سوال: نماز پڑھنے کے دوران یہ بھول جاتاہوں کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں ، شاید کہ کوئی نماز ایسی ہو جس میں گنتی یاد رہتی ہو، اور یہ معاملہ صرف اور صرف نماز ہی میں ہوتاہے ، ویسے یاد داشت الحمد للہ ٹھیک ہے، پوری کوشش کے باوجود اکثر یہ بھول تیسری اور چوتھی رکعت میں ہوتی ہے ، کبھی ایک رکعت ملا کر سجدہ سہو کرلیتاہوں اور کبھی نماز دہرا لیتاہوں ، نماز دہرانے میں بھی اکثر ایسا ہی ہوتاہے ، کبھی ایک نماز میں سجدہ سہو بھی دو دو یا تین تین ہوجاتے ہیں ، کیا ایک نماز میں دو یا تین سجدہ سہو ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ کیا نماز کے دوران سجدہ کی جگہ کے پاس کوئی کنکری رکعت کی تعداد کے برابر رکھ لیا کریں اور سجدہ کے بعد اس کو ہاتھ سے ہٹا دیا کریں تاکہ رکعت کی اس طرح سے گنتی ہوجائے اور بھول سے بچا جاسکے، نماز سے پہلے میں اعوذ باللہ، بسم اللہ ، استغفر اللہ ، لا حول ، سب پڑھ لیتاہوں کہ شیطان نہ ورغلا ئے ، پھر بھی بھول ہوجاتی ہے ، میں بہت پریشان ہوں ، کیا کروں ، میرے حق میں دعا بھی کریں اور حل بھی بتائیں ۔ جزاک اللہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما الجواب واللّٰہ التوفیق:
(۱) اگر اکثر شک کی حالت پیش آتی ہے ، تو غور و فکر کرنے کے بعد جس جانب ذہن کا رجحان غالب ہو، اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے ، مثلا: اگر تین اور چار میں شک ہوا اور چار رکعت کا ظن غالب ہو، تو چارہی رکعات مان کر عمل کرنا چاہیے اور اگر غور و فکر کے باجود کسی جانب غالب گمان نہ ہو، تو کم رکعت پر بناء کرنی چاہیے ، مثلا: اگر تین اور چار میں شک ہو ا، تو تین رکعات مان کر چوتھی رکعات پوری کرنی چاہیے ؛ البتہ تیسری اور چوتھی دونوں رکعات پر قعدہ کرنا ضروری ہے اور آخر میں سجدہ سہو بھی لازم ہے ۔
وإن کثر الشک ’’تحری و ’’عمل‘‘ أی أخذ ’’بغالب ظنہ‘‘ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا شک أحدکم فلیتحر الصواب فلیتم علیہ‘‘ وحمل علی ما إذا کثر الشک للروایۃ السابقۃ ’’فإن لم یغلب لہ ظن أخذ بالأقل‘‘ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا سہا أحدکم فی صلاتہ فلم یدر واحدۃ صلی أو اثنتین فلیبن علی واحدۃ فإن لم یدر اثنتین صلی أو ثلاثا فلیبن علی اثنتین فإن لم یدر ثلاثا صلی أو أربعا فلیبن علی ثلاث ویسجد سجدتین قبل أن یسلم‘‘ یعنی للسہو۔ قولہ: ’’فلیتحر الصواب‘‘ أی عندہ وقولہ فلیتم علیہ محمول علی ما إذا وقع تحریہ علی الأقل ویحتمل أن المراد أنہ یتمہا ولو بما بقی منہا کالتشہد والسلام قولہ: ’’فإن لم یغلب لہ ظن‘‘ بأن لم یترجح عندہ شیء بعدالطلب کما فی الکافی أو لم یکن لہ رأی کما فی الہدایۃ قولہ: ’’أخذ بالأقل‘‘ فلو شک فی ذوات الأربع أنہا الأولی أم الثانیۃ وبنی علی الأقل یجعلہا أولی ثم یقعد لجواز أنہا ثانیۃ فتکون القعدۃ فیہا واجبۃ ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم ثانیۃ ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقعد لجواز أنہا رابعۃ ثم یقوم فیصلی أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم رابعۃ والقعدۃ علی الثالثۃ والرابعۃ فرض وکذلک لو شک أنہا الثانیۃ أو الثالثۃ ولم یغلب علی رأیہ شیء یقعد فی الحال لجواز أنہا ثانیۃ ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقعد لجواز أنہا رابعۃ ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقعد لأنا جعلناہا فی الحکم رابعۃ وعلی ہذا الثنائی والثلاثی کذا فی الذخیرۃ وتمامہ فی المطولات۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:۴۷۷/۱، فصل فی الشک، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
(۲) نماز میں ایک سے زائد غلطی کی صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کافی ہے ، سجدہ سہو کا تکرار مشروع نہیں ہے ۔
قال ابن عابدین: (قولہ وإن تکرر) حتی لو ترک جمیع واجبات الصلاۃ سہوا لا یلزمہ إلا سجدتان بحر۔۔ (رد المحتار:۸۰/۲، باب سجود السہو، دار الفکر، بیروت)
(۳) رکعات کی تعداد یاد رکھنے کے لیے سجدہ کی جگہ کنکری رکھنا ثابت نہیں ہے ۔ فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
الجواب صحیح: وقار علی غفرلہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | کتبہ محمد مصعب عفی عنہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۴؍۲؍۱۴۴۲ھ |
=======================
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بابت؟ میرا پرنٹنگ پریس کا کام ہے حالیہ بارشوں میں پریس میں پانی آگیا تھا جس سے پریس مکمل(کاغذودیگر ساز وسامان سمیت) تباہ ہوا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ جو کاغذ پبلشرز ہمارے پاس بھیجتے ہیں پرنٹنگ کے لیے اس کی نوعیت کیا ہے وہ امانت ہے یا ملکیت یا کچھ دیگر؟ وہ جو پیپر ضائع ہوا ہے حادثاتی طور پر کیا ہم اس پیپر کے ضامن ہیں ؟ کچھ پبلشرز ایسے ہیں جو اس پیپر کی رقم کا مطالبہ کررہے ہیں مہربانی فرماکر اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما الجواب واللّٰہ التوفیق:
پبلشرز پرنٹنگ کے لیے جو کاغذ دیتے ہیں ، اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے ، لہٰذا اگر پرنٹنگ والے کی طرف سے تعدی کے بغیر کسی حادثے وغیرہ میں کاغذ ضائع ہوجائے، تو شرعاً ضمان واجب نہیں ہوگا ۔
وحکم الأجیر المشترک أن ما ہلک فی یدہ من غیر صنعہ فلا ضمان علیہ فی قول أبی حنیفۃ – رحمہ اللّٰہ تعالی – وہو قول زفر والحسن، وإنہ قیاس سواء ہلک بأمر یمکن التحرز عنہ ’’کالسرقۃ والغصب أو بأمر لا یمکن التحرز عنہ کالحرق الغالب والغارۃ الغالبۃ والمکابرۃ۔ لو أعطاہ مصحفا لیعمل لہ غلافا أو سیفا لیعمل لہ جہازا أو سکینا لیعمل لہا نصابا فضاع المصحف أو السیف أو السکین فإنہ لا یضمن إجماعا۔ کذا فی السراج الوہاج۔ وفی المنتقی عن أبی یوسف – رحمہ اللّٰہ تعالی – لو دفع إلیہ مصحفا ینقطہ بأجر فضاع غلافہ لم یضمن وکذلک لو دفع إلیہ ثوبا لیرفوہ فی مندیل فضاع المندیل وکذلک إذا دفع إلیہ میزانا لیصلح کفتیہ فضاع العود الذی یکون فیہ المیزان۔ کذا فی المحیط۔ ومن استأجر رجلا علی خیاطۃ ثوبہ أو علی قصارۃ ثوبہ فقبضہ فتلف فی یدہ بغیر فعلہ وبغیر تعد منہ فلا ضمان علیہ کذا فی شرح الطحاوی (الفتاوی الہندیۃ:۴/۵۰۰، کتاب الاجارۃ، زکریا) فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
الجواب صحیح: وقار علی غفرلہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | کتبہ محمد مصعب عفی عنہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲6؍۲؍۱۴۴۲ھ |
=======================
سوال: کیا شادی میں گانا گانا جائز ہے، میوزک کے بغیر ؟یا صرف ڈف کے ساتھ؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما الجواب واللّٰہ التوفیق:
گانے کے اشعار کا مضمون اگر خلاف شرع امر پر مشتمل ہو، مثلا:کذب گوئی یا مذموم تفاخر یا فحش کلا می اور بے حیائی پر مشتمل ہو یا مجلس میں کوئی نامحرم شامل ہو تو میوزک کے بغیر بھی شادی میں عورتوں کا ایسا گانا گانا ناجائز ہے ،پس اگر کوئی عورت خالص عورتوں کے درمیان حمد و نعت یا حکمت و دانائی کی باتوں پر مشتمل اشعار ترنم سے پڑھ دے اور اس کی آواز مجلس سے باہر نہ جائے ، تو اس کی گنجائش ہے ، لیکن آج کل شادیوں میں جو گیت وغیرہ پڑھنے کا رواج ہے ، وہ عموما خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں ، ان کے مضمون سے گناہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے ، ایسے مروجہ گانوں کا میوزک کے بغیر بھی گانا ناجائز ہے ، حدیث کی رو سے ایسے غنا سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے ۔
قال ابن عابدین: وقال فی تبیین المحارم: واعلم أن ما کان حراماً من الشعر ما فیہ فحش أو ہجو مسلم أو کذب علی اللہ تعالی أو رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو علی الصحابۃ أو تزکیۃ النفس أو الکذب أو التفاخر المذموم، أو القدح فی الأنساب، وکذا ما فیہ وصف أمرد أو امرأۃ بعینہا إذا کانا حیین، فإنہ لایجوز وصف امرأۃ معینۃ حیۃ ولا وصف أمرد معین حی حسن الوجہ بین یدی الرجال ولا فی نفسہ، وأما وصف المیتۃ أو غیر المعینۃ فلا بأس وکذا الحکم فی الأمرد ولا وصف الخمر المہیج إلیہا والدیریات والحانات والہجاء ولو لذمی کذا فی ابن الہمام والزیلعی۔ وأما وصف الخدود والأصداغ وحسن القد والقامۃ وسائر أوصاف النساء والمرد قال بعضہم: فیہ نظر، وقال فی المعارف: لایلیق بأہل الدیانات، وینبغی أن لایجوز إنشادہ عند من غلب علیہ الہوی والشہوۃ لأنہ یہیجہ علی إجالۃ فکرہ فیمن لایحل، وما کان سبباً لمحظور فہو محظور اہـ۔ أقول: وقدمنا أن إنشادہ للاستشہاد لایضر ومثلہ فیما یظہر إنشادہ أو عملہ لتشبیہات بلیغۃ واستعارات بدیعۃ۔ (ردالمحتار:۳۵۰/۶، کتاب الحظر والاباحۃ، دار الفکر، بیروت)
واضح رہے کہ دف بجانے سے مقصود اعلان ہوتا تھا کہ کچھ دھب دھباہٹ ہوجائے تاکہ لوگوں کو اطلاع ہوجائے ، آج کل کے موسیقی میں بالعموم دف والی چیزیں نہیں پائی جاتیں ، ان میں جلاجل ہوتے ہیں اور ہیئت تطرب پر ان کو بجایا جاتا ہے اور بذاتِ خود موسیقی مقصود ہوتی ہے ، محض اعلان مقصود نہیں رہتا۔
فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
الجواب صحیح: وقار علی غفرلہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | کتبہ محمد مصعب عفی عنہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۳؍۱؍۱۴۴۲ھ |
=======================
سوال: مسجد میں نماز کے لیے داخل ہونے کے بعد کیا تھوڑی دیر بیٹھ کر نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے؟ جب کہ ہماری سانس پھول بھی نہ رہی ہو؟بہت سے لوگ مسجد میں جب نماز کے لیے تو پہلے بیٹھتے ہیں دوچار سکنڈ ہی صحیح دینی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے ؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما الجواب واللّٰہ التوفیق:
مسجد میں داخل ہونے کے بعد اگر مکروہ وقت نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ تحیۃ المسجد بیٹھے بغیر ہی پڑھی جائے۔اذا دخل أحدکم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین ( بخاری ، رقم:۵۵۱) فتاوی دار العلوم( ۱۶۸/۴) میں ہے : سنت یہی ہے کہ مسجد میں جاتے ہی بدون بیٹھ جانے کے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں اداء کرے اور اگر پہلے بیٹھ گیا، تو یہ ترک اولی ہوگا الخ اور اگر کوئی شخص ایسے وقت مسجد پہنچا کہ نفل کا وقت نہیں ہے جماعت کا وقت قریب ہے ، تو ایسی صورت میں بیٹھ جانا چاہیے، کھڑے کھڑے انتظار کرنا مکروہ ہے ۔ إذا دخل الرجل عند الإقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم۔( الفتاوی الہندیۃ :۱/۶۳)
فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
الجواب صحیح: وقار علی غفرلہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | کتبہ محمد مصعب عفی عنہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۹؍۲؍۱۴۴۲ھ |
=======================
————————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :4-5، جلد:105، شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق اپریل-مئی 2021ء
٭ ٭ ٭