از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
وحی ربانی کا انکار اوراس کی غلط تشریح
مستشرقین اور مذہب اسلام کے مخالفین نے صادق ومصدوق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو داغ دار کرنے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت سے اعتماد ختم کرنے کے لیے وحی ربانی اور قرآن مقدس پر ہی تشکیک کے گولے داغ دیے ، وحی کے تقدس اوراس کی آئینی حیثیت کا انکار کرکے اس کی مختلف صورتوں اور کیفیتوں کا خوب مذاق اڑایا ہے۔ اس مضمون میں وحی کی حقیقت ذکر کرکے مستشرقین کی ہرزہ سرائی کا ردّ کیا جائے گا اور صحیح صورت حال واضح کی جائے گی۔
وحی کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
وحی کا لغوی معنی ہے: چپکے چپکے دل میں کسی بات کا ڈالنا، اشارہ کرنا، ابن فارس کہتے ہیں : ’’الوحي الاشارۃ، والوحی: الکتاب: والرسالۃ، وکل ما ألقیتہ إلی غیرک حتی علمہ فہو وحي کیف کان‘‘ (معجم مقاییس اللغۃ: ۶/۹۳)
’’وحی کا معنی ہے اشارہ کرنا اور وحی کا معنی ہے: لکھنا اور بھیجنا اور ہر وہ چیز جسے آپ دوسرے کو دیں ، یہاں تک کہ وہ اس کو جان لے تو وہ وحی ہے خواہ جیسے بھی ہو‘‘۔ ابوبکر ازدی کے بہ قول وحی کا اصل معنی ہے: پتھر پر لکھنا۔ (جمہرۃ اللغۃ: ۱/۲۳۱)
قرآن کریم میں ۷۸ مقامات پر لفظ وحی آیا ہے۔ کہیں تو بہ طور مصدر مستعمل ہے اورکہیں بہ طور فعل؛ لیکن ہر جگہ اس میں القا یعنی دل میں ڈالنے کا مفہوم ضرور پایا جاتا ہے۔
وحی کی اصطلاحی تعریف ذکر کرتے ہوئے حافظ بدرالدین عینی فرماتے ہیں : ’’ہو کلام اللّٰہ المنزل علی نبی من أنبیائہ والرسول‘‘ (عمدۃ القاری:۱/۱۴) ’’یعنی انبیاء ورسل علیہم السلام پر اترنے والے کلام کو وحی کہتے ہیں ‘‘۔
شیخ محمد عبدہ نے وحی کی تعریف کی ہے: ’’إعلام اللّٰہ لنبي من أنبیائہ، فہو عرفان یجدہ الشخص من نفسہ مع الیقین بأنہ من قِبل اللّٰہ تعالٰی بواسطۃ أو بدون واسطۃ‘‘ (رسالۃ التوحید، ص:۹۶)
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے کسی نبی کو خبر دینا وحی ہے، تو وحی ایک ایسی معرفت اور وجدان ہے جس کو انسان اپنے آپ سے محسوس کرتا ہے اس بات کے تیقن کے ساتھ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔
نزول وحی کی صورتیں
نزول وحی کے کئی طریقے ہیں جنھیں اللہ پاک نے سورۃ الشوریٰ میں ذکرکیا ہے: ’’وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلَّا وَحْیاً أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِإِذْنِہِ مَا یَشَآئُ إِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیمٌ‘‘ (الشوری:۵۱) ’’اور کسی بھی آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے کلام کرے؛ مگر یا تو اشارہ سے یا یہ کہ پردے کے پیچھے سے کلام کرے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کوئی قاصد بھیج دے پھر وہ اللہ کی وحی پہنچادے اس کے حکم سے وہ جوچاہے‘‘۔
تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے پر نزول وحی کے تین طریقے اور درجے بیان کیے گئے ہیں :
وحی قلبی
پہلی صورت وحی مجرد کی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ فرماتے ہیں وہ نبی کے دل میں ڈال دیتے ہیں اس طور سے کہ نبی کو اس کے من جانب اللہ ہونے کا یقین ہوتا ہے؛ چنانچہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إن روح القدس نفث في روعي لن تموت نفس حتی تستکمل رزقہا، فاتقوا اللّٰہ وأجملوا في الطلب‘‘ (اخرجہ ابن حبان في صحیحہ والحاکم في المستدرک والطبرانی في المعجم الکبیر، رقم:۷۶۹۴)
بعض علماء نے انبیاء علیہم السلام کے خواب کو بھی اسی قسم کے ساتھ جوڑدیاہے۔ جیساکہ ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم نے کہا ہے: ’’قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ‘‘(الصافات:۱۰۲) ’’ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ برخوردار میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہاہوں ‘‘۔
وحی کلامی
دوسری صورت یہ ہے کہ کسی واسطے کے بغیر اللہ پردے کے پیچھے سے کلام کرے۔ جیساکہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تکلم کیا ’’وَکَلَّمَ اللّٰہ مُوسَیٰ تَکْلِیْمًا (النساء:۱۶۴) ’’اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کلام فرمایا‘‘۔
اور جیساکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج میں تکلم کیا۔
وحی مَلَکی
تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتے کے توسط سے وحی آئے جیساکہ جبرئیل علیہ السلام انبیاء ورسل کے پاس اللہ کا پیغام لے کرآتے تھے۔ مکمل قرآن مجید اسی طرح نازل ہوا ہے۔ اللہ پاک نے اس کا تکلم کیا جس کو جبرئیل علیہ السلام نے سنا اوراس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا؛ البتہ اس تبلیغ وحی میں جبرئیل علیہ السلام کے تین احوال ہوتے تھے:
(۱) حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسان کی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصلی صورت میں آتے جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے؛ لیکن ایسا دویا تین بار ہی ہوا ہے۔ (دیکھیے: فتح الباری ۱/۱۸،۱۹)
(۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواس قسم کی آوازآیا کرتی تھی جیسی گھنٹی بجنے سے پیدا ہوتی ہے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: سأل الحارث بن ہشام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف یأتیک الوحي؟ فقال: أحیانا یاتیني مثل صلصلۃ الجرس، وہو أشدہ عليّ، فیفصم عني، وقد وعیت عنہ ما قال (صحیح البخاری، حدیث:۲) ’’حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی مسلسل آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس نے کہا ہوتا ہے، مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ولقد رأیتہ ینزل علیہ الوحي في الیوم الشدید البرد، فیفصم عنہ، وإن جبینہ لیتفصد عرقا‘‘ (بخاری، حدیث:۳)
’’میں نے سخت جاڑے کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھا ہے، جب وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔‘‘
(۳) جبرئیل علیہ السلام کسی انسان کی شکل میں آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پیغام پہنچادیتے تھے؛ چنانچہ حارث بن ہشام کے سوال کے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: ’’وأحیانا یتمثل لی الملک رجلا، فیکلمنی، فأعي ما یقول‘‘ (صحیح البخاری، حدیث:۲) ’’اور کبھی فرشتہ میرے سامنے مرد کی شکل میں آکر مجھ سے بات کرتا ہے، پر جو کچھ اس نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوجاتاہے۔‘‘
اور جبرئیل علیہ السلام عموماً صحابی رسول حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ کی شکل میں آتے تھے۔
وحی کی مصدریت اور مستشرقین کے مغالطے
وحی کی درج بالا تعریف وتنویع سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وحی کا مصدر اور سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ وہی انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کرتا ہے اور انبیاء علیہم السلام اس پیغام الٰہی کو بندگان خداتک پہنچاتے ہیں اور اللہ ہی نے دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی ہے جس کا آغاز غارحراء سے ہوا تھا، اللہ فرماتے ہیں : ’’إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا أَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِہِ‘‘(النساء:۱۶۳) ’’ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے جیسے نوح کے پاس بھیجی تھی اوران کے بعد اور پیغمبروں کے پاس‘‘۔
ان حقائق کے برعکس مستشرقین نے یہ تأثر دیا ہے کہ وحی کا مصدر ومنبع خود نبی کی ذات، ان کا تخلیقی تخیل اور یہودونصاریٰ سے حاصل کردہ افکار ومعلومات ہیں ۔ اس طرح مستشرقین نے کتاب وسنت اور دین و شریعت کی اساس وحی کے من جانب اللہ ہونے کا ہی انکار کردیا ہے اور مختلف طریقے سے مغالطہ دینے اور تشکیک کی کوشش کی ہے۔
نفسیاتی مرض اورمرگی کا اثر
مستشرقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی عناد اور تعصب کی وجہ سے شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے یہ خیال گڑھ لیا کہ وہ نعوذ باللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفسیاتی مرض تھااور آپ کو ہسٹریا اورمرگی کا دورہ پڑتا رہتا تھا۔ اسی کے زیراثر آپ کے پیش کردہ خیالات کو وحی کا نام دے دیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک مستشرق نولڈکے لکھتا ہے: ’’یروی أن محمدًا کثیرًا ما اعترتہ نوبۃ شدیدۃ، حتی أن الزبد کان یطفو علی فمہ، ویشحب وجہہ أو یشتد احمرارہ۔۔۔ وإن فقدان الذاکرۃ ہو أحد أعراض داء الصرع الفعلی، ویقال: ان محمدًا کان یعاني منہا منذ حداثتہ‘‘ (تاریخ القرآن، نولدکہ: ۲۳، ۲۴)
’’منقول ہے کہ محمد پر بہ کثرت سخت دورہ پڑتاتھا، یہاں تک کہ ان کے منہ پر جھاگ آجاتی، چہرے کی رنگت بدل جاتی یا وہ انتہائی سرخ ہوجاتا تھا اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ یادداشت کا جاتے رہنا باقاعدہ مرگی کے مرض کا ایک اثر ہے اور کہاجاتا ہے کہ محمد بچپن سے ہی اس مرض سے دوچار تھے‘‘
مشہور مستشرق ولیم میور نے لکھا ہے:
There were periods of which the excitement took the shape of trance or vision. Of these we know but little. Some carly charistian, writers have described them as epilepteic seizures, and have connected them with the symptoms noticed in his childhood. Such swoons or reveries are said sometimes to have preceded the descent of inspiration even inlaterlife. (Muhamet and Islam. p,32)
’’کچھ وقفات ایسے ہوتے تھے جن میں بے قراری وجد یا کشف کی صورت اختیار کرلیتی۔ اس کے بارے میں ہم تقریباً کچھ نہیں جانتے ہیں ، پہلے ادوار کے بعض عیسائی مصنّفین نے انھیں مرگی کے دورے قرار دیا ہے اور ان دوروں کا تعلق ان کے بچپن میں ملاحظہ کردہ علامات سے جوڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح کی غشی اور جاگتے سپنوں کی کیفیات ان کی مابعد زندگی میں بھی وحی سے پہلے واقع ہوتی تھیں ‘‘۔ (اردو ڈائجسٹ، وجیہہ کوثر، نومبر۲۰۱۸ء)
ان افترا پردازوں نے نزول وحی کی کیفیات کے سلسلے میں جو روایات وارد ہیں جن کا تذکرہ ماقبل میں ہوچکا ہے، انھیں غلط معنی پہناکر اپنا مدعی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؛ چنانچہ حضرت آمنہ کو فرشتوں نے جو بشارت دی تھی، شق صدر کا جو واقعہ پیش آیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی، ان سب کو یہ مستشرقین مرگی اور موروثی طور پر دماغی مرض کے اثرات قرار دیتے ہیں ۔
مرگی کی حقیقت
اس افتراء اور الزام کے بودے پن اور بے ہودگی کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے مرگی کی حقیقت، علامات اور اس پر مرتب ہونے والی کیفیات کو سمجھ لینا چاہیے! علامہ فریدوجدی اس بابت رقم طراز ہیں :
’’مرگی ایک اعصابی بیماری ہے جو مرگی زدگان کے حسّ و شعور کوزائل کردیتی اور انھیں زمین پر گرادیتی ہے، وہ لڑکھڑاتے ہوئے پاگلوں کی طرح سے ادھر ادھر پھرنے لگتے ہیں ، بیماری کے آغاز میں جسم اکڑ جاتا اور چہرے بے رونق اورمردہ سا ہوجاتا ہے، پھر شدت سے جسم کانپنے لگتا ہے اور جبڑے ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ، منہ سے خون ملی جھاگ نکلنے لگتی ہے اورہاتھ ایک دوسرے سے جڑجاتے ہیں ، چند لمحات کے بعد مریض اپنی پہلی حالت پر آجاتا ہے، پھر وہ نیند محسوس کرنے لگتا ہے لہٰذا سوجاتاہے۔ پھر جب وہ بیدار ہوتا ہے تو ایسا محسوس کرتا ہے کہ گویا اسے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا‘‘۔ (دائرۃ معارف القرن العشرین ۵/۴۶۸)
مرگی کے الزام کا رد
اب ہم چند نکات کے ذریعے اس افتراء کا جواب دیتے ہیں :
۱- یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ودیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام ایسے تمام امراض واعراض سے محفوظ رہے ہیں جن سے طبیعت کو گہن اور تنفر ہو اور سماجی اعتبار سے حیثیت کو مجروح کرتے ہوں اور سارے انبیاء کرام عقل ودانش اور حکمت وفطانت کے اعتبار سے نبوت سے قبل بھی ممتاز رہے ہیں اور نبوت کے بعد بھی۔ قرآن کریم نے خود مشرکین کو چیلنج کیا تھا کہ وہ پیغمبر میں اختلال عقل یا دہنی فتور ثابت کرکے تو دکھادیں ۔ ’’قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَۃٍ أَن تَقُومُوا لِلَّہِ مَثْنَی وَفُرَادَی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِکُم مِّن جِنَّۃٍ‘‘(سبأ:۴۶)
’’آپ یہ کہیے کہ میں تم کو صرف ایک بات سمجھاتا ہوں وہ یہ کہ تم خداکے واسطے کھڑے ہوجائو دودو اور ایک ایک پھر سوچوکہ تمہارے اس ساتھی کو جنون نہیں ہے۔‘‘
تو بھلا نبی کو مرگی جیسے مرض سے کیسے متصف کیاجاسکتا ہے جس میں حواس قابو میں نہیں رہتے اور انسان کی عقل کام نہیں کرتی۔ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں : ’’واعلم أن الأمۃ مجمعۃ علی عصمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الشیطان وکفایتہ منہ، لا في جسمہ بأنواع الأذی کالجنون والإغماء، ولا علی خاطرہ بالوساوس‘‘ (الشفا بتعریف حقوق المصطفی: ۲/۱۱۷، بیروت)
امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شیطان اور اس کے تصرف سے محفوظ ہیں ، وہ نہ تو آپ کے جسم پر پاگل پن اور بے ہوشی جیسے امراض طاری کرسکتا ہے اور نہ آپ کے قلب پر وساوس ڈال سکتا ہے۔‘‘
نکتہ:۲- کفار قریش مرگی اوراس کے آثار وعلامات سے خوب واقف تھے، اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرمرگی طاری ہوتی تو سب سے پہلے ان کفار کو آپ پر طعن کا سنہرا موقع ہاتھ لگ جاتا؛ لیکن کہیں سے یہ ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرگی کا الزام لگایاہو۔
بلکہ چودہ زبانوں کے ماہر محقق سیرت نگار ڈاکٹرحمید اللہ فرماتے ہیں : ساٹھ سال کے مسلسل مطالعے اور تحقیق کے دوران مجھے ایک بھی روایت ایسی نہیں ملی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء یا آپ کے اجداد یا آپ کے اقارب میں سے کوئی بھی مرگی سے متاثر رہا ہو، چہ جائیکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے متاثر قرار دیا جائے۔ (الموقع الرسمی للدکتور عدنان)
نکتہ:۳- اکثر مستشرقین یہودی یا عیسائی ہیں ؛ سوال یہ ہے کہ جس وحی کو یہ مرگی کا اثر قرار دے رہے ہیں یہ کوئی نئی چیز تو نہیں ہے؛ بلکہ یہی وحی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر بھی آتی رہی ہے تو کیا یہ اس کو بھی مرگی کا اثرقرار دیں گے، ارشاد باری ہے: ’’إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا أَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِہِ‘‘ (النساء:۱۶۳)
’’ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے جیسے نوح کے پاس بھیجی تھی اور ان کے بعد اور پیغمبروں کے پاس‘‘۔
خصوصیت کے ساتھ یہود کوہ طور پر تجلی رب سے بنی اسرائیل کی موت اور موسیٰ علیہ السلام کے بے ہوش ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، اس کے باوجود نزول وحی کی مذکورہ کیفیات کو کیسے مرگی قرار دے سکتے ہیں ؟
نکتہ:۴- نزول وحی کی جو کیفیات مذکور ہوئی ہیں وہ مرگی کی کیفیات سے یکسر الگ ہیں جیسے کہ وحی کے وقت سخت سردی میں پسینے سے شرابور ہوجانا، سرمبارک کو زمین کی طرف جھکادینا، وزن کا بڑھ جانا وغیرہ غیرمعمولی احوال کا پیش آنا درحقیقت وحی کی ثقالت اور عظمت کی وجہ سے تھا؛ چنانچہ اللہ پاک نے ابتداء امرمیں ہی فرمادیا تھا:
’’إنا سنلقی علیک قولًا ثقیلًا‘‘ (المزمل:۵) ’’ہم آپؐ پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں ‘‘
وحی اورمرگی کی کیفیات میں فرق
نزول وحی کی کیفیات اورمرگی زدہ کے احوال میں زمین آسمان کا فرق ہے:
(الف) مرگی کا جب دورہ پڑتا ہے تو جسم ٹھنڈا پڑجاتا ہے جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت اس کے برعکس ہوتی تھی سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے۔
(ب) مرگی زدہ شخص مخبوط الحواس ہوکر ادھر ادھر جھومتا اور زمین پر گرجاتا ہے اور اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا؛ جب کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت یہ ہے کہ آپ کا دل بھی مضبوط ہے اور جسم بھی۔ منبر پر یا جانور کی پشت پر یا اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے وحی آتی ہے اور آپؐ اسی کیفیت پر رہتے ہیں ، نہ تو اِدھر اُدھر جسم ڈولتا ہے اور نہ غش کھاکر گرتے ہیں ؛ حتیٰ کہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق ایک بار کھانا تناول فرمارہے تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک ہڈی تھی، اسی دوران وحی کے آثار شروع ہوئے اور وحی مکمل ہونے اوراس کی کیفیت ختم ہونے کے بعد بھی وہ ہڈی اسی طرح آپ کے ہاتھ میں رہی۔ نیچے گری بھی! (بخاری:۴۵۱۷)
(ج) مرگی زدہ شخص کو مرگی کے دوران پیش آمدہ احوال بالکل یاد نہیں رہتے؛ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران آنے والی آیات کو خوب اچھی طرح سنتے اورمحفوظ کرلیتے تھے اور کبھی اس شخص کے متعلق بھی دریافت فرماتے جو اس نزول وحی کا سبب بنتاتھا۔
(د) مرگی کے بعد جسم میں اکڑن اور تھکن کی وجہ سے اس کے شکار شخص کو وقفۂ راحت کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاکہ اس کا تعب والم ختم ہوسکے؛ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی، پہلے کی طرح ہی آپ کا جسم توانا اورطاقتور ہوتا تھا۔
(ھ) مرگی زدہ شخص کو اپنے حال پر غم اور افسوس رہتا ہے؛ بلکہ بہت سے افراد اس مرض سے تنگ آکر خودکشی تک کرڈالتے ہیں ؛ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تواس کے بالکل برعکس ہے، آپؐ کو اس حالت پر خوشی اور راحت محسوس ہوتی تھی اوراس کا انتظار کیا کرتے تھے، اگر کچھ عرصے تک وحی کا سلسلہ موقوف ہوا تو روایت میں ہے آپ کو بڑی فکر دامن گیر ہوجاتی تھی۔
اس کے علاوہ بھی جتنے آثار مرگی کے اطباء نے بیان کیے ہیں ان میں سے ایک بھی؛ بلکہ اس جیسی کوئی چیز بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی۔ اس کے باوجود وحی کو مرگی قرار دینا دماغی فتور کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
نکتہ:۵- محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پرمرگی کا الزام عائدکرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ خود مرگی کے شکار لوگ اس سے نجات کے لیے دعاکی خاطر خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے اورمطمئن وبامراد ہوکر واپس لوٹتے تھے، تو اگر خود آپ کو یہ مرض ہوتا تو آپ اپنے لیے دعا نہ کرتے؟ چنانچہ بخاری شریف میں ہے: عطاء بن ابی رباع کہتے ہیں : مجھ سے عبداللہ بن عباس نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسی خاتون نہ دکھائوں جو اہل جنت سے ہے۔ میں نے کہا: کیوں نہیں ، تو انھوں نے فرمایا: اس حبشی خاتون کو دیکھو۔ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اورمیری ستر کھل جاتی ہے؛ اس لیے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کردیجیے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہوتو صبرکرلو اور تمہارے لیے جنت ہے اوراگر چاہوتو میں اللہ سے دعا کردوں کہ تم کو عافیت عطا کردے۔ اس عورت نے جواب دیا: میں صبر کرلوں گی۔ پھر اس نے عرض کیا: البتہ میں برہنہ ہوجایاکرتی ہوں ۔ آپ اللہ سے دعا کردیجیے کہ برہنہ نہ ہوا کروں ؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کردی۔ (بخاری:۵۳۲۸، مسلم:۲۵۷۶)
نکتہ:۶- مستشرقین اوران کے ہم نوائوں کے جھوٹے ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ انھوں نے مرگی کے مرض کو نبوت اور بعثت کے وقت سے وابستہ کردیا ہے، یعنی چالیس سال کی عمر میں نبوت کے بعد یہ مرض ظاہر ہوا، تو سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ مرض کہاں تھا اور اچانک اعلان نبوت کے بعد ہی کیسے ظاہر ہوا؟
نکتہ:۷- یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وحی کے وقت کی شدت اور غیرمعمولی کیفیت کی وجہ سے مستشرقین اس کو مرگی کا اثر قرار دے رہے ہیں تو کیا وحی کی دوسری صورتوں مثلاً خواب، القاء فی القلب اور کسی انسان کی شکل میں جبرئیل کی آمد کو وحی ربانی اور من جانب اللہ مان لیں گے۔ ہرگز نہیں ، ان کا مقصد دراصل وحی اور نبوت کا ہی انکار ہے؛ اس لیے دور کی کوڑی لائے ہیں ۔
بعض مستشرقین کا اعتراف حقیقت
خلاصہ یہ کہ وحی کو مرگی کا اثر قرار دینا تعصب، اندھ بھکتی اور ذہنی دیوالیہ پن کی دلیل ہے؛ اس لیے خود بعض منصف مستشرقین نے اس الزام کو انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ قرار دیا ہے؛ چنانچہ انگریز مؤرخ تھامس کارلائل کہتا ہے: اس طرح کا الزام دلوں کی خباثت، قلوب کے بگاڑ اور جسم کی زندگی میں روح کے مرجانے کی دلیل ہے اور شاید دنیا نے کبھی اس سے زیادہ جھوٹی اور تکلیف دہ رائے کا مشاہدہ نہیں کیا۔‘‘ (الابطال:۵۵، ترجمہ محمد السباعی)
امریکی قلم کار ویل ڈورانٹ نے لکھا:
’’محمدؐ کے یہاں ایسی کوئی چیز نہیں جو عام طور سے مرگی کے دورے کے وقت پیش آتی ہے اورنہ محمدؐ کی تاریخ میں ایسی کوئی بات ہے جس سے پتہ چلے کہ ان کی قوت عقلیہ متزلزل ہوگئی تھی جیساکہ عموماً مرگی کے نتیجے میں ہوتاہے؛ بلکہ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں عمر بڑھتی گئی، ان کی روشن خیالی، قوت فکر، خوداعتمادی اور جسم، روح اور قیادت کی طاقت میں اضافہ ہی ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ کی عمر ساٹھ سال کی ہوگئی‘‘ (قصۃ الحضارۃ:۲۶/۳۱)
جرمن مستشرق فیکس میئر ہوف لکھتا ہے: بعض کی کوشش رہی ہے کہ انھیں محمد(ﷺ ) میں اعصاب کی بیماری میں مبتلا شخص نظر آئے؛ لیکن ابتدا سے لے کر انتہا تک ان کی تاریخِ حیات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کو اس کی دلیل قرار دی جاسکے۔ نیز اس کے بعد جو انھوں نے قانون سازی کی ہے اور نظام حکومت کو چلایا ہے، اس سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔‘‘ (دیکھیے: آراء المستشرقین حول القرآن وتفسیرہ:۱/۴۰۳)
(جاری)
————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :12، جلد:104، ربیع الثانی- جمادی الاول 1442ھ مطابق دسمبر 2020ء
٭ ٭ ٭