از:مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری
مدیر ماہنامہ الاصلاح کریم نگر
اسلام دین ِ رحمت اور مذہب ِامن ومحبت ہے۔جب اس روئے زمین پر ہرطرف ظلم وستم کا دور دورہ تھا،انسانیت ناانصافی اورحقوق سے محرومی کی زندگی گزاررہی تھی ،زبردست قسم کے لوگ زیر دستوں پر ،کمزوروں اور مجبورو ں پر عرصۂ حیات تنگ کررہے،قتل وخون ریزی ،فتنہ وفساد ،تشدد وبدامنی اور انتقام و جنگ وجدال کا خوف ناک ماحول دنیا میں چھایا ہوا تھا،ایسے پرخطر حالات میں اسلام انسانیت کے لیے امن ومحبت کی پیاری تعلیمات لے کر آیا اور پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے امن ومحبت کے سائبان تلے انسانیت کو سکون وراحت کی بیش بہا دولت عطاکی اور نفرتوں کے ماحول کو ختم کیا،عداوتوں سے سینوں کوپاک کیا،ظلم وستم سے انسانوں کو باز رکھا،ناانصافی اور زیادتی سے منع کیا،محروموں کو حقو ق دلائے ،ڈرے سہمے ہوؤ ں کو امن واطمینان عطاکیا،کمزوروں اور ستم رسیدوں کی مددکی ،مجبوروں اور بے کسوں کی دست گیری کی اور قیامت تک آنے والی انسانیت کو امن ومحبت کی نرالی ،پیاری اور انوکھی تعلیمات سے سرفراز کیا۔
انسانیت پر اسلام اور پیغمبر اسلام کے جہاں بے شمار اور لاتعداد احسانات ہیں وہیں ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس کائنات کو امن ومحبت کا گہوارہ بنایا اور انسانوں کے دلوں میں محبت اور پیار، امن وآشتی کے جذبات کو پروان چڑھایا،اور ایک دوسرے کو امن وآشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی ،امن کی فضا کو سازگار رکھنے کی تعلیم اور بدامنی کے خاتمہ کے لیے تمام تر تدبیریں اور طریقۂ کار بتلائے،اور ماحول ومعاشرہ کو پرسکون بنائے رکھنے،انسانوں کو راحت واطمینان پہنچانے اور امن وسلامتی کو پھیلانے کی ہدایات سے نوازا۔
امن وامان کا مفہوم
ایک خوشگوار اور کامیاب معاشرہ کے لیے امن واطمینان انتہائی ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر زندگی کا سکون اور معاشرتی راحت حاصل نہیں ہوسکتی؛ اس لیے اسلام نے انسانوں کو ہر شعبۂ زندگی میں امن قائم کرنے اور عدل وانصاف سے کام لینے کا حکم دیا،امن کا مطالبہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں ہے ۔ڈاکٹرمحمد حمید اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:مختلف ڈکشنریوں اور انسائیکلو پیڈیا زکی روشنی میں امن کا مفہوم یوں متعین کیا جاسکتا ہے:’’آسودگی ٔقلب ،داخلی اطمینان وسکون،ہیجانی کیفیات سے نجات حاصل کرنا،معاشرتی اعتبار سے باہمی تعاون واشتراک ،سازگاری کی عمومی فضائ،حقوق وفرائض کی متوازن ادائیگی اور معاشرتی حسن وخوبی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔‘‘یوں امن عالم ( جس کا تصور اسلام نے دیا ہے) صرف جنگ وقتال کی عدم موجودگی ہی کا نام نہیں رہ جاتا بلکہ یہ انسان کی انفرادی معاشرتی ،مذہبی واخلاقی اور بین الاقوامی زندگی میں اطمینان اور بے خوفی کے وسیع مفہوم کے سمیٹے ہوئے ہیں اور اس مثالی کیفیت کا نام ہے جہاں زندگی کے تمام شعبے شاہراہ ِ ترقی پر اندیشہ ٔ رہزنی کے بغیر سفر کرتے ہیں ۔( پیغمبرِ امن :۸)
اسلام امن وسلامتی کا ضامن
اسلام انسانیت کے لیے امن وسلامتی کا ضامن ہے اور اسلام کی تمام تعلیمات بھی خود امن کی تعلیمات اور سلامتی کی ہدایات پر مشتمل ہے۔اسلام جس کا مصدر ’’س،لام،م،(سلم) ‘‘ہے کی تعریف میں لسان العرب میں لکھا ہے: سلم: السلام والسلامہ: البرائۃ۔ وقال ابن الاعرابی: السلامۃ العافیۃ۔ وقال ابوالہیثم: السلام والتحیۃ معناھما واحد، و معناھما السلامۃ من جمیع الآفات۔ والاسلام والاستسلام الانقیاد۔کہ سلم سے السلام اور السلامۃ ہے،جس کے معنی بری ہونا ہے۔ابن اعرابی کہتے ہیں کہ السلامہ کا معنی عافیت ہے۔ ابوالہیثم کہتے ہیں :اسلام اور تحیۃ ہم معنی ہیں ،اور السلام کا معنی تمام آفتوں سے محفوظ رہنا ہے۔اسلام اور استسلام کے معنی اللہ تعالی کے حکموں کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔( پیغمبر امن حضرت محمد ﷺ: ۱۸۸)نبی کریم ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے:اسلم تسلم ۔( بخاری :۶) کہ اسلام کے آؤ،امن وامان میں آجاؤگے۔
نبی کریم ﷺ پیغمبر امن
نبی کریم ﷺ کی آمد سارے انسانوں کے لیے رحمت بن کر ہوئی ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کو ساری انسانیت کے لیے رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا : وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔(الانبیائ:۱۰۷ )ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔علامہ سیوطی ؒ نے فرمایا کہ جو آپ پر ایمان لائے اس کے لیے دنیا وآخرت میں پوری رحمت ہوگی،اورجو ایمان نہ لائے وہ بھی ان عذابوں سے مامون ہو ں گے جو پہلی قوموں پر آئے جیسے زمین میں دھسادیا جانا ، چہرہ کا مسخ ہو جاناوغیرہ۔( الدر المنثور:۱۰/۴۰۵)اور آپ ﷺ نے اپنے دور آخر میں خطبۂ حجۃ الوداع میں انسانوں کو جو ایک جامع منشور اور مکمل دستور عنایت فرمایا،اس میں حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں بڑی تاکیدی ہدایات اور تعلیمات عنایت فرمائی ۔آپ ﷺ کی تعلیمات ِ رحمت سے دنیا کی ہر مخلوق نے فیض پایا اور ہر ایک کو ان کے حقوق ملے ۔نبی ﷺ نے دنیا کے ہر طبقہ کو ظلم سے نجات دلائی ،خوف ودہشت سے امان عطاکی ،لٹے ہوؤں کو ٹھکانہ دیااور ہر فرد ِ بشر کے ساتھ محبت وہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی ۔ آپ ﷺکی بعثت سے نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا کے مظلوموں ، ستم رسیدوں اور حالات کے ماروں کو جو امن و امان ملا اور راحت و نصیب ہوئی یقینا یہ آپ ﷺ کا ساری دنیا پر ایک ایسا عظیم احسان ہے کہ جس کا بدلہ پوری انسا نیت بھی نہیں ادا کر سکتی ۔آپ نے زندہ درگور ہونے والی بچیوں کو بچایا،عورتوں کو ظلم وستم سے نکالا،غلاموں کو تشدد وزیادتی سے چھٹکارہ دلایا،یتیموں ،بیواؤں ،مزدوں بلکہ جانوروں تک کو ان کے حقوق دلائے اور امن وامان عطاکیا۔
حِلف الفضول قیامِ امن کا عظیم کارنامہ
نبی کریم ﷺ نے آغاز ِ وحی سے پہلے ہی امن وامان کے نظام کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور انسانوں کو ظلم وجور سے بچانے کے لیے اپنی فکروں کو لگایا۔سیرت ِ رسول ﷺ کا ایک عظیم واقعہ جو پہلی مرتبہ عرب کی سرزمین میں قیام ِ امن کے لیے پیش آیا جسے تاریخ ’’حلف الفضول ‘‘ کے نام سے جانتی ہے ۔اس کو ملاحظہ کیجیے:زبید کا ایک شخص مکہ میں کچھ سامان تجارت لے کر آیا اور قریش کے ایک سردار عاص بن وائل نے یہ سب سامان خرید لیا؛ لیکن اس کا حق اس کو نہیں دیا ،زبید ی نے سردارانِ قریش کی حمایت حاصل کرنا چاہی؛لیکن عاص بن وائل کی حیثیت ووجاہت کی وجہ سے انھوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کردیااور اس کوسخت وسست کہہ کر واپس کردیا ،اب زبیدی نے اہل مکہ سے فریاد کی اور ہر باحوصلہ ،صاحبِ ہمت اور حق وانصاف کے حامی شخص سے جو اسے مل سکا شکایت کی، آخر کارفضل نامی چند لوگوں میں غیرت نے جوش کیااور یہ سب عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے، انھوں نے ان سب کی دعوت وضیافت کی ،اس کے بعد انھوں نے اللہ کے نام پر عہد وپیمان کیا کہ وہ سب ظالم کے مقابلہ اور مظلوم کی حمایت میں ایک ہاتھ کی طرح رہیں گے اور کام کریں گے ،جب تک ظالم مظلوم کا حق نہ دے دے،قریش نے اس معاہدہ کانام ’’حلف الفضول ‘‘یعنی فضول فضل نامی چند لوگوں کا معاہدہ رکھا، او رسب مل کر عاص بن وائل کے پاس گئے اور زبیدی کاسامان واسباب ان سے زبردستی زبید ی کو واپس کیا۔رسول اللہ ﷺ اس معاہدہ سے بہت خوش تھے،اور بعثت کے بعد بھی آپ ﷺ نے اس کی تعریف وتحسین کی اور فرمایا کہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک تھا، جس میں اگر اس کے نام پر اسلام کے بعد بھی مجھے بلایاجائے تو میں اس کی تکمیل کے لیے تیارہوں ، انھوں نے اس پر یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ حق حق دارتک پہنچائیں گے اور یہ کہ کوئی ظالم مظلوم پر غلبہ نہ حاصل کر سکے گا۔( نبیٔ رحمت :۱۳۹)ڈ اکٹرمحمد حمید اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں :حلف گیری کے ابتدائی جلسے میں اس ہونہار نوعمر نے باوجود کم سنی کے بڑے ذوق وشو ق سے حصہ لیا تھا،جسے کچھ دنوں بعد دنیا پیغمبر ِ اسلام کے محترم نام سے جاننے لگی۔اس حلف الفضول میں ایک رضاکارجماعت شریک ہوئی، جس کا مقصد حدودِ شہر میں مظلوم کی ،خواہ وہ شہر ی ہویا کہ اجنبی ،مددکرنا اور اس وقت تک چین نہ لینا تھا جب تک ظالم حق رسانی نہ کرے۔( عہد ِ نبوی میں نظامِ حکمرانی:۱۴۴)
امن کی تعلیمات
آپﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے وہ دینِ رحمت ہے ،جس میں ساری انسانیت کے لیے امن وعافیت کا پیغام ہے ،اسلام کے سایہ میں نہ صرف انسانوں کو آرام و سکون نصیب ہوا؛ بلکہ جانور بھی اسلام کے سایہ میں ہمیشہ کے لیے محفو ظ و مامون ہوگئے؛کیوں کہ اسلام نے پورے اہتمام کے ساتھ ہر طرح کی ایذا رسانی پر نہ صرف پابندی لگا دی بلکہ کسی کوبھی تکلیف پہونچانا حرام قرار دیا اور کمال ایمان کی علامت یہ بتائی کہ زبان اور ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔(بخاری:۹)نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس کا خوب اہتمام بھی کر کے دکھایا کہ کسی انسان و جاندار کو بھی تکلیف نہ پہونچے ۔آپ ﷺ نے مسلمانوں کے علاوہ عام انسانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تعلیم دیتے فرمایا: ألا من ظلم معاھدا أو انتقصہ أو کلفہ فوق طاقتہ أو اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یو م القیامۃ۔( ابوداؤد:۲۶۵۷)خبردار ! جس کسی نے کسی معاہد پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضاکے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑوں گا۔اس ارشاد میں آپ ﷺ نے گویا ایک اصول پیش کیا کہ کبھی اور کسی دور میں کسی بھی اقلیتی فرد پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے ،اس کی حیثیت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے اور اس کی کسی بھی چیز کو اس کی خوشی اور مرضی کے بغیر حاصل نہ کرے ،ورنہ قیامت کے دن نبی کریمﷺ اس مسلمان کے خلاف اس فرد کی حمایت میں اللہ کے بارگاہ میں مقدمہ دائر کریں گے ۔ایک حدیث میں ارشاد ہے: من قتل معاھدا لم یرح رائحۃ الجنۃ وان ریحھا توجد من مسیرۃ اربعین عاما۔( بخاری :۶۴۳۱)جس کسی نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گا؛جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے۔
معافی وامن کا عمومی فیضان
پیغمبر اسلام نے امن وامان کا ایسا بہترین نمونہ بھی انسانیت کے سامنے پیش کیا کہ جس کاتذکرہ بھی ایمانی حرارتوں میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔چناں چہ سیرتِ رسول ﷺ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ مکہ مکرمہ کا تیرہ سالہ دورِ نبوت مسلمانوں کے لیے جس قدر جاں گسل اور صبر آزما تھا ،آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے گئے ،ایمان والو ں کے حوصلے پست کرنے اور دین سے برگشتہ کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں چھوڑی،مکہ کی اکثریت مسلمانوں کی اس اقلیت پر ظلم وستم کرتے رہی،حالات بدلے اور مکہ مکرمہ سے نکالے جانے والے مسلمانوں کو اللہ تعالی نے فتح و کامرانی کے ساتھ مکہ میں پوری شان وشوکت کے ساتھ داخل ہونے کا موقع عنایت فرمایا ،فتح مکہ کے تاریخی دن جب مسلمان مکہ میں داخل ہونے لگے تو جہاں ایک طرف مسلمان خوشی و مسرت سے سرشار اور فتح و کامرانی کے جذبات سے معمور تھے وہیں مکہ کے باشندے اور دشمنان نبی و صحابہؓ پریشان تھے کہ اب نہ جانے کیا معاملہ اور سلوک ہو گا؟اور ظلم و ستم کے بدلے ناجانے کس اندازمیں پورے کیے جائیں گے؟ مسلمانوں کا قافلہ مکہ میں داخل ہوا ،انصار کا جھنڈا سعد بن عبادۃ کے ہاتھ میں تھا، انھوں نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا : ’’الیوم یوم الملحمۃ ‘‘ آج لڑائی کا دن ہے ،آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ ناراض ہوگئے اور ابوسفیان سے فرمایا : ’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘ آج رحمت کے عام کرنے کا دن ہے ۔ ( فتح الباری :۷/۶۰۱ سعودیہ)
اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟تو انھوں نے کہا جیسے حضرت یوسف نے اپنے خطاکار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ سے بھی ہمیں وہی توقع ہے ،اس جواب پر آپ ﷺ نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے فرمایاتھا کہ : لا تثریب علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء (السنن الکبری للنسائی:۱۰۷۸۴) یعنی تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو اور پھر اس کے بعد نبی رحمت ﷺ نے ایسا عجیب اعلان فرمایا کہ من دخل دار أبی سفیان فھو امن، ومن اغلق بابہ فھو امن۔(ابوداؤد:۲۶۲۹)جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگا وہ مامون ہے،جو اپنے گھر کا دروازہ لگالے وہ بھی مامون ہے ۔
امن وامان کااجازت نامہ
مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ نے باضابطہ ایک تحریری معاہد ہ کیا اور ایک دستور مرتب فرمایا ،معاہدہ اگر چہ بنیادی طور پر انصار کے بڑے قبائل اوس وخزرج کے ساتھ تھا؛ مگر اس میں مدینہ منوہ کے یہودیوں اور ان کے تین بڑے قبیلوں بنوقریظہ ،بنو نظیر،اوربنو قینقاع بھی شامل کیا گیا۔ یہ دستور مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق و اختیارت اور فرائض و واجبات کی اساس اور بنیادہے ۔اس دستور سے متعلق مولانا سید انظر شاہ کشمیر ی ؒ رقم طراز ہیں :اس تحریر ی دستاویز سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو امن اور جنگ دونوں حالتوں میں مساوی حقوق اور برابری کا درجہ دیا گیا ہے ،انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے ،عہد شکنی اور وعدہ خلافی یکساں طور پر سب کے لیے ناقابل معافی جرم قراردیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اسلامی ریاست کی حدود میں جان ومال اور عزت و آبرو کی مکمل حفاظت کی ضمانت دی گئی ۔( انسانی حقوق اور اسلام: ۲۳۶)ابن ہشام نے اس معاہدہ کے ۳۷ اصول کو اپنی مایہ ناز تصنیف سیرت النبی المعروف’’ سیرت ابن ہشام ‘‘( ۲ /۳۳۷ ) میں ذکرکیا ہے۔
موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری
اسلام نے امن وامان کا جو تصور دیا ہے اور اس کے متعلق جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں اس کی نظیر دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی اور خود نبی کریم ﷺ نے اپنی ذات سے عملی طور پر امن وامان کا نمونہ بھی انسانوں کے سامنے پیش کیا اور ہر شعبہ سے متعلق واضح ارشادات سے نوازا ہے۔خوش خلقی ،ایثارووفاداری،انسانی ہمدردی ،انسانیت نوازی،عفو ودگزر،صلہ رحمی وحسن سلوک وغیر ہ بے شمار قیمتی اور عظیم الشان تعلیمات سے اس امت کو نواز کر امن عالم کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈالی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام ہی نے دنیا میں امن وامان کو قائم کیااور اس کے ماننے والے ہی پوری دنیا میں پیکرِ امن ومحبت بن کررہے۔آج بھی ضرورت ہے اسلام کی جو تعلیماتِ امن ومحبت ہیں ان کو عام کیا جائے ،اسو ۂ نبوی ﷺ کی روشنی میں انسانوں کو امن ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں جگہ دی جائے۔
آج پوری دنیا بدامنی اور خوف وہراس کے تاریک ماحول سے لرزرہی ہے،اور ہرطرف ظلم وستم کا الم اناک دور چل رہا ہے ،انسان دامنِ امن کی تلاش میں پریشان ہیں ۔ایسے بدامنی،خون ریزی،قتل وغارت گری ،لوٹ کھسوٹ،دھوکہ دہی کے ماحول میں حقوق سے محروم اور ظلم وتشدد سے بدحال انسانوں کو سایۂ امن عطاکرنے اور عدل وانصاف کو پھیلانے کے لیے مسلمان کمربستہ ہوجائیں ۔ نبی کریم ﷺ کا حلف الفضول والا عظیم واقعہ ایک بے مثال نمونہ ہے کہ ہر ظلم کے خلاف متحدہ آواز بلند کی جائے ،ناانصافی کے خاتمہ اور مظلوموں کی حمایت کے لیے تفریقِ مذہب وملت کو مٹاکر صدائے انقلاب بلند کی جائے۔اسلام اور مسلمانوں کو جو دہشت گرد اور تشدد پسند کے طور پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے نفرت انگیزماحول میں بہت ضرورت ہے اسلام کے نظامِ امن وامان اور محبت والفت کو عام کیا جائے ،اور برادرانِ وطن کے ساتھ خوش اخلاقی،ملنساری، ایثار وہمدردی کا معاملہ کیا جائے ۔آخر میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی یہ فکر انگریز تحریر ملاحظہ فرمائیے: خلاصہ یہ ہے کہ سید الانبیاء ﷺ فداہ ابی وامی پورے عالمِ اسلام کے لیے پیغمبر امن وامان اور سلامتی وراحت بن کر تشریف لائے تھے۔جس وقت تک دنیا نے آپ ﷺ کے پروگرام پر عمل کیا،امن وچین کا دوردورہ رہا ،جب چھوڑدیا تو فتنہ وفساد ،ظلم وجور اور طرح طرح کے جرائم پھوٹ پڑے ۔دنیا نے امن ومان اور عدل وانصاف قائم کرنے اور انسدادِ جرائم کے لیے سیکڑوں مختلف قسم کے نظام چلاکر دیکھ لیے اور نتیجہ سب کے سامنے یہ آیا کہ جوں جوں یہ نظام بڑھے ،جرائم کا طوفان بڑھا،انصاف رخصت ہوا، امن واطمینان کا کہیں نام نہ رہا۔اب ذرا اس میدان میں آگے بڑھنے کے بجائے کچھ پیچھے ہٹ کر دیکھیں او رسرورکائنات ﷺ کے دیے ہوئے نظام کو زیادہ نہیں تو کچھ عرصہ ہی کے لیے امتحان ہی کے طورپر سہی آزماکردیکھیں اور پھر اس کا مشاہدہ کریں کہ دنیا کا امن وامان ،راحت وسلامتی، صرف پیغمبر ِامن وسلامتی رسول ﷺ ہی کے قدموں سے وابستہ ہے۔(رسول اکرم : پیغمبر امن وسلامتی: ۴۴)
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭