از: حضرت مولانا غلام اکبر لاشاری

فاضل  وفاق المدارس و جامعہ اشرفیہ لاہور

            اصحاب رسولﷺ کے معیار ایمان اور معیار حق ہونے پر قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول ﷺ شاہدہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَواْ‘‘(البقرۃ (البقرہ:۱۳۷) ترجمہ: اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لاے تو یہ بھی ہدایت پا جائیں گے۔ گویا نزول قرآن کے زمانہ میں تو حضورﷺ کے اولین صحابہؓ معیار قرار پاے ؛  مگر بعد میں آنے والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ بھی ان کا طریقہ اختیار کریں ، وہ بھی اسی معیارپر  پرکھے جائیں گے۔یہ آیت صحابہ کرامؓ کے معیار ایمان اور معیار ہدایت ہونے پر نص صریح ہے۔

            سید نورالحسن شاہ بخاریؒ اپنی مایہ ناز کتاب  ’’الاصحاب فی الکتاب‘‘ میں ابن ابی حاتم کے حوالہ سے حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن صوریا (یہودی) نے نبیﷺ سے کہا  ہدایت تو وہی ہے جس پر ہم ہیں ! اے محمد!آپ ہماری اتباع کریں ہدایت پا جائیں گے اور نصاریٰ نے بھی اسی طرح کہا  تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مذکورہ نازل فرمائی۔(الاصحاب فی الکتاب ص:۲۸۷)

خود نہ تھے جو  راہ  پر  اوروں کے ہادی  بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

            شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں :

            کیا عظیم قدر ا ور جلیل شان ہے غلامان رسولﷺ کی کہ جن کے آثار قدوم پرجبینِ نیاز و خلوص دھرنے اور سرتسلیم و انقیاد رکھنے سے جنت ملتی ہے اور حدود فکر و تصور سے بلند و بالا کیا شان ہے حضورﷺ کی کہ جن کی غلامی سے صحابۂ کرامؓکو یہ مقام نصیب ہوا  اور جن کے فیض صحبت  سے انہیں یہ سعادت ملی۔

            سورہ نساء میں ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے:’’وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا‘‘ (النساء:۱۱۵)۔ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد بھی پیغمبرﷺ کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا  اور  رستے پر چلے توجدھر وہ چلتا ہے تو ہم اسے ادھرہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

            اس آیت میں جہنم کی وعید میں مخالفت رسولﷺ کے علاوہ سبیل المومنین کے سوا کسی اور رستے کی پیروی کو بھی شریک کیا گیا ہے؛چونکہ مومنین کی  سب سے پہلی اور افضل جماعت صحابۂ کرامؓ ہی ہے۔

            اس آیت مبارکہ سے دو باتیں معلوم ہوئی ہیں (۱) رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓکا راستہ ایک ہی چیز ہے اور آپ ﷺ کی اتباع صحابۂ کرامؓ ہی میں منحصر ہے اور صحابۂ کرامؓکے راستے کی مخالفت  دراصل رسول اللہﷺ کے طریقہ کی مخالفت ہے۔ (۲) شان نزول کے لحاظ سے یہ آیت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں ہے؛ مگر عموم الفاظ کے پیش نظر عام امت کے اجماع کی حقانیت پر دلیل بھی ہے؛ اس لیے حضورﷺ نے فرمایا: ما انا علیہ واصحابی  یعنی ہدایت یافتہ وہی لوگ ہیں جو میرے اور میرے صحابہؓ کے طریقے پر ہوں گے باقی سب گمراہ ہوں گے۔

            گویا آپﷺ کے مسلک اور آپﷺ کے صحابہؓ کے مسلک میں کوئی فرق اور تفاوت نہیں ؛ تاہم مستقل طور پر اس مسلک  اور طریق کو اس لیے ذکر فرمایا ہے؛ تاکہ انسانیت ان کو نظر انداز کر کے  صرف اتباع رسولﷺ پرقناعت نہ کر لے؛ کیونکہ اتباع و اطاعت رسولﷺ کی  وہی شکل معتبر ہے جو اصحابؓرسولﷺ کے اعمال و افعال اور یاران نبیﷺ کی  سیرت و کردارمیں جلوہ گر ہے اس کے علاوہ جو بھی راستہ ہے وہ ناقابل اعتبار و قبول ہے۔ گویا فرقہ ناجیہ کی علامت صحابیت کی تعظیم و تکریم اور صحابہ ؓ  کا  وقار  و احترام  اور ان کی تقلید و اتباع ہے۔ لہٰذا  جو حضورﷺ کی اتباع و اطاعت  تو  کرتا ہے؛ مگر اصحاب رسول ﷺ کی اتباع و تقلید اور پیروی سے رو گردانی کرے تو وہ فرقہ ناجیہ سے خارج ہے۔

            قرآن مجید کی بے شمار آیات  ایسی ہیں جو صحابۂ کرامؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔ان نفوس قدسیہ کے ایمان کی گواہی و شہادت باری تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں بار بار دی ہے اور ان کے ایمان کو معیاری قرار دے کر تمام انسانوں کی ہدایت کے ساتھ مشروط کیاہے۔ لہٰذا ایمان اور ایمانیات  میں صحابہ کرامؓکی اتباع شرط ہدایت ہے۔ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن معقلؓ سے روایت نقل کی گئی ہے  لوگو! میرے صحابہؓکے بارے میں اللہ سے ڈرنا، لوگو! میرے صحابہؓکے بارے میں اللہ سے ڈرنا، ان کو میرے  بعد اعتراضات کا نشانہ  نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا تو مجھ سے محبت کی بنا پر محبت کرے گا اور جو ان سے دشمنی کرے گا تو مجھ سے دشمنی کی بنا پر دشمنی کرے گا، جو ان کو دکھ دے گا  اس نے مجھے دکھ دیا، اور جس نے مجھے دکھ دیا اس نے اللہ تعالیٰ کو ستایا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو ستایا تو عنقریب اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار کرے گا۔

            رحمت کونینﷺ کے اس ارشاد مقدس میں یارانِ رسولﷺ کی بڑی مدح و منقبت ہے اتنی بڑی کہ  اس سے بڑی ممکن نہیں ۔ مذکورہ حدیث میں حضورﷺ نے اپنے ان عشاق اور جانثاروں کو  اپنا بنا لیا  اور اس حد تک  اپنے میں جذب فرما لیا ہے کہ اب ان کی محبت حضور کی محبت ہے اور ان سے بغض و عداوت حضورﷺ سے بغض و عداوت ہے، ان کی تکلیف و اذیت خود حضورﷺ کی تکلیف و اذیت ہے  اورحضورﷺ کی ایذاء و تکلیف اللہ تعالیٰ کی ایذاء و تکلیف ہے۔ قرب و وصل اور محبت و توجہ کا جو تعلق خدا اور رسولﷺ کے درمیان ہے، محبوب خدا جس طرح خدا کو پیارے ہیں اسی طرح یاران مصطفیﷺ بھی محبوب خدا ہیں اور جو حضورﷺ کو ایذا دیتا ہے  وہ خدا کو ایذا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح  اصحاب رسولﷺ کو ایذا دینے والا در حقیقت خدا کو ایذا دیتا ہے  اور جو اللہ تعالیٰ کو ایذا دیتا ہے  وہ خود سوچ لے اس کا ٹھکانہ کیا ہو گا؟۔

            محقق العصر علامہ خالد محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ(پی ایچ ڈی لندن) اپنی مایہ ناز تصنیف عبقات  جلد دوم میں رقم طراز ہیں صحابۂ کرامؓ تو بطور طبقہ کے امت کے مقتدا ٹھہرے اور آئمہ اربعہ  بطور مجتہدکے امت کے علمی امام قرار پاے۔ امت کا تسلسل اسی طرح آگے چلا  اور اسی سے امت کی شاہراہ عمل قائم ہوئی صحابہ کرامؓ کے علمی اختلافات بھی اس امت میں رحمت سمجھے گئے۔ تمام آئمہ صحابہ کرامؓ کی پیروی کو واجب قرار دیتے ہیں اور دوزخ سے نجات بھی ان کی پیروی کر کے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

            اما م اعظم ابو حنیفہؒ قرآن و سنت کے بعد بلا استثناء صحابۂ کرامؓ کے اقوال کو دین میں حجت سمجھتے تھے۔اگر کسی مسئلہ میں کسی صحابی ؓ سے کچھ مروی ہوتا تو اپنا اجتھاد و رائے چھوڑ دیتے۔ آپ کا یہ قول مشہور ہے پہلے میں کتاب اللہ سے استدلال کرتا ہوں اگر اس میں مجھے دلیل نہ ملے تو رسول اللہ ﷺ کی سنت کو لیتا ہوں اور اگر اس میں بھی مجھے دلیل نہ ملے تو میں حسب مرضی صحابہ کرامؓکے اقوال  سے استدلال کرتا ہوں اور ان کا قول چھوڑکردوسروں کے قول کی طرف نہیں جاتا۔(تہذیب التہذیب ج۱،ص۴۵۰)

            امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں جب تک قرآن و سنت میں  دلیل موجود ہو  تو اس کا علم رکھنے  والے کو قرآن و سنت کی اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہیں  اور اگر قرآن سنت میں دلیل موجود نہ ہو تو  ہم صحابۂ کرامؓ کے سب اقوال کی طرف یا ان میں سے کسی ایک کے قول کی طرف رجوع کریں گے۔ اورصحابۂ کرامؓ کی اتباع دوسروں کی اتباع کی نسبت ہمیں زیادہ مناسب ہے۔ (ازالۃالخفا،ج۱،ص۶۴)

            امام مالکؒکے ہاں بھی صحابہ کرامؓ کی تکریم کا خاص اہتمام؛ بلکہ آپ تو صحابۂ کرامؓکی تعظیم کے بارے میں بہت زیادہ سخت تھے۔

            ائمہ مجتہدین کی طرح علماء اصول فقہ، علماء علم الکلام و عقائد غرض صحابۂ کرامؓکے معیار حق اور معیار ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اتباع و تقلید اور پیروی کو واجب تسلیم کرتے ہیں ،ان کے قول کو حجت مانتے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ کی ذات کو اگر درمیان سے نکال دیا جائے تو دین اسلام کی بلند و بالا  عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے خود حضورﷺ نے اپنے عالی شان اورعظیم المرتبت صحابہ کرام ؓ کو آسمان ہدایت کے نجوم ہدایت قرار دیا ہے۔ ان کی تنقیص و تقصیر در حقیقت خاتم المرسلین ﷺ کی ذات پر عدم اعتماد تصور ہوتا ہے۔ اللہ جل جلالہ ہمیں حضورﷺ کی سنت اور صحابۂ کرام ؓکی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :12،    جلد:104‏،  ربیع الثانی-  جمادی الاول 1442ھ مطابق  دسمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts