از: مولانا محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی کا انتقال
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے موقر اور قدیم استاذ حضرت مولانا برہان الدین سنبھلیؒ ۱۷؍ جنوری ۲۰۲۰ء مطابق ۲۱؍جمادی الاولی ۱۴۴۱ھ روز جمعہ کو لکھنؤ میں انتقال فرماگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں ۔
مولانا برہان الدین سنبھلی ملک کے معروف عالم دین، فقیہ، مصنف اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر فرزند تھے۔ مہتمم دارالعلوم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے تعزیتی خط میں مولانا مرحوم کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا اور آپ کی علمی شخصیت کے اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کو ملت کا خسارہ قرار دیا۔
حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی (ابن مولانا قاری حمید الدین ؒتلمیذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ)۵؍ فروری ۱۹۳۸ء کو سنبھل ضلع مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور عربی کی ابتدائی تعلیم والد ماجد اور سنبھل کے مدارس میں حاصل کرکے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ دارالعلوم میں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ وغیرہ اساطین علم سے استفادہ کیا۔
فراغت کے بعد دہلی کی قدیم درسگاہ مدرسہ عالیہ فتح پوری میں تدریسی خدمت کا آغاز کیا اور بارہ تیرہ سال تک اس مدرسہ میں درس نظامی کی تمام چھوٹی بڑی کتابیں پڑھائیں ۔ ۱۹۷۰ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی جوہر شناس نظروں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لیے آپ کا انتخاب کیا ؛ چناں چہ آپ ندوۃ العلماء تشریف لے گئے اور وہاں تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ کی کتابوں کے اسباق آپ سے متعلق ہوئے۔ ندوۃ العلماء میں آپ نے تقریباً ۴۵؍ سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ مختلف تدریسی اور علمی ذمہ داریاں انجام دیں ۔ آخر ی عمر میں تدریسی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوگئے تھے؛ لیکن طلبہ کی تربیت کا کام بدستور انجام دیتے رہے۔
ملک کے مشہور فضلائے دیوبند میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ آپ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند (قائم شدہ: ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء ) کے اجلاسات میں مدعو خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوتے تھے اور مدارس عربیہ کی نصاب کمیٹی کے ایک موقر رکن بھی رہے۔
فقہ اور تفسیر سے آپ کو خصوصی شغف تھا۔ ندوہ سے تدریسی وابستگی کے بعد آپ کو مجلس تحقیقات شرعیہ کی ذمہ داری بھی سپرد کی گئی۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی قائم کردہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے ساتھ آپ ابتدا سے ہی شریک رہے اور بعد میں اس کے صدور میں بھی ہوئے۔ آپ جمعیۃ علمائے ہند کے ادارۃ المباحث الفقہیہ کے موقر رکن اور مرکزی دارالقضاء اترپردیش کی قاضی کونسل کے صدر بھی مقرر ہوئے۔ آپ کی فقہی آراء غایت درجہ حزم و احتیاط اور صلابت و استقامت پر مبنی ہوتی تھیں ؛ یہی وجہ تھی کہ آپ کی رائے کو اعتبار و اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مختلف موضوعات پر آپ نے بے شمار مقالات و بحوث کے علاوہ متعدد اہم کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں ’معاشرتی مسائل: دین فطرت کی روشنی میں ، جدید طبی مسائل، یونیفارم سول کوڈ اور عورت کے حقوق، موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل، قضایا فقہیہ معاصرۃ (عربی)، رویت ہلال کا مسئلہ ، بینک انشورنس اور سرکاری قرضے ‘وغیرہ کافی اہم ہیں ۔ فقہی موضوعات کے علاوہ کچھ دیگر موضوعات پر بھی آپ نے کتابیں لکھیں ۔۲۰۰۸ء میں آپ کو عربی خدمات کے صلہ میں صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ’فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات ‘میں آپ کے مختصر احوال مذکور ہیں ۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭