محمد سلمان بجنوری

            ماہ رمضان سایہ فگن ہے، دنیا بھر کے مسلمان روزہ، تراویح، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کی توفیق سے اپنی اپنی ہمت کے مطابق بہرہ ور ہیں اور رب کائنات کی رحمتیں بلاشبہ بارش کی طرح برس رہی ہیں، ایسے میں ایک تو یہ دعاء بار بار دل سے نکلتی ہے کہ۔#

یہ طوفاں کیف ومستی کا، یہ بارش نور وعروفاں کی

الٰہی عمر میں میری پھر آئے بار بار آئے

            ہم نے سنا ہے کہ بعض اصحاب علم وعرفان، حرمین حاضری کے موقع پر بھی اس شعر کو بار بار پڑھتے تھے اور اس وقت وہاں کی حاضری کا سلسلہ بھی، ایک لمبی پابندی کے بعد، رمضان سے کچھ پہلے ہی شروع ہوا ہے اور مہربان مولیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کو وہاں کی سعادتوں سے بھی حصہ مل رہا ہے، خود یہ گناہ گار بھی رمضان کے ابتدائی ایام میں اس سعادت سے ہمکنار ہوا، اس لیے یہ دعاء بھی بار بار زبان پر آتی ہے کہ الٰہی وہاں کی رونقیں روز افزوں رکھیے، اپنے خطاکاربندوں کو، پہلے کی طرح بغیرکسی رکاوٹ کے وہاں حاضری نصیب فرماتے رہیے، جو کچھ پابندیاں کسی بھی درجے میں اب تک باقی ہیں، اُن کو بھی دور فرمادیجیے۔

            رحمت الٰہی کے اِن مظاہر کے ساتھ جب نظر اپنے گردوپیش کے احوال پر جاتی ہے اور وطن عزیز اور دنیا کے مختلف خطوں میں اہل ایمان جس صورت حال سے گزررہے ہیں، اس کا خیال آتا ہے تو ذہن ودماغ کی عجیب کیفیت ہوتی ہے، مسلمانوں کی، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اسوہٴ حسنہ سے دوری، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہنے کی حالت، دوسری جانب اللہ رب العزت کی بے نیازی اور اسلامی تاریخ کے اوراق میں بکھرے ہوئے اسباق، سب مل کر، ایسے مرحلے پرپہنچادیتے ہیں کہ ع  اگر گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

بس اس وقت تو اقبال کا سہارا لے کر بات سمیٹنے کو جی چاہتا ہے۔#

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے

وہ لذتِ آشوب نہیں بحرعرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے

ہرچند ہے بے قافلہ وراحلہ وزاد

اس کوہ وبیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد

آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے

            یاڈرتے ڈرتے، آغاحشر کی دعاء بھی پڑھ ڈالیے۔#

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے

بادلو! ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے

اے دعا! ہاں عرض کرعرش الٰہی تھام کے

اے خدا، رخ پھیردے اب گردشِ ایام کے

رحم کر، اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا

ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا

خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے

آئے ہیں اب تیرے درپر ہاتھ پھیلائے ہوئے

خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں

کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں

حق پرستوں کی اگر، کی تونے دل جوئی نہیں

طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:106‏،  رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts