خطۂ کوکن کا ایک سپوت

حضرت مولانا امان اللہ قاسمی جوار رحمت میں

از:مولانا رشید احمد فریدی

استاذ مدرسہ مفتاح العلوم ،تراج ،سورت ،گجرات

            کل نفس ذائقۃ الموت موت ایک تلخ حقیقت ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو یاد کیا کرو۔ موجودہ وقت میں ملک کے اندر ’’کرونا ‘‘کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی حالت میں لوگوں کو جہاں معاش کی تنگی سے پریشانی لاحق ہے وہیں اللہ کے خاص اور مقرب بندے بزرگان دین اور علمائے ربانی یکے بعد دیگرے تیزی سے آخرت کا استقبال کر تے جارہے ہیں کہ باقی ماندہ مسلمان بھی متفکر ہیں اور موت کی یاد ہر ایک کے لیے ایک تازیانہ بن کر کھڑی ہوگئی ہے ۔

موت سے کس کو رستگاری ہے             آج وہ کل ہماری باری ہے

(شوقؔ لکھنوی)

             مدرسہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کوکن(ضلع:رائے گڈھ مہاراشٹر)کے باوقار مہتمم و روح رواں اور بانیِ مدرسہ جناب عبدالرحیم صاحب بروڈ شریوردھن کے بڑے صاحبزادے ،دار العلوم دیوبند کے فاضل ،حضرت مولانا سید عبدالرزاق صاحب نظیر اور قطب بمبئی حضرت مولانا سید شوکت علی صاحب نظیر ؒ کے منظور نظر، علمائے کوکن کے محبوب اور کوکن کے عام مسلمانوں کے معتمد علیہ حضرت مولانا امان اللہ صاحب بروڈ ۱۲؍ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ-۴؍جولائی ۲۰۲۰ء بروز شنبہ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے ، إنّا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، للّٰہ ما اعطی ولہ ما أخذ وکل شیء إلی اجل مسمی، اللّٰہم اغفرہ وارحمہ و سکنہ فی الجنۃ۔

            مولانا کی پیدائش ۸؍جون۱۹۵۳ء موافق ۱۳۷۳ھ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن شریوردھن ہی میں اردو میڈیم سے ساتویں کلاس تک پڑھے اس کے بعد جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے آغوش علم میں آگئے اور درجہ حفظ میں جناب حافظ اسماعیل بسم اللہ صاحبؒ کے پاس داخل ہوئے جن کی حفظ کی تعلیم بہت عمدہ تھی ،حافظ قرآ ن ہونے کے بعدعا  لمیت میں فارسی سے لے کر درجہ عربی پنجم تک جامعہ میں مکمل کر کے نسبت قاسمی سے جرعہ نوشی کے لیے از ہر ہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور درجۂ مشکاۃ میں داخلہ لے کر دورئہ حدیث سے۱۹۷۸ء میں فراغت پائی ۔دورۂ حدیث کے ہمدرس رفقاء میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا ابراہیم صاحب پانڈور افریقی خادم خاص حضرت فقیہ الامت ؒ کے اسمائے گرامی کا ذکر کافی ہے ۔

            فراغت کے بعد وطن آکر اپنے والد بزرگوار کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ حسینیہ عربیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے ،تحفیظ القرآن  سے درجہ عا  لمیت تک بڑھتے رہے یہاں تک کہ جب حضرت مولانا سید عبد الرزاق صاحب نظیر تلمیذ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ مدرسہ کے اہتمام سے بالکلیہ سبکدوش ہوگئے تو مولانا (امان اللہ صاحب) اہتمام کے مسند پر فائز کیے گئے اور تدریس کی بوریہ نشینی بھی باقی رکھی ۔

            حضرت مولانا امان اللہ صاحب تقریباً چالیس سال سے اہتمام مدرسہ کو سنبھال رہے تھے اس طویل عرصے میں نشیب و فراز کافی آئے؛ مگر بڑی حکمت اور پامردی کے ساتھ سرپرستان مدرسہ مولانا سید شوکت علی صاحب نظیراور مولانا سید عبدالرزاق صاحب نظیرکے ناصحانہ مشوروں سے مدرسہ کو جمایا، بڑھایا اور استحکام عطا کیا آج یہ مدرسہ خطۂ کوکن کے متعدد چھوٹے بڑے مدرسوں کے لیے ام المدارس کے مقام پر ہے اور چوں کہ کوکن کی اکثر بستیاں جس میں بمبئی کا بھی ایک حصہ شامل ہے امام شافعی ؒ کے فقہ پر گامزن ہیں ؛ اس لیے یہ مدرسہ مسلک شافعی کا علمبردار ہے ۔

            مولانا کی سوانح زندگی تو امید ہے کہ کوئی ان کا شاگرد مرتب کرے گا؛ البتہ بعض خوبیاں ایسی ہیں کہ مولانا کو دیکھنے والا ہر کوئی شخص محسوس کرتا تھا او ان سے تعلق رکھنے والا متأثر ہوتا مثلاً آپ ہمیشہ طلاقت ِوجہ سے ہر ایک سے ملاقات کرتے تھے ،چہرہ منبسط رہا کرتا تھا، کم گو تھے مگر ’’قلّ و دلّ‘‘ بولتے تھے  اور جب بھی بولتے تبسم اور ضحک کی خوشبو ئیں ساتھ ہوتی تھیں ،اساتذہ مدرسہ کے ساتھ دوستانہ طور سے ملتے تھے نہ کہ حاکمانہ انداز سے ،طلبہ کے ساتھ بہت زیادہ شفقت تھی مگر پھر بھی طلبہ مرعوب رہتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا رعب عطا کیا تھا ،دو مخالف شخصوں یا گروہ میں مصالحت اور جھگڑوں کے ختم کرانے میں اچھا رول ادا کرتے تھے ،شریوردھن ضلع رائے گڈھ کے عام مسلمان بھی آپ کو اپنا راہنما تسلیم کرتے تھے اور صلاح و مشورہ کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے ،مدرسہ شہر سے دو کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے گھر سے مدرسہ اور مدرسہ سے شہر موٹر سائیکل پر آتے جاتے تھے اگر کبھی کوئی مدرس یا طالب علم پیادہ پا مل گیا تو بلا تکلف اسے اپنا ردیف بنا لیتے تھے ،کئی مرتبہ راقم الحروف کے ساتھ بھی یہ نوبت آئی ہے اورجب بندہ گاڑی سے اتر کر ان سے رخصت ہوتا تو سلام کے بعد بس’’فی امان اللہ‘‘ کہہ دیتا تھا ۔

            ایک کمال یہ بھی ہے کہ مولانا امان اللہ صاحب ؒ فقط مہتمم نہیں تھے بلکہ ایک اچھے مدرس بھی تھے اہتمام کے اس طویل دور میں تدریسی سلسلہ بھی برابر قائم تھا فقہ و ادب وغیرہ کی مختلف ایک دو کتابیں الگ الگ درجوں میں زیر درس رہتی تھیں ۔ آج کل یہ وصف ارباب اہتمام کے لیے قلیل ہے۔

            دعوت و تبلیغ سے بھی خاص تعلق تھا بندہ کے مدرسہ حسینیہ میں چہار سالہ ۱۴۰۸ھ سے ۱۴۱۱ھ تک قیام کے دوران جب بھی ضلع رائے گڈھ کا اجتماع ہوتا تو راقم الحروف اور مولانا عبد السلام حَجّو دونوں پابندی سے اجتماع میں شریک ہوتے تھے اس سلسلہ میں کبھی بھی مہتمم صاحب نے بطور شکایت بازپرس نہیں فرمائی؛بلکہ ہمار ی طرف سے اجتماع کی کارگزاری بشاشت سے سنتے تھے گویا مدرسہ کی طرف سے نمائندہ ہوتے تھے ۔

            طلبہ کی صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ان کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیتے اور اساتذہ سے تربیت کی فرمائش بھی کرتے رہتے تھے ،نماز باجماعت کے اہتما م کے لیے بعض استاذوں کو ذمہ دار بھی بناتے تھے اور ذمہ دار کی طرف سے طلبہ کی شکایت آنے پر اس کی تحقیق کرتے اور معقول تنبیہ بھی فرماتے تھے، بلا تحقیق طالب علم کی سرزنش نہیں کرتے تھے ۔

            ضیافت کا بھی مزاج رکھتے تھے ،سال میں کبھی دو یا تین مرتبہ صرف اساتذہ کرام کی مجلس منعقد کرتے جو ایک طرح کی تعلیمی و تربیتی مذاکرہ اور مشاورہ پر ہوتی تھی انداز دوستانہ اور ناصحانہ ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اس میں سرپرست مدرسہ مولانا سید شوکت صاحب نظیر بھی ہوا کرتے تھے اور اختتام پر اکل و شرب  کی صرف صغیر کے ذریعہ اساتذہ کی زبان و دہن کو شیرین بھی رکھتے تھے۔

            سرزمین کوکن میں عموماً اور شریوردھن کی زمین میں خصوصاً حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے انفاس قدسیہ کی برودت پیوست ہے اور جب حضرت شیخ الاسلام نے سفر کوکن کے اختتام پر شریوردھن میں سر برآوردہ لوگوں کے سامنے اپنے قلبی احساس و درد کا اظہار یوں فرمایا تھا ’’کوکن کے اتنے بڑے علاقے میں کوئی دینی ادارہ نہیں اور نہ کوئی حافظ ہے بڑے فکر کی بات ہے‘‘ حضرت کے دردبھرے سانسوں کی حرارت کو مولانا امان اللہ صاحب کے والدجناب حاجی عبد الرحیم صاحب بروڈ نے جذب کر لیا اور آپ کے قلب ودماغ پر دینی حمیت چھا گئی اور حضرت مدنی ؒ سے جو عشق و محبت قائم ہوئی تھی اس کے آثار یوں نمایا ں ہونے لگے کہ حاجی صاحب نے جب مدرسہ کی بنیاد رکھی تو حضرت شیخ الاسلام کی طرف انتساب کر کے مدرسہ حسینیہ اور مجلس شوری قائم کی گئی تو ’’مدنی مجلس‘‘ کا نام تجویز کیا اور کسب معاش کے لیے دوکان شروع کی تو ’’مدنی اسٹور ‘‘نام رکھ لیا  بہر حال اس پورے گھرانے پر حضرت شیخ الاسلام ؒ کی محبت کا سایہ ہے۔

            غالباً وہی مدنی عشق کی سوزش تھی جس نے مولانا امان اللہ کے وجود جسمانی کو گرم اور متحرک کر رکھا تھا چنانچہ سرزمین ہند پر بسنے والے انسانوں کی بے لوث خدمت کے لیے ’’جمعیۃ العلماء‘‘کے پلیٹ فارم سے قرب و جوار اور دور دراز علاقوں میں جہاں تک ممکن ہوسکتا رواں اوردواں ہوتے اور حوادث کے شکار و مصیبت زدوں کی خدمت میں کوشاں رہتے تھے آپ کے خلوص اور خدمت کے نتیجے میں جمعیۃ العلماء ہند کے نائب صدر کی حیثیت سے منتخب ہوکر غرباء و مساکین اور دیگر حاجتمندوں کے لیے سہارا بنے ہوئے تھے۔         

            وفات سے چند سال قبل اللہ تعالیٰ نے نقشبندی مشرب سے سیرابی کاراستہ بھی آپ کے لیے ہموار کردیا وہ یہ کہ حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لیے ’’زامبیا‘‘ کا سفر کیا  بالآخر حضرت پیر صاحب مدظلہ العالی نے اپنے سلسلۂ مروارید میں شامل فرما کرمولاناکو چشمۂ فیض جاری کرنے کی اجازت سے سر فراز فرما یا  اس سنہرے موقع پر حضرت مولانامحمد سلمان صاحب بجنوری زیدمجدہٗ استاذ ومدیر ماہنامہ دارالعلوم دیوبندعینی شاہد ہیں ؛کیونکہ وہ بھی اس روحانی دولت کے پانے میں مولانا کے قرین تھے۔

            آخر کار بچپن کی آزادی اور پھر پچپن سال کی پابندی سب کو ملاکر عمر کی ۶۸؍بہار وخزاں سے گذر کر خاک وطن کو سینہ سے لگالیا اور نَمْ کَنَوْمَۃِ العُرُوْس کی حلاوت پاکر دنیا کی تلخی سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی قبر کو باغیچۂ جنت بنائے ،آمین۔

            غرض حضرت مہتمم صاحب میں بہت سی خوبیاں تھیں یہ چندمشتے نمونہ از خروارے سپرد قرطاس کردیا گیا ،حضرت مولانا کے انتقال سے یقیناجامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن میں ایک بہت بڑا خلا ہوگیا ہے جس کا تدارک بظاہر مشکل ہے؛ البتہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مدرسہ کو نعم البدل عطافرمائے اور اندرونی و بیرونی ایسا اختلاف جو خلفشار اور شقاق کا سبب ہو جو باثر شخصیت کی وجہ سے دبا رہتا ہے اس سے اہل مدرسہ خصوصاً اور اہل شہر کو عموماً محفوظ رکھے ،اللہ تعالیٰ مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے!آمین

—————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts