از: مولانا محمد اللہ قاسمی

شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

نوٹ: سابقہ نومبر و دسمبر کے مشترکہ شمارے میں احوال و کوائف نہیں پیش کیے جاسکے تھے ؛ اس لیے گذشتہ مہینوں کے احوال و کوائف اس شمارے میں شامل کیے جارہے ہیں ۔

مجلس شوری کا اجلاس

            دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کا اجلاس ۲۲ تا ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء مطابق ۲۲ تا ۲۴؍ صفر ۱۴۴۱ھ کو مہمان خانہ میں منعقد ہوا ۔ تین دن تک چلنے والے اس اجلاس کی متعدد نشستیں منعقد ہوئیں ۔ اولاً اجلاس میں سابقہ مجالس کی کارروائی کی خواندگی و توثیق عمل میں آئی۔ اجلاس کی مختلف نشستوں میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم اور حضرت مولانا عبد الخالق مدراسی نائب مہتمم و حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی نائب مہتمم کی طرف سے شعبہ جات کی رپورٹیں پیش کی گئیں جن پر مجلس شوریٰ نے اطمینان کا اظہار کیا اور ضروری ہدایات دیں ۔

            مجلس شوری کے اجلاس میں ادارے کا سالانہ تخمینی بجٹ بھی پیش کیا گیا اور سال رواں کے لیے 38,23,60,000/- (اڑتیس کروڑ، تیئس لاکھ ، ساٹھ ہزار) روپئے کا بجٹ منظور کیا گیا۔ علاوہ ازیں ، ناظم تعلیمات حضرت مولانا خورشید انور گیاوی نے سال رواں کے نئے داخلے اور دیگر امور سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی۔ مجلس شوریٰ نے وسطیٰ الف کے اساتذہ کی درجۂ علیا میں ترقی بھی منظور کی۔ علاوہ ازیں ، اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے لیے نئے اراکین (حضرت مولانا محمد عاقل صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم جدید سہارن پور اور حضرت مولانا حبیب احمد باندوی ناظم جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ) کا  انتخاب بھی عمل میں آیا ہے۔

            مجلس شوریٰ کے موجودہ اراکین حسب ذیل ہیں :

            (۱)       حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، مہتمم

            (۲)       حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری، صدر المدرسین

            (۳)      حضرت مولانا بدر الدین اجمل قاسمی، آسام

            (۴)      حضرت مولانا غلام محمدوستانوی، اکل کوا، مہاراشٹر

            (۵)      حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی، لکھنؤ

            (۶)       حضرت مولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی، لکھنؤ

            (۷)      حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی، مالیگائوں

            (۸)      حضرت مولانا  اشتیاق احمد ، مظفرپور

            (۹)       حضرت مولانا ملک محمد ابراہیم صاحب ، میل وشارم

            (۱۰)     حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری ، ڈابھیل

            (۱۱)      حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری ، بانڈی پورہ کشمیر

            (۱۲)     حضرت حکیم کلیم اللہ، علی گڈھ

            (۱۳)     حضرت مولانا انوار الرحمن بجنوری

            (۱۴)     حضرت مولانا عبد الصمد ، بنگال

            (۱۵)     حضرت مولانا محمود حسن، راجستھان

            (۱۶)     حضرت مولانا انظر حسین ، دیوبند

            (۱۷)     حضرت مولانا نظام الدین خاموش ، ممبئی

            (۱۸)     حضرت مولانا محمد عاقل، سہارن پور (نو منتخب)

            (۱۹)      حضرت مولانا حبیب احمد، باندہ (نو منتخب)

شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف صدرجمہوریہ اور چیف جسٹس کو میمورنڈم

            ۱۱؍دسمبر کو مرکزی حکومت کے ذریعہ پاس کردہ سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (CAA) کی مخالفت میں مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے صدرجمہوریہ ہند اور چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ایک میمورنڈم ارسال کیاہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ صدرجمہوریہ اس قانون کو واپس لیے جانے کے سلسلے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں اور چیف جسٹس آف انڈیا اس غیرمنصفانہ اور فرقہ وارانہ قانون کا ازخود نوٹس لیں اوراس کو کالعدم قرار دیں ۔

            حضرت مہتمم صاحب نے اس میمورنڈم میں سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (CAA) کے سلسلے میں کہا کہ شہریت سے متعلق یہ قانون، ہندوستان کے عظیم دستور کی بنیادی شقوں کے خلاف ہے، دستور میں ملک کے ہر باشندے کو بلالحاظ مذہب وملت انصاف اورمساوات کا حق حاصل ہے، دستور ہند کی دفعہ (۱۴،۱۵) ریاست کو پابند بناتی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے ساتھ عدم مساوات کا سلوک نہ کرے اور ذات پات، عقیدے اور نسل کی بنیاد پر تفریق وامتیاز نہ برتے؛ چنانچہ یہ قانون دستور کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس آئین مخالف سیاہ قانون سے ملک کی قومی یکجہتی، رنگارنگی اور تکثیریت خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے، موجودہ مرکزی حکومت اکثریت کے نشے میں عدل و انصاف کی دھجیاں اڑارہی ہے اور ملک کو انارکی اور تقسیم کی طرف لے جارہی ہے۔

            صدرجمہوریہ ہند عزت مآب جناب رام ناتھ کووند اور چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ایس اے بوبڈے کے نام ایس ڈی ایم دیوبند مسٹر راکیش سنگھ کو سونپے گئے اس میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ آزاد ہندوستان کے قائدین نے اس ملک اورآئین کو جن مستحکم بنیادوں پر قائم کیا ہے وہ اس طرح کے امتیاز پر مبنی قانون سے براہ راست مجروح ہورہی ہیں ، اس سیاہ قانون سے جہاں شمال مشرقی ریاستوں میں امن وامانت کے سنگین مسائل پیدا ہوگئے ہیں وہیں پورے ملک میں اس کی وجہ سے ایک خاص طبقے کے تئیں نفرت، امتیاز اور ظلم کو بڑھاوا مل سکتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ملک کے امن پسند سیکولر شہریوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اس غیرآئینی اور تفریق وامتیاز پر مبنی قانون کو مسترد کردیا ہے اور پورے ملک میں وہ اجتماعی طور سے اپنی آواز بلند کرکے اس قانون کے نفاد کو روکنے کی کوشش میں حصہ لے رہے ہیں ۔

            حضرت مہتمم صاحب نے زور دے کر کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دیں ، تختۂ دار کو چوما، قیدوبند سے گذرے اور مذہب کی بنیاد پر اٹھنے والی ہر فرقہ وارانہ آواز کے خلاف محاذ کھڑا کیا، انھوں نے دوقومی نظریہ کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی اور ہندوستان کی مشترکہ وراثت اور گنگاجمنی تہذیب کو فرقہ پرستی پر ترجیح دی۔

            اس تحریر میں پورے ہندوستان میں عوام کی طرف سے اس قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا بھی حوالہ دیاگیا اور دستور ہندکے بنیادی ڈھانچے کی پامالی اور ہندوستان کے باشندوں کے درمیان تفریق وامتیاز پر مبنی اس قانون کو ختم کرنے کی پروزور اپیل کی گئی۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق جنوری 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts