(۱)

            نام کتاب             :           حیاتِ سعید

            تالیف                :           حضرت مولانا مفتی محمدامین پالن پوری زیدمجدہٗ

            استاذ حدیث ومرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند

            تعداد صفحات        :           ۴۰۰      قیمت:     ۱۲۰؍ روپے

            ناشر                   :           مکتبہ حجاز، نزد قاضی مسجد دیوبند (09358914948)

            تعارف نگار           :           مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند

============================================

            استاذ محترم حضرت فقیہ النفس مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی حیات وخدمات، اوصاف وکمالات، خصوصیات وامتیازات پر اہلِ قلم خصوصاً شاگردان خوب لکھ رہے ہیں ، چھوٹے بڑے مضامین، کتابچوں اور رسائل ومجلات کے خصوصی نمبرات کی کثرت سے ہرقاری شخصیت کی عبقریت کا اندازہ کرسکتا ہے؛ لیکن ساری تحریریں تاثراتی ہیں ، پوری شخصیت کسی ایک میں مکمل طور پر ابھر کر نہیں آتی۔ ’’حیات سعید‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں زندگی کا پورا عکسِ جمیل موجود ہے، یہ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس میں صاحبِ حیات سر سے پیر تک اپنے رنگ وروپ، چال وڈھال، خدوخال اور لباس وپوشاک کے ساتھ بڑے صاف نظر آرہے ہیں ، یہ گھر کی گواہی ہے، ’’صاحبُ البیتِ أدْریٰ بما فیہ‘‘ (گھر والا ہی اس میں رکھی ہوئی (کھلی اور چھپی) چیزوں کواچھی طرح جانتا ہے) وفات کے چند دنوں بعد حضرت مرتب محترم نے سارے اہلِ خانہ اور اہلِ تعلق سے مشورہ فرمایا تو بالاتفاق طے ہوا کہ آپ ہی سب سے زیادہ موزون ہیں ، حقیقی بھائی ہیں ، زندگی کے ساتھی ہیں ، شاگرد رشید ہیں ، خادم ہیں ، مشیرکار اور ہر خوشی وغم کے شریک ہیں ، آپ ہی لکھیں ؛ چنانچہ موصوف نے طے کیا کہ ’’الخیرالکثیر شرح الفوز الکبیر‘‘ میں شامل خاکے میں اضافہ کروں گا اور مختصر سے مختصر انداز میں خاکۂ زندگی تیار کروں گا، امتیازات و خصوصیات، اہم ترین کارناموں اور خانگی معلومات درج کروں گا؛ مگر جب شروع فرمایا تو چار سو صفحات پر دم لیا۔ گھر والوں کے لیے تعزیت نامے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ، ان میں سے ننانوے کے شامل کرنے کا ارادہ فرمایا، پھر مراثی میں سے زبان وبیان کی عمدگی کو دیکھ دس کو منتخب فرمایا پھر ایک لوح تاریخ پر نظر پڑی چھوڑنا مناسب نہ سمجھا؛ چنانچہ اصل زندگی تو ایک سو آٹھ صفحات میں ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کی طرح سمو دی گئی ہے اس میں ولادت، تعلیم وتربیت، فتوی نویسی، بلاتنخواہ تدریسی خدمات، اسناد حدیث نبوی، تحفظ ختم نبوت سے متعلق کارنامے، تصانیف کا تعارف، قرآن وسنت سے شغف اور اصلاح وتبلیغ کے لیے ملکی وغیرملکی  اسفار، اجازت بیعت وارشاد، والدین، بھائی بہنوں اور اولاد واحفاد کا تذکرہ، آخری درس بخاری اورآخری سفر کو اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے، پھر آخری صفحات میں ۳۳۲ سے ۴۰۰) حضرت کے خصوصی مشن پر جامع گفتگو فرمائی ہے۔ دیوبندیت کے تعارف میں خود حضرت کی تحریر پیش فرمائی ہے، پھر افراط وتفریط سے اعتدال کی طرف لانے والی کوششوں کو ذکر فرمایا ہے اور صرف قصیدہ خوانی نہیں ؛ بلکہ بعض ان تصنیفی تسامحات اور ان مسائل کو بھی ذکر فرمایا ہے جن سے حضرت نے رجوع فرمالیا۔

            مرتب محترم نے اگرچہ یہ اعتراف فرمایا ہے کہ میں ادیب نہیں ہوں ؛ مگر زبان وبان کے لحاظ سے بھی کتاب بڑی اچھی سلاست وروانی، محاورات واستعارات کے استعمال میں معیاری ہے ’’حیات سعید‘‘ میں اگر اردو ادب کے نثری اصناف کی خصوصیات تلاشی جائیں تو اس پر جامع ترین ’’خاکہ‘‘ کی تعریف صادق آتی ہے، جس میں صاحبِ حیات کی شخصیت کی حقیقی بنیاد، خدوخال اور اُن کا پورا ڈھانچہ نظر آتا ہے، یہ ’’تذکرہ‘‘ ہرگز نہیں ؛ اس لیے کہ اس میں بہت ہی اختصار ہوتا ہے اورنہ ’’سوانح‘‘ ہے کہ اس میں زندگی کے سوانحات، واقعات، نشیب وفراز، معمولات اور سارے کارناموں کا بہت تفصیلی ذکر ہوتا ہے، جیسے سوانح قاسمی، اشرف السوانح، تدکرۃ الرشید، تذکرۃ الخلیل اور حیات نعمانی وغیرہ، ’’حیات سعید‘‘ کی حیثیت ایک جامع ترین متن کی ہے، جن کے زریں جملوں کی تفصیلات کو تلاش کر تفصیلی سوانح تیار کی جاسکتی ہے۔ مرتب محترم کا قلم جامعیت اعتدال اور تکلف برطرف کا خوگر ہے؛اس لیے اتنی جلدی اور اتنا جامع اورمعتدل خاکہ سامنے آگیا، ورنہ سوانحی نگارشات مبالغہ آرائی سے پاک نہیں ہوتیں ، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں !

 (۲)

            نام کتاب             :           تفہیم المسالک شرح موطا امام مالکؒ

            (از کتاب الأشربہ تا باب ما جاء في الحجامۃ)

            شارح                 :           حضرت مولانا مفتی محمدذاکرحسین قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند

            صفحات               :           ۲۹۲      قیمت:      (درج نہیں)

            ناشر                   :           مکتبہ ضیاء دیوبند7906194189, 8755325360 

            ملنے کا پتہ :                       دارالمدرسین، مکان نمبر۸، نزد صغیرکالونی، دیوبند 247554

            تعارف نگار           :           مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند

================================================

            ’’مُوَطّا‘‘ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (۹۳ھ تا ۱۷۹ھ/۷۱۱ء تا ۷۹۵ء) کی مایہ ناز تصنیف ہے، جو عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور (م۱۵۸ھ) کی فرمائش پر ترتیب دی گئی تھی، چوں کہ دارالہجرۃ مدینۂ پاک میں موجود ستر فقہائے کرام اور محدثین نے اس سے اتفاق کیا تھا، اس لیے موطا یعنی موافقت کی ہوئی اورمتفق طورپر مانی ہوئی کتاب ہوگئی، امت نے قبول کیا، ہاتھوں ہاتھ لی گئی، آج تک اس کی قبولیت پر حرف نہیں آیا، بعض حضرات موطا کی وجہ تسمیہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کے معنی روندا ہوا ہموار راستہ ہے، موطا میں اُن سنتوں اور راستوں کو بیان کیاگیا ہے جو اُمت کے لیے جادئہ سَوِی اور صراطِ مستقیم ہے، امام مالکؒ کے مسلک کو بھی بڑا قبول حاصل ہوا، حجاز، بصرہ، مصر،افریقہ اوراندلس وغیرہ میں ایک بڑی تعداد مالکی مسلک کی ہے،  حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ سے  چھوٹے ہیں ؛ مگر امام صاحب کے زمانے ہی میں ان کا درس بہت مقبول تھا، امام صاحب نے ترقی کی پیش گوئی بھی فرمائی تھی اور امام شافعیؒ نے ’’موطا‘‘ کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’روئے زمین پر امام مالکؒ کی موطا سے بڑھ کر اصح ترین کتاب کوئی نہیں ہے۔‘‘ غرض یہ کہ موطا ہرزمانے میں اہلِ علم وفقہ کے درمیان مقبول رہی؛ اس لیے بہت سی شرحیں وجود میں آئیں ، ان میں ابوالولید باجی کی ’’المثقیٰ‘‘ سیوطی کی ’’تنویرالحوالک‘‘، زرقانی کی ’’شرح الموطا‘‘، شاہ ولی اللہ کی ’’المسوّیٰ‘‘ (عربی)، ’’المصفی‘‘ (فارسی)، اشفاق الرحمن کاندھلوی کی ’’کشف المغطّیٰ‘‘ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی ’’اوجزالمسالک‘‘ معروف ہیں ۔ مدارس اسلامیہ میں موطا روزِ اول سے ہی پڑھائی جاتی رہی ہے، دارالعلوم دیوبند میں موطا امام مالکؒ کے دو شاگردوں کی روایتوں سے پڑھائی جاتی ہے، ایک محمد بن الحسن شیبانی (۱۷۹ھ) ہیں اور دوسرے یحییٰ بن یحییٰ تمیمی (۲۲۶ھ) ہیں ؛ لیکن کتاب کے منتخب ابواب ہی داخل نصاب ہیں ، دوسرے شاگرد کی روایت کے مطابق ’’کتاب الاشربۃ‘‘ سے ’’باب الحجامۃ‘‘ تک پڑھائی جاتی ہے، تمیمیؒ کی روایت کو ہم اپنے عُرف میں ’’موطا مالک‘‘ کہتے ہیں اور پہلے کو ’’موطامحمد‘‘۔

            بہ قدر نصابِ دارالعلوم موطا امام مالکؒ کی اردو شرح کی توفیق گرامی قدر مولانا مفتی محمد ذاکر حسین قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند کی قسمت میں آئی، موصوف نے بڑی محنت، عرق ریزی اور مغزپچی سے اس کی تکمیل فرمائی ہے؛ چوں کہ انھوں نے اپنے سابق مدرسے میں اس کو پڑھایا ہے، اس لیے اس کے نشیب وفراز سے اچھی طرح واقف ہیں ، عربی عبارت پر اعراب لگایاہے، پھردرسی ترجمہ، مشکل الفاظ کی وضاحت، مسالکِ ائمہ اربعہ کی تفصیل اور احادیث نبویہ کی تشریح وتبیین کی ہے اور شرح کا حق ادا کردیا ہے، شارح کے پیش نظر کمزور استعداد والے طلبہ ہیں ؛ اس لیے آسان سے آسان زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں بڑے کامیاب نظر آرہے ہیں ، امید ہے کہ مولانا کی یہ بابرکت تصنیف آئندہ کی تصانیف کا پیش خیمہ اور ہَراوَل دستہ ثابت ہوگی، اللہ کرے کہ اِن کا قلم میدانِ تصنیف میں تعب آشنا نہ ہو! وما توفیقی الّا باللّٰہ وعلیہ أتوکلُ وإلیہ اُنیب!

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts