سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ ذیل کے بارے میں :
انسان کے بدن کے بال کی خرید وفروخت کرنا کیسا ہے؟ اس کی تجارت کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب مرحمت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔
المستفتی: (قاری) ناصرالدین
نزد بستہ والی مسجد، محلہ صرّافان، کھتولی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:- (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے تمام اعظا واجزا کے ساتھ قابل تکریم واحترام بنایا ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم، اور کسی چیز کی خرید وفروخت (کاروبار)، اس کے کمتر ہونے کی دلیل ہوتی ہے؛ اس لیے اسلام میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت (تجارت/ کاروبار) جائز نہیں ہے؛ بلکہ باطل وغیرمعتبر ہے اوراس کا پیسہ بھی ناجائز وحرام ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: {ولقد کرَّمنا بنی آدم الآیۃ} (سورۃ الإسرائ، رقم الآیۃ:۷۰)
(بطل بیع ۔۔۔۔۔۔۔ شعر الإنسان) لکرامۃ الآدمي ولو کافرًا، ذکرہ المصنف وغیرہ في بحث شعر الخنزیر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۷:۲۴۴،۲۴۵، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ۴۱:۵۶۲-۵۶۵، ت: الفرفور، ط:دمشق)
قولہ: ’’وشعر الإنسان‘‘: ولا یجوز الانتفاع بہ لحدیث: ’’لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ‘‘۔ (ردالمحتار)۔
قولہ: ’’ذکرہ المصنف‘‘: حیث قال: والآدمي مکرم شرعًا وإن کان کافرًا فإیراد العقد علیہ وابتذالہ بہ وإلحاقہ بالجمادات إذلال لہ اھـ، أي: وہو غیر جائز، وبعضہ فی حکمہ، وصرح في فتح القدیر ببطلانہ۔ (المصدر السابق)
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمودحسن غفرلہٗ بلندشہری مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالٰی أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۸؍۴؍۱۴۴۲ھ= ۲۴؍۱۱؍۲۰۲۰ء |
=======================
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس سلسلہ میں کہ
فارم کا مُرغا جس کو ’’بولر‘‘ کہتے ہیں اُس کو کھانا جائز ہے کیا؟
میں نے کسی جگہ فتویٰ میں پڑھاتھا، جواب میرے پاس نہیں ہے کہ ’’بولر‘‘ کھانا جائز نہیں ہے، وجہ اس کی یہ بیان کی گئی تھی کہ ’’اس مُرغے کو فارم ہائوس میں جو غذا دی جاتی ہے وہ حرام ہے‘‘ اب آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا ’’بولر‘‘ کھانا جائز ہے؟
والسلام
محمد شکیل، مکان نمبر۱۲۳۹، محل سرائے بلی ماران، دہلی۔۶
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:- شریعت میں جو جانور حلال قرار دیے گئے ہیں ، اگر انھیں کوئی ایسی غذا یا دانہ کھلایا جائے، جو حرام یا ناپاک اجزا سے تیار کیاگیا ہو تو وہ جانور اور ان کی نسلیں حرام نہیں ہوتیں ؛ البتہ کسی جانورکو حرام یا ناپاک دانہ یا غذا کھلانا ناجائز اور گناہ ہے۔ (بہشتی زیور مدلل، ۹:۱۰۶، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)۔
اور حرام یا ناپاک دانہ یاغذا سے جانوراور اس کی نسل اس لیے حرام نہیں ہوتی کہ جو دانہ یا غذا جانور کے پیٹ میں پہنچتی ہے، وہ بعینہٖ اسی حالت میں اس کے جسم کا جزو نہیں بنتی؛ بلکہ مختلف مراحل سے گذر کر اس کی حقیقت وماہیت تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ خون اور گوشت میں تبدیل ہوکر جسم کا جز وبنتی ہے اور شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ ماہیت بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے اور فقہاء نے لکھا ہے: اگر کسی بکری کے بچے کی پرورش خنزیر (سور) کے دودھ سے ہوئی اور وہ بچہ بڑا ہوکر بکرا یا بکری ہوگیا تو اس کا گوشت حلال و جائز ہوگا؛ کیوں کہ بچے کے پیٹ میں خنزیر کا جو دودھ پہنچا، اس کا کچھ حصہ گوشت وپوست وغیرہ میں تبدیل ہوگیا اور کچھ پیشاب بن کر جسم سے خارج ہوگیا (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ۱۵:۵۳۸، جواب سوال:۱۴۰، مطبوعہ: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)۔
لہٰذا بوائلر چکن کھانا جائز ہے، وہ حرام نہیں اگرچہ کسی جانور کو حرام یا ناپاک دانہ یا غذا کھانا ناجائزہے؛ البتہ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر بوائلرچکن سے اس وجہ سے پرہیز کرے کہ وہ بہت زیادہ مفید نہیں یا طبی اعتبار سے اس میں نقصان دہ پہلو ہوتے ہیں تو ذاتی طور پر پرہیز واحتیاط کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔
حل أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر، وما غذي بہ یصیر مستہلکاً لا یبقی لہ أثر (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ، ۹:۴۹۱، ۴۹۲، ط: مکتبۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)
وما مات لا تطعمہ کلبا فإنہ خبیث حرام نفعہ متعذر (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۶۷۱۰)۔
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمودحسن غفرلہٗ بلندشہری مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالٰی أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۳؍۳؍۱۴۴۲ھ=۱۰؍۱۱؍۲۰۲۰ء |
=======================
سوال: حضرت چاندی کے قلم کااستعمال کرنا کیسا ہے میرے پاس چاندی کا ایک قلم ہے تو کیا میں اس سے لکھ سکتا ہوں یا نہیں برائے کرم مدلل جواب سے نوازیں احسان ہوگا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:- مرد یا عورت کسی کے لیے بھی چاندی کا قلم استعمال کرنا جائز نہیں ؛ لہٰذا آپ کے پاس جو چاندی کا قلم ہے، آپ اُس سے لکھنے کا کام نہیں کرسکتے۔ اور اگر قلم پر چاندی یا سونے کا صرف پانی چڑھایا گیا ہو تو اُس سے لکھنے میں کچھ حرج نہیں ۔
ویکرہ أن یکتب بالقلم المتخذ من الذھب أو الفضۃ أو من دواۃ کذلک ویستوي فیہ الذکر والأنثی (الفتاوی السراجیۃ، کتاب الکراھۃ والاستحسان، باب المتفرقات، ص: ۳۳۵، ط: مکتبۃ الاتحاد، دیوبند)، ونقلہ عنہ في الفتاوی الھندیۃ (کتاب الکراھیۃ، الباب العاشر فی استعمال الذھب والفضۃ، ۵: ۳۳۴، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)۔
(و)کرہ (الأکل والشرب والادھان والتطیب من إناء ذھب وفضۃ للرجل والمرأۃ) لإطلاق الحدیث، (وکذا) یکرہ (الأکل بملعقۃ الفضۃ والذھب والاکتحال بمیلھما) وما أشبہ ذلک من الاستعمال کمکحلۃ ومرآۃ وقلم ودواۃ ونحوھا (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ، ۹: ۴۹۲، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)۔
قولہ: ’’للرجل والمرأۃ‘‘: قال في الخانیۃ: والنساء في ما سوی الحلي من الأکل والشرب والادھان من الذھب والفضۃ والعقود بمنزلۃ الرجال، ولا بأس لھن بلبس الدیباج والحریر والذھب والفضۃ واللؤلؤ أھـ۔ قولہ: ’’لإطلاق الحدیث‘‘: ھو ما روي عن حذیفۃؓ أنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ’’لا تلبسوا الحریر ولا الدیباج ولا تشربوا في آنیۃ الذھب والفضۃ، ولا تأکلوا في صحافھا؛ فإنھا لھم في الدنیا ولکم في الآخرۃ ‘‘ رواہ البخاري ومسلم وأحمد وأحادیث أخر ساقھا الزیلعي، ثم قال: فإذا ثبت ذلک في الشرب والأکل فکذا في التطیب وغیرہ؛ لأنہ مثلہ في الاستعمال (رد المحتار)۔
والخلاف في المفضض، أما المطلي فلا بأس بہ بالإجماع بلا فرق بین لجام ورکاب وغیرھما؛ لأن الطلاء مستھلک لا یخلص فلا عبرۃ للونہ، عیني وغیرہ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ، ۹: ۴۹۷)۔
قولہ: ’’والخلاف في المفضض‘‘: أراد ما فیہ قطعۃ فضۃ فیشمل المضبب، والأظھر عبارۃ العیني وغیرہ وھي: وھذا الاختلاف في ما یخلص، وأما التمویہ الذي لا یخلص فلا بأس بہ بالإجماع؛ لأنہ مستھلک فلا عبرۃ ببقائہ لونا اھـ (رد المحتار)۔
وأما التمویہ الذي لا یخلص فلا بأس بہ بالإجماع کذا في الکافي (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، الباب العاشر فی استعمال الذھب والفضۃ، ۵: ۳۳۴)۔ فقط واللّٰہ تعالٰی أعلم
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمودحسن غفرلہٗ بلندشہری مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالٰی أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۳؍۳؍۱۴۴۲ھ=۱۰؍۱۱؍۲۰۲۰ء |
=======================
سوال: کیا تین یا چار رکعت والی فرض یا نفل کے تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملانے سے سجدہ سہو واجب ہوگا ؟ مع دلیل جواب تحریر فرمائیں ۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:- فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت یا کسی سورت کی آیتیں ملاناخلاف سنت ہے؛ لہٰذا اگر کسی نے فرض نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا کسی سورت کی آیتیں بھی پڑھ لیں تو اس نے خلاف سنت کیا؛ البتہ سجدہ سہو واجب نہ ہوگا ، مفتی بہ قول یہی ہے۔ اور فرض کے علاوہ واجب، سنت اور نفل نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت یا کسی سورت کی تین چھوٹی آیتیں یا ان کے برابر کوئی بڑی آیت پڑھنا واجب ہے، اگر کوئی شخص بھول کر سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت یا کسی سورت کی چھوٹی تین آیتیں یا ایک بڑی آیت نہیں پڑھے گا تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔
(وضم) أقصر (سورۃ) کالکوثر أو ما قام مقامھما وھو ثلاث آیات قصار۔۔۔۔ وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصاراً ذکرہ الحلبي (في الأولیین من الفرض)، وھل یکرہ في الأخریین؟ المختار لا (و) في (جمیع) رکعات (النفل)؛ لأن کل شفع منہ صلاۃ (و) کل (الوتر) احتیاطاً (لدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۲:۱۴۹-۱۵۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ۳: ۱۹۲- ۱۹۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
قولہ: ’’وھل یکرہ‘‘: أي: ضم السورۃ۔ قولہ: ’’المختار لا‘‘: أي: لا یکرہ تحریماً؛ بل تنزیھاً؛ لأنہ خلاف السنۃ، قال في المنیۃ وشرحھا: فإن ضم السورۃ إلی الفاتحۃ ساھیاً یجب علیہ سجدتا السھو في قول أبي یوسفؒ لتأخیر الرکوع عن محلہ، وفي أظھر الروایات لا یجب؛ لأن القراء ۃ فیھما مشروعۃ من غیر تقدیر، والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لا واجب اھـ، وفي البحر عن فخر الإسلام أن السورۃ مشروعۃ في الأخریین نفلاً، وفي الذخیرۃ أنہ المختار، وفي المحیط: وھو الأصح اھـ، والظاھر أن المراد بقولہ نفلاً الجواز والمشروعیۃ بمعنی عدم الحرمۃ فلا ینافي کونہ خلاف الأولی کما أفادہ في الحلبۃ (رد المحتار)۔
ولو قرأ في الأخریین الفاتحہ والسورۃ لا یلزمہ السھو وھو الأصح۔۔۔۔ کذا في محیط السرخسي (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ۱:۱۲۶، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)۔
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمودحسن غفرلہٗ بلندشہری مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالٰی أعلم محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۶؍۱؍۱۴۴۲ھ= ۱۵؍۹؍۲۰۲۰ء |
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :1-2، جلد:105، جمادی الاول- رجب المرجب 1442ھ مطابق جنوری- فروری 2021ء
٭ ٭ ٭