حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
جیساکہ جون، جولائی کے حرف آغاز میں نوٹ لکھ کر واضح کردیاگیا ہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ سے متعلق خصوصی شمارہ ڈاک کی مجبوری کی وجہ سے دو حصوں میں شائع کیا جارہا ہے، پہلا جون، جولائی۔ دوسرا اگست، ستمبر ۲۰۲۰ء۔ اس ترتیب کے مطابق دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں جس کثرت سے علماء کرام رخصت ہوئے ہیں ، اس سے سب واقف ہیں ، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ رہا ہو اور موتی گرتے جارہے ہوں ، چنانچہ بعض لوگوں نے ایسے قابل ذکر علماء کرام کی فہرست بنائی تو تعداد سو سے تجاوز کرگئی۔ پھر ان میں بہت سے حضرات وہ ہیں جو عمر یا صحت کے اعتبار سے ایسے تھے کہ ان کی وفات ایک ناگہانی حادثہ سمجھی گئی اور اُن پر وہ مشہور شعر صادق آگیاکہ۔؎
زمانہ بڑے غور سے سُن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
اور سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخصیات فعال اور کارگزار ہوتی ہیں اُن کا کسی بھی عمر میں جانا ہو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اچانک ہوا، جیساکہ خود حضرۃ الاستاذ رحمہ اللہ کی عمر اسّی سال تھی اور امراض وعوارض بھی لاحق تھے؛ لیکن چوں کہ وفات سے چند دن پہلے تک افادات کا سلسلہ جاری تھا؛ اس لیے رحلت اچانک اور غیرمتوقع محسوس ہوئی۔ ان سطور کے ذریعہ ہم اُن تمام حضرات کے لیے، جو اس عرصہ میں رخصت ہوئے، دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان کے پسماندگان سے تعزیت کرتے ہیں ۔
ان علماء کرام میں سے ہر ایک اپنی جگہ مینارہٴ نور تھا اور ان کے ذریعہ تعلیم وتربیت، تزکیہ واصلاح اور تصنیف وتالیف جیسے تمام ہی میدانوں میں کام ہورہا تھا، ان کے جانے سے اپنے اپنے حلقہ اور دائرہٴ کار کے اعتبار سے خلاکی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے؛ لیکن اللہ کی اس دنیا کا کام اسی طرح جاری ہے کہ اگلے لوگ جاتے ہیں تو بعد والے اُن کی جگہ لیتے ہیں ۔ البتہ اس خلا کو پُرکرنے اور معیار باقی رکھنے کے لیے شدید محنت کی ضرورت ہے۔
خاص طور پرافراد سازی اور تربیت کاکام زیادہ ذمہ داری اور مستعدی سے ہونا چاہیے، علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے۔؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
اب ظاہر ہے کہ اس فانی دنیا میں آب بقائے دوام کی یہ صورت تو ناممکن ہے کہ پرانے بادہ کشوں کو جانے سے روک لیا جائے۔ خالق کائنات نے پہلے ہی اعلان کررکھا ہے کل نفس ذائقۃ الموت۔ اس لیے کرنے کا کام یہی ہے کہ جانے والوں کی جگہ لینے کے لیے اگلی صف کی تیاری کا کام ہمیشہ جاری رکھا جائے اس پر علماء ومشائخ اور ذمہ داران مدارس کو پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رحلت فرمانے والے علماء کرام میں سے ہر ایک کا حق یہ ہے کہ ہم اُن کا ذکر خیر کریں ؛ لیکن فی الحال یہ کام صرف ناموں کے ذکر کرنے کی حد تک بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے؛ اس لیے مجبوراً چند مشاہیر کے صرف نام ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جارہا ہے۔
ترجمان اہل سنت حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ (برطانیہ) استاذ العلماء حضرت مولانا سید محمد سلمان مظاہریؒ ناظم جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور، دفاع حق اور تعلیمی وملّی میدانوں میں سرگرم شخصیت حضرت مولانا متین الحق اسامہؒ کانپوری صدر جمعیۃ علماء یوپی، جامعہ حسینیہ شری وردھن کے مہتمم اور جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر حضرت امان اللہ بروڈ قاسمیؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے خلیفہ شیخ طریقت حضرت مولانا عزیز الرحمن ہزارویؒ، جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بانی ومہتمم حضرت مولانا مفتی محمد نعیم صاحبؒ کراچی، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے فعال ومتحرک استاذ اور حضرت مولانا وستانوی صاحب مدظلہٗ کے خاص عزیزورفیق حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی مظاہریؒ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے صدر حضرت مولانا اقبال ملاندوی قاضی شہر بھٹکل وغیرہم رحمہم اللہ۔
دعاء ہے کہ اللہ رب العزت ان سب حضرات کی اور وبائی بیماری کے اس عرصہ میں وفات پانے والے تمام ہی اہل ایمان کی مغفرت فرمائے۔
ابھی قریب میں سیدالملت حضرت مولانا سیّدمحمد میاں دیوبندی نوراللہ مرقدہ کے پوتے جناب مولانا مفتی وحیدمیاں صاحب جو دیوبند ہی میں مستقل مقیم تھے اور نہایت متقی اور متبع سنت انسان تھے، وفات پاگئے، اسی طرح استاذ گرامی حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی نوراللہ مرقدہ کے بھائی جناب مولانا ڈاکٹر معیدالزماں قاسمی جو نہایت شریف انسان اور مقبول معالج تھے، انتقال فرماگئے۔ قارئین سے ان دونوں حضرات کے لیے بھی دعائے مغفرت کی خصوصی درخواست ہے۔
—————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :9-8، جلد:104، ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست – ستمبر 2020ء
٭ ٭ ٭