بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            ۲۸؍ربیع الاوّل ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۶؍نومبر ۲۰۱۹ء منگل کا دن، شام پانچ بجے کے بعد دارالعلوم کے معین مفتی محمد نعمان زیدمجدہٗ نے یہ اندوہ ناک میسج بھیجا کہ استاذ محترم حضرت اقدس مفتی سعید احمد پالن پوری عَظّم اللہ أجرہٗ کے منجھلے صاحب زادے حافظ سعید احمد دار فانی سے دارجاودانی رحلت فرماگئے،  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون یہ خبر بجلی بن کر گری، تھوڑی دیر کے لیے حواس اڑگئے، کیفیت عجیب ہوگئی، سوچنے لگا کہ ہائے اللہ! اسّی سالہ بوڑھے باپ کو کتنا شدید صدمہ پہنچا ہوگا، اللہ تعالیٰ سے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت اور جملہ پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعائیں کرنے لگا، خصوصاً ضعیف وناتواں امراض میں گھرے والد بزرگوار کے لیے کہ اے اللہ! اُن پر رحم فرما، صبر وسکینت کی خصوصی عنایات سے نوازدے،  ’’الصبرُ عندَ الصدمۃِ الأولیٰ‘‘  پر دی جانے والی نوازشات کا استحضار عطا فرما، جس مضمون کو خود حضرت کی زبانی سن کر بے قراروں کو قرار آجاتا ہے، دل ودماغ میں اس کا القاء فرما!

            معلوم ہوا کہ تعزیت کے لیے مقامی علمائے کرام، گنگوہ کے شیخ الحدیث مولانا خالد سیف اللہ صاحب، جامعہ علوم القرآن جمبوسر کے مہتمم مفتی احمد دیولوی اور استاذ حدیث مفتی اشرف صاحب تبلیغی جماعت کی معمر ترین شخصیت جناب مولانااحمد لاٹ صاحب وغیرہ حضرت کے پاس موجود ہیں ، آخرالذکر شخصیت وفات سے پہلے ہی پہنچی ہوئی تھی، سارے حضرات تدفین تک اہل خانہ کے ساتھ رہے، الحمدللہ! حضرت اور جملہ پس ماندگان کے صبر وضبط کی حالت معلوم ہوکر تسلی ہوئی، حضرت مفتی صاحب کے پاس سے ان کا فون ہٹا لیاگیا تھا؛ تاکہ بار بار فون کی وجہ سے دل گیری میں اضافہ نہ ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے حضرت کو صبر واستقامت کا پہاڑ بنایاہے، تعزیت کرنے والوں کی خودتعزیت کرنے لگتے ہیں ، وہاں بھی ایسی ہی حالت رہی، پوتے، پوتی اور بہو کو تسلّی دی، فرماتے ہیں : ہم اللہ کے ہیں ، ساری کائنات اللہ کی ہے اور سب اللہ تعالیٰ ہی کے پاس لوٹنے والے ہیں ، کوئی پہلے لوٹ کر جارہا ہے کوئی بعد میں جائے گا، مرنے والا پہلے گیا، ہم اور تم بعد میں جائیں گے، جب جس کی باری آئے گی جائے گا، وہاں سب لوگوں کی ملاقات ہوگی، ایک محاورہ زبان پر بار بار آتا ہے: ’’جو آیا سو اپنا جو گیا سو سپنا‘‘ یعنی جو موجود ہے وہ اپنا ہے اور جو چلا گیا وہ لوٹ کر نہیں آتا، وہ خواب وخیال میں ہی آسکتا ہے۔ اسی طرح جب اماں (حضرت کی اہلیہ محترمہ) کا انتقال ہوا تھا تو تعزیت کرنے والوں سے کہتے: مجھے کوئی غم نہیں ہے، وہ پہلے گئی ہیں ، میری زندگی اکثر گزرچکی ہے، وہاں جاکر پھر ایک ساتھ رہیں گے، میں نے اب بخاری شریف سے رشتہ قائم کرلیا ہے، اسی میں لگا رہتا ہوں ، اس زمانے میں ایک محاورہ سنایا، جو میں نے صرف انھیں کی زبانی سنا: ’’بیوی کی موت جیسے کہنی کی چوٹ‘‘ یعنی بیوی کی وفات کا شدید ترین صدمہ ہوتا ہے، آدمی تڑپ جاتاہے، پھر آدمی اسے بھول جاتا ہے۔

            حضرت نے کئی بارارشاد فرمایا: مجھے کسی کی وفات پر غم نہیں ہوتا، پہلے بہت ہوتا تھا؛ لیکن جب میری بیٹی عائشہ سُعدیٰ کا انتقال ہوا، ۱۶؍ربیع الاوّل ۱۳۹۳ھ مطابق ۲۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کی تاریخ تھی، جمعہ کا دن تھا، ساڑھے نو بج رہے تھے،اسے بخار تھا، ہسپتال میں میری گود میں ہی روح پرواز ہوئی، میں اُسے بہت چاہتا تھا، ساتھ ساتھ رکھتا، جب پڑھانے جاتا تو درس گاہ میں پہلو میں رکھ کر پڑھاتا تھا، وہ ۱۳؍جمادی الاولیٰ ۱۳۹۱ھ مطابق ۷؍جولائی ۱۹۷۱ء بروز چہار شنبہ بعد نماز عشاء پیداہوئی تھی، اس طرح وہ ایک سال نوماہ تیرہ دن (شمسی) کی تھی، تجہیز و تدفین کے بعد میں بہت غم گین تھا، اگلے دن سبق پڑھانے کی میرے اندر سکت نہ تھی، نیند بھی نہیں آرہی تھی، میں اپنے کمرے میں لیٹا تھا، تمہاری اماں دوسرے کمرے میں ،اسی حالت میں آنکھ لگی، خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور مجھے تسلّی دے رہے ہیں ، فرمارہے ہیں : ’’اگر تم سے زیادہ محبت کرنے والے کے پاس تمہاری بچی چلی گئی ہے تو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اتنا سنتے ہی میری بے قراری کو قرار آگیا، میری نیند کھل گئی، میں اٹھا اور تمہاری اماں کو جگایا اور خواب بیان کیا توانھوں نے کہا کہ بالکل اسی طرح میں بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں دیکھ رہی تھی، انھوں نے بھی انھیں الفاظ سے مجھے تسلّی دی ہے، اب میرا دل پرسکون ہے، حضرت نے فرمایا: اس خواب کے بعد سے مجھے کسی کے مرنے کا  غم نہیں ہوتا اور خود اپنے مرنے کا غم بھی نہیں ہے۔ چنانچہ جب جواں سال ۲۹ سالہ بڑے فرزند ارجمند رشید احمدؒ کی شہادت ہوئی تو اس وقت حضرت مفتی صاحب لندن میں تھے، تدفین میں تاخیر سے منع فرمایا، دیوبند تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے دیگر آٹھ شہداء کے اہل خانہ کے پاس گئے اوراُن کی تعزیت کی، یہ سارے حضرات مظفرنگر سے دیوبند تیزاب کی گاڑی میں بیٹھ کر آرہے تھے کہ کسی وجہ سے بس بند تھی، تیزاب کی ٹنکی پھٹی اور سارے لوگوں پر تیزاب پڑا ان میں سے نو شہید ہوگئے  وہ دن (۵؍شوال ۱۴۱۵ھ مطابق ۷؍مارچ ۱۹۹۵ء) دیوبند والوں کے لیے بڑا ہی کرب ناک تھا، دکانیں بند کردی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت فرمائیں ! غرض یہ کہ جب تعزیت کرنے والے حضرت کے پاس پہنچے تو حضرت نے فرمایا: ’’آپ لوگوں کو مبارک باد دینی چاہیے کہ ایک بیٹے کو شہادت کا درجہ حاصل ہوا، اب میں شہید کا باپ کہلائوں گا۔‘‘

            قابل ذکر ہے کہ سعید بھائی کی وفات کے بعد سے اب تک پان نہیں کھایا اورنہ ہی ٹھنڈا پانی پیا ہے؛ جب کہ مدتوں سے برف ہی پینے کے عادی ہیں ، کہتے ہیں کہ ان چیزوں کو یک لخت میں نے بالکل چھوڑدیا ہے، اب تک تصنیف تالیف کا کوئی کام بھی شروع نہیں کیا، اللہ تعالیٰ حضرت کے آثار غم کو خوشی اور نشاط میں تبدیل فرمادیں ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپ … نے ارشاد فرمایا:  ’’إنَّ العینَ تدمعُ والقلبَ یَحْزُنُ وَلا نقول إلّا ما یُرضي ربنا، وإنا بفراقِکَ یا ابراہیمُ لمحزونون‘‘۔ (مسلم)

            دل پر صرف اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے، اس کا غم وہی دور کرتے ہیں ، آنکھوں سے آنسو بھی فطری تقاضا ہے اس میں حرج نہیں ؛ لیکن آہ و بکا کرنا انسان کا اختیاری عمل ہے؛ اس لیے شریعت نے اس کو منع کیاہے۔

            دیوبند آنے کے بعد اساتذہ، طلبہ اور شناسائوں کا تانتا بندھ گیا، حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی شیخ الادب دارالعلوم دیوبند نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا:  عَظَّمَ اللّٰہُ أجرَکُمْ في فَلْذَۃِ کبِدِکُمْ۔  (اللہ تعالیٰ آپ کے لخت جگر (کی رحلت کے صدمے) میں آپ کے ثواب کو بڑھا دیں !)

مرحوم کا خاکہ

            بھائی سعیداحمد مرحوم یکم ذی قعدہ ۱۳۸۷ھ مطابق یکم فروری ۱۹۶۸ء کو راندیر، گجرات میں پیداہوئے، جب دارالعلوم اشرفیہ میں حضرت استاذ حدیث تھے، والد محترم نے ہندوستانی رواج سے بالکل الگ انداز میں اپنے نام پر ہی بیٹے کا نام ’’سعید احمد‘‘ رکھا، یہ نام مرکب ہے، ان سے پہلے رشید احمد نام بھی مرکب رکھا گیا تھا، پھر وحید احمد کا نام بھی مرکب رکھا گیا؛ حالاں کہ گجرات میں مفرد نام کا ہی رواج ہے، تین کے بعد چھ فرزندان کے نام مفرد ہیں ، حسن،حسین، ابراہیم، قاسم، محمداور احمد، پھر دو کے نام مرکب اضافی ہیں : عبد اللہ اور عبید اللہ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی عمروں میں برکت عطا فرمائیں !

            حسبِ معمول حضرت نے اماں (اہلیہ محترمہ) کے تعاون سے خود ہی بسم اللہ کرائی، حفظ کی تکمیل کے بعد مولوی اسماعیل کی اردو زبان کی ساری کتابیں پڑھائیں ، تختی پر لکھنا سکھایا، پھر فارسی کی کتابیں پڑھا کر، عربی اوّل اور دوم تک پڑھایا،اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا، سوم اور چہارم عربی کو اچھی طرح پڑھا، اس کے بعد دارالعلوم کا اختلافی قضیہ نا مرضیہ شروع ہوگیا، پنجم عربی میں آنے کے بعد تعلیم شروع ہوئی؛ مگر دلجمعی نہ تھی، دیوبند سے چلے گئے، پھر واپس آئے تو حضرت نے پوچھا: کیا کروگے؟ تو انھوں نے معاش کی طرف اپنی رغبت کا اظہار کیا؛ چنانچہ ممبئی گئے، ایک دو سال بعد پھر دیوبند آئے گھر کے قریب ایک دوکان کھولی؛ پھر قرآن کریم کی تدریس میں لگنے کا ارادہ ہوا، اس کے لیے گجرات تشریف لے گئے اور وہاں دارالعلوم رام پورہ، سورت میں تحفیظ قرآن کریم کی خدمت کا آغاز کیا، چند دنوں بعد ہی طریقۂ تدریس کی شہرت ہوئی، طلبۂ کرام اور اساتذہ میں بڑی نیک نامی ہونے لگی، اسی خدمت میں اخیر دم تک لگے رہے، قرآنِ پاک سے اللہ تعالیٰ نے بڑا لگائو عطا فرمایا تھا، تدریس قرآن کا شغف دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا؛ جب ہاسپیٹل میں تھے تو بے ہوشی کے عالم میں طلبۂ کرام کو پڑھاتے تھے، کوئی آیت پڑھتے کہ یہاں سے پڑھو پھر اس کی غلطی بتاتے اور اسی لائق رشک حدیث النفس میں رہ کر جان جانِ آفریں کے سپرد فرمایا، صرف اخیر کے دو دن جب بدن میں حرکت نہ تھی، کچھ نہیں بولے۔ تقریباً پچیس سال تک قرآن پاک کی خدمت نصیب رہی، پندرہ سولہ سال سے مرحوم کی اہلیہ بھی اسی مدرسہ میں بچیوں کو حفظ کراتی ہیں ، ان کو بھی ساس نے حفظ کرایا ہے، یعنی مرحوم کی والدہ کی کرامت تھی کہ انھوں نے اپنے سارے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ اپنی بہوئوں کو بھی قرآنِ کریم حفظ کرالیا، ساس کی وفات کے بعد جن بہوئوں کا قرآنِ کریم باقی تھا سب نے اپنے اپنے شوہروں سے اس کی تکمیل کی۔ ایک آدھ کا ہی قرآن ختم نہ ہوسکا۔

            مرحوم کی اہلیہ خالہ زاد بہن ہیں ، انھوں نے ساس کے طریقے پر اپنے دونوں بیٹوں (حبیب اللہ، مجیب اللہ) اور دونوں بیٹیوں (نجیبہ، فاطمہ) کو قرآنِ کریم حفظ کرایا، ماشاء اللہ سب کامیاب ہیں ، دونوں بیٹیاں بھی لڑکیوں کے مدرسے میں ماں کی طرح حفظ پڑھا رہی ہیں ، الحمدللہ قرآن کی خدمت کی برکت سے سب کی اجتماعی تنخواہوں سے گھر چل رہا ہے، ان شاء اللہ چلتا رہے گا، مدرسہ کے ذمہ داروں نے ایک عمدہ مکان مالکانہ حیثیت سے دے رکھا ہے، اسی میں مرحوم اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے، بچے ابھی بھی اسی میں ہیں ، عدت میں ہونے کی وجہ سے مدرسہ کی بچیاں گھر آکر قرآن کریم سنادیتی ہیں ۔

            مرحوم نے بڑے بیٹے حبیب اللہ کی شادی اپنے بھائی مولانا حسن قاسمی مدظلہٗ (ابّا کے کمپیوٹر آپریٹر) کی دختر نیک اختر حافظہ بُشریٰ سلمہا سے کی، الحمدللہ اس سے ایک فرزند ’’ریّان‘‘ تولد ہوا اور ایک بیٹی نجیبہ کی شادی گجرات ہی میں ہوئی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی باقی ہیں ، بیٹی کا رشتہ ہوچکا ہے، رمضان المبارک سے پہلے پہلے ہی نکاح ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔

تدفین

            خوش قسمتی سے مرحوم کی تدفین سورت (نمبر۵) راندیر، گجرات کے اس قبرستان میں ہوئی ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں تبع تابعین کی قبریں ہیں ، اس میں ہندوستان کے نامور مفتی عبدالرحیم لاج پوریؒ، ان کے داماد محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحقؒ ہردوئی اور دارالعلوم اشرفیہ راندیر کے شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد رضا اجمیریؒ بھی مدفون ہیں ، اس کا نام ’’خطۂ صالحین‘‘ ہے، تبع تابعین کی قبروں سے چند گز کے فاصلے پر بھائی سعید احمد کی قبر مبارک ہے، مرحوم نے عیسوی کے لحاظ سے اکاون اور ہجری کے لحاظ سے تقریباً تریپن سال کی عمر پائی۔ اسی قبرستان (گورغریباں ) میں مرحوم کی بہن عائشہ سُعدیٰ بھی مدفون ہیں ۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

ترکہ کی تقسیم

            حضرت مفتی صاحب کی مُومَن قوم کی روایات کے مطابق وفات کے تیسرے دن ترکہ کی تقسیم ہوجاتی ہے، مرحوم کے ترکہ کی تقسیم بھی حضرت نے کی، باپ ہونے کی حیثیت سے وارث میں ترکہ پاتے؛ مگر آپ نے ترکہ نہیں لیا، ورثاء کے حق میں اپنے حصہ سے دست بردار ہوے، بیوہ اور چاروں بچے، بچیوں کو ترکہ دے دیا، کچھ لوگوں کے قرض تھے وہ بھی حضرت نے ادا فرمائے اور اندازہ کرکے ایک ہزار نمازوں کا فدیہ پینتیس ہزار روپے فقراء میں تقسیم کیے۔

            مرحوم کے بعد گھر چلانے کے لیے حضرت نے بتایا کہ سارے افرادِ خانہ کی طرف سے ایک متعین رقم جمع ہو، مثلاً ہزار ہزار روپے سب سے لیے جائیں جو کماتے ہیں وہ اپنی کمائی میں سے دیں اور جو نہیں کماتے ہیں اُن کی طرف سے اُن کے ملے ہوئے ترکہ میں سے لیا جائے؛ تاکہ یتیم کا مال کھانا لازم نہ آئے، جب یہ رقم ختم ہوجائے گی تو بعد میں اللہ مالک ہے۔

            حضرت نے بھائی رشید احمد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم بھی اسی طرح کی تھی، بیوہ کو اس کا حصہ دے دیا اور پوتوں کے ترکہ میں سے نہایت معمولی رقم ہر ماہ بدلِ طعام کے طور پر کٹتی رہی، جب ختم ہوگئی تو آپ اپنی رقم ان پر خرچ کرنے لگے، اُن کے ترکہ سے بھی آپ نے اپنا حصہ نہیں لیا تھا۔ ایک بار ارشاد فرمایاکہ سارا حساب لکھاہوا ہے، اگر کوئی چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔ شریعت کا یہی طریقہ ہے کہ جب بچے کے پاس مال ہو تو اس کا خرچہ اس کے مال سے کیاجائے، جب نہ ہو تو باپ پھر دادا پر خرچہ آتا ہے۔ اس صورت میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یتیم کا مال کھالیا اور یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت نے رشید بھائی کے دونوں بیٹوں کو اپنے بیٹے کے برابر ترکہ میں وصیت کررکھی ہے؛ تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اسلام میں یتیم پوتا محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو بھی نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں !

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق جنوری 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts