(۱)

            نام کتاب             :           رمضان المبارک معروفات ومنکرات

            تالیف                :           مفتی احمد اللہ نثار قاسمی

            ناظم دارالعلوم رشیدیہ، حیدرآباد

             صفحات               :           ۷۰۹

            سن اشاعت          :           ۲۰۲۲ء

            قیمت                 :           ۶۰۰ (چھ سو روپے)

            ناشر                   :           دارالعلوم رشیدیہ مہدی پٹنم، حیدرآباد۔9440078956

            تعارف نگار           :           ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

====================

            رمضان کی آمد آمد ہے، رحمت خداوندی برسنے والی ہے، گنہگاروں کی معافی کا اعلان ہونے والا ہے، مسجدوں میں سجدوں کی کثرت ہوگی، خلوتوں میں دعا ومناجات ہوں گی، تلاوت قرآن سے قلب ونظر معمور ہوں گے، نگاہیں اور زبانوں کو بار بار خداوندی کلام سے شاد کام ہونے کا ماحول بنے گا، ایسے موقع سے اہل علم اور اصحاب فضل وکمال بھی اپنی میراث بلکہ نبوی میراث بانٹنے میں لگ جائیں گے، اہل قلم اپنے اشہب کو دوڑاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیجیے! مولانا احمداللہ نثار قاسمی نے سبقت کی اور سات سو صفحات کا ضخیم مجموعہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا، اس میں پورے مہینے میں انجام پانے والے اعمال کی ادائیگی کے سلسلے کی رہنمائیاں ہیں رویت ہلال رمضان سے عیدالفطر بلکہ اس سے ملحق شوال کے روزوں تک کی تفصیلات ذکر کی ہیں، زکوٰة کے احکام بھی بیان ہوئے ہیں، رمضان کے بعد اسلامی زندگی گذارنے کے خطوط بھی درج ہیں، بہت سے اختلافی مسائل میں موصوف نے اعتدال کی راہ کو تلاشا ہے اور اس میں یہ کامیاب نظر آئے، خواہ وہ اختلاف بین مسلکی ہو یا بین مکتبی، قابل اعتماد فتاویٰ کی کتابوں اور فقہی مراجع سے مدلل لکھا ہے، مثلاً تراویح کی تعداد، تراویح کی تسبیحات، تہجد کی جماعت، عورتوں کے استعمالی زیورات میں زکوٰة، حافظہ عورت کی باجماعت تراویح، صدقہٴ فطر میں گیہوں یا اس کی قیمت پر اصرار، وحدت عید کا مسئلہ، اسی طرح بہت سی منکرات پر بھی موصوف نے گرفت کی ہے، روزے کے جدید مسائل کو بھی مناسب انداز میں معتبر حوالوں سے لکھا ہے، تبصرہ نگار کی نگاہ میں یہ کتاب اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتی ہے، اس میں کسی جگہ تحقیق کی کمی نظر نہ آئی اورنہ کوئی مسئلہ غلط نظر آیا؛ امید ہے کہ قارئین اسے پسند فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ موٴلف کو ترقیات سے نوازیں اور پیش از پیش خدمات کی توفیق عطا کریں!

#         #         #

(۲)

            نام کتاب             :           رفتگانِ نارفتہ

            مصنف               :           حضرت مولانا نورعالم خلیل امینیؒ

            اشاعت اوّل         :           شعبان ۱۴۴۲ھ/مارچ ۲۰۲۱ء

            صفحات               :           ۷۰۴     قیمت: (درج نہیں)

            ناشر                   :           ادارہ علم وادب دیوبند 9520255550

            تعارف نگار           :           ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

====================

            حضرت اقدس مولانا نورعالم خلیل امینی رحمة اللہ علیہ کی آخری تصنیف ہمارے سامنے ہے،اس میں چوبیس شخصیات کے خاکے ہیں، اس سے پہلے ”پس مرگ زندہ“ کو قارئین ملاحظہ کرچکے ہیں، جیساکہ اردوزبان میں موصوف کی پہلی شہرہ آفاق تصنیف ”وہ کوہ کن کی بات“ بار بار طبع ہوکر قندمکرر کا مزا دے چکی ہے، جس پر خاکہ کے بجائے ”سوانح“ کی اصطلاح چسپاں ہوتی ہے۔ زیرتعارف مجموعہ کا نام بڑا عمدہ، سبک اور معنی خیز ہے ”رفتگان“ کے معنی ہیں: ”جانے والے“ اور ”نارفتہ“ کے معنی ہیں: ”رہ جانے والا“ ایک ہی مصدر کے دو متضاد مشتق کی اضافت، بڑا لطف دے رہی ہے، ظاہری لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی؛ مطلب ہے: ”ایسے جانے والے جو نہ گئے“ شخصیات دنیا میں آتی اور چلی جاتی ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، مرنے کے بعد ان کی کوئی یاد نہیں کرتا؛ وہیں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ”مرنے کے بعد بھی زندہ“ رہتی ہیں، اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ”وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ في الآخرین“ میں بیان فرمایا ہے کہ پیغمبران کی رحلت کے بعد بھی ان کی نیک نامی، ان کے کارنامے اور ان کی خوبیاں بعد والوں کی زبانوں پر باقی رہتی ہیں۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ”رفتگانِ نا رفتہ“، ”پس مرگ زندہ“ دونوں ایک ہی خصوصیات کی حامل ہیں، گویا یہ اس کی دوسری جلد ہے۔

            اس میں ذکر کردہ خاکے پہلے عربی زبان میں تیار ہوئے اور ”الداعی“ میں پیش کیے گئے پھر ان کو خاکہ نگار نے اپنے قلم سے ہی اردو کا جامہ پہناکر دلہن کی شکل میں منصہ شہودپر لایا۔

            راقم حروف نے ”پس مرگ زندہ“ پر بھی تبصرہ لکھا تھا؛ اس لیے عرض ہے کہ دونوں اپنی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، خاکہ نگار نے جس شخصیت کا بھی ذکر کیا ہے اُن سے ان کو قلبی محبت تھی؛ اس لیے محبت میں ڈوبی ہوئی تعبیرات اپنے اندر سوزدروں کی تراوش رکھتی ہیں، سب میں دل گذاری کی کیفیت موجود ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر شخصیت کو پرکھنے کے لیے ان کی گہرائیوں میں اترنے کی پوری کوشش کی ہے، مگر مثبت پہلو کو لیا ہے؛ اس لیے کہ اسی سے قارئین کو فائدہ ہوسکتا ہے، منفی پہلو کو نظرانداز کردیاگیاہے، اس کا مأخذ ہے: ”أُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکم وَکُفُّوا عن مَسَاوِیْہِمْ“ (اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرو! اور ان کی خرابیوں سے بچے رہو!) خاکہ نگار نے شنیدہ کو نہیں لیا ہے؛ بلکہ صرف دیدہ اور مبنی بر حقیقت کو درج فرمایا ہے اور ایسی جامعیت سے کہ اس میں ساری امتیازی خوبیاں جمع ہوگئی ہیں، موصوف کا بیانیہ لاجواب ہے، جگہ جگہ منظر نگاری کی درخشانی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں املا نویسی کے اصول کو مبالغے کے ساتھ خوب برتا ہے اور خاکے کے اخیر میں اختصار کے ساتھ جامع سوانحی خاکہ بھی بنایا ہے، تاکہ جس قاری کو بیک نظر شخصیت کا مطالعہ کرنا ہو وہ اس کو ملاحظہ کرلیں۔

            غرض یہ کہ موصوف کی خاکہ نگاری کا امتیازی اسلوب ادب نوازحلقوں میں انھیں بڑا اونچا مقام دیتا ہے، اس کی بے نظیری اور لاجوابی قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی، کاش! موصوف ”آپ بیتی“ اور ”خود نوشت“ مرتب فرمادیتے تو وہ بھی لاجواب ہوتی، راقم حروف اور دیگر عشاق کے اصرار پر اس کے لیے تیار ہوگئے تھے اور یادداشت جمع بھی کررہے تھے؛ مگر اس سے پہلے داعی اجل نے بلالیا، کُلُّ مَنْ علَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذوالجلال والاکرام!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:106‏،  رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts