از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
(۱)
نام کتاب : حبیب الفتاویٰ آٹھ جلدیں (جدیدترتیب، تعلیق وتخریج)
تالیف : حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ قاسمی مدظلہ العالی
بانی ومہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم مہذب پور، سنجرپور،اعظم گڑھ
صفحات : چوبیس سو سے زائد قیمت: (درج نہیں )
ناشر : مکتبہ طیبہ دیوبند (09412558230)
تعارف نگار : مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند
====================
’’فقہ‘‘ سارے علوم شرعیہ میں دقیق ترین علم ہے، قرآن، سنت اوراجماع سے نہایت ہی باریکی، گہرائی، گیرائی اوراحتیاط کے ساتھ مسئلہ طے کرنے کو فقہ کہتے ہیں ، یہ ہرکس وناکس کا کام نہیں ، اس کے لیے علوم قرآنی کے ساتھ احادیث نبوی کے جملہ گوشوں سے واقفیت ضروری ہے۔ ’’فتویٰ‘‘ اس سے اور آگے کی چیز ہے،اس کے لیے بڑی دور اندیشی درکار ہوتی ہے، احوال زمانہ اور عرف وعادت سے پوری طرح واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ افتاء کی ذمہ داری اہلیت کے ساتھ فرض کفایہ ہے اوراگر کوئی متبادل نہ ہوتو فرض عین۔ ہر آدمی اپنے پیش آمدہ مسائل دریافت کرتاہے، شرعی اور قانونی مشکل حل کرنا چاہتا ہے تب ہی مفتی کو تلاشتا ہے، یہ کام زبانی بھی انجام دیا جاتاہے اور تحریری بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو آ اس کی رہنمائی فرماتے اور اگر وہ حکم معلوم نہ ہوتا تو وحی کا انتظار فرماتے تھے، تکمیل شریعت کے بعد اس کام کو صحابۂ کرامؓ نے بحسن وخوبی انجام دیا؛ مگر نزاکت اور اہمیت کی وجہ سے اکثر صحابۂ کرامؓ خود بچتے اور ان کی یہ خواہش ہوتی کہ اپنے سے بڑے سے یہ کام لیاجائے، یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ میں افتاء کی ذمہ داری نبھانے والے افراد چند ہی تھے۔ اس منصب کے لیے جرأت وہی شخص دکھاتا ہے جس میں جہالت ہوتی ہے اور جو اپنے انجام سے بے فکر ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے موفق اہل علم سے یہ خدمت لی ہے۔ قیامت تک ایسا ہی رہے گا۔
انھیں باتوفیق اہل علم وفضل میں حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ قاسمی مدظلہ ہیں ، جن کو ایک لمبے عرصے تک اس خدمت گرامی کی توفیق نصیب ہوئی، ان کے فتاویٰ آج آٹھ جلدوں میں مرتب ہوکر اہلِ ذوق کے لیے خوانِ یغما بنے ہوے ہیں ، ظاہری وضع قطع بھی دیدہ زیب ہے، تین تین سو صفحات کی ہلکی پھلکی جلدیں استفادے کے لیے جہاں لے جائیں جیسے رکھیں ہر کروٹ آپ کی رہنمائی کے لیے تیار! حضرت مفتی صاحب کا قلم نہایت رواں دواں اَشہب ہے، تعبیرات بڑی واضح اور سلیس ہیں جن سے بعض خشک عنوان میں بھی تراوٹ اور تازگی آگئی ہے بعض فتاویٰ طویل اور طویل ترین بھی ہیں ؛ لیکن اکثر مختصر؛ مگر واضح ترین؛ ماقلّ ودلّ کی مثال، اکثر مقامات پر استاذ محترم حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا رنگ، آہنگ، خوبو اور خوشبو موجود ہے جو مشام جاں کومعطر اور قلب وروح کو مطمئن کرتے ہیں ، حوالہ جات کا اہتمام اصل فتاویٰ میں ہے؛ اس پر نئی تعلیق وتخریج نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے، جو عصرجدید کے ذوقِ لطیف کی ضرورت پوری کررہی ہیں ، تحقیق وتخریج میں جن کتابوں کے حوالے نظرآئے ان میں – بخاری،مسلم، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، معانی الآثار، دارقطنی، مشکوٰۃ، عمدۃالقاری، بذل المجہود، تفسیرات احمدیہ، درمختار، ردالمحتار،نورالایضاح، طحطاوی، عالم گیری، بدائع، بحر، نہر، بزازیہ، خانیہ، تاتارخانیہ، ولوالجیہ، تبیین، ہدایہ، نہایہ، جوہرہ، غنیہ، منیہ، فتح القدیر، الفقہ الاسلامی وادلتہ، طبری، احسن الفتاویٰ،امداد الفتاویٰ- نمایاں ہیں ۔ جتنے فتاویٰ دیکھے سب پر اطمینان ہوا، اٹھارہ بیس سال پہلے اس کی پہلی جلد نظر سے گزری تھی، یہ جدید ترتیب ہے، ان شاء اللہ قارئین اس کو پڑھیں گے اوراہل فقہ وفتاویٰ کے درمیان قبول حاصل ہوگا، وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز!
=======================
(۲)
نام کتاب : تہذیب الاصول یعنی آسان اصول تفسیر
تالیف : حضرت مولانا مفتی محمدامین پالن پوری مدظلہٗ العالی
استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند
صفحات : ۲۰۷ قیمت: ۷۰ ؍روپے
ناشر : مکتبہ الاحسان دیوبند 9027755527
تعارف نگار : مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند
====================
مدارس اسلامیہ میں تین علوم عالیہ اور ان کے اصول پڑھائے جاتے ہیں ، یعنی تفسیر، حدیث، فقہ اور ان تینوں کے اصول؛ اصول کے بیان میں احناف کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اصول فقہ کے ضمن میں تینوں اصول کو بیان فرمایا ہے، کتاب اللہ کے عنوان کے تحت اصول تفسیر اور قواعد فہم النصوص کو بیان کیا ہے اور سنت رسول اللہ کے تحت اصول حدیث کو بیان فرمایا ہے؛ مگر وہ بہت مختصر ہے، ’’ایضاً‘‘ کے انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ جو اصولی باتیں کتاب اللہ کے اصول میں بیان ہوئی ہیں وہی سنت رسول اللہ میں ملحوظ ہیں ؛ اس لیے ہمارے مدارس میں اصولِ حدیث کے لیے باضابطہ کتابیں داخل نصاب ہیں ، اسی طرح تفسیر کے اصول کو بنیادی طور پر سمجھانے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الفوز الکبیر‘‘ داخل نصاب ہے؛ اس لیے کہ اس میں بیان کردہ اصول وضوابط اصول فقہ کے ضمن میں بیان نہیں کیے گئے ہیں ، اسی انفرادیت کی وجہ سے اس کومدارس میں قبول عام حاصل ہے۔
’’الفوز الکبیر‘‘ کے پانچ ابواب ہیں ، پہلے باب میں تفسیر کی بنیادی باتیں ہیں ، دوسرے میں فہم قرآن کی دشواریوں کا حل ہے، تیسرے باب میں نظم قرآنی کی باریکیوں کی بحث ہے، چوتھے باب میں مناہج تفسیر کا بیان ہے اورپانچواں باب غرائب القرآن اور ضروری اسباب نزول سے متعلق ہے؛ مگر الفوز الکبیر کے نام سے صرف ابتدائی چار ابواب ہی طلبۂ کرام کے سامنے ہوتے ہیں ، پانچواں باب حضرت شاہ صاحب نے عربی زبان میں تحریر فرمایا اور اس کو مستقل عنوان دے کر رسالہ بنادیا ہے، اس کا نام ہے: فتح الخبیر بما لابد منہ حفظہٖ فی علم التفسیر۔ یہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ ابتدائی چارابواب کی خدمت خوب ہوئی، چار اہل علم نے اس کے عربی ترجمے کیے، سب سے پہلے محمد منیردمشقی، پھرحروف مقطعات کی بحث کا ترجمہ حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی نے کیا، پھر سید سلمان حسینی ندوی نے چاروں ابواب کا ترجمہ کیا اس ترجمے میں سقم تھا بارہ غلطیاں مولانا انوربدخشانی نے نکالیں پھر ضرورت محسوس کرتے ہوئے اصل فارسی متن کو سامنے رکھ کر حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے عربی ترجمہ کیا؛ جب کہ اس سے پہلے عربی زبان میں العون الکبیر کے نام سے شرح لکھ چکے تھے۔ اردو شروحات میں ایک عون الکبیر صوفی عبدالحمید سواتی کی، دوسری الفوز العظیم مولانا خورشید انور فیض آبادی کی ملتی تھی، نئے عربی ترجمے کے بعد حضرت استاذ محترم مفتی محمد امین پالن پوری مدظلہ العالی نے اس کی شان دار اردو شرح الخیرالکثیر کے نام سے تحریر فرمائی، اردو ترجموں میں ایک مولانا سعیدانصاری علی گڑھ کا ترجمہ ملتا ہے؛ مگر وہ نہایت لفظی ہے، دوسرا ترجمہ مولانا محمد رفیق چودھری کا ہے؛ مگر وہ بالکل آزاد ترجمانی ہے، تیسرا ترجمہ یاسین اختر مصباحی کا ہے، اس ترجمے کے ساتھ عربی ترجمہ دمشقی بھی شامل اشاعت کیاگیا ہے۔ یہ چوتھا ترجمہ حضرت استاذ محترم مفتی محمدامین پالن پوری مدظلہ کا ہے، یہ ترجمہ نرا ترجمہ نہیں اورنہ ہی آزاد ترجمانی ہے؛ بلکہ یہ اردو زبان میں مستقل طور پر اصول تفسیر پڑھانے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے زمانے میں عوامی زبان فارسی تھی تو انھوں نے فارسی زبان میں الفوزالکبیر لکھی؛ تاکہ طلبہ کو استفادے میں دشواری نہ ہو، آج اردو زبان عام ہے تو اس کا اردو زبان میں ہونا بڑا موزون ہے، اس میں ترتیب الفوز الکبیر کی ہے، بعض جگہ اختصار یا تقدیم وتاخیر سے کام لیاگیا ہے، بعض جگہ مثالوں کا اضافہ بھی ہے، تفسیری بحث کو جچے تلے مگر دوٹوک انداز میں لکھا ہے، مثلاً منسوخ آیات کی بحث کو دیکھیے، بہت مختصر اور جامع ہے اس کے حاشیے میں ابن عربی اندلسی اور ابن عربی مصنف فتوحاتِ مکیہ کے درمیان فرق کو بیان فرمایاہے جو ہر قاری کے لیے ضروری ہے، بعض جگہ عبارت میں اضافہ بھی ہے مثلاً علامہ عبیداللہ سندھی کا ملفوظ ص۹۰ پر، اخیر میں الفوز الکبیر کی افادیت اور اردو تراجم میں سب سے اہم ترجمے کی تعیین اور اس کی دلیلیں بڑی دل چسپ ہیں ، مترجم محترم کی زبان بڑی عمدہ اور سلیس ہے، جس نے کتاب کے حسن میں حددرجہ اضافہ کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی عمر میں برکت اور کتاب کی قبولیت میں اضافہ فرمائیں ! وباللہ التوفیق!
=======================
————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :4-5، جلد:105، شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق اپریل-مئی 2021ء
٭ ٭ ٭