مسجد میں دُنیوی گفتگو اور دو روایتوں کی تحقیق

از: مولانا مبین الرحمن

فاض جامعہ دارالعلوم کراچی متخصص جامعہ اسلامیہ طبیہ کراچی

             مسجد نہایت ہی عظمت واحترام کی جگہ ہے، اس لیے اس کے آداب کی پاسداری بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے، اس کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ مسجد کو دنیوی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیاجائے کیوں کہ دنیوی امور اس کے مقاصد میں سے نہیں ؛ بلکہ اس کا بنیادی مقصد عبادات سمیت دیگر دینی امور ہیں ۔

            اسی سے ان حضرات کی غلطی واضح ہوجاتی ہے جو مسجد میں دنیوی باتوں کے لیے محفل لگاتے ہیں ، شور شرابہ کرتے ہیں اور اپنی باتوں کی وجہ سے دوسروں کی نمازوں اور عبادات میں خلل انداز ہوتے ہیں ، یہ نہایت ہی افسوس ناک اور قابلِ اصلاح رویہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ مسجد کو دنیوی باتوں سمیت دیگر دنیوی مقاصد سے پاک رکھے، یہی مسجد کی عظمت، احترام اور ادب کا تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ بھی، ورنہ تو بے ادبی کے نتیجے میں دنیوی اور اُخروی نقصان کا قوی اندیشہ ہے۔ اس دعوتِ فکر کے بعد مسجد میں دنیوی باتوں کا حکم بیان کیا جاتا ہے۔

مسجد میں دُنیوی گفتگو کا حکم

            مسجد میں جھوٹ اور غیبت سمیت ہر قسم کی غیر شرعی اور گناہ والی گفتگو تو ظاہر ہے کہ ناجائز ہی ہے، بلکہ مسجد کے تقدُّس کی وجہ سے ان گناہوں کا وبال مزید بڑھ جاتا ہے؛ البتہ مسجد میں جائز دنیوی  گفتگو سے متعلق متعدد فقہا ئے کرام نے فرمایا ہے کہ مسجد میں دنیاوی باتوں کے لیے بیٹھنا تو جائز نہیں کہ اسی نیت سے مسجد میں بیٹھا جائے؛ البتہ اگر کسی عبادت، دینی مقصد اور نیک کام کی غرض سے مسجد جانا ہو اور وہاں ضمن میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کچھ دنیوی گفتگو بھی کرلی تو اس میں حرج نہیں ۔ (دیکھیے: فتاوی ٰمحمودیہ۱۵/۱۹۸،۱۹۹، اور جواہر الفقہ۳/۱۱۵)

            ٭ البحر الرائق میں ہے:

          وَصَرَّحَ فی الظَّہِیرِیَّۃِ بِکَرَاہَۃِ الحدیث أَیْ کَلَامِ الناس فی الْمَسْجِدِ، لَکِنْ قَیَّدَہُ بِأَنْ یَجْلِسَ لِأَجْلِہِ، وفی فَتْحِ الْقَدِیرِ: الْکَلَامُ الْمُبَاحُ فیہ مَکْرُوہٌ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ، وَیَنْبَغِی تَقْیِیدُہُ بِمَا فی الظَّہِیرِیَّۃِ، أَمَّا إنْ جَلَسَ لِلْعِبَادَۃِ ثُمَّ بَعْدَہَا تَکَلَّمَ فَلَا۔

مسجد میں دنیوی باتیں کرنے سے متعلق بعض احادیث کی تحقیق

            مسجد میں دنیوی باتوں کا حکم بیان کرنے کے بعد مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں دنیوی باتوں سے متعلق وعیدپرمشتمل بعض مروّجہ روایات کا بھی تحقیقی جائز لیا جائے؛ تاکہ ان کی حقیقت واضح ہوسکے۔

            ۱- حدیث مشہور ہے کہ مسجد میں باتیں کرنا نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو یا جانور گھاس کو کھا جاتا ہے۔

            ۲- یہ حدیث بھی مشہور ہے کہ : جو مسجد میں دنیوی گفتگو کرے گا تو اللہ اس کے چالیس سال کے اعمال ضائع کردے گا۔

حکم:

            پہلی حدیث علامہ عراقی، علامہ سفارینی، علامہ سبکی، علامہ سیوطی، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی اور شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہم اللہ کے نزدیک بے اصل ہے، جب کہ دوسری حدیث کو امام صغانی رحمہ اللہ نے من گھڑت قرار دیا ہے۔

            ٭ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع:

            ۱۰۹: حدیث:  الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمۃ الحشیش لم یوجد کذا فی المختصر۔

            ٭ کشف الخفاء ومزیل الإلباس:

            ۱۱۲۱: الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمۃ الحشیش۔ قال القاری نقلا عن المختصر:  إنہ لم یوجد۔ انتہی، والمشہور علی الألسنۃ الکلام المباح فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب، وذکرہ فی الکشاف باللفظ الأول۔

            ٭ المغنی عن حمل الأسفار:

            ۴۱۰: حدیث: الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمۃ الحشیش لم أقف علی أصلٍ۔

            ٭ تذکرۃ الموضوعات:

            ’’من تکلم بکلام الدنیا فی المسجد أحبط اللّٰہ أعمالہ وأربعین سنۃ قال الصغانی:  موضوع۔

            تنبیہ: مذکورہ بالا دونوں روایتوں کے غیر معتبر اور بے اصل ثابت ہونے سے اصل مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس لیے مسجد میں دنیوی باتوں سے متعلق حکم وہی ہے جو شروع میں بیان ہوچکا۔

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:104‏،  ربیع الثانی-  جمادی الاول 1442ھ مطابق  دسمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts