نے زمانے اور خدمات کے اعتبار سے ہر ایک کی کٹیگری متعین کی ہے، اسی کو ”طبقات“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شرعی علوم، تفسیر، حدیث اور فقہ میں طبقات سے اکثر اہل علم واقف ہوتے ہیں؛ لیکن عربی زبان کے نوک پلک کو سنوارنے والوں کو طبقاتی لحاظ سے عام طور سے علماء نہیں جانتے، علم نحو میں زبان کی اعرابی حیثیت کے لحاظ سے بحث ہوتی ہے، اخیر کے اعراب پر نحویوں کی نظر ہوتی ہے۔ ان کی خدمات بہت ہی قابل قدر ہیں، آج علوم شرعیہ کی بقا میں ان کا کلیدی کردار ہے؛ لیکن ان کے طبقات کا علم علماء امت کو عام طور سے مستحضر نہیں۔ قاضی بوسعید حسن بن عبداللہ سیرافی (۲۸۴-۳۶۸ھ) نے بصری نحویوں کے طبقات پر ایک کتاب ترتیب دی، موصوف چوں کہ منجھی ہوئی شخصیت کے حامل ہیں؛ اس لیے ان کی کتاب کو اہلِ علم کے درمیان بڑا قبول حاصل ہوا، پانچ مراکز تحقیق سے اس کی اشاعت عمل میں آئی، اس کے مخطوطوں کا مقارنہ کیاگیا، ابن ندیم نے ”الفہرست“ میں اس سے استفادہ کیا، ان کا انداز بیان تحلیل وتجزیہ لیے ہوئے ہے، کسی نحوی کا ذکر مستند حوالوں سے کرتے ہیں، ولادت وفات کی تاریخ بیان کرنے کے بجائے حیثیت اورعلمی مرتبہ کو زیادہ بیان کرتے ہیں، اساتذہ اور تلامذہ کا ذکر کرتے ہیں، تصانیف کی تعیین کرتے ہیں، زیادہ مواد ابوالعباس مبرد سے لیتے ہیں، زجاج، ابوحاتم ابن سراج اور ثعلب سے بھی نقل کرتے ہیں۔ کتاب میں تدوین نحو کی اولین تاریخ بتائی ہے، پھر دوسری اور تیسری صدی کے نحویوں کے مراتب بیان کیے ہیں۔ یہ سب متقدمین ہیں۔

            غرض یہ کہ کتاب بڑی اچھی ہے؛ لیکن عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے عجمی قارئین اس سے ناآشنا تھے، مترجم محقق زیدفضلہ نے اس کے دائرئہ افادہ کو عام کرنے کے لیے اردو زبان میں ترجمہ کیا اور ایک طویل مقالہ بھی اس میں شامل کیا۔ جس میں متاخرین نحات کا ذکر ہے اور دوسری مفید بحثیں لکھیں اور زمرہ بندی کی اور خاص پہلو یہ ہے کہ مقالے میں ڈھائی سو سے زائد صاحب تصانیف ہندوستانی نحویوں کا بھی ذکر ہے، اور میرے علم میں یہ پہلی کاوش ہے، جواں قلم کار کی یہ کاوش پہلی ہے، اس اہم موضوع پر ان کی محنت قابلِ داد ہے، ”فُٹ نوٹ“ میں بھی انھوں نے کافی محنت کی ہے، ترجمہ کی زبان معیاری ہے، اخیر میں پینتیس صفحات کا انڈکس بھی ہے۔ اللہ کرے موصوف کی محنت شرف قبول حاصل کرے اور بیش ازبیش علمی اور قلمی خدمات کا ذریعہ بنے اور ان کا قلم تعب آشنا نہ ہو! واللہ ولی التوفیق!

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts