از:مولانارشیداحمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم، تراج ،ضلع سورت گجرات
دین اسلام میں انسان کی پیدائش سے لے کر دفن تک کے تمام احوال اورمواقع میں انسان کی مکمل رہنمائی موجودہے؛ تاکہ ہرمسلمان اپنے حال کے مناسب اسلامی ہدایت پرعمل کرے اورعمل کے میدان میں خواہ عبادات ہوں یامعاملات ،اخلاق ہوں یامعاشرت،جہاں مسلمان شریعت پر کسی قدر بفضلہ تعالی عمل پیرا ہوتے ہیں توساتھ ہی بعض افعال شریعت میں کوتاہی بھی پائی جاتی ہے۔
بہرحا ل احکام شرعیہ میں سے ایک حکم’’جنازہ کااٹھانااورلے کرچلنا‘‘ہے ،صحاح ستہ میں اورامام محمدؒکی جامع صغیرسے لے کرعلامہ شرنبلالی کی ’’نورالایضا ح‘‘ بلکہ قاضی ثناء اﷲپانی پتی ؒ کی’’ مالابدمنہ‘‘ تک تمام کتب فقہ میں صاف اورواضح لفظوں میں جنازہ اٹھانے اورلے کرچلنے کاطریقہ لکھاہواہے جواحناف؛ بلکہ جمہورائمہ کے نزدیک مسنون طریقہ ہے ،اس مختصرتحریرمیں جنازہ کے متعلق چارامورکی طرف مسلمانوں کومتوجہ کرنامطلوب ہے، اﷲتعالیٰ ہمیں دین کا فہم صحیح عطافرمائے اور ہماری غفلت کو دور فرمائے [آمین]
(۱) جنازہ کوچارجانب سے چارشخصوں کااٹھانا
جنازہ اٹھانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ چارآدمی جنازہ کو چارجانب سے اٹھائیں ،یہ طریقہ حضرت عبداﷲبن مسعودؓ ،ابن عمرؓاورابوہریرہؓ وغیرہم سے منقول ہے اوریہی طریقہ صحابہ وتابعین میں مشہورومعروف رہاہے ۔صاحب بدائع الصنائع علامہ کاسانی ؒ لکھتے ہیں فالسنۃ فی حمل الجنازۃ أن یحملھا أربعۃ نفرمن جوانبھا الأربع عندنا [بدائع:۳۰۹/۱]یہ مسنون طریقہ (۱)جنازہ کے گرنے سے حفاظت (۲)اٹھانے والوں پر سہولت (۳)اورجنازہ کوبوجھ اٹھانے سے عدم مشابہت (۴) اور زیادہ آدمیوں کواٹھانے کی سعادت حاصل ہونے کی وجہ سے اعلیٰ وافضل ہے،اسی وجہ سے دو شخصوں کاجنازہ کے بیچ آگے پیچھے مونڈھے پراٹھانا یاچوپایہ پررکھنامکروہ ہے [بدائع ۳۰۹/۱]
آگے لکھتے ہیں : من ارادکمال السنۃ فی حمل الجنازۃ ینبغی لہ ان یحملھا من الجوانب الاربع لما روینا عن ابن عمرؓ انہ کان یدور علی الجنازۃ علی جوانبھا الاربعۃ فیضع مقدم الجنازۃ علی یمینہ ثم مؤخرھا علی یمینہ ثم مقدمھا علی یسارہ ثم مؤخرھا علی یسارہ کما بین فی الجامع الصغیر جوشخص جنازہ اٹھانے میں کمال سنت پرعمل کرناچاہتا ہے تواسے چاہیے کہ جنازہ کے چاروں جانب کویکے بعددیگرے اٹھائے چنانچہ حضرت ابن عمرؓ جنازہ کے چاروں جانب کواس طرح اٹھاتے کہ سب سے پہلے جنازہ کے اگلے جانب کو اپنے داہنے کاندھے پررکھتے[اورچندقدم چلتے پھرہٹ جاتے] اس کے بعد پچھلے جانب کو اپنے داہنے کاندھے پر رکھتے[ اور چند قدم چلتے پھر ہٹ جاتے ]اس کے بعد جنازہ کے اگلے بائیں جانب کواپنے بائیں کاندھے پررکھتے [اور اسی طرح چلتے]پھر اس کے پچھلے [بائیں ]جانب کو اپنے بائیں کاندھے پررکھتے ۔ امام محمدؒ’’جامع الصغیر‘‘میں لکھتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ کواسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے وتضع مقدم الجنازۃ علی یمینک ثم مؤخرھا علی یمینک ثم مقدمھا علی یسارک ثم مؤخرھا علی یسارک ،قال محمدرأیت اباحنیفۃ یصنع ھکذا [جامع الصغیر ۱۱۷]
جنازہ کو مذکورہ طریقہ سے اٹھانے میں اسلام کی ایک اہم سنت ’’تیامن‘‘[یعنی کسی اچھے کام کو داہنی جانب سے شروع کرنا] پربھی عمل ہوجاتاہے یعنی میت کا دایاں اٹھانے والے کے دائیں کاندھے پر پھرمیت کابایاں اٹھانے والے کے بائیں کاندھے پر۔اورہرجانب اٹھانے میں چاہئے کہ دس دس قدم اٹھائے چلے تاکہ جنازہ کو چالیس قدم اٹھانے پر جومخصوص فضیلت وارد ہوئی ہے وہ بھی حاصل ہوجائے فاذاحمل ھٰکذا حصلت البدایۃ بیمین الحامل ویمین المیت۔ وینبغی ان یحمل من کل جانب عشرخطوات لماروی فی الحدیث ’’من حمل جنازۃً أربعین خطوۃً کفرت عنہ أربعین کبیرۃ [بدائع ۳۰۹/۱]یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے مگر فضائل کے باب میں عمل کیاجاسکتاہے ۔
نُقایہ اور اس کی شرح ’’فتح باب العنایۃ‘‘میں فقیہ عصر محدث دہر ،شارح مشکوٰۃ ملاعلی بن سلطان القاری لکھتے ہیں ’’وسُنّ فی حمل الجنازۃ أربعۃ‘‘ (وسُن فی حمل الجنازۃ أربعۃ) عن ابن مسعودؓ أنہ قال من السنۃ حمل السریر بجوانبہ الاربع [کتاب الاٰثار لمحمد] فلیأخذ بجوانب السریر الأربع [أبوداؤد الطیالسی] من اتبع جنازۃً فلیأخذ بجوانب السریر الأربع کلھا] فإنہ من السنۃ فإن شاء فلیتبع وإن شاء فلیدع [ابن ماجہ] ویقول علِی الازدی رأیت ابن عمر فی جنازۃ فحمل بجوانب السریر الأربع (زیلعی فی نصب الرایۃ) ولقول أبی ہریرۃ من حمل الجنازۃ بجوانبھا الأربع فقد قضی الذی علیہ (مصنف عبد الرزاق) وورد من حمل الجنازۃ بجوانب السریر الاربع غفرلہ أربعون کبیرۃ (ابن عساکر عن واثلۃ) [النقایہ مع شرحہ عنایہ ۴۳۹/۱]جنازہ کے اٹھانے میں چارشخصوں کاہوناسنت ہے؛ چنانچہ حضرت عبداﷲبن مسعودؓ فرماتے ہیں ۔جنازہ کواس کی چاروں جانب سے اٹھاناسنت ہے لہٰذاجوشخص جنازہ کے ساتھ چلے توچاہیے کہ جنازہ کے چاروں جانب کو مضبوط پکڑے اس لیے کہ یہ سنت ہے پس اگرچاہے تو خوشی سے اس پر عمل کرے ورنہ چھوڑدے۔علی ازدی تابعی ؒ فرماتے ہیں :میں نے ابن عمر کوایک جنازہ میں دیکھا آپ نے جنازہ کے چاروں گوشوں کو[یکے بعددیگرے]اٹھایا۔حضرت ابوہریرہؓ کاارشاد ہے جس شخص نے جنازہ کے چاروں جانب کواٹھایااس نے اپنے حق کواداکردیا۔ ایک حدیث میں واردہے جس شخص نے جنازہ کو اس کے چاروں گوشوں سے اٹھایا اس کے چالیس گناہ کبیرہ کی مغفرت ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ جنازہ کے چاروں جانب کوچارافراد کاندھے پر اٹھائیں اورلے کرچلیں ۔
(۲) جنازہ کوتیزلے کرجانا
دوسرامسئلہ ہے جنازہ کوتیزلیجانا،بدائع میں ہے والاسراع بالجنازۃ افضل من الاِبطائ، جنازہ کوتیزلے جانا افضل ہے آہستہ لے جانے سے حدیث شریف میں ہے ’’عجلوابموتاکم‘‘ میت کوجلدلے جاؤ؛لیکن یہ عجلت اور تیز لے جانا ’’دوڑنے ‘‘کے درجہ میں نہ ہو دوڑنے کو عربی میں خبب بھی کہتے ہیں اور دوڑکے بغیر تیز چلنے کو اسراع کہتے ہیں پس جناز ہ کو اتنا تیز لے کر چلنا چاہیے جس سے میت کو ہچکولے نہ لگے؛ لکن أن یکون الاسراع دون الخبب، والخبب ضرب من العدو دون العنق وھوالذی یوذی إلی اضطراب المیت یعنی’’ خبب‘‘ ایک قسم کی دوڑکوکہتے ہیں جس سے میت کو ہچکولے لگے اورجنازہ کے ساتھ مشایعت کرنے والوں کو ضررلاحق ہونے لگے [بدائع] شرح نقایہ میں ہے ’’ویسرعون بھا لقولہ علیہ السلام اسرعوابالجنازۃ فان تک صالحۃ فخیرتقدمونھا الیہ وان تک غیرذلک فشرتضعونہ عن رقابکم (متفق علیہ)یعنی جنازہ کو تیزلے چلواس لیے کہ اگروہ نیک ہے توتم اس کوخیرکی طرف جلدی پہنچادواوراگروہ نیک نہیں ہے توجلدی سے اپنی گردن سے شرکواتاردو[النقایہ ۴۴۰]بہرحال جنازہ کوجلدلے جاناتیزلے کرچلنامطلوب ومستحب ہے ،مراقی الفلاح میں ہے ویستحب الاسراع بھا جنازہ کوتیزلے جانامستحب ہے [مراقی:۳۳۱]۔ اورجب جنازہ کو تیزلے کر چلنامطلوب ہے تولامحالہ شرکائے جنازہ کوبھی تیزچلناچاہیے عن ابن مسعود قال سألنا نبینا ﷺ عن المشی مع الجنازۃ فقال مادون الخبب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺسے جنازہ کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا دوڑنے سے کم [ابوداؤد: ۴۵۳] عن عیینہ بن عبدالرحمن عن ابیہ انہ کان فی جنازۃ عثمان بن أبی العاص وکنا نمشی مشیاً خفیفاً فلحقنا أبو بکرۃ فرفع سوطہ فقال لقد رأیتنا ونحن مع النبی ﷺ نرمل رملاً عیینہ بن عبدالرحمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عثمان بن ابی العاص ؓ کے جنازہ میں تھے اور ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے کہ ہمارے پاس حضرت ابو بکرؓ آئے اور ہم پر [تنبیہ کے لیے]کوڑااٹھایاا ورفرمایا کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ تیزچلتے تھے [ابوداؤد: ۴۵۳ ]حاصل یہ کہ جنازہ کو اٹھانے والے تیزلے کرچلیں ۔
(۳) جنازہ کے پیچھے چلنا
تیسراحکم جنازہ کے پیچھے چلناہے جنازہ کے پیچھے چلنااحناف کے نزدیک افضل ہے فالمشی خلف الجنازۃ افضل عندنا حضرت عبداﷲ بن مسعودؓسے روایت ہے انہ علیہ السلام کان یمشی خلف جنازۃ سعدبن معاذ کہ حضور ﷺ حضرت سعد بن معاذ کے جنازہ میں پیچھے پیچھے چلتے تھے،حضرت ابوامامہ ؓکی حدیث ہے انّ رسول اﷲ ﷺ مشی خلف جنازۃ ابنہ إبراہیم حافیاً کہ حضور ﷺ صاحبزادے ابراہیم ؓ کے جنازہ کے پیچھے ننگے پائوں چلے [مراقی: ۳۳۲]امام طاؤس اپنے والدسے نقل کرتے ہیں مامشی رسول اﷲ ﷺ حتی مات الاخلف الجنازۃ کہ نہیں چلے حضور ﷺ نہیں چلے وفات تک مگرجنازہ کے پیچھے ،حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں فضل المشی خلف الجنازۃ علی المشی امامھا کفضل المکتوبۃ علی النافلۃ کہ جنازہ کے پیچھے چلنے کی فضیلت جنازہ کے آگے چلنے پر ایسی ہے جیسے فرض کی فضیلت نفل پر،حضرت علی کرم اﷲوجہہ ارشادفرماتے ہیں الجنازۃ متبوعۃ ولیست بتابعۃ ولیس معھا من تقدمھا جنازہ متبوع ہے تابع نہیں ہے اورجوجنازہ کے آگے چلا وہ جنازہ کے ساتھ نہیں ہے یعنی جنازہ کے ساتھ چلنے والے پیچھے چلیں ؛کیوں کہ متبوع آگے ہوتاہے ۔نیزجنازہ کے ساتھ چلنے کی حکمت نصیحت اور عبرت پکڑنا ہے اوریہ مقصد جنازہ کے پیچھے چلنے میں زیادہ حاصل ہوتاہے؛ اس لیے کہ جنازہ نگاہ کے سامنے ہوتاہے توعبرت حاصل ہوتی ہے ولأن المشی خلفھا اقرب الی الاتعاظ لأنہ یعاین الجنازۃ فیتعظ؛البتہ جنازہ اٹھانے کی خاطر بعض افراد کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اسی طرح شرکائے جنازہ کی کثرت اور ازدحام کی وجہ سے بعض لوگ جنازہ کے آگے آگے مگر قریب سے چلیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن قطار لگانا بہر حال غلط رواج ہے۔
جنازہ لے جانے کارواجی طریقہ
جنازہ کے مذکورہ تینوں احکام (۱)کاندھے پر اٹھانا (۲)لے کر تیزچلنا(۳)جنازہ کے پیچھے چلنا،کوذہن نشین رکھیے اورپھراپنے علاقہ میں جنازہ کولے جانے کا طریقہ اور ساتھ چلنے والوں کا طرز عمل دیکھیے اورخودفیصلہ کیجیے کہ یہ رواجی طریقہ سنت سے کتنامطابق ہے اور کتنااس کے خلاف جارہاہے۔
(۱)جنازہ کے صرف چارگوشوں کواٹھانا مسنون ہے؛ جب کہ رواجی طریقہ میں متعدد لوگ جنازہ کے بیچ میں بھی اٹھائے ہوتے ہیں ۔
(۲) جنازہ کے پیچھے چلنامسنون ہے جب کہ بہت سے لوگ جنازہ کے کافی آگے آگے رہتے ہیں ۔
(۳)جنازہ کے آگے ہونے والے جنازہ اٹھانے کے لیے لائن لگاتے ہیں ؛ جب کہ قطار لگانا حدیث وفقہ کے بالکل خلاف ہے۔
(۴)جولوگ قطارمیں ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں ؛ حالاں کہ بغیرقطارکے بھی آگے چلنا خلاف افضل ہے۔
(۵) اوراگرقطارمیں لگ کر کچھ چلتے بھی ہیں توصحیح وفطری طریقہ کے خلاف دائیں یابائیں طرف کھسکتے ہیں ۔
(۶)جنازہ کوہاتھوں پراٹھانے والے اپنی جگہ کھڑے رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ جنازہ آگے کیاجاتاہے؛ جب کہ کاندھے پر رکھ کر چلنا چاہیے۔
(۷)قطارلگانے اور ہاتھوں ہاتھ گذارنے کی وجہ سے شرکائے جنازہ بالکل آہستہ چلتے ہیں جب کہ قدرے تیزچلنا مطلوب ہے۔
مروجہ طریقہ کے نقصانات
یہ رواج بعض علاقوں میں اس قدر جڑپکڑچکاہے کہ عوام ہی نہیں علماء کرام بھی اس قطارمیں شامل ہیں حتیٰ کہ اہل علم کے علاقہ میں بھی جنازہ لے جانے کا یہی ڈھنگ ہے ،ممکن ہے کہ دوسرے علاقہ میں بھی یہ رواج ہو ۔مروّجہ طریقہ کی وجہ سے(۱) جنازہ کو بس ہاتھ لگانا ایک حق سمجھ لیاگیا ہے اسی لیے اہتمام سے قطارمیں لگ جاتے ہیں ؛بلکہ بعض لوگ تو قطارمیں لگنے کی تلقین کرتے ہیں اور جب کسی بڑے عالم کاجنازہ ہوتاہے تومحض شرکائے جنازہ کو ہاتھ لگانے کی سعادت مل جائے اس کے لیے جنازہ کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے جاتے ہیں جویقینا ضرورت سے زائدہے ( ۲ ) اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جنازہ کو قبرتک پہنچنے میں خصوصاً جب کہ کسی بڑے عالم کا جنازہ ہو تاخیر ہوتی ہے جومنشأ شریعت کے خلاف ہے ( ۳ ) شرکائے جنازہ بالکل آہستہ چلتے ہیں یہ بھی اس موقع پرمزاج شریعت کے خلاف ہے۔ غورکرنے سے مزیدنقصان بھی معلوم ہوسکتا ہے غرض یہ کہ جنازہ کوکاندھے پر رکھ کرتیزلے کرچلنے کامسنون طریقہ بالکلیہ متروک ہوچکاہے؛ اس لیے اس کی اصلاح ضروری ہے اس طرح کہ ہر علاقہ میں باوقار علماء کرام جنازہ اٹھانے اور اس کے لے جانے کا صحیح طریقہ مسلمانوں کے سامنے بیان کریں اورجب جنازہ اٹھائے جانے کاموقع آئے توعملی طورپراہل علم خودایساکریں اوردس دس قدم چل کربتائیں ۔
چوں کہ جنازہ کوکاندھادینے کی ضرورت ہے؛ تاکہ میت کواعزازکے ساتھ بہ سہولت اس کی منزل تک پہونچایاجاسکے؛ اس لیے بطورتعلیم وتربیت ہربستی میں جنازہ کواٹھانے کے لیے عارضی طور پر بغیرنزاع کے ایسے افراد جوتوانا اور یکساں قدہوں مقررہوجائیں ؛تاکہ آگے بڑھ کر جنازہ کو اٹھائیں اور لے کرچلیں یہاں تک کہ لوگ سنت طریقہ پرآجائیں اورمزاج بن جائے اورجولوگ مریض یا ضعیف ہیں یاان کے لیے جنازہ کوکاندھے پرلینامشکل ہے جیسے پستہ قد ہوں یابچے ہوں یا شرکائے جنازہ کی کثرت کی وجہ سے بعض لوگوں کے لیے کاندھا دینا مصیبت سے خالی نہ ہوتو ایسے لوگ نہ اٹھائیں بس ساتھ ساتھ چلتے رہیں نمازجنازہ اداکرنے پر ایک قیراط اور دفن میں شریک ہونے پر دوقیراط کاثواب بہرحال انھیں ملے گا من تبع جنازۃً فصلی علیھا فلہ قیراط ومن تبعھا حتی یفرغ منھا فلہ قیراطان[أبوداؤد] ان صورتوں میں بس کاندھا دینے کی فضیلت نہ پاسکیں گے؛ لیکن جنازہ کے آگے لائن لگا کرخلاف شرع عمل کی قباحت سے محفوط رہیں گے۔
(۴)جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کوشریعت نے ایک خاص ہدایت یہ دی ہے کہ وہ اپنی زبان ذکریاقراء ت قرآن میں مشغول رکھیں اور وہ بھی پست آوازسے نہ کہ بلندآوازسے اور اگر ذکرمیں مشغول نہ رکھے توپھرخاموشی کو لازم پکڑے یکرہ رفع الصوت بالذکر والقرآن وعلیھم الصمت [مراقی الفلاح۳۳۲] وفی السراج یستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکر اﷲ والتفکر فیما یلقاہ المیت وان ھذا عاقبۃ أہل الدینا۔ ولیحذر عما لافائدۃ فیہ من الکلام فإن ھذا وقت ذکر وموعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فإن لم یذکراﷲ فلیلزم الصمت ولایرفع صوتہ بالقرائۃ ولا بالذکر ولایغتر بکثرۃ من یفعل ذلک یعنی سراج الوہاج میں لکھا ہے کہ ’’جنازہ کے ساتھ چلنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ ذکراﷲمیں اوران چیزوں کے غوروفکرمیں مشغول رہے جومیت کوپیش آنے والی ہیں اورچاہیے کہ بے فائدہ کلام سے بچے؛ اس لیے کہ یہ وقت ذکرونصیحت حاصل کرنے کاہے، لہٰذااس میں غفلت بہت بری ہے ،اوراگرذکرمیں مشغول نہ ہوسکے توخاموشی کولازم پکڑے ،اورقراء ت اور ذکرمیں آوازبلندنہ کرے[طحطاوی علی المراقی ۳۳۲] عن قیس ابن عبادۃ انہ قال کان اصحاب رسول اﷲﷺ یکرہون رفع الصوت عند ثلٰثۃ عندالقتال وعندالجنازۃ والذکر ولأنہ تشبہ باہل الکتاب فکان مکروھاًقیس بن عبادہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابۂ کرامؓ تین مواقع میں رفع صوت کوناپسندفرماتے تھے [۱]قتال کے موقع پر[۲]جنازہ کے موقع پر[۳]اورذکرکے وقت ،نیزجنازہ کے موقع پر آوازبلندکرنااہل کتاب سے تشبہ ہے؛ اس لیے بھی مکروہ ہے ۔
اس ہدایت کو ذہن نشین رکھیں اورپھر اپنے طریقے پر نظرڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے بعض لوگ اس کے بالکل خلاف کرتے ہیں عموماًجنازہ کے ساتھ چلتے ہوئے علیک سلیک کے بعد دنیاوی باتوں میں کاروباری،سیاسی،اورگھریلو اوردیگرغیرضروری باتوں میں مشغو ل ہوجاتے ہیں اور چوں کہ جنازہ میں مختلف جگہوں سے لوگ شریک ہوتے ہیں ؛اس لیے متعدد ملاقات اور دیگر احوال سے باخبرہونے میں وقت صرف ہوجاتا ہے اور جنازہ میں شرکت کا مقصدفوت ہوجاتاہے اورتھوڑی دیرکے لیے بھی آخرت کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ نیزدفن کے موقع پربھی ایک قسم کا شور ہوتا ہے جو ناپسندیدہ ہے، یہاں پربھی خاموشی کاماحول اورمعمول بنانے کی ضرورت ہے ۔اﷲتعالی ہماری اس غفلت کو دورفرمائے اور مقصودپرنظررکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭