از: مولانا ابرار احمد اجراوی

بی ایم کالج، رہیکا، مدھوبنی، بہار

             مولانا نے صرف پارلیمنٹ کی چہار دیواری میں ہی نہیں ، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی، جمعیۃ علماء ہند اور مختلف قومی و ملی اور لسانی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے اردو کے حقوق کے تحفظ اور اس کی بازیابی کے لیے انتھک جدو جہد کی۔۱۹۵۰ء میں مولانا انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کی مجلس عاملہ میں شامل ہوئے اور ۱۲؍ سال تک تمام تر ضعف کے با وجود اس کی ہر میٹنگ اور اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ مجلس عاملہ کی آخری میٹنگ منعقدہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء میں بھی وہ بخار اور کھانسی کی شدید حالت میں کمبل لپیٹ کر شریک ہوئے۔

            پارلیمنٹ اور اسمبلی میں تقریر کرنا بہت آسان ہوتا ہے؛ مگر زمینی سطح پر شہر شہر اور قریہ قریہ گھوم کر کام کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے؛ مگر مولانا ایک زمین سے جڑے ہوئے ممبر پارلیمنٹ تھے۔ اردو کے لیے انھوں نے ریاست اور اضلاع تک تحریک چلائی اور اردو کو اس کھویا ہوا مقام و مرتبہ بازیاب کرانے کی کوشش کی۔پارلیمنٹ کے باہر انھوں نے اردو کے حق کے لیے جو نمایاں کام کیے اس کی تفصیل مختصرا،اس طرح ہے۔

            ۲۲؍مئی ۱۹۵۱ء کو ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے ایک وفد کے ہمراہ اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی شکایت لے کر مولانا سیوہاروی یوپی کے وزیر تعلیم سمپورنا نند(۷) سے ملے، اس وفد میں مولانا کے ساتھ سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین اور مشہور ناول نگار ادیب قاضی عبد الغفار بھی شریک تھے۔

             ۲۲-۲۳؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں لکھنؤ میں ایک کل ہند اردو کانفرنس ہوئی تھی، جس میں اردو کے قانونی حقوق کی بازیابی کے لیے ۲۰؍ لاکھ دستخط کی مہم کا فیصلہ ہواتھا، اس مہم کو انجام تک پہنچانے میں مولانا کا ہی بیش تر حصہ تھااور جب جمعیتی کارکنان وغیرہ کی مدد سے ۲۰؍لاکھ دست خط پورے ہوگئے، تو پھر ۲۵-۲۶؍جولائی ۱۹۵۳ء کو لکھنؤ میں ہی اردو کی دوسری کل ہند کانفرنس ہوئی اور دستخطی مہم کی روداد صدر جمہوریۂ ہند کو پیش کرنے کا منصوبہ طے پایا، مولانا اس میں بھی پیش پیش رہے۔

            ۲۱-۲۲؍مارچ ۱۹۵۲ء کو اجمیر میں جو کل ہند کانفرنس قاضی عبد الغفار کی صدارت میں ہوئی، اس کا افتتاح مولانا نے ہی کیا۔

            ۱۵؍ فروی ۱۹۵۴ء کو انجمن ترقی اردو ہندکا ایک وفد ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرکردگی میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد سے ملا اور یوپی میں اردو کو علاقائی زبان قرار دینے کے لیے ۲۰؍لاکھ دستخط کا گراں بار ریکارڈ انھیں سونپا گیا، اس میں دوسرے سربراہان ہندکے ساتھ مولانا بھی شریک تھے۔ملاقات کے بعد دوسرے روز وفد کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت کشن پرشاد کول(۸) کے علاوہ مولانا نے بھی پریس والوں سے بات کی۔

            ۴؍ اگست ۱۹۵۶ء کو مولانا نے جے پور پہنچ کر راجستھان کے وزیر تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیمات سے ملاقات کرکے راجستھان کے اسکولوں میں اردو کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی۔

            ۱۵؍فروری ۱۹۵۸ء کو دہلی میں ایک کل ہند اردو کانفرنس ڈاکٹر تارا چند(۹) کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کا افتتاح پنڈت نہرو نے کیا اور مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی آخری تقریربھی یہیں کی، اس کانفرنس کے منتظم اور صدر مجلس استقبالیہ مولانا سیوہاروی تھے، چندے کی فراہمی کا بہت زیادہ بوجھ بھی مولانا نے ہی برداشت کیا۔مشہور ناقد و ادیب آل احمد سُرور اس کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں مولانا کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            ’’]مولانا نے [اپنے سیاسی کاموں کا حرج کرکے اس کانفرنس کے انتظامات کیے۔ انھی کی وجہ سے دہلی کی کانفرنس اتنی شان دار ہوئی کہ پنڈت جی آئے۔ مولانا آزاد نے کانفرنس کو خطاب کیا اور ہماری تحریک کا اثر پورے ملک نے محسوس کیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۳)

            کانفرنس کے بعد ۲۹؍ اپریل ۱۹۵۸ء کو نئی دہلی میں انجمن ترقی اردو کا دوسرا وفد دوسری بار صدر جمہوریہ سے ملا، دوسرے قائدین کے ساتھ مولانا اس میں بھی پیش پیش تھے۔

            مولانا سیوہاروی کی تحفظ ارود تحریک کا جذبہ کبھی سرد نہیں پڑا۔ انھوں نے سرکاری سطح پر کوشش کے ساتھ زمینی سطح پر بھی کام کیا۔ انھوں نے مابعد آزادی ملک کے بدلتے لسانی نقشے میں اردو کو اس جائز مقام دلانے کے لیے اردو میڈیم اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کی تحریک بھی چلائی۔ وہ خود حالاں کہ مدرسہ کے تعلیم یافتہ آدمی تھے، انھوں نے روایتی موضوعات قرآن و حدیث اور فقہ و منطق کا علم حاصل کیا تھا اور دین و شریعت کا تحفظ ان کے نزدیک اولیت کا حامل تھا،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مولانا امت مسلمہ کی شرعی رہ نمائی اور ان کے مذہب و دین کے تحفظ کے لیے مدارس اور دینی ادارے قائم کرتے؛ مگر وہ زبان کے بقا کو تہذیب و ثقافت کے بقا کے ساتھ مشروط کرکے دیکھتے تھے، وہ زبان کو عام زبانوں کی طرح صرف ایک ذریعۂ اظہار نہیں ،اس کو قومی و ملی بقا کا  ذریعہ بھی سمجھتے تھے،ان کا یقین تھا کہ قوموں کے وجود و بقا میں زبانوں کا اہم رول ہوتا ہے؛ اس لیے انھوں نے مدارس و مکاتب کے بجائے اردو میڈیم اسکول کھولا اور اس قسم کی تعلیم گاہیں قائم کرنے میں قولاً و عملاً دلچسپی لی۔انھیں صرف لڑکوں کی ہی نہیں ، لڑکیوں کی اردو تعلیم کی بھی اتنی ہی فکر تھی۔ فاطمہ سردار احمد جو بلی ماران دہلی میں مولانا کے قائم کردہ اسکول کی پرنسپل رہ چکی ہیں ، لکھتی ہیں :

            ’’آزادی کے بعد کے پر آشوب زمانہ میں جب دہلی میں مسلمان لڑکیوں کا تو ذکر کیا لڑکوں تک تعلیم کے لالے پڑے ہوئے تھے مولانا حفظ الرحمن مرحوم نے بلی ماران میں اردو میڈیم کا ایک گورنمنٹ ہائر سکینڈری اسکول لڑکیوں کے واسطے کھلوایا تھا۔‘‘ (حکایات پارینہ یا داستان گمشدہ، ص:۷، فاطمہ سردار احمد، جے کے آفسیٹ پرنٹرز، نئی دہلی ۱۹۹۹ء)

            مولانا سیوہاروی ایک با ذوق عالم دین تھے، شعر و ادب کا شوق بھی ان کو خالق کائنات کی طرف سے ودیعت ہوا تھا۔انھوں نے میر ؔو غالبؔ اور کلاسیکی اردو شعر و داب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور غالب کے پیچیدہ اور مغلق اشعار کی ایسی نادر تشریح کرتے تھے کہ سامعین دنگ رہ جاتے تھے۔ شری گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی اس قسم کا اپنا عینی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            ’’پارسال یوم غالبؔ پر جب انہوں نے حضرت غالبؔ کے اس مطلع کی تشریح کی کہ ’’نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا‘‘ توتمام مجمع سے صدائیں بلند ہوئیں ۔  خواجہ حسن نظامی صاحب کی رحلت پر درگاہ نظام الدین میں جو تعزیتی جلسہ ہوا اس میں مولانا نے اسی انداز میں تقریر فرمائی جیسے کہ خواجہ صاحب مرحوم کیا کرتے تھے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۴۳)

             وہ ادبی مجلسوں کے انعقاد و انتظام میں بھی دل چسپی لیتے تھے۔ انھوں نے اپنے اسی ذوق شعر و ادب کے اظہارو اعلان کے لیے بہت سے شان دار مشاعرے کروائے۔دہلی اور اطراف دہلی میں منعقد ہونے والے اردو کے درجنوں مشاعروں میں انھوں نے بنفس نفیس شرکت کی اور انھیں کام یابی کی منزل تک پہنچایا۔ شعراء کے مابین معاصرانہ چشمک کے نتیجے میں جو ناچاقی اور کشاکش جنم لیتی ہے، اس کو ختم کرانے میں بھی مولانا ثالثی کا رول ادا کرتے تھے۔ اور دونوں متحارب گروپ کو اپنی خوش کلامی اور شیریں بیانی سے لمحوں میں شیر و شکر کر دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ(۱۰) لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں پیش آیا کہ اس میں معروف انقلابی شاعر جوشؔ ملیح آبادی نے اپنی نظم میں سیاسی حالات پر تنقید کرڈالی، جس کے جواب میں ایک شاعر نے جوشؔ صاحب کے خلاف قطعہ پڑھ دیا،جو کسی بھی طرح موزوں نہ تھا۔ جب منتظمین میں تنازع نے جنم لیا، مولانا نے حسن تدبیر سے ثالثی کرکے اس کو ختم کرایا۔

            مولانا نے ہر اعتبار سے مظلوم اردو زبان کو ہندستان کے لسانی نقشے میں مناسب جگہ دلانے کے لیے کوشش کی۔ اردو کی خدمت کا جذبہ مولانا کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ مولانا اردو کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کتنے متفکر اور کوشاں رہتے تھے کہ اس وقت کے اردو داں اور پروفیسرز حضرات بھی مولانا کی اس زبردست جدو جہد کے مداح بن گئے تھے؛ چناں چہ اس وقت کے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری اور مشہور ادیب و ناقد آل احمد سرور(۱۱) مولانا کی اردو نوازی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            ’’اردو کی تحریک میں مولانا لیڈر کی حیثیت سے نہیں ، سپاہی کی حیثیت سے انجمن کا کام کرتے تھے۔جہاں مولاناکی ضرورت محسوس ہوئی بھیج دیا جہاں دقت ہوئی مولانا نے سلجھا دی، جہاں اختلاف ہوا مولانا کی وجہ سے دور ہوگیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۲)

            اردو زبان کے احیا اور اس کے فروغ کے حوالے سے مولانا کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔وہ سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک اردو کی جنگ لڑتے رہے۔ تحفظ اردو کے حوالے سے ان کی متنوع خدمات کو کسی ایک مختصر مضمون یا مقالے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک دراز نفس موضوع ہے، جو ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ اس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی بھی ضرورت ہے اور اس کو مفصل و مبسوط انداز میں منظر عام پر لانا وقت کا اہم تقاضا ہے؛ تاکہ ایک مدرسے کے فارغ التحصیل کا لسانی و ادبی کارنامہ تاریخ زبان کا حصہ بن سکے۔

             بہت سی صلاحیتیں سیاست و قیادت کی نذر ہوجایا کرتی ہیں ، یوں بھی سیاست کے میدان میں لکھنے پڑھنے کے مواقع کم میسر آتے ہیں ؛مگر مولانااس معاملے میں مستثنیٰ تھے۔ انھوں نے صرف سیاست کے اسٹیج سے ہی اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی؛ بلکہ وہ اردو کے سرمایے میں مضامین اور کتابوں کے گل بوٹے بھی ٹانکتے تھے۔سیاست کے جھمیلوں سے الگ ہوکر تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھتے تھے، ان کی ساری کتابیں اردو میں ہیں ۔مولانا نے اردو زبان میں گراں قدر معلوماتی اور تاریخی کتابیں تالیف کرکے اس کے گیسوئے برہم کو سنوارا ہے۔

             مولانا کی تحریریں حقائق اور سماجی شعور سے مخاطبہ قائم کرتی ہیں ، یہ نرگسی اور مافوق فطری عناصر سے نہیں ؛ بلکہ حقیت و واقعیت اور اصلیت و صداقت کے عناصر سے لبریز ہیں ۔ وہ صاف، سلیس، رواں اور سادہ نثر لکھتے تھے۔ وہ دلی کی تخلیقی ادبی نثر میں تحریر یں لکھتے تھے۔ ان کے جملے انتہائی مختصر مگر بڑے بامعنی، چست اور ادبیت سے لبریز ہوتے تھے۔ اگر وہ میدان سیاست سے الگ رہ کر صرف مطالعہ و کتب بینی اور قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استورا رکھتے، تو وہ کم از کم مدارس کی حد تک آج اردو کے کثیر التصانیف مصنّفین میں شمار ہوتے۔وہ عالم ہی نہیں ادیب بھی تھے۔ شورش کاشمیری نے صحیح لکھا ہے: ’’مولانا حفظ الرحمن خطیب ہی نہیں عالم بھی تھے اور ادیب بھی۔‘‘(بوئے گل، نالۂ دل، دود چراغ محفل، ص:۴۰۰)

            المیہ یہ ہے کہ مولانا کی اردو نوازی اور تحریک احیائے اردو سے اہل علم و ادب کا بڑا حلقہ نا آشنا ہے۔ جس اردو زبان کے لیے انھوں نے دن رات دیوانہ وار کام کیا،جو زبان ان کا جنون تھی،ان کا شوق تھی؛ اسی زبان کی جب علاقائی اور قومی تاریخ لکھی گئی تو مولانا کو بالکل نظر انداز کیا گیا ۔ اردو اکادمی دہلی نے ’دلی والے‘ کے عنوان سے جو تین جلدیں شائع کی ہیں ، اس کی دوسری جلد میں مولانا کا بھی ذکر کیا گیا ہے؛ مگر یہ مضمون بڑا تشنہ اور ناقص ہے۔ مولانا کی علمی، رفاہی اور سیاسی خدمات کو تو نمایاں کیا گیا؛ مگر ان کی اردو خدمات کے تعلق سے ایک جملہ بھی نہیں لکھا گیا؛حالاں کہ کتاب کے مضمون نگاروں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہ یہی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ہیں جن سے آل احمد سُرور اور ترقی پسندوں کے علم برداراور نظریہ ساز سجاد ظہیرؔ بھی بہت زیادہ متأثر تھے۔ سجاد ظہیر اپنی مشہور کتاب ’’روشنائی‘‘ میں مولانا کے بارے میں کچھ اس طرح اپنی معلومات اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہیں :

            ’’مولانا حفظ الرحمن صاحب کو میں ۱۹۳۶ء سے جانتا تھا؛ جب کہ وہ اور میں دونوں ایک ساتھ سیاسی کام کرتے تھے۔ مولانا بہت سلجھے ہوئے دماغ کے ستودہ صفات اور عالم فاضل انسان ہیں اور اس کے باوجود کہ میں جس سیاست پر کار بند تھا اس سے ان کو بہت سی باتوں میں اختلاف تھا۔ ان کی شفقت و عنایت مجھ پر ہمیشہ رہتی تھی۔ میں انہیں سامراج دشمنی، وطنی آزادی کی مشترکہ جدو جہد میں اپنا بزرگ اور قابل احترام رفیق تصور کرتا تھا۔ میں جب بھی دلی جاتا تو ان کی زیارت اپنا فرض سمجھتا تھا۔ ‘‘( روشنائی، ص:۳۴۹)

            ان کی لسانی خدمات اور اردو تحریک میں ان کی خدمات کووقت کے ناموروں نے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شری ایس پی سنہا، جن سے مولانا قانونی معاملات میں مشاورت و گفتگو کرتے تھے، نے اپنے مضمون میں لکھا:

            ’’محبان اردو کو یاد ہوگا کہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے اور ہیں جو اس]اردو[کے وجود ہی کے منکر تھے اور ہیں ۔ مثلا ڈاکٹر سمپورنا نند حالاں کہ شاید اس کو لوگ نہیں جانتے کہ وہ خود بھی ایک نہایت اچھے اردو کے شاعر ہیں ۔ ایک ایسی جماعت بھی تھی جس کا طریقہ نہایت مخدوش تھا۔ مثلا پرشوتم داس ٹنڈن، ڈاکٹر رگھبیر سیٹھ گوبند داس۔ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا یہ مولانا ہی کاکام تھا۔یہ لوگ اردو مسٹر جناح اور مسلم لیگ کی زبان کہہ کر بدنام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی وجہ سے پاکستان بنا۔ اگر یہ ختم نہ کردی جائے گی تو اس ملک میں اور بہت سے پاکستان بن جائیں گے۔ یہ کہہ کر ایک ہوا کھڑا کردیا گیا تھا کہ مسلمان اس سے مرعوب ہوجاوے اور قریب قریب کامیاب ہوگیا تھا؛ لیکن کچھ محبان اردو ایسے تھے، جنھوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس میں حسب معمول مولانا پیش پیش تھے۔ یوں تو مولانا نے بہت سی تقریریں کیں ؛ لیکن سب سے زوردار اور مدلل تقریر وہ تھی جو انھوں نے پارلیمنٹ میں ۲۹؍مارچ ۱۹۶۲ء کو کی تھی، جس سے مسٹر ٹنڈن، سیٹھ گوبند داس کے الزامات اور مولانا کا جواب پوری طرح سے ظاہر ہوجائے گا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۸)

            انجمن ترقی اردو راجستھان کے صدر خان بہادر الطاف احمد خیری(سبک دوش آر، اے، ایس)نے اپنے مضمون ’مولانا حفظ الرحمن بحیثیت محسن قوم و زبان‘میں لکھا:

            ’’مولانا مرحوم سے میری ابتدائی ملاقات بھی غالباً اردوکے تحفظ کے سلسلہ میں ہوئی اور اس کے بعد سے ان سے زیادہ تر تبادلۂ خیالات اردو ہی کے بارے میں ہوا۔ مولانا نے کبھی ہندی کی مخالفت نہیں کی؛ مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ یہ کوشش کی کہ اردو کو اس جائز مقام ملے اور اس کو بھی ملک کی ایک قومی زبان کی حیثیت سے پھلنے پھولنے کا موقع حاصل ہو۔وہ نہ صرف انجمن ترقی اردو ہند کی مجلس عاملہ کے ممبر تھے اور اپنے مفید مشورے انجمن کو دیتے تھے؛ بلکہ انجمن کے باہر بھی وہ ہر ممکن طریقے سے اردو کی حمایت کرتے تھے۔امریکہ سے اردو کی حمایت میں جو خط انھوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلی کو اور ملک کے وزیر اعظم کو بستر علالت سے بھیجے وہ غالباً اردو کے لیے ان کی آخری خدمت تھی۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۴۲)

             حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ مولانا کی زندگی، ان کی علمی و سیاسی خدمات پر اب تک کوئی باضابطہ تصنیف بھی نہیں ملتی،کسی شخص، تنظیم یا ادارے نے اس سمت میں پیش رفت نہیں کی ہے۔ لے دے کے ہفت روزہ الجمعیۃ کا وہ خصوصی نمبر ملتا ہے جس میں معاصرین کے تأثراتی قسم کے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں ۔ یا ڈاکٹرمولانا ابو سلمان شاہ جہاں پوریؒ کی کتاب’ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ‘ مارکیٹ میں دستیاب ہے، جوکوئی مستقل اور باقاعدہ تصنیف نہیں کہی جاسکتی؛ بلکہ مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ہر طرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔ نہ کوئی اردو تحریک و تنظیم ان کو منہ لگانے کو تیار ہے اور نہ کوئی فاضل مدرسہ ان کی خدمات کو قلم بند کرنے کے لیے راضی ہے۔

            مولانا تو کینسر کے مہلک مرض کا شکار ہوئے، بہت پہلے ہم سے منہ موڑ لیا، ۱۹۶۲ء میں وہ عالم آخرت کو سدھار گئے؛ مگرابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے، ضرورت ہے کہ کوئی اردو داں یا مدرسے کا کوئی فاضل ہی اس خالی میدان میں آئے اور کوئی ایسی سوانحی کتاب لکھ کر اس خلا کو پر کردے، جس میں ان کی سیاسی خدمات کے ساتھ تحریک اردو میں ان کی شراکت داری کا بھی تذکرہ ہو۔ اس سے ۵۰؍سال بعد ہی سہی علمی اور ادبی دنیا میں مولانا کے نام اور کام سے شناسائی کا سلسلہ شروع ہوسکے گا۔ اسلاف فراموشی کے مرض پر قابو پانا ضروری ہے، ورنہ نسل نو ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

٭٭٭

حواشی و حوالے:

(۷)          سمپورنا نند اتر پردیش کے وزیر تعلیم رہے ہیں ۔ یہ ایک معلم اور استاد کے طور پر مشہور تھے۔سنسکرت اور ہندی کے بڑے اسکالر تھے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۹ء میں وفات پائی۔

(۸)          پنڈت کشن پرشاد کول، ہندستانی کے حامیوں میں تھے۔ اسی ہندستانی زبان کو وہ ہندی، ہندوی، ہندستانی، ریختہ اور اردوئے معلی کہہ کر پکارتے تھے۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی کتاب’’ ادبی اور قومی تذکرے‘‘ میں ایک مضمون شامل ہے، جس کا عنوان ہے۔ ’’ہندی۔اردو یا ہندستانی‘‘ جو بہت چشم کشا اور ہندی اردو تنازع میں تصفیہ کے حوالے سے بڑا بصیرت افروز بھی ہے۔ یہ مضمون اصل میں ایک خطبہ ہے، جو انھوں نے ہندستانی زبان کے کنونشن کی استقبالیہ تقریب کے چیرمین کی حیثیت سے ۱۹۴۸ء میں لکھنؤ میں پیش کیا تھا۔ اس میں انھوں نے بہت تفصیل سے اردو اور ہندی اور ہندستانی زبان کے ساتھ، گانریس پارٹی اورمہاتما گاندھی کے مسئلہ زبان پر گفتگو کی ہے اور اردو یا ہندستانی کے مخالفین پرشوتم داس ٹنڈن اور سمپورنا نند جی کے زبان کے معاملے میں شدت پسندانہ خیالات کا بھی ناقدانہ جالزہ لیا ہے۔یہاں پر اس مضمون ایک اقتباس خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ ’’اردو اور ہندی کا جھگڑا تو خواہ مخواہ کا جھگڑا ہے دونوں ایک ماں کی جائی ہیں اور سگی بہنیں ہیں لیکن ہمارے فرقہ وارانہ تعصب اور جوش نے سوتیلے پن کا برتاؤ شروع کرکے نئی ہندی اور اردو یا ہندستانی میں غیریت پیدا کردی ہے۔ اردو والے اور نئی ہندی والے دونوں اس میں قصور وار ہیں ۔ اور جب تک ہم اس سوال پر ہندو یا مسلمان کی فرقہ وارانہ ہٹ سے نظر ڈالتے رہیں گے کبھی اس دلدل سے نکل نہیں سکتے۔ اگر ہمیں اردو، ہندی یا ہندستانی کے سوال کو سمجھ کے طے کرنا ہے تو اس سوال کو زبانوں کے علم اور تاریخ کی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو جھگڑا آسانی سے مٹ جائے گا۔ میرے لئے یہاں یہ تو ممکن نہیں کہ میں زبانوں کے علم اور تاریخ سے بحث کروں لیکن دو چار موٹی موٹی باتیں اس کے متعلق ضرور کہنا چاہتا ہوں ۔‘‘(ادبی اور قومی تذکرے، کشن پرشاد کول، ص:۸-۷،انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ، ۱۹۵۱ء)

(۹)           ڈاکٹر تارا چند(۱۹۷۳-۱۸۸۸ء) ایک دانش ور، ماہر تعلیم اور مؤرخ تھے۔خصوصا ہندستان کی ازمنۂ قدیم کی تاریخ پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ انھوں نے الہ آباد اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری آکسفورڈ سے حاصل کی تھی۔ الہ آباد یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور پھر اس کے وائس چانسلر رہے۔ فارسی اور اردو کا ادیبانہ ذوق رکھتے تھے۔ متعدد کتابیں انھوں نے لکھیں ، جن میں تمدن ہند پر اسلامی اثرات بہت مشہور ہے۔ یہ بھی اردو اور ہندستانی کے مسئلہ پر بہت صاف نظریہ رکھتے تھے۔ ان کے نظریۂ زبان اور اردو نوازی کے حوالے سے یہ دو حوالے یادگار ہیں ۔ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے:

                ’’مسلمانوں کی آمد کے وقت ہندؤوں کی زبان کیا تھی؟ اس اردو کی ابتدائی شکل۔ جس کا نام ہندی؍ہندوی تھا۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو کے آغاز و ارتقا کا سہرا صحیح معنوں میں ہندؤوں کے سر ہے۔ وہی اس کی پیدائش کے حقیقی ذمہ دار ہیں ۔ مسلمانوں کو اردو کی پیدائش کا ذمہ دار قرار دینا غلط ہے۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مسلمانوں نے اردو کے نکھارنے، چمکانے، سجانے، سنوارنے، نیز اسے ترقی یافتہ بنانے اورادبی مرتبے تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔‘‘(رام پرکاش کپور کا مضمون، مشمولہ، امنگ، راشٹریہ سہارا، ۲۰؍دسمبر ۲۰۱۵ء)

                اردو مسلمانوں اور ہندووں کے باہمی اختلاط کا ثمرہ ہے۔اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر تارا چند ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :

                ’’مسلم ذہن ہندوانہ رنگ و روپ قبول کرنے لگا اوراس نے فارسی و ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھنا اور استعمال کرنا شروع کیا، ہندؤوں نے عربی و فارسی و ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں کی جگہ دی،اس لین دین کا منافع ہماری تہدیب کے خزانے میں اردو زبان کی شکل میں ہوا۔‘‘(ہندوستانی کلچر کا ارتقاء، ص:۴۸جمال پریس دہلی، ۱۹۶۸ء)

(۱۰)         اس واقعہ کے تعلق سے حاجی انیس دہلوی اپنے مضمون میں مولانا احمد سعید دہلوی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

                ’’اسی سلسلے میں مولانا]احمد سعید دہلوی[ کی اس کوشش اور خواہش کا ذکر کیا جانا ضروری ہے، جس کے تحت ہندوستان کی تاریخی عمارت لال قلعہ میں ۱۹۵۲ء میں یوم جمہوریہ کے مشاعرے کا آغاز ہوا۔ مولانا کی اس کوشش کے پس پشت یہ جذبہ بھی شامل تھا کہ اس طرح اہل دلی اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شعری عظمتوں کو بھی یاد کرتے رہیں ۔‘‘

                ’’لال قلعہ کا مشاعرہ بے حد اہتمام سے منعقد کیا گیا، صدر مشاعرہ مولانا ہی تھے، اس مشاعرے میں جوش ملیح آبادی نے حسب عادت ایسا کلام سنایا جس میں علمائے دین اور حور و غلمان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ مشاعرے میں پنڈت نہرو کے علاوہ استاد بے خود دہلوی، بسمل شاہجہاں پوری، گوپال متل کے علاوہ دیگر اکابر شعرا بھی موجود تھے، کسی کو بھی جوش صاحب کی یہ جرأت پسند نہیں آئی، سب نے احتجاج کیا، استاد بے خود نے جوشؔ کا کلام سن کردلی کی زبان میں دوچار گالیاں دیں ، اور فرمایا

بے خودؔ نہ سمجھ خوب سمجھتا ہوں تجھے

شمع میرے ہی، جلانے کو تو ٹھنڈی کردی

                پھر ایک مادر زاد گالی دے کر فرمایا:

بوڑھا ہوں مگر تاب جواں رکھتا ہوں

صورت پہ نہ جا حسن بیاں رکھتا ہوں

ملتی ہے مجھے داد فصاحت بے خودؔ

میں قلعۂ دہلی کی زباں رکھتا ہوں

                پنڈت جی نے جب یہ حالت دیکھی تو بے خودؔ مرحوم کے پیر پکڑ کر دبائے؛ تاکہ معاملہ ٹھنڈا ہو۔ مولانا نے جب مشاعرے کا رنگ بگڑتے دیکھا، تو اپنی غزل بسملؔ شاہجہانپوری کو دیتے ہوئے کہا۔

                ’’لو بھئی بسمل اسے پڑھو اور چلو‘‘۔(دلی والے، ص:۴۸)

(۱۱)          آل احمد سرور نے اپنی خود نوشت’خواب باقی ہیں ‘ میں بھی مولانا کابڑے اچھے انداز میں تقریبا دو صفحات میں ذکر کیا ہے اور ان کی رفاقت و معیت کو اپنے لیے ایک خوش نما دور سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی اردوتحریک میں سرگرم مجاہدانہ شمولیت اوران کی لسانی و سیاسی خدمات کا شمار کرانے کے بعدلکھتے ہیں :

                ’’علما میں مجھے مولانا حفظ الرحمان ہی ایسے نظر آئے جو ایک طرف علوم دینیہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور دوسری طرف جدید دور کے تقاصوں کو بھی سمجھتے تھے۔ آزادی کی جد جہد میں انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور آزادی کے بعد خدمت کی راہ اختیار کی۔ ایک دفعہ مولانا کے یہاں ضرورت مندوں کا ہجوم دیکھ کر میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کا سارا وقت چند لوگوں کی شکایتیں دور کرنے اور سفارشات میں صرف ہوتا ہے حالاں کہ آپ کو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اور ملک کی فلاح کے لیے کام کرنا ہے۔ کہنے لگے آپ درست کہتے ہیں مگر کیا کروں جب کوئی ضرورت مند میرے پاس آتا ہے تو مجھ سے انکار نہیں ہوتا۔ میں نے کہا چند افراد کو ملازمتیں دلوانے یا ان کے ساتھ جو بے انصافی ہوئی ہے اسے دور کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ہمیں ان چیزوں کی جڑ تک جاکر ایسے ادارے بنانے ہوں گے جو مجموعی طور پر پس ماندہ افراد کو اوپر اٹھا سکیں ۔ مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ اب اپنے وقت کا بہتر استعمال کریں گے؛ مگر پھر کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے اور سارے کام دھرے رہ گئے۔‘‘(خواب باقی ہیں ، ص:۲۱۳)

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts