سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں :
اکثر فقہائے کرام نے وضو میں چہرے کی حد بیان کرتے وقت اسفل ذقن کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اسفل ذقن کا مصداق کیا ہے؟ کیا ٹھوڑی کے نیچے کا حصہ بھی چہرے کی حدود میں داخل ہے، صاحب خلاصہ الفتاوی نے لکھا ہے: وما تحت الذقن لا یجب إیصال الماء الیہ اور علامہ قہستانی لکھتے ہیں : وأسفل الذقن بفتحتین مجتمع اللحیین، والمراد حدتہ عند البعض وأقصی ما یبدو للمواجہۃ عند الأکثرین، فأسفلہ في الوجہین غیر داخل في الوجہ (جامع الرموز) اور حضرت مولانا ظفراحمد عثمانیؒ نے امداد الاحکام (۱/۳۴۳) میں لکھا ہے کہ ٹھوڑی اور حلق کے درمیان جو عضو ہے، وہ چہرے کی حدود میں داخل ہے، صحیح بات کیا ہے اور فقہائے کرام کی عبارتوں کا کیا مطلب ہے؟ مدلل ومفصل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں ۔
المستفتی: محمد جعفر گودھرا
متعلّم دارالعلوم دیوبند
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما الجواب وباللّٰہ التوفیق علامہ حصکفی ذقن کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أی منبت أسنانہ السفلی، علامہ شامی فرماتے ہیں : (قولہ: أي منبت أسنانہ السفلی) تفسیر للذقن بالتحریک: أي إلی أسفل العظم الذي علیہ الأسنان السفلی: وہو ما تحت العنفقۃ، یعنی نیچے والے ہونٹ کے نیچے جو بال نظر آتے ہیں ، جس کو ڈاڑھی بچہ کہا جاتا ہے اُس کے نیچے کی جو ہڈی ہوتی ہے، جس پر نیچے والے ہونٹ جمتے ہیں ، اس پوری ہڈی کو نیچے تک ذقن کہا جاتا ہے، یعنی ذقن ٹھوڑی کو کہتے ہیں جس کا کچھ حصہ اوپر اور کچھ حصہ نیچے ہے، فقہاء نے پوری ٹھوڑی کوبشمول نیچے والے حصے کے وضو میں دھونا فرض قرار دیا ہے، صرف ظاہری حصہ میں ٹھوڑی کے کنارے تک دھونا کافی نہیں ہے، عرف میں بھی ٹھوڑی اس پورے حصے کو کہا جاتا ہے، اسی کو بعض فقہاء نے منتہائے ذقن اور اقصائے ذقن سے تعبیر کیا ہے، بعض فقہاء نے ذقن کی تشریح مجتمع اللحیین سے کی ہے یعنی ایک کان کے نیچے سے شروع ہوکر گولائی میں دوسرے کان کے نیچے تک تسلسل کے ساتھ جو ہڈی چلی آئی ہے، اس کو جبڑا کہا جاتا ہے اور دونوں طرف کی ہڈیاں درمیان میں جہاں ملتی ہیں ، وہ حصہ ذقن کہلاتاہے، اس ہڈی کواگر چھوکر دیکھا جائے تو اس کا کچھ حصہ بچہ ڈاڑھی کے نیچے سامنے کی طرف ہے اور کچھ حصہ نیچے کی طرف ہے، تو وضو میں نیچے کی طرف کا جو حصہ ہے اس کو بھی دھونا فرض ہے اور ذقن کی ہڈی کے بعد حلق کااعلی حصہ شروع ہوجاتا ہے، جو چھونے سے نرم محسوس ہوتا ہے، پھر حلق کا درمیانی حصہ آتا ہے اور آخر میں حلق کا اسفل حصہ ہے، حلق کے اعلی حصہ کو تحت الذقن کہا جاتا ہے، وضو میں جس کا دھونا ضروری نہیں ہے، خلاصۃ الفتاویٰ میں اس حصے کو چہرے کی حد سے خارج قرار دیتے ہوئے عدم غسل کا حکم لکھا ہے اور علامہ قہستانی کی عبارت: فأسفلہ في الوجہین غیر داخل في الوجہ میں اسفل سے مراد اسفل ذقن نہیں ہے؛ بلکہ اقصائے ذقن کے بعد والا حصہ مراد ہے، جس کو خلاصۃ الفتای میں تحت الذقن سے تعبیر کیاگیا ہے، جیساکہ جامع الرموز کی شرح کی اس عبارت سے واضح ہے: (قولہ: أسفل الذقن بفتحتین مجتمع اللحیین، والمراد حدتہ عند البعض وأقصی ما یبدو للمواجہۃ عند الأکثرین، فأسفلہ في الوجہین غیر داخل في الوجہ) وفي حاشیۃ المولوي عصام الدین لشرح الوقایۃ قیل: ینبغي أن یفسر أسفل الذقن بما ہو خارج من الوجہ کقصاص الشعر وشحمۃ الأذن خارجین من الوجہ لئلا یکون تحدید الوجہ تارۃ بما ہو داخل وتارۃ بما ہو خارج فیفوت التناسب، فعند البعض نہایۃ الوجہ حدۃ الذقن، وعند الأکثرین بما یبدو للمواجہۃ، فینبغي أن یفسر أسفل الذقن بما یتصل بأحد ہذین الأمرین، لا بأحدہما، وہذا کلام حسن۔ (جامع رموز الروایۃ في شرح مختصر الوقایۃ مع شرح غواص البحرین في میزان الشرحین) اور امداد الاحکام میں جو مسئلہ لکھا گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسفل ذقن ہی کی ایک دوسری تعبیر ہے، یعنی ٹھوڑی کے نیچے سے حلق (یعنی نرم حصہ شروع ہونے) تک دھونا فرض ہے؛ اس لیے کہ ٹھوڑی ختم ہوتے ہی حلق کا حصہ شروع ہوجاتا ہے، ٹھوڑی اور حلق کے درمیان کوئی دوسرا عضو ہے ہی نہیں ، علامہ عثمانیؒ کی مراد یہ نہیں ہے کہ اسفل ذقن کے بعد حلق کا ابتدائی حصہ چہرے کی حد میں داخل ہے؛ بلکہ ان کی مراد یہی ہے کہ ٹھوڑی کا نچلا حصہ حلق سے پہلے پہلے چہرے کی حد میں داخل ہے، جیساکہ متعلقہ فتوی کی ابتداء میں ان کی تعبیر سے یہ مراد واضح ہے، علامہ عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ چہرے کی حد عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک ہے اور لمبائی میں سر کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے حلق تک ہے۔ (امداد الاحکام: ۱/۳۴۳، مطبوعہ: مکتبہ دارالعلوم کراچی) حاصل یہ ہے کہ سوال میں مذکور عبارتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
فقط واللّٰہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
محمد مصعب عفی عنہ
۱۱؍۱۰؍۱۴۴۱ھ
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ
وقار علی غفرلہ، زین الاسلام قاسمی
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
==============================
————————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭