(۳)

            نام کتاب             :           مقدمہ حاشیة ابن عابدین: رد المحتار علی الدر المختار

            ترتیب و تحقیق       :           مفتی محمد مصعب علی گڑھی (معین مفتی دارالعلوم دیوبند)

            مفتی حبان بیگ قاسمی۔مفتی مصباح الاسلام قاسمی

             ضخامت              :           ۵۹۲

            ناشر                   :           مکتبہ دارالعلوم دیوبند

            تبصرہ نگار              :           محمد عاصم کمال الاعظمی

            مدیررسالہ پاسبان علم اودب، لال گنج، اعظم گڑھ

====================

مقدمہ ”ردالمحتار“کی اشاعت ایک عظیم کارنامے کاپیش خیمہ

            فقہ حنفی سے وابستہ اہل علم کے لیے حاشیة الدر المختار یعنی ردالمحتار، موسوم بنام”شامی“بڑی جولان گاہ ہے،مدارس اسلامیہ میں اس کی تعلیم وتدریس اوراستفادہ کا بڑا اہتمام ہے، خصوصاً مادر علمی ”دارالعلوم/دیوبند“ اور اس کے ہم منہج اداروں اورجامعات میں اس کو گراں قدر مقام حاصل ہے، جزئیات اور فروعی مسائل کے لیے اس کتاب کو بہترین میدان تسلیم کیا جاتا ہے، مسلک احناف پر فتویٰ صادر کرنے والے ارباب فقہ وافتاء کے لیے مستند اور وسیع حوالہ ہے، یہ مجموعہ درحقیقت شرح کتاب ہے، جس کا متن ”درمختار“ شرح ”تنویر الابصار “ہے، البتہ اس نے مستقل مقام حاصل کرلیا ہے، اور یہ کتاب فقہی جزئیات اور ذیلی مسائل کے حل میں طلبہ وعلماء کے لیے یکساں مفید ہے، اس کی اہمیت وجامعیت کے پیش نظر بعض چیدہ حصے بطور درس پڑھے پڑھائے جاتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے شعبہ افتاء میں کئی مقامات سے اس کی تدریس ہوتی ہے؛مثلاً:کتاب النکاح والطلاق اسی طرح کتاب القضاء والوقف ۔ اور ”شامی“ کی ”کتاب الحظر والاباحة“ مطالعہ میں داخل ہے۔

            اس مجموعہ کی اہمیت کے پیش نظر دارالعلوم دیوبندنے ”مطالعہٴ شامی“کے عنوان سے دوسالہ نصاب وضع کیا تھااور تکمیلِ افتاء میں امتیازی مقام حاصل کرنے والے چند باذوق فضلاء کا انتخاب عمل میں آتا تھا، ان فضلاء کے لیے ادارہ کی جانب سے گراں قدر وظیفہ(اسکالرشپ)بھی جاری ہوتا تھا اور دوسال کی مکمل مدت میں کسی متخصص استاد کی زیر نگرانی اس کتاب کا استیعابی اور مکمل مطالعہ کرایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ چند سال کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

            ”شامی“کا مطالعہ جس قدر مفید اور راہنما ثابت ہوتا ہے، اسی قدر، اس کے نسخوں سے استفادہ مشکل اور پیچیدہ تھا، اس کے متداول وموجود نسخوں میں حددرجہ لفظی وکتابتی اغلاط موجود ہیں، جزئیات تک رسائی کے لیے ترتیب قابل اصلاح ہے، ذیلی عناوین اور مطالب کم ہیں؛تحقیق وتحشیہ، ترقیم وتبویب اورایک بہترترتیب کی سخت حاجت تھی؛چنانچہ اس حوالہ سے حال ہی میں چند قابلِ قدر کوششیں سامنے آئیں، اُن میں سب سے محقق ومعتبراورانتہائی مضبوط عمل ‘ مشہور محقق ڈاکٹر حسام الدین بن محمدصالح فرفورنے پیش کیا، معلوم ہوا ہے کہ علامہ موصوف کایہ کام اٹھائیس جلدوں میں مکمل ہوچکا ہے۔بہت ہی عمدہ اور شاندار کارنامہ ہے ۔ چندماہ قبل دیوبند کے مشہور مکتبہ” الاتحاد“نے شامی کاوہی”نسخہٴ فرفور“ شائع کیا ہے(جس کی بیس جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں،مزیدزیرطبع ہیں) اِسی تناظرمیں حال ہی میں ایک عمدہ اورشاندارپیشکش مرکزعلم ”دارالعلوم دیوبند“کی جانب سے سامنے آئی ہے،یعنی ”حاشیة ردالمحتار“کے خوبصورت مقدمہ کی اشاعت عمل میں آئی ۔

             دارالعلوم کی انتظامیہ اور اس کی موقر” مجلس شوریٰ“ نے تقریباً چھ/ سات سال قبل شامی کے حوالے سے ایک محقَّق اوراہم خدمت کو منظوری دی تھی اوراس عظیم کارنامہ کی خاکہ سازی اور تحریک وتوثیق کی خدمت مفتی محمد مصعب علی گڑھی(معین مفتی دارالعلوم دیوبند)کے حصہ میں آئی؛ چنانچہ مفتی صاحب نے انتہائی سنجیدگی،جدوجہد،خلوص اور صبر کے ساتھ اس کام کا آغاز کیا؛لیکن فتوی نویسی کی مشغولیات اورعلمی وفقہی تقاضوں کے پیش نظر انتظامیہ نے دو باصلاحیت فضلاء :مفتی حبان بیگ علی گڑھ، اور مفتی مصباح الاسلام بنگال کو متعین کیا اور پھر مفتی مصعب صاحب کے ساتھ ان کے دونوں رفقاء نے کام کے تقاضوں کو بخوبی پوراکیا اوراپنی بھرپور صلاحیت اور لیاقت کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل عمل جاری رکھا،البتہ کام کی نوعیت اور اس کے امتیاز ات کے بیان سے قبل یہ بات قابل ذکر ہے کہ شامی کے موجودہ مجموعہ میں بشمول متن درمتن تقریباً ۸۰۰ کتابوں کے حوالے اورمراجع درج ہیں،مذکورہ تینوں حضرات نے مشترکہ طورپر جہدمسلسل اورعمل پیہم ،تحقیق انیق اورتلاش دقیق کے بعد متعلقہ حوالہ جات کی مراجعت کی،اُن کودریافت کرکے رسائی حاصل کی اوردرج حوالوں کی توثیق واسنادقائم کی،اسی طرح مقدمہ شامی میں موجود تمام اعلام واشخاص کا ترجمہ وتعارف پیش کیا،گوکہ ڈاکٹرفرفورنے ایک عمدہ اور قابل قدرکام پیش کیاہے؛مگر ان کے کام کااصل محورنسخہ شامی کی تصحیح اورتعدیل ہے،خوش قسمتی سے انھیں علامہ شامی کے قلمی نسخے دستیاب ہوئے،اوربقول اُن کے ”انھوں نے تین قلمی اورمخطوطہ نسخوں کے مقارنہ وموازنہ سے ایک تحقیق شدہ نسخہ تیار کیاہے“؛لہٰذانسخہٴ فرفور نص اورعبارت یاالفاظ وتعبیراتِ کتاب کے حوالہ سے انتہائی مستحکم محنت ہے اوراُس نسخہ کو بحیثیت کتاب اعتبارحاصل ہوگیا؛لیکن دارالعلوم کے ان تینوں مفتیان نے اپنے کام کے لیے دیگرچیزوں کوبنیاد بنایا اور تخریج وترتیب، تحقیق وتحشیہ، ترقیم اور عنوان سازی کے مجموعہ کے ساتھ بہترین کارکردگی کامظاہرہ فرمایا۔

            مقدمہ ردالمحتارکی اشاعت پرمذکورہ مرتبین ومحققین کے ساتھ بالخصوص ادارہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب (عمت فیوضہم)شکریے ومبارک باد کے مستحق ہیں، کہ ان کی ذاتی دلچسپی نے نہ صرف اس کام کو جلاء بخشا؛ بلکہ احسن طریقہ پر یہ کارِ گراں مایہ پہلی جلد کی اشاعت کی شکل میں نمودار ہوا۔

            اسی طرح لائق وضاحت بات یہ ہے کہ دار العلوم کے سابق شیخ الحدیث اور صدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمة اللہ علیہ اور دار العلوم کے ناظم تعلیمات اور نگراں مطالعہ شامی حضرت مولانا مفتی خورشید انور گیاوی مد ظلہ نے اس تحقیق پر حرفا حرفا نظر ڈالی ہے۔

            مفتی مصعب صاحب نے کام کا پورا پس منظر اپنے مقدمہ میں ذکر کردیا ہے اور تحقیق کا منہج بھی کتاب کے شروع میں موجود ہے۔

            باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ موجودہ خدمت کوقبول فرمائے اورباقی جلدوں کی تکمیل کا جلدسامان پیدافرمائے اور مرکز علم دارالعلوم دیوبندکی جانب سے اس عظیم خدمت کومنظورومقبول فرمائے (آمین)

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:106‏،  رمضان المبارك 1443ھ مطابق اپریل  2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts