(۲)

شیخ الہنداکیڈمی سے تازہ شائع شدہ کتاب

”انتباہ المومنین“ پر ایک نظر

تبصرہ نگار: ابن مالک ایوبی (متوطن بنارس، انڈیا)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد، خلافت و جانشینی کا مسئلہ عملی و وقتی طورپر ایک باوقار انداز اور اصولی طرز سے حل ہو گیا تھا؛ لیکن نظریاتی وفکری زاویے سے یہ مسئلہ آج تک اختلافی ہے۔

            امت کو دو عظیم گروہوں میں بانٹنے والے دو سب سے بڑے فرقوں، شیعہ اور سنی کے وجودی اسباب میں ایک بڑا سبب یہ مسئلہ بھی ہے۔

            بر صغیر کے سنی حلقوں میں حجةالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کی شخصیت، اسلامی و سنی افکار و عقائد کے دفاع اور ان کے حق میں مختلف عقلی دلائل مہیا کرنے میں ممتاز و معروف ہے۔

            شیعہ سنی اختلاف پر بھی مولانا نے قلم اٹھایا ہے، اور اہل سنت کی جانب سے بھرپور وکالت کی ہے۔

            اسی ذیل میں حضرت کا ایک رسالہ ”انتباہ المومنین“ہے، جو در اصل ایک سنی عالمِ دین کے استفسارانہ خط کے جواب میں لکھا گیا تھا، خط میں اہل تشیع کے ”خلافت بلا فصل“ کے نظریے اور اس پر ان کے ایک مستدل کے متعلق شافی جواب کی درخواست کی گئی تھی، خط میں شیعوں کے جس مستدل کا ذکر تھا، وہ مسند احمد کی ایک مشہور حدیث ہے:

            عن علی، قال: قیل یا رسول اللّٰہ، من نؤمر بعدک؟ قال: ”إن تؤمروا أبا بکر، تجدوہ أمینا، زاہدا فی الدنیا، راغبا فی الآخرة، وإن تؤمروا عمر تجدوہ قویا أمینا، لا یخاف فی اللّٰہ لومة لائم، وإن تؤمروا علیا – ولا أراکم فاعلین – تجدوہ ہادیا مہدیا، یأخذ بکم الطریق المستقیم“․(۲/۲۱۴)

            اس حدیث کے ایک ٹکڑے ”ولا اراکم فاعلین“ سے شیعہ حضرات اپنے نظریے پر استدلال کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت تھی کہ آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا جائے۔

            حضرت نانوتوی نے اس خط کے جواب میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا، جو بعد میں ”انتباہ المومنین“کے نام سے طبع ہوا؛ لیکن عرصے سے یہ رسالہ ناپید تھا، اول تو اس لیے کہ یہ رسالہ فارسی زبان میں تھا، دوسرے اپنوں کی بے توجہی اس کی جدید اشاعت کی راہ میں حائل رہی۔

            گذشہ عمومی لاک ڈاؤن میں دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے اکابر و اسلاف کی نایاب اور غیرمطبوعہ کتابوں کی جانب توجہ دینے کا فیصلہ کیا اور انتہائی قابل و باصلاحیت اساتذہ کی ایک ٹیم کو اس خدمت پر مامور کیا۔

            امام نانوتوی کی مذکورہ تصنیف فارسی زبان میں ہونے کے ساتھ، طرزِ بیان اور اسلوبِ ادا کے لحاظ سے دقیق بھی تھی، نیز ایک اختلافی موضوع پر مشتمل ہونے کی بنا پر، اس میں اصول و ضوابط اور عقلیات کا بھرپور استعمال کیا گیا تھا۔

            اس لیے اس کتاب کی خدمت کوئی آسان نہ تھی؛ لیکن انتظامیہ کی نظرِ انتخاب اُس عالی ہمت اور علمی شخصیت پر پڑی، جس نے اس کتاب کی ایک ایک عقلی و منطقی گتھی کو سلجھا کر رکھ دیا اور ناظرین کے سامنے کتاب اس قدر آسان کر کے پیش کی کہ امام نانوتوی کے کسی بھی پیش کردہ مسئلے یا کُلیے کا سمجھنا دشوار نہ رہا۔

            کتاب کی تسہیل کی خدمت انجام دینے والی شخصیت، استاذِ محترم حضرت مفتی محمد مزمل بدایونی کی ہے، حضرت نے اس کتاب پر بنیادی طور پر دو کام کیے ہیں:

            ۱- فارسی سے اردو ترجمانی

            ۲- مسائل و اصول کی واضح اور باحوالہ تشریح

            یہ دونوں کام اس قدر ذمہ دارانہ اور سنجیدہ نوعیت کے ہیں کہ راقم کی ناقص نظر میں اس سے بہتر نہیں ہو سکتے تھے۔

            ترجمانی کی بات کی جائے، تو پڑھتے ہوئے بالکل نہیں لگتا کہ کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہے ہیں؛ بلکہ ایک سلیس اور رواں عبارات پر مشتمل، مرتَّب کتاب محسوس ہوتی ہے۔

            حضرت کی کامیاب ترجمانی کا ایک نمونہ پیش ہے۔

اصل عبارت:

            ”القصہ بنظر قاصر ایں شکستہ خاطر چنان می آید کہ جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم را باقارب خود محبت از ہمہ بیش بود؛ چنانچہ ”کل نسب وصہر ینقطع یوم القیامة إلا نسبی وصہری“ نیز ازیں خبر می دہد، اعنی ربط محبت و علاقہ یگانگت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم باقارب خود چناں محکم و مستحکم است، کہ از صدمہ شدت ہول چنیں روز کہ ہمہ ہمہ را فراموش خواہند کرد ، واقارب بیگانہ وار از اقارب روخواہند تافت، نخواہد شکست، پس لا جرم گہ و بیگاہ اثرے از آثار او ہویدا شود کہ گفتہ اند: ”الشیء إذا ثبت ثبت بلوازمہ“ گو غلبہ محبت خداوندی از اندازمقتضاخود پا بیرون نہادن ندہد“۔

            ترجمہ: ”حضرت فرماتے ہیں کہ اس پریشان خیال کی کوتاہ نظر میں تو یہی آتا ہے کہ جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اقارب کے ساتھ محبت سب سے زیادہ تھی وہ اتنی مضبوط اور مستحکم ہے کہ قیامت کے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اقارب سے ربط،محبت اور قرابت کا تعلق نہیں ٹوٹے گا، جس دن سب لوگ ایک دوسرے کو بھول جائیں گے۔اس دن کی ہولناکی کا صدمہ شدید ہوگا، اپنے بیگانے بن کر روگردانی کریں گے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنوں سے قرابت میں کوئی بال اس وقت بھی نہیں آئے گا۔

            جب محبت و تعلق اتنا مضبوط ہے تو کسی نہ کسی وقت اس کے آثار میں سے کوئی اثر تو ظاہر ہی ہوگا؛ کیوں کہ فرمایا گیا ہے:

            ”الشیء إذا ثبت ثبت بلوازمہ“

            (جب کوئی شئی ثابت ہوتی ہے، تو اپنے لوازمات کے ساتھ ثابت ہوتی ہے)

            یہ بات ضرور ہے کہ محبت خداوندی اس قدر محیط ہوتی ہے کہ محبت اقارب کو اس کے شدید تر ہونے کے باوجود اپنے مقتضا کے دائرے سے باہر پیر نہیں رکھنے دیتی۔

            قیامت کے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نہ ٹوٹنے کی خبر یہ ارشاد نبوی دیتا ہے:

            ”کل نسب وصہر ینقطع یوم القیامة إلا نسبی وصہری“ (مسند احمد، رقم:۱۸۹۰۷)

            (تمام نسبی اور سسرالی رشتے قیامت کے دن ٹوٹ جائیں گے، سوائے میرے نسبی اور سسرالی رشتے کے۔(صفحہ نمبر۵۰)

            حضرت مترجم کی ترجمہ نگاری کا یہ ایک مختصر سا نمونہ ہے، اس میں آپ عبارت کی سلاست و شگفتگی کے ساتھ، ایک امتیازی شے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امام نانوتوی نے حدیث اور اصول کی عبارت الگ مقامات میں نقل کی ہیں، جو کہ فارسی انشاء اور خط کے مسلسل کلام کا انداز ہے۔

            لیکن حضرت مترجم نے چونکہ اس خط کو کتابی شکل میں ڈھالا ہے؛ اس لیے ہر دو عبارتوں (حدیث اور عربی ضابطہ) کو استدلالی ترتیب کا لحاظ کرتے ہوئے الگ مقام پہ رکھا ہے۔

            اسی طرح تشریح و تسہیل کی بات کی جائے، تو بیشتر مقامات پر امام نانوتوی کی عبارت انتہائی مختصر؛ لیکن معلومات کا دریا اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

            اور حضرت مفتی صاحب اس عبارت کی، مختصر الفاظ میں اتنی واضح اور شفاف تشریح کرتے ہیں، کہ قاری کو مکمل اطمینان ہو جاتا ہے، جیسے ایک مثال پیش ہے۔

حضرت نانوتوی کی عبارت

            ”پس محقق باد کہ تحقق جمیلہ صبر را کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نیز مامور بآں اند؛ چنانچہ فقدان نعمت ضرور است -چنانکہ ہمہ می دانند- وجدان محبت نعمت ورغبت بداں ضرور تر است؛ چہ ترکیب بلا کہ ضروریات صبر است، از ہمیں دو عنصر است۔“

حضرت مفتی صاحب کی تشریح

            ”حضرت نے اس(جو گزشتہ سطور میں ہے) دعوے پر ایک مضبوط دلیل پیش کی ہے؛ لیکن مضمون کسی قدر طویل ہو گیا ہے؛ اس لیے کہ استدلال کرتے ہوئے دلیل کے مقدمہٴ اولیٰ کو مدلل ومبرہن کیا ہے، دلیل کا حاصل یہ ہے:

            کہ صبر ایک اچھی عادت وخصلت ہے اس کے فضائل قرآن وحدیث میں بے شمار ہیں، اس خصلتِ صبر کو اپنانے کا حکم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی دیا گیا ہے۔

            اور صبر کا تحقق دو چیزوں پر مبنی ہے: (۱) کسی نعمت کا فقدان، کہ وہ نعمت حاصل نہ ہوئی ہو یا حاصل ہونے کے بعد ضائع ہو جائے۔ (۲) اس نعمت مفقودہ کی محبت اور چاہت کا دل میں موجود ہونا۔

            اب جب کہ صبر کے لیے اس زائل ہونے والی نعمت کی محبت اور اس کی رغبت کا ہونا ضروری ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دنیا اور اہل دنیا کی محبت اور رغبت ضرور ماننا پڑے گی؛ کیوں کہ صبر کے ذریعے جو امتحان مقصود ہوتا ہے، وہ انھیں دونوں عناصر پر مبنی ہے؛ اس لیے ماننا پڑے گا کہ آپ کے دل میں بھی اولاد و اقارب اور دیگر دنیوی نعمتوں کی محبت بدرجہ اتم موجود تھی۔“(کتاب کا صفحہ:۴۰)

            اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام نانوتوی نے صبر کے متعلق جو اصول بتائے تھے، پھر اس سے استدلال کیا تھا، وہ کسی قدر دقیق اور گنجلک تھا اور اس کی وجہ وہی ہے کہ حضرت اپنے دور کے ایک عالی قدر عالم دین کو خط لکھ رہے تھے؛ اس لیے مخاطب کے لحاظ سے اشاروں میں گفتگو کرتے گئے ہیں۔

            لیکن آج کے لحاظ سے یہ عبارت تشریح طلب اور قابلِ توضیح تھی، جس کی مترجم، حضرت مفتی صاحب نے انتہائی واضح تشریح پیش کی ہے۔

            تشریح و تسہیل کا یہ صرف ایک ادنی سا نمونہ ہے، ورنہ بعض مقامات پہ امام نانوتوی کے چار پانچ سطری مضمون کی تشریح، حضرت مفتی صاحب نے کئی کئی صفحات میں کی ہے اور حق یہ کہ اگر اتنے صفحات میں اس کی وضاحت نہ کی جاتی، تو متن کی وہ عبارت سمجھ میں نہ آ سکتی تھی۔

            کتاب کے ترجمہ و تسہیل کے علاوہ، ایک اہم خدمت یہ ہے کہ کتاب کے اندر اصول و ضوابط، علت و معلول اور استدلال و مستدل علیہ کا جو منتشر ذخیرہ ہے، حضرت مفتی صاحب نے کتاب کے آخر میں ان کو یکجا کر دیا ہے، جس سے وہ تمام اصول مربوط شکل میں دیکھے، سمجھے اور ذہن میں محفوظ کیے جاسکیں۔

            ساتھ ہی ان اصولوں اور استدلالات کے نتیجے میں امام نانوتوی نے جو پُرپیچ؛ لیکن مضبوط معانی و مفاہیم اخذ کیے ہیں، وہ چونکہ ہر علت یا دلیل سے اپنے خاص انداز میں، منتشر طور پر جڑے ہوئے ہیں؛ اس لیے کتاب کے مکمل مطالعے کے بعد بھی ان کا ذہن سے محو ہو جانا بعید نہیں؛ اس لیے حضرت مفتی صاحب نے وہ ثابت شدہ نتائج و مفاہیم بھی کتاب کے آخر میں، مختصر طور پر یکجا کر دیے ہیں، جو صحیح معنوں میں مطالبِ کتاب کا خلاصہ بھی ہیں۔

            علاوہ ازیں امام نانوتوی نے کتاب کے اندر خلافت بلا فصل پر اہل سنت کے مضبوط نظریے کو، مدلل و منقح کرنے کے ساتھ، اس موضوع سے جڑے کئی اور موضوعات پر بھی روشنی ڈالی ہے، جیسے ”حقیقتِ خلافت اور اوصاف خلیفہ“، ”ضروریاتِ نبوت اور نبی کے اوصاف“، ان ”اوصاف کا باہمی ربط“، ہر ایک کی جدا وضاحت، ”حدیث مذکور میں حضرت عثمان کا ذکر نہ ہونا“، حدیث تقمیص(جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے)کی حدیث مذکور سے مربوط وضاحت، حضرت ”عمر فاروق کے اپنا خلیفہ مقرر نہ کرنے کی وجہ“ اور”خلافتِ علی تیسرے نمبر پہ درست تھی یا چوتھے پر“․

            اور اس لحاظ سے یہ کتاب، خلفاء اربعہ کی خلافت اور مسند احمد کی درج بالا حدیث کے حوالے سے ایک علمی شہکار کی حیثیت رکھتی ہے، جو فارسی زبان میں ہونے کی بنا پر ہم سے مخفی تھی، حضرت مترجم نے اسے ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔

            اس کتاب میں ایک امتیازی شے یہ ہے کہ اس میں شاید پہلی بار عقلی و منطقی اصول آپ کو شرعی شواہد و نظائر کے ساتھ منسلک اور شانہ بشانہ نظر آئیں گے، امام نانوتوی نے جن اصولوں کو برسبیلِ گفتگو پیش کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی ایک یا دو نظیر قرآن یا حدیث سے ذکر کی ہے، جو انتہائی گہرے اور وسیع علم والے سے ہی ممکن ہے۔

            نیز کتاب کی ان تمام تفصیلات کو، دارالعلوم دیوبند کے استاذِ حدیث، بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب نے حرف بحرف دیکھا ہے؛ بلکہ کتاب کے آخر کی تلخیص، حضرت کے ہی حکمِ عالی سے کی گئی ہے؛ جو حضرات، اعظمی صاحب کی فنی دیدہ وری اور وسعتِ علم و مطالعہ سے واقف ہیں، وہ اس کتاب کی اہمیت و استناد کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

            نیز دارالعلوم دیوبند کے موٴقر استاد، مفتی خورشید صاحب گیاوی نے بھی مکمل کتاب پر نظرِ غائر ڈالی ہے اور بعض مقامات پر مفید مشوروں سے نوازا ہے؛ جس سے کتاب محاسن کا مجموعہ اور ہر طرح کی خامیوں سے پاک ہو گئی ہے۔

            شیخ الہند اکیڈمی کی دیگر کتابوں کی طرح، اس کتاب کی ٹائپنگ بھی صاف، ٹائٹل دیدہ زیب اور کاغذ دبیز و عمدہ ہے۔

            البتہ بعض مقامات میں ٹائپنگ کی غلطیاں نظر آئی ہیں، جیسے صفحہ نمبر۴۱ پر ہے: ”اب جب کہ صبر کے لیے اس زائل ہونے ولی نعمت کی محبت کا ہونا ضروری ہے“، یہاں ”والی نعمت“ ہونا چاہیے تھا۔

            اسی طرح صفحہ ۶۳ پر مولانا نانوتوی کی عبارت ”اہل سنت و جماعت در فکر اعتداز او جگر خون کنند“ میں ”اعتذار“کی جگہ ”اعتداز“ ہو گیا ہے۔

            پھر اس کا ترجمہ کیا گیا ہے:”وہ اس کے جواب و دفاع میں اپنا خون جگر کرتے پھریں“، یعنی ”جگر خون کنند“ کا ترجمہ ”اپنا خون جگر کرتے پھریں“ مذکور ہے، ہمارے ناقص فہم کے لحاظ سے یہ ٹائپنگ مسٹیک ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ اردو میں یہ تعبیر بعینہ ویسی ہی مستعمل ہے، جیسی حضرت نانوتوی نے استعمال کی ہے، یعنی:جگر خون کرنا“۔

            یا پھر حضرت مترجم نے یہاں ”اپنا خون جگر پینے پر مجبور ہوں“ یا اس جیسا کوئی جملہ لکھا ہو؛ لیکن کتابت میں وہ رہ گیا ہو، تو اس صورت میں تعبیر درست ہوگی۔(فیروز اللغات، صفحہ۴۶۴)

            بہرکیف!حضرت نانوتوی کے علوم و معارف اور حضرت الاستاذ مفتی مزمل صاحب بہترین تشریح و ترجمانی کی شکل میں، یہ کتاب شیخ الہند اکیڈمی کی ایک قابلِ تحسین اور عمدہ پیشکش ہے، جسے ہر عام و خاص کو پڑھنا چاہیے، تاکہ مذکورہ قضیے میں اہل السنة والجماعت کے مدلل اور علمی عقیدے کا علم ہو سکے اور دیگر مسائل میں اسی انداز و اسلوب میں اسلام و اہل اسلام کی وکالت کا حوصلہ ملے۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts