بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ کی رحلت

ازقلم: مفتی عبد الرؤف غزنوی

استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی

            بروز پیر ۲۴؍صفر ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۰ء دارالعلوم دیوبند کے پرانے فاضل اور جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے نگران و روحِ رواں حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم نعمانی صاحب کا تقریباً چورانوے سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔

            حالیہ چند ہی سالوں کے اندر اس دنیائے فانی سے تسلسل کے ساتھ علمائے کرام اور مصلحینِ اُمت کی رحلتوں کا ایسا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو مسلمانوں کے لیے بالعموم اور طالبانِ علومِ نبوت کے لیے بالخصوص ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔ ۲۳؍ شعبان ۱۴۳۸ھ بروز ہفتہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ استاذِ حدیث وسابق ناظمِ تعلیمات دارالعلوم دیوبند کا وصال ہوگیا اور ۱۶؍شوال ۱۴۳۸ھ بروز منگل حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور خلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہٗ کا انتقال ہوگیا اور اسی دن حضرت مولانا اسماعیل بدات صاحبؒ مقیم مدینہ منورہ وخلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ بھی واصل بحق ہوئے۔

            ۲۷؍رجب ۱۴۳۹ھ بروز ہفتہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ مہتمم دارالعلوم (وقف) دیوبند سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ۲۳؍صفر ۱۴۴۰ھ بروز جمعہ حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو نامعلوم افراد نے بے دردی سے شہید کیا اور دو مہینے بعد بروز پیر ۲۳؍ ربیع الثانی ۱۴۴۰ھ کو حضرت مولانا رشید اشرف سیفیؒ استاذِ حدیث دارالعلوم کراچی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ چند ہی مہینے گزرے تھے کہ ۱۰؍ذو الحجہ ۱۴۴۰ھ عید الاضحی کے پہلے دن بروز پیر حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلویؒ فرزندِ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کا سانحۂ وفات پیش آیا، اور صرف ایک مہینہ اور ایک ہفتہ گزرنے کے بعد ۱۷/ محرم ۱۴۴۱ھ بروز منگل حضرت مولانا محمد جمال صاحبؒ استاذ دارالعلوم دیوبند کا وصال ہوگیا۔ ابھی ان حضرات کا غم تازہ ہی تھا کہ ایک مہینے بعد ۱۸؍صفر ۱۴۴۱ھ کو حضرت مولانا اسفندیار خان صاحبؒ بانی وشیخ الحدیث جامعہ دارالخیر کراچی کا سانحۂ ارتحال پیش آیا۔

            مزید چند ہی مہینے گزرے تھے کہ ۲۰؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ بروز جمعرات مسلکِ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان حضرت مولانا علّامہ خالد محمود صاحبؒ مقیم برطانیہ نے عالَمِ جاودانی کی طرف رحلت فرمائی، ان کی رحلت کے صرف پانچ دن بعد ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ بروز منگل محدّثِ جلیل اور مفسّرِ نبیل حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند اپنے بے شمار شاگردوں اور محبین ومتعلقین کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں پہنچ گئے۔

            ۱۶؍شوال ۱۴۴۱ھ بروز پیر حافظ صغیر احمد صاحبؒ مؤسس وسرپرست اعلیٰ مدرسہ احسان القرآن والعلوم النبویۃ وخلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کا لاہور میں انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے چند ہی دن بعد صرف ایک ایک دن کے وقفے سے تین بزرگ حضرات راہیِ عالَمِ آخرت ہوگئے، چنانچہ ۲۹؍ شوال ۱۴۴۱ھ شبِ یکشنبہ کو مفتی محمد نعیم صاحبؒ بانی ومہتمم جامعہ بنوریہ کراچی اور ۳۰؍شوال ۱۴۴۱ھ شبِ دو شنبہ کو حضرت قاری شریف احمد صاحب تھانویؒ سابق استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی اور اگلے دن یکم ذو القعدہ ۱۴۴۱ھ بروز منگل حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن صاحب ہزارویؒ خلیفۂ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ وبانی ومہتمم جامعہ دارالعلوم زکریا راولپنڈی کا انتقال ہوگیا۔

            واضح رہے! حضرت قاری شریف احمد صاحب تھانویؒ ایک جید حافظ وقاری، گوشہ نشین بزرگ اور اپنے بچپن میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی صحبت اُٹھانے والے اور ان کے بے شمار سبق آموز واقعات کے حافظ تھے، ان کی والدہ محترمہ اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی بڑی اہلیہ محترمہ کے درمیان رشتہ داری تھی، جس کے تحت وہ حضرت حکیم الامتؒ کے یہاں آتے جاتے تھے۔ مذکورہ بالا خصوصیات کے پیشِ نظر حضرت علّامہ سید محمد یوسف صاحب بنوریؒ نے درجۂ حفظ کے استاذ کی حیثیت سے جامعہ علوم اسلامیہ میں ان کا تقرر فرمایاتھا، جہاں کئی سال تک آپ کی تدریس کا سلسلہ جاری رہا تھا اور بعد میں از خود یکسوئی وگوشہ نشینی اختیار کی تھی۔

            ابھی ذو القعدہ کا مہینہ چل ہی رہا تھا کہ بروز پیر ۲۸؍ذوالقعدہ ۱۴۴۱ھ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے داماد حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب مظاہریؒ ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہرِ علوم سہارنپور کے وصال کی خبر موصول ہوئی۔ حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب ؒ کے فراق کا غم تازہ ہی تھا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی قُدِّس سرُّہٗ کے ایک بزرگ شاگرد وخلیفۂ مجاز حضرت مولانا احمد شفیع صاحبؒ مہتمم دارالعلوم معین الاسلام، ہاٹہزاری، بنگلہ دیش ۲۹؍محرم ۱۴۴۲ھ بروز جمعہ تقریباً ایک سو پانچ سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اگلے ہی مہینے میں ۲۲؍صفر ۱۴۴۲ھ بروز ہفتہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحبؒ مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی کی شہادت کا صبر آزما سانحہ پیش آیا اور صرف دو دن بعد ۲۴؍ صفر۱۴۴۲ھ بروز پیر حضرت مولانا   ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحبؒ نے داعیِ اجل کو لبّیک کہا۔

            پوشیدہ نہ رہے کہ ۲۳؍شعبان ۱۴۳۸ھ کو حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ استاذِ حدیث وسابق ناظمِ تعلیمات دارالعلوم دیوبند انڈیا کی رحلت سے لے کر ۲۴؍صفر۱۴۴۲ھ کو حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب نعمانیؒ نگران شعبۂ تخصص فی الحدیث جامعہ علومِ اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے وصال تک اس مختصر مضمون میں صرف ان اربابِ علم ومعرفت اور اصحابِ اصلاح وتربیت کے اسمائے گرامی نمونے کے طور پر درج کیے گئے ہیں ، جن سے احقر کو کسی نہ کسی نسبت سے نیاز مندی وعقیدت یا کم از کم تعارف وواقفیت حاصل تھی اور ان کی وفات کی تاریخیں بھی احقر کے پاس محفوظ تھیں ، ورنہ مذکورہ بالا عرصے کے اندر عالمی سطح پر رختِ سفر باندھنے والے اہلِ علم حضرات کی کل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

بجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ

محفلیں کتنی ہوئی شہرِ خموشاں کہیے

ایک لمحۂ فکریہ

            علمائے کرام اور مصلحینِ امت کا اس تسلسل کے ساتھ سفرِ آخرت پر روانہ ہونا عالَمِ اسلام کے لیے صرف ایک وقتی صبر آزما مرحلہ نہیں ، بلکہ ایک عظیم خسارہ اور بڑی محرومی کا پیش خیمہ ہے، جس کی تلافی بظاہر ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَأْتِیْ الْأَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا۔۔۔‘‘ (سورۃ الرعد:۴۱) ، ترجمہ و مفہوم:’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیرؒ اپنی مایۂ ناز تفسیر میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے، رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ایک روایت اس طرح نقل کرتے ہیں کہ: ’’زمین گھٹانے کا مقصد، فقہاء وعلماء اور اربابِ خیر وتقویٰ کی رحلتِ آخرت ہے۔‘‘

            نبی کریم ﷺ نے علمائے کرام کی پے درپے موت کو قیامت کی نشانی اور گمراہی پھیلنے کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے فرمایاہے:

           ’’إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ یُّرْفَعَ الْعِلْمُ، وَیَثْبُتَ الْجَہْلُ، وَیُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَیَظْہَرَ الزِّنَا۔‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱، ص:۱۸)

            ترجمہ ومفہوم: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہیں کہ علم اُٹھالیا جائے اور جہالت جم جائے اور شراب پی جائے اور زنا عام ہوجائے۔‘‘

            آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

          ’’إِنَّ اللّٰہَ لَایَقْبِضُ الْعِلْمَ اِنْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہٗ مِنَ الْعِبَادِ، وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتّٰی إِذَا لَمْ یَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوْسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوْا، فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا۔‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱،ص:۲۰)

            ترجمہ ومفہوم:’’اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اُٹھائیں گے کہ اسے لوگوں کے سینوں سے چھین لیں ؛ لیکن علم علماء کے اُٹھانے کی صورت میں اٹھالیں گے، حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، تو اُن سے پوچھا جائے گا وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے، اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘

حضرت مولانا محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ کی زندگی پر ایک نظر

            آپ کی ولادت ماہِ ذو القعدہ ۱۳۴۷ھ کو جے پور راجستھان کے ایک دینی گھرانے میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے اور بعض دیگر علاقوں میں حاصل کی اور پھر علومِ عالیہ کی تحصیل کے لیے امُّ المدارس دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا، جہاں مختلف اساتذۂ کرام سے درسِ نظامی کی کتابیں پڑھتے ہوئے ۱۳۶۹ھ کو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی، حضرت مولانا علّامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحب مراد آبادی رحمہم اللہ جیسے اساطینِ علم سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر فراغت حاصل کی۔

            واضح رہے! شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی (متوفّٰی:۱۳۷۷ھ) قُدِّس سرُّہٗ کے براہِ راست شاگردوں میں سے چند ہی بقید حیات تھے، جن کی تعداد حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب نعمانیؒ نگران شعبۂ تخصص فی الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن اور حضرت مولانا احمد شفیع صاحبؒ مہتمم دارالعلوم معین الاسلام، ہاٹہزاری، بنگلہ دیش کی رحلت کے بعد مزید محدود ہوگئی۔

            دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ پاکستان تشریف لاکر مختلف لائبریریوں کے اندر علمی وتحقیقی کاموں سے منسلک ہوئے اور ۱۹۸۱ء کو ’’اسلامی کتب خانے‘‘ کے موضوع پر جامعہ کراچی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ ان کے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد عبد الرشید نعمانی صاحبؒ حضرت مولانا علّامہ سید محمدیوسف بنوری صاحبؒ کے معتمد خاص اور جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے نگران تھے، بعد میں جب وہ اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے جامعہ سے یکسو ہوگئے، تو جامعہ نے شعبۂ تخصص فی الحدیث کی نگرانی اُن کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ کے حوالے کردی، جس پر وہ اپنی وفات تک نہایت استقامت وکامیابی کے ساتھ فائز رہے۔

            موصوف مسلسل کئی سال تک شعبۂ تخصص فی الحدیث کے طلبہ کو پڑھاتے بھی رہے اور ان سے مختلف موضوعات پر مقالے بھی لکھواتے رہے، جن میں سے بعض مقالے کتابوں کی صورت میں شائع ہوکر کافی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ وہ اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود پابندی اور عزم وہمت کے ساتھ ان طلبہ کی نگرانی فرماتے رہے۔ انہوں نے اللہ کے فضل وکرم سے ایک طویل عمر پائی،  اس پوری عمر میں وہ تحقیق ومطالعہ، تصنیف وتالیف اور تدریس وتعلیم سے وابستہ رہے۔ ان کی قابلِ رشک زندگی پر نبی کریم ﷺکی مندرجہ ذیل حدیث پاک صادق آرہی ہے:

          ’’عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ -رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ- أَنَّ أَعْرَابِیًّا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ خَیْرُ النَّاسِ؟ قَالَ: مَنْ طَالَ عُمْرُہٗ وَحَسُنَ عَمَلُہٗ۔‘‘ (رواہ الترمذی وحسَّنہ)

             ترجمہ ومفہوم: ’’حضرت عبد اللہ بن بُسْرؓسے روایت ہے کہ ایک بدُّو نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! لوگوں میں بہتر کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور اُس کا عمل اچھا ہو۔‘‘

بے مثال تواضع وسادگی

            حضرت مولانا محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ کی یہ خصوصیت بالکل نمایاں تھی کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں ، اپنے شاگردوں میں بے حد مقبولیت ومحبوبیت اور اپنے طویل علمی تجربات کے باوجود وہ نہ تو کبھی علمی افتخار کا شکار ہوئے اور نہ ہی غرور وخود بینی میں مبتلا ہوئے۔ وہ اپنے کاموں کو اپنے ہی ہاتھوں سے انجام دینے کو ترجیح دیتے، اگر انہیں کسی شخص سے ملنا ہوتا تو وہ شخص چاہے آپ کے شاگرد کے درجے میں ہوتا، تب بھی اس کو اپنے پاس نہ بلاتے، بلکہ اپنے ضعف وپیرانہ سالی کے باوجود اچانک کھڑے ہوتے اور اپنے خادموں سے کہتے کہ مجھے کہیں جاناہے اور چلتے چلتے اس شخص کے پاس پہنچ جاتے۔

            شاید اسی تواضع وسادگی، ہمت وعزم اور اعتماد علی اللہ کا یہ نتیجہ تھا کہ مرض الموت تک چورانوے سال کی عمر میں اپنے پاؤں سے چلتے پھرتے رہے اور وُہیل چیئر سے مدد لینے یا کرسی پر نماز پڑھنے کی نوبت اُنہیں پیش نہیں آئی،یہاں تک کہ رمضان المبارک میں طویل تراویح بھی کھڑے ہوکر ادا کرتے۔

مولاناؒ اپنے شاگردوں کے لیے ایک عملی نمونہ تھے

            یہ ایک حقیقت ہے کہ استاذ ومربی صرف پڑھانے یا وعظ ونصیحت کرنے سے اپنے شاگردوں کی عملی اصلاح وتربیت میں اس وقت تک مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، جب تک وہ خود اپنی ذات کے ذریعے ان کے سامنے ایک عملی نمونہ پیش نہ کرے، چاہے وہ پڑھانے میں اچھی خاصی مہارت اور وعظ ونصیحت پر پورا عبور کیوں نہ رکھتا ہو، اس لیے کہ ہر سیکھنے والے اور تربیت لینے والے کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ اپنے معلّم ومربی کے زبانی الفاظ کو عملی لباس میں دیکھے بغیر مطمئن نہیں ہوتا۔

            حضرت مولانا محمد عبد الحلیم صاحب نعمانیؒ ان علمائے ربّانیین میں سے تھے جن سے ان کے شاگرد صرف علومِ ظاہری ہی نہیں حاصل کرتے؛ بلکہ اُن کی زندگی کے اندر اتباعِ سنت، اخلاص وتواضع، دنیا سے بے رغبتی، شہرت ومنصب سے بے اعتنائی اور مطالعۂ کتب میں انہماک کو دیکھ کر عملی تربیت بھی لیتے۔ شعبۂ تخصص فی الحدیث میں ان کے شاگرد چونکہ درسِ نظامی سے فارغ التحصیل اور کافی باشعور طلبہ ہوتے؛ اس لیے وہ مذکورہ بالا اُمور کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے استاذ سے علمی استفادے کے ساتھ ساتھ، عملی زندگی کے اطوار و طریقے بھی سیکھ لیتے اور ان سے بے انتہا محبت وعقیدت رکھتے۔

نایاب کتب کے حصول کا شوق

            مولاناؒ کو مطالعۂ کتب سے غایت درجہ محبت تھی جو ایک کامیاب مدرّس ومحقّق کی پختہ علامت ہے۔ وہ نایاب کتب کے حصول اور مخطوطات وجدید مطبوعات کی ذخیرہ اندوزی کے دلدادہ تھے۔ وقتاً فوقتاً مختلف کتب خانوں میں خود چلے جاتے اور جو بھی کوئی نئی اور مفید کتاب نظر آتی تو اپنی استطاعت کے مطابق اُسے خرید لیتے اور جب ان کو معلوم ہوتا کہ کہیں کتابوں کی کوئی نمائش لگی ہوئی ہے تو وہ وقت نکال کر وہاں تشریف لے جاتے اور دیر تک کتابوں کا معاینہ اور انتخاب کرتے ہوئے اپنی جمع پونجی ان کی خریداری پر خرچ کرکے واپس آتے۔

            اپنے مذکورہ بالا جذبے کے تحت وہ اپنی زندگی میں جو بھی کچھ پس انداز کر لیتے، اسے کتابوں کی خریداری پر لگالیتے۔ انہوں نے نہ تو پرآسایش زندگی گزارنے کے لیے کوئی غیر ضروری ساز وسامان جمع کیا اور نہ ہی اپنے لیے کوئی ذاتی سواری خریدی، البتہ کتابوں کا ایک بہت اہم اور بڑا ذخیرہ اپنے پاس ضرور جمع کیا۔ وفات سے چند ہی سال پہلے تک وہ عام لوکل بس کے ذریعے جامعہ بنوری ٹاؤن آتے جاتے، نہ تو کبھی انہوں نے جامعہ سے کسی سواری کے انتظام کا تقاضا کیا اور نہ ہی زبان سے کسی کے سامنے شکایت کا اظہار کیا۔

جامعہ علومِ اسلامیہ سے محبت ووفاداری

            حضرت مولانا محمد عبد الحلیم صاحب نعمانیؒ کو حضرت محدّث العصر علّامہ سید محمد یوسف بنوری قُدِّس سرُّہٗ  سے بے انتہا عقیدت اور جامعہ علومِ اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن سے حد درجہ محبت تھی۔ وہ مرض الموت کے وقت تک پابندی کے ساتھ روزانہ جامعہ تشریف لاتے رہے اور شعبۂ تخصص فی الحدیث کے طلبہ کو پڑھاتے اور اُن کی نگرانی فرماتے رہے، اور جب مرض الموت کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئے، یہاں تک کہ وقفے وقفے سے استغراق کی کیفیت طاری ہونے لگی، اس دوران بھی اگر جامعہ کا نام سن لیتے تو وہ خوش ہوجاتے اور اپنے خُدّام سے کہتے کہ مجھے جامعہ لے جاؤ۔

            آپ نے اپنی وفات سے تقریباً ڈیڑھ دو سال قبل اپنی تمام ذاتی کتابیں الماریوں سمیت جامعہ بنوری ٹاؤن کو وقف کردیں ، یہ ان کی زندگی کا سب سے اہم اور قیمتی سرمایہ تھا، جس سے انہوں نے جب تک مطالعہ کی قوت باقی تھی خوب استفادہ کیا اور جب ضعف وپیرانہ سالی اور نگاہ کی کمزوری کا وقت آگیا تو اس علمی سرمائے کو جامعہ کے حوالے کرکے اس کے ذریعے اپنے لیے اُخروی کامیابی وسرخروئی کا انتظام کرلیا۔

شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ اور اُن کے خاندان سے عقیدت ومحبت

            دینی تعلیم سے آراستہ حضرات کا یہ امتیاز رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اساتذہ سے للہ فی اللہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں اور اپنے اساتذہ کی خدمت واحترام اور اُن کی نصائح پر عمل کرنے کو اپنی دنیا وآخرت کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ زمانۂ ماضی سے لے کر زمانۂ حال تک اساتذۂ کرام سے اُن کے ہونہار شاگردوں کے احترام وعقیدت کے واقعات ومثالیں بے شمار ہیں ۔ راقم الحروف نے بھی اپنے زمانے میں اس احترام وعقیدت کی بہت سی مثالوں کا مشاہدہ کیا ہے، تاہم ! شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی قُدِّس سرُّہٗ سے اُن کے تلامذہ ومتعلقین کی عقیدت ومحبت کی کوئی مثال عصرِ حاضر کے اندر کم از کم میرے مشاہدے میں تو نہیں آئی ہے۔

            احقر کو شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے متعدّد مایۂ ناز شاگردوں سے الحمد للہ براہِ راست شرفِ تلمُّذ حاصل ہوا ہے اور ان کے مزید درجنوں تلامذہ ومتعلقین کی زیارت وملاقات، بلکہ بعضوں کی صحبت کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے۔ شیخ الاسلامؒ کے شاگردوں میں جو مشترکہ اور بے مثال چیز مجھے نظر آئی تھی، وہ اپنے استاذ سے بے مثال محبت اور بے نظیر عقیدت تھی۔ جب بھی وہ حضرات اپنے شیخ واستاذ حضرت مدنی ؒ کا ذکرِ خیر کرتے تو فرطِ محبت وعقیدت میں زار وقطار روتے اور رُلاتے، اور ان کے ایسے سبق آموز واقعات سناتے جن سے سننے والوں پر ایک سکتہ طاری ہوجاتا۔ شیخ الاسلامؒ کے تلامذہ ومتعلقین کی مذکورہ بالا کیفیت دیکھ کر سامعین بِن دیکھے شیخ الاسلامؒ کے گرویدہ بن جاتے، اور یہ حقیقت اُن کے سامنے عیاں ہوجاتی کہ شیخ الاسلامؒ سے ان کے تلامذہ ومتعلقین کی محبت صرف جذباتی نہیں ، بلکہ حقیقت وواقعیت پر مبنی ہے۔

            اپنے استاذ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ سے حضرت مولانا محمد عبدالحلیم نعمانی صاحبؒ کی محبت وعقیدت کی بھی وہی کیفیت تھی جو اُن کے دوسرے شاگردوں کی تھی، چنانچہ جب بھی شیخ الاسلام حضرت مدنی  ؒ کا تذکرہ کرتے یا سنتے تو اُن کی آنکھیں پرنم ہوجاتیں ۔ اسی محبت کے تحت شیخ الاسلامؒ کے خاندان سے بھی اپنی وفات تک بالذات یا بالواسطہ اُن کا رابطہ رہا۔ ماہِ رجب ۱۴۳۵ھ کو حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر جب احقر نے دارالعلوم دیوبند کا سفر کیا تو اس موقع پر حضرت مولانا محمد عبد الحلیم نعمانی صاحبؒ نے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم کی خدمت میں احقر کے ذریعے سلام اور ایک ہدیہ بھیجا، جس کے جواب میں فرزندِ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی زید مجدہم نے بھی احقر کے توسُّط سے مولاناؒ کی خدمت میں سلام وہدیہ ارسال فرمایا۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم سے احقر کا بذریعۂ فون رابطہ ہوتا رہتاہے، وہ رابطہ کرنے پر اکثر حضرت مولانا نعمانی صاحبؒ کی حالت معلوم کرتے اور سلام کہلواتے، جب میں اُن کا سلام حضرت مولانا محمد عبد الحلیم صاحبؒ کو پہنچاتا، وہ فرطِ مسرّت ومحبت سے دیر تک زار وقطار روتے۔

            حضرت مولانا محمد عبدالحلیم نعمانی صاحبؒ کی شاگردی سے سرفراز ہونے کی سعادت تو احقر کو حاصل نہ ہوسکی، تاہم دارالعلوم دیوبند کے پرانے فاضل ہونے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کے براہِ راست شاگرد ہونے اور جامعہ علومِ اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کے ایک بزرگ اور باعمل استاذ کی حیثیت سے میں اُن کو اپنے استاذ کا درجہ دیتا تھا، وہ بھی دارالعلوم دیوبند سے فیض یاب ہونے کی مشترکہ نسبت کے تحت احقر پر خصوصی شفقت فرماتے اور وقتاً فوقتاً اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان اور تلامذہ ومحبّین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :1-2،    جلد:105‏،  جمادی الاول-  رجب المرجب 1442ھ مطابق   جنوری- فروری 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts