از: مولانا محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی
خادمِ تدریس دارالعلوم حیدرآباد
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (آئینہ دیکھنے کے وقت) یہ دعا پڑھتے تھے۔
اللّٰہم حَسَّنْتَ خَلْقِي فَحَسِّنْ خُلُقِي۔
ترجمہ: اے اللہ! آپ نے مجھے بہت اچھا بنایا ہے، آپ میرے اخلاق بھی اچھے کردیجیے۔
انسان فطری طور سے حسن وجمال کو پسند کرتا ہے، حسن وجمال کی دو قسمیں ہیں : ایک ظاہری حسن وجمال یعنی اپنا سراپا، دوسرے باطنی حسن و جمال جسے اخلاق کہتے ہیں ، اول الذکر حسن دکھائی دیتا ہے، اور ثانی الذکر حسن دکھائی تو نہیں دیتا؛ لیکن اس کے انوار وبرکات اور ثمرات انسانی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں ، ظاہری حسن میں ’’چہرہ‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور چہرے کے نشیب وفراز اور حسن وقبح سے شخصیت کا امتیاز ہوتا ہے؛ لیکن اللہ نے ’’چہرہ‘‘ کو جسم کے ایسے حصے میں بنایا ہے کہ دوسرے تو اسے دیکھ سکتے ہیں ، خود چہرہ کا مالک اُسے نہیں دیکھ سکتا، اِس لیے خود اپنا چہرہ دیکھنے، اُسے سنوارنے، بالوں میں کنگھا کرنے کے لیے انسان کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے؛ چناں چہ مرد ہوں یا عورتیں ، بچے ہوں یا جوان یا پھر بوڑھے؛ ہر کوئی اپنی شخصیت اور اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے آئینہ کا محتاج ہے، ایسے موقع پر سرکار ِدوعالمﷺ نے ایک چھوٹی سی دعا کی تلقین فرمائی ہے، دعا ہے تو بہت مختصر؛ لیکن اُس میں معانی کی پوری کائنات پوشیدہ ہے، مذکورہ دعا کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں دو مضمون ہیں : ایک’’اقرار وشکر‘‘ سے متعلق ہے؛ جب کہ دوسرا’’درخواست‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔
خَلْق اور خُلُق عربی کے دو لفظ ہیں :
خَلْق (خاء کے زبر کے ساتھ) سے مراد ظاہری اوصاف اور انسانی شکل وشباہت ہے۔
خُلُق (خاء اور لام پرپیش کے ساتھ) عربی میں اِس کی جمع اَخلاق آتی ہے، اِس کے معنی پختہ عادت کے ہیں اور اصطلاح میں :خلق سے مراد انسان کی ایسی کیفیت اور پختہ عادت ہے جس کی وجہ سے بغیر کسی فکرو توجہ کے نفس سے اعمال سرزد ہوں ، یہ اخلاق اچھے اور برے دونوں طرح کے ہوتے ہیں ، اِسلام میں اچھے اخلاق یعنی حُسن خُلق اور حُسن اخلاق کی بڑی اہمیت ہے، ایک مسلمان کے لیے عمدہ اور حَسین اخلاق کا مالک ہونا بہت ضروری ہے، اخلاقِ حَسَنہ میں : عفوودرگزر، صبروتحمل، قناعت وتوکل، خوش خلقی ومہمان نوازی، تواضع وانکساری، خلوص ومحبت جیسے اوصاف قابلِ ذکر ہیں ، حسنِ خلق کی بڑی علامت یہ ہے کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اُسے سزادینا چاہے تو نفس کو ہدایت کرے کہ اللہ کا ارشاد گرامی ہے: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔(آل عمران: ۱۳۴)(اور دبا لیتے ہیں غصہ اور معاف کردیتے ہیں لوگوں کو)یعنی غصہ کو پی جانا اور لوگوں کی زیادتی اور غلطیوں کو بالکل معاف کرنااخلاقِ حسنہ کی کسوٹی ہے۔
سرکار ِدوعالمﷺ کاپاک ارشاد ہے: بُعثتُ لأتممَ حُسنَ الأخلاق(موطا مالک، رقم: ۳۳۵۷) یعنی مجھے حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے؛ چناں چہ تمام اعلی اخلاق، اعلیٰ کردار، انفرادی اور اجتماعی کردار کے تعلق سے آپ نے امت کو آگاہ کیا اور خود اُس کا حق ادا کردیا اور ایسا کیا کہ قرآن نے إِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔(القلم:۴) جیسے الفاظ میں آپ کے اعلیٰ اخلاق کی شہادت دی؛ یعنی آپﷺ کی زبان قرآن ہے اور آپﷺ کے اعمال واخلاق، قرآن کی خاموش تفسیر یعنی قرآن کریم جن اعلی اعمال واخلاق کی تعلیم دیتا ہے، آپ اُن سب کا عملی نمونہ ہیں ۔
آپﷺ نے اپنے ارشاداتِ عالیہ میں بڑے موثر اسلوب میں اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے، ایک روایت میں ہے: کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں (ابوداؤد، رقم:۴۶۸۶) دوسری جگہ ہے: مومن اپنے حسن اخلاق سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پالیتا ہے۔(ابوداؤد، رقم:۴۷۹۸) ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن مومن کی میزانِ عمل میں اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی(یعنی اخلاقِ حسنہ کا درجہ ایمان کے بعد ارکانِ اسلام سے بھی بڑھا ہوا ہے۔(ترمذی، رقم: ۲۰۰۲)
بہر حال مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حسنِ خلق کا مسئلہ زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہے، اخلاق در اصل زندگی کے طریقے سلیقے اور قرینے کا نام اور اِسی کی تعلیم وتربیت در حقیقت دین کا حقیقی مقصود ہے اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ دینِ اِسلام عبادات سے شروع ہوتا ہے اور اچھے اخلاق پر ختم ہوتا ہے،اور ہمیں زندگی کا وہی سلیقہ اور قرینہ چاہیے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں سکھایا ہے، آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا وجنت ہے اور بد اخلاقی کا انجام خداوند ِ غالب وقَہَّار کا غضب ودوزخ ہے، مذکورہ دعا کے اندر سرکارِدوعالمﷺ نے تمام اخلاق کو سمیٹ لیا ہے ۔
آج مسلمانوں میں اخلاقی گراوٹ اِس درجہ ہے کہ الامان والحفیظ اور یہی اخلاقی زوال مسلمانوں کے زوال کا سبب ہے؛ کیوں کہ جب کوئی معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے تو وہاں سے انصاف، رواداری، برداشت، قناعت وتوکل اور خلوص ومحبت سب ختم ہوجاتے ہیں اور اِس اخلاقی اِنحطاط کی سب سے بڑی وجہ اِسلامی تعلیمات سے دوری ہے، سرکارِدوعالمﷺ کی سنتوں سے ناواقفیت ہے، دین بیزاری کے اِس دور میں تو آئینہ دیکھنے کے وقت پڑھی جانے والی اِس دعا کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، آیئے ہم سب مل کر اللہ سے اخلاقِ حسنہ کے حصول کی دعا کریں ، گھروں میں عورتیں اور بچیوں کو اِس کی تلقین کریں ؛ کیوں کہ مردوں کے مقابلہ میں ، خواتین آئینہ بہ کثرت دیکھتی ہیں ، بہتر ہوگا کہ مذکورہ دعا آئینہ کے اوپر لکھ کر چپکا دی جائے۔
حکمت اور پیغامِ نبوی
۱- جب انسان آئینہ دیکھتا ہے تو دائیں بائیں اور دنیا وما فیہاسے بے خبر ہوجاتا ہے اور اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے، سرکارِدوعالمﷺ نے غفلت کے ان لمحات کو ایک دعا کے ذریعہ ذکر ِ الٰہی میں مشغول فرمادیا اور آئینہ دیکھنے کو بھی عبادت بنادیا۔
۲- دعا کے پہلے حصہ میں بندے سے یہ اقرار کرایا جارہا ہے کہ اللہ نے اُسے حسن وجمال سے نوازا ہے، اُسے اَشرف المخلوقات کا تمغہ عطا فرمایا ہے، اسے جانوروں میں پیدا نہیں کیا یا اس کا چہرہ جانوروں جیسا نہیں بنایا، جب بندہ اپنے رب کے سامنے اِس بات کا اقرار کرتا ہے تو اُس کے اندر شکر گذاری کے جذبات ابھرتے ہیں اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ کے ساتھ اس کی محبت اور جذبۂ عُبودِیت میں برابر ترقی ہوتی رہتی ہے اور وہ خود پسندی اور کبر نفس جیسے مہلک امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
۳- دعا کے دوسرے حصے میں بندہ سے یہ کہا گیا کہ تم اپنے ظاہری حسن وجمال اورشکل وصورت سے زیادہ باطنی حسن وجمال پر توجہ دو، تم اللہ سے اپنے لیے حسنِ اخلاق مانگو، یہی انسانیت کا باکمال جوہر ہے اور حسنِ اجسام سے بھی اعلیٰ ہے، صورت اور سیرت دونوں کی بہتری دنیا وآخرت دونوں جگہ کی کامیابی کا زینہ ہے، اورچوں کہ باطنی ترقیات کی کوئی انتہاء نہیں ہے؛ اِس لیے باطنی ترقیات (حسنِ اخلاق) پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:۸؍۳۱۸۴)
۴- حسن، دنیا کی اُن پُر فریب چیزوں میں داخل ہے جو اکثر اوقات موجب ِ فتنہ ہو جاتی ہیں اور انسانوں کو ایک بدتر حیوان بنادیتی ہے اور جب شیشہ دیکھنے کی نوبت آتی ہے تو ایک گونہ خودپسندی اور خود نمائی دماغ میں پیدا ہوجاتی ہے؛ لیکن اِس دعا کے ذریعہ اُسی خود پسندی کو ختم کرنے کی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اِس میں ذاتی کمال کون سا ہے؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے، وہ جب چاہے چھین لے۔
حسن والے ! حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ
اور جیسے ہر آدمی کی آروز ہوتی ہے کہ وہ حسینِ عالَم کا خطاب حاصل کرے، اِس موقع پر اُس کو باطنی اور حقیقی حسن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔(چالیس دعائیں ،ص:۴۱)
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭