از: مولانا محمد خالد حسین نیموی قاسمی
ناظم تعلیمات مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے
آزادی اللہ تعالی کی عطاکی ہوئی ایک بڑی نعمت ہے، ہر شخص شکم مادر سے آزاد پیدا ہوتا، آزاد رہنا اور آزاد فضاؤں میں سانس لینا،ہر شخص کا بنیادی حق ہے ؛لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آزاد انسان؛ انسانوں کی پوری جماعت ؛بلکہ کبھی کبھی پورے ملک کو غلام بنالیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پرغیور انسان اپنی اور اپنے ملک کی آزادی کی حتی الامکان حفاظت کرتا ہے اور آزادی پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے مقابلہ کرتا ہے۔الحمد للہ ۱۹۴۷ء کے بعد سے ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں ؛لیکن اس سے پہلے ہمارا یہ مادر وطن ہندوستان انگریز وں کا غلام اور ان کے پنجۂ استبداد کا شکار تھا۔ دوسوسال قبل مختلف سازشوں اور مکر وفریب کے ذریعہ سلطنتِ مغلیہ کے عہد میں آزادی کے حسین پرندے کو ذبح کرکے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کو غلام بنالیا گیا تھا۔ انگریز اپنی حکومت واقتدار کے ذریعہ ایسی نسل پیدا کرنا چاہتے تھے، جوخون کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو؛ لیکن اپنی سوچ وفکر اور عقیدے کے لحاظ سے انگریز ہو۔ ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں جو طاقت سدِّ سکندری بن گئی، وہ علماء کرام کی جماعت تھی، سب سے پہلے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا، حضرت سید احمد شہیدؒ اور ان کے ساتھ مکمل قافلۂ حریت نے باطل کے خلاف جرأت وعزیمت قربانی وجانفروشی کی تاریخ رقم کی، جس کے نقوش بالاکوٹ کی پہاڑیوں اور کالاپانی اور جزائر انڈمان ونکوبار پر بکھرے ہوئے ہیں ۔
اس کے بعد سالار قافلہ حاجی امدارداللہ مہاجر مکیؒ، حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہید ؒ،مولانا جعفر تھانیسریؒ نے ۱۸۵۷ء میں انگیریزوں کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف پھر پور مسلح جد وجہد کی اور شاملی، تھانہ بھون کے معرکوں میں خون وپسینہ ایک کرکے آزادی ہند کی آبیاری کی۔ دوسری طرف دار العلوم دیوبند کی شکل میں اسلامی علوم وفنون اور تہذیب وثقافت کی حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ایک مستحکم قلعہ قائم کردیا، جس سے ایسے جیالے پیدا ہوئے جس نے انگریزوں کا ناطقہ بند کردیا اور بتدریج انھیں اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ان جیالوں میں سب سے نمایاں نام حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کا ہے، انھوں نے اور ان کے تلامذہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، امام حریت مولانا عبید اللہ سندھی ؒوغیرہ نے نظام باطل کو للکارنے کے لیے ’’جمعیۃ الانصار‘‘ اور ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے ذریعہ منظم پلاننگ کی۔ اس کے علاوہ خلافت اسلامیہ مرکزیہ کے تحفظ ودفاع،ملت اسلامیہ کی تنظیم اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ایک منظم اور بھر پور تحریک چھیڑنے کے لیے ’’تحریک خلافت‘‘ کے اور تحریک عدم موالات (نان کوپریشن مومنٹ) کے بینر تلے کئی عظیم ’’شخصیتیں میدان عمل میں جلوہ گر ہوئیں اور جمعیۃ علماء ہند کا قیام بھی عمل میں آیا۔ جس کے سب سے ممتاز قائد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ تھے، ان کی پوری زندگی یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جہد مسلسل اور جہاد مسلسل سے عبارت تھی۔ حضرت شیخ مدنی کے تلامذہ میں بھی انگریز دشمنی اور جہاد آزادی کی روح موجزن تھی۔
مولانا منت اللہ رحمانیؒ ممتاز مجاہد آزادی
ان تلامذہ میں ایک نمایاں اور ممتاز نام مجاہد حریت امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ کا بھی ہے۔ آپ کی ولادت قطب ِعالم مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کے گھر ۵؍مئی ۱۹۱۲ء مطابق ۹؍جمادی الثانیہ ۱۳۲۳ھ میں ہوئی اور وفات ۱۹؍مارچ ۱۹۹۱ء مطابق ۳رمضان المبارک ۱۴۱۱ھ میں ہوئی۔ آپ کو حضرت شیخ الاسلام ؒسے شاگردی کا موقع ۱۹۳۰ء سے۱۹۳۳ء تک ملا۔ اس وقت آ پ اپنی عمر کی بائیس بہاریں دیکھ چکے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب جمعیۃ علماء نے انگریزوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ اور آپ نے اپنے استاذ محترم کی اجازت اور اپنے ذاتی جذبہ حریت کی بنیاد پر حرب سلمی یا سول نافرمانی کی اس تحریک میں پھر پور حصہ لیا، کئی بار گرفتار کیے گئے۔ قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا، چکّیاں پیسیں ، پولیس کے ڈنڈے کھائے، زخمی ہوئے۔ خون وپسینہ سے آزادی کے شجر کوسیراب کیا۔ اور مکمل آزادی ملنے تک آپ کی زندگی بھی جہد مسلسل اور جہاد مسلسل سے عبارت رہی۔ شیخ لاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنیؒ کی حیات پوری طرح ان پرسایہ فگن اورپر تو ریز تھی۔ حضرت مدنیؒ کی ایک ایک ادا کو انھوں نے اپنے اندر پوری طرح سمولیا تھا؛ چنانچہ ابھی آپ طالب علمی کے دور میں تھے کہ استاذِ محترم کے نقش قدم پر چل کر جنگ آزادی میں نبر د آزمائی شروع کردی اور ۱۹۳۲ء میں سہارنپورکو اپنے یوسفی کردار کی جولان گاہ بنادیا۔جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے استخلاص وطن کی تحریک میں مستقل آبلہ پائی کرتے رہے۔ حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی مجاہدانہ خدمات کا صحیح ادراک کے لیے ’’سول نافرمانی‘‘ تحریک کا پس منظر اور پیش منظر کو جاننا لازمی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سول نافرمانی کی مختصر تاریخ!
آزادی عطا نہیں کی جاتی ہے؛ بلکہ جد وجہد سے حاصل کی جاتی ہے
تحریک خلافت ۱۹۱۸ء میں شروع ہوئی اور جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد ۱۹۱۹ء میں پڑی، جس کے بینر تلے پہلے عدم مولات یا ’’نانا کوپریشن مومنٹ‘‘ چلائی گئی۔ ایک عشرہ گذرنے کے بعد مسلمانان ہند کی عظمت وعزت برقرار رکھنے کے لیے اکابر کے اسوہ کے مطابق جمعیۃ علماء ہند نے جنگ آزادی میں شرکت کا فیصلہ۔ اس موقع پرمفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ،مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نائب امیر الشریعۃ صوبہ بہار واڑیسہ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر ایک جامع رپورٹ پیش کی،جسے ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۶ء کو مجلس عا ملہ جمعیۃ علماء نے منظوری دی تھی۔جس کا ایک اہم دفعہ’’ آزادی ہند‘‘ سے متعلق تھا۔ جس کا متن یہ تھا:
’’جمعیۃ علماء کا یہ اجلاس اپنے اس اذعان ویقین کا اعلان کرتا ہے کہ آزادی عطا نہیں کی جاتی؛ بلکہ اپنی جد وجہد سے حاصل کی جاتی ہے اور یہ کہ ہندوستان کی حکومت کا دستور اساسی وضع کرنے کا حق صرف ہندوستانیوں کو ہے اور کسی اجنبی قوم کو ان کی قسمت کے فیصلہ کرنے کا اختیارنہیں ہے۔‘‘ (تجاویزمنظور شدہ اجلاس ہشتم جمعیۃ علماء ہند منعقدہ پشاور ۵؍دسمبر ۱۹۲۷ء )
اس فیصلہ کے بین السطور میں یہ امر پوشیدہ تھا کہ آزادی تحفہ میں نہیں ملنے والی ہے؛ بلکہ اسے ظالم حکم رانوں سے چھین کر لینا ہو گا ؛لیکن آزادی چھیننے کی ترکیب کیا ہوگی ؟؟
حصول آزادی کی واحد راہ؛ سول نافرمانی
جمعیۃ علماء ہندکے اجلاس امروہہ میں علامہ سید سلیمان ندویؒ نے سبجیکٹ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:’’ انقلاب کی تحریک جب شروع ہوجاتی ہے، تو تاریخ کی شہادت یہی ہے کہ وہ بے نتیجہ ختم نہیں ہوتی ہے۔ بے شک اس کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ نیست ونابود معلوم ہونے لگتی ہے ؛لیکن اس کی خاک میں چھپی ہوئی چنگاریاں پھر دہکتی ہیں اور شعلہ بن کر مختلف طاقتوں کو نذر آتش کر دیتی ہیں ؛اب کیا مسلمان یہ پسند کریں گے کہ مخالف ِانقلاب طاقتوں کا ضمیمہ بن کر وہ بھی نذر آتش بن جائیں یا ساحل پر کھڑے ہوئے طوفان کا تماشہ دیکھتے رہیں اور جب طوفان ختم ہو تو وہ اپنی سیاسی حیثیت بھی ختم کر چکے ہوں اور ان کا شمار بھی انھیں پسماندہ قوموں میں ہو؛ جن کے لیے ہندوستان میں نفرت وحقارت کی پالیسی ہمیشہ کے لیے طے ہوچکی ہے۔ (مولانا حفظ الرحمن: ایک سیاسی مطالعہ ص ۱۳۶)
۱۹۲۹ءکے جمعیۃ علماء کے اس اجلاس میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے باضابطہ جنگ آزادی ہند میں مسلمانوں کی فعّال شرکت اور حرب سلمی (سول نافرمانی )کی تجویز پیش کی اورشیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مفتی کفایت اللہؒ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒاور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تائید سے جنگ آزادی میں شرکت کی اور سول نافرمانی کی تجویز کو منطوری دے دی گئی۔ جتنے حریت پسند تھے؛ انھوں نے جمعیۃ علماء کی اس تحریک سے اتحا د قائم کیا اور جمعیۃ علماء نے بھی اس عظیم مقصد کے لیے دیگر تنظیموں کا ساتھ دیا۔ گاندھی جی کا شروع کردہ نمک ستیہ گرہ اور، ڈانڈی مارچ کا بھی جمعیۃ علماء اور اس کے رضاکاروں نے ساتھ دیا۔
جمعیۃ علماء کا ادارہ حربیہ
لیکن سول نافرمانی کو باضابطہ ایک تحریک کے طور پر چلانے کی ضرورت تھی؛چنانچہ اس کے لیے جمعیۃ علمائے ہند نے ایک ذیلی اور خفیہ ادارہ ’’ادارہ حربیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ جس کے پلیٹ فارم سے پورے ہندوستان میں جمعیۃ علماء کے رضا کار ہزاروں کی تعداد میں انگریز کی پالیسیوں سے ٹکراتے، اس کو توڑ تے اور قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کیے جاتے، اور بزبان حال وقال یہ اعلان کرتے :
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ادارہ حربیہ کے مدبر منتظم مولانا سجادؒ
اس نظام کو کامیابی خفیہ حکمت عملی اور منظم پلاننگ کے ساتھ چلانے کے لیے ضرورت تھی ایک ایسی دور اندیش اور مدبر شخصیت کی جو سیاست کے نشیب وفراز کو بھی خوب جانتی ہو اور انگریز کی ہر عیاری کا جواب جرأت وبیباکی اور خاموش پلاننگ کے ساتھ دے سکے۔ اکابر ِجمعیۃ کی نگاہ انتخاب جس شخصیت پر پڑی وہ کوئی اور نہیں ؛ بلکہ ملت اسلامیہ کے تجربہ کار بابصیر ت قائد اور سیاست کے نشیب وفراز سے واقفیت رکھنے والی جامع شخصیت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب امیر شریعت بہار وسابق ناظم اعلی جمعیۃ علماء ہند تھے۔ انھیں اس ’’ادارہ حربیہ‘‘ کا امیر بنایا گیا اور وہ بڑی کامیابی کے ساتھ عرصۂ دراز تک اس ذمہ داری کو انجام دیتے رہے۔ آپ کی پلاننگ اتنی خفیہ منظم اور مربوط ہوتی تھی کہ آپ جو آپریشن بھی جمعیۃ علماء کے رضاکاروں کے ذریعہ انجام دلواتے تھے، انگریز حکم رانوں ، اس کی پولیس اور اس کی انٹیلی جنس کو اس کی بھنک بھی نہیں لگتی تھی۔
حضرت مولانا سجادؒ کے رفیق کار مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ فرماتے ہیں :
’’جمعیۃ علمائے ہند نے اس اکیس سالہ سیاسی دور میں ہندوستان کے اندر اسلام کی سر بلندی اور ملک ووطن کی آزادی کے لیے بر ٹش حکومت کے مقابلہ میں جب بھی ’’دائرہ حربیہ ‘‘قائم کرکے سول نافرمانی کا آغاز کیا ؛تو ہمیشہ مولانا ئے موصوف ہی اس ادارے کے امیر یا انچارج مقرر ہوئے اور مولانا نے بے سر وسامان مجلس کے جھنڈے کے نیچے ہندوستان کے مختلف صوبوں کے ہزاروں مسلمانوں کی بہترین قیادت انجام دی اور دائرہ حربیہ کے کام کو اس خوبی سے انجام دیا کہ اس سے بہتر اہم کام اور مشکل کو انجام دینا دوسرے کے لیے بہت مشکل تھا۔ ‘‘(حیات سجاد ص۷۸)
مولانا محمد میاں صاحب سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے ادارہ حربیہ کے پس منظر اور مولانا سجادؒکی بابصیرت قیادت ورہبری اور سول نافرمانی تحریک میں شرکت کرنے والوں کی گرفتاری اور اذیت رسانی بالخصو ص مولانا منت اللہ رحمانیؒ اور اپنے قید وبند کے حالات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، لکھتے ہیں :
’’جمعیۃ علماء ہند نے جب ۱۹۲۹ء میں جنگ آزادی میں شرکت طے کی تھی؛ تو ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا تھا کہ اس کا پلیٹ فارم علیحدہ ہوگا، اس کے رضا کاروں کا نظام بھی علیحدہ رہے گا۔ گرفتاریوں کا پروگرام بھی جمعیۃ علماء ہند اپنے ارکان اور کارکنان کے لیے علیحدہ بنا ئے گی اور اگر مقدمات وغیرہ کے سلسلے میں مصارف کی ضرورت ہوگی، تو ان کاا نتظام بھی جمعیۃ علماء اپنے طور پر کرے گی۔ کانگریس یا کسی اور پارٹی کی طرف نظر نہیں اٹھائے گی۔ اب ۱۹۳۲ء میں جب تحریک میں دوبارہ جان پڑی تو اس کو زندہ رکھنے کے لیے غذا کی ضرورت تھی۔ پروگرام کے مطابق سول نافرمانی کرتے ہوئے گرفتا ر ہوجانا تحریک کی غذا تھی؛ مگر اس مرتبہ غذا کا فراہم کرنا کا نگریس اور جمعیۃ دونوں کے لیے مشکل ہورہا تھا ؛کیوں کہ اول تو مسلسل تین سال گذرجانے کے بعد کا رکنوں کے جوش ِعمل میں اضمحلال پیدا ہوجا نا ایک قدرتی امر تھا۔ اس کے علاوہ ولنگڈن گورنمنٹ نے اس مرتبہ تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی صف اول کے تمام لیڈروں کو گرفتار کرلیا تھا۔ مزید برآں ضبطی جائیداد اور گرفتاریوں کے سلسلہ میں بھی حکومت کی پالیسی پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی تھی۔
مگر ان حالات کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ تحریک کے رگوں میں اور پٹھوں میں تقویت کے انجکشن، اس پردہ داری کے ساتھ لگا ئے جائیں کہ سی آئی ڈی کی نظر تفتیش ان ڈاکٹروں تک نہ پہنچ سکے، جو انجکشن کی سوئیاں ہاتھ میں لیے ہوئے ہوں ۔ عام طور پر یہ پروگرام ہوا کرتا تھا کہ ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ رضا کاروں کے جتھے بھیجے جاتے تھے۔ جو بر سر عام قانون کی خلاف ورزی کرتے تھے اور گرفتار کرلیے جاتے تھے، عام طور پر دفعہ ۴۴؍۸۸ کی خلاف ورزی بھی ہوجاتی تھی۔ پولیس کی کوشش یہ رہتی تھی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ رضا کاروں کا جتھا کہاں سے روانہ ہوگا؟ تاکہ روانگی سے پہلے ہی ان کو گرفتار کرلیا جائے اور اگر یہ نہ ہو، تو جیسے ہی جتھا روانہ ہو، فوراگرفتار کرلے؛ تاکہ شہر میں خلاف قانون اقدام کا مظاہرہ نہ ہو سکے۔ پورے ملک میں ’’سول نافرمانی‘‘ اور خلاف ورزی قانون کے اس نظام کو زندہ رکھنے کے لیے ایک مستقل نظام کی ضرورت تھی؛ چنانچہ کانگریس نے جنگی کونسل قائم کردی تھی اور جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اس نظام کے لیے عربی لفظ’’ ادارہ حربیہ‘‘ منتخب کیا تھا۔ وہ زمانہ بھی عجیب تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒاور ناظم اعلی سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ تھے؛ مگر وہ ڈاکٹر جس کو بہت سے انجکشن سپرد کیے گئے تھے۔ ابوالمحاسن مولانا سجاد صاحبؒ نائب امیر شریعت صوبہ بہار تھے۔ رحمہم اللہ۔ ادارہ حربیہ کے کلید بردار یہی حضرت تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے دفتر سے علیحدہ محلہ بلی ماران کی ایک تاریک گلی میں ایک مکان لے لیا گیا تھا۔ حضرت مولانا سجاد رحمہ اللہ علیہ کا قیام اسی مکان میں رہتا تھا جس کا علم دفتر کے لوگوں میں سے بھی غالبا صرف قاضی اکرام الحق صاحب کو تھا۔ جماعت کے جو حضرات اسی ادارہ کی ضرورت سے حضرت موصوف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے؛ تو قاضی اکرام الحق صاحب ہی ان کے رہبر بنتے تھے۔ ‘‘ (مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ ص ۱۵۴)
بہر حال جانبازوں اور سر فروشوں کے اس دستہ کے کمانڈر انچیف مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒتھے۔ اور وہی دائرہ حربیہ کے کلید بردار تھے، حضرت نے اپنے مختلف رفقاء کار اور رضاکاروں کے لیے الگ الگ ترتیب بنا رکھی تھی، جو انتہائی خفیہ طور پر اپنے منصوبوں کو نافذ کرتے تھے۔ اہم عوامی مقامات، مدارس اور مساجد میں پہنچ کر مولانا سجادؒ کے فرستادے بیان کرتے، تقریر کرتے رائے عامہ کو انگریزوں کی نافرمانی کے لیے بیدار کرتے اور انٹلی جنس کو بھنک لگنے سے پہلے واپس ہوجاتے۔ ‘‘
مساجد کے منبرو محراب سے سول نافرمانی کا اعلان
ہرشہر کا مرکزی مقام مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے اس شہر کی جامع مسجد ہوا کرتی ہے۔ دہلی کا سب سے مرکزی مقام جامع مسجد دہلی ہے۔ دیگر تمام مساجد کے مقابلہ میں جمعہ کی سب سے بڑی جماعت بھی اسی جامع مسجد میں ہوتی ہے۔ اس میں موثر بیان کا مطلب ہزاروں ہزار افراد کا تیار ہونا تھا۔ اس لیے مولانا سجادؒ کی خاص نظر جامع مسجد دہلی او ر دیگر بڑے شہروں کی جامع مسجد کے منبر ومحراب پر تھی۔ اور اپنے خاص افرادورفقاء کو وہاں بیان وخطاب کے لیے بھیجتے تھے۔ مولانا سجادؒ کے ان رفقاء میں ایک نمایاں نام حضرت مولانا محمد میاں صاحب کا بھی تھا، وہ ادارہ حربیہ کی کارگذاری بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’موصوف (مولانا ) سجادؒ کی ہدایت احقر (مولانا محمد میاں ؒ ) کے لیے یہ تھی کہ ہر ہفتہ جمعہ کی صبح کو مراآباد سے چل کر دہلی پہنچا کرے اور جمعہ بعد جامع مسجد دہلی میں تقریر کرے اور واپس ہوجایا کرے۔ چند جمعے اسی طرح گذرے، مراد آباد سے تقریبا پانچ بجے صبح کو گاڑی چلتی تھی، احقر اس ٹرین سے تقریبا ساڑھے دس بجے دہلی پہنچتا تھا۔ اسٹیشن پر ہی کوئی صاحب( حضرت مولانا سجادؒکی ہدایت پر )موجود رہتے تھے؛ جو احقر کو احتیاط کے ساتھ طے کردہ مقام پر پہنچا دیتے تھے۔ پھر اسی احتیاط کے ساتھ رقیبوں کی نظروں سے بچاتے ہوئے جامع مسجد پہنچاتے اور تقریر کے فورا بعد اسی احتیاط سے کسی صاحب کی رہنمائی میں صوبہ دہلی کے حدود سے باہر پہنچا دیتے ؛پولیس جب تلاش کرتی تو اس کو اپنی ناکامی پر کافی جھنجھلاہٹ ہوا کرتی تھی۔‘‘
جمعہ کا دن تھا احقر حسب ہدایت مولانا سجاد مردآبادسے دہلی پہنچا۔ اس روز پولیس پوری طرح چوکنی تھی۔ احقر کی گرفتار ی کا سامان اس نے مکمل کررکھا تھا۔ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کو اس کا علم تھا۔ مولانا موصوف نے نماز جمعہ کے لیے احقر کو خفیہ راستوں سے روانہ فرمایا، تو احقر کے رہبر قااضی اکرام الحق صاحب کو تاکید کردی کہ نماز کے بعد جنوبی دروازے سے احقر کو نہ نکالیں ۔ اس طرف پولیس چوکی ہے اور آج چوکی کے علاوہ بھی پولیس کا انتظام ہے؛ بلکہ شمالی دروازے کی طرف تانگہ تیار رکھیں اور اسی راستہ سے نکا ل کر لائیں ۔ اس طرف پولیس نہیں ہوگی۔ قاضی اکرام الحق صاحب سہو اور نسیان کے پرانے مریض تھے۔ یہاں بھی وہ مولانا سجاد کی اس ہدایت سے ایسے غافل ہوگئے کہ خاص طور پر ممنوعہ راستہ پر ہی تانگہ کا انتظام کیا، یعنی جنوبی پھاٹک سے ہی احقر کو لے کر آئے جہاں پولیس کی چوکی ہے۔ پھر راستہ بھی چاؤڑی بازار کے علاوہ چاندی چوک کی طرف اختیار کیا؛ چنانچہ جیسے ہی کوتوالی کے سامنے تانگہ پہنچا، سی آئی ڈی کے سب انسپکٹر نے جو جامع مسجد ہی سے تانگے کے پیچھے لگ گیا تھا اور اطمینان سے اپنی سائیکل پر ہمارے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔ اس سب انسپکٹر نے تانگہ کو رکوالیا اور احقر کو پورے اعزار کے ساتھ تانگہ سے اتر وا کر حوالات پہنچادیا۔
مولانا منت اللہ رحمانی ودیگر مجاہدیں کو جیل میں شدیدترین اذیت
مولانا سیدمحمد میاں صاحبؒ کو جس جیل میں پہنچایا گیااسی جیل میں ان سے پہلے گرفتار کرکے مولانا منت اللہ رحمانی کو قید کیا جا چکا تھا۔ بقول مولانا محمد میاں صاحب ؛’’اس حوالات میں مولانا منت اللہ رحمانی ؒصاحب موجودہ امیر شریعت صوبہ بہار صبح سے قیام پذیر ہوچکے تھے اور چند ساتھی اور تھے جو اسی روز یا اگلے روز آئے۔
غالباً اگست کا مہینہ تھا شدید گرمی۔ حوالات سب طرف سے بند۔ نہ کو ئی روشن دان نہ کھڑکی۔ صرف ایک جانب مین دروازے کی طرف جنگلے تھے؛ مگر سامنے چوڑا برآمدہ تھا؛ جس کی وجہ سے جنگلے بھی ہوا سے نا آشنا رہتے تھے۔ پیشاب پاخانہ کے لیے صبح کو ۸بجے ایک گھنٹہ کے لیے کھولا جاتا تھا۔ باقی تیئس گھنٹے اسی کمرے میں بند رہتے تھے۔ یہیں وضو بھی کیا جاتا تھا، پانی نکلنے کی کوئی نالی نہیں تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ وضو کا پانی کمرے ہی میں بھر تا رہا۔ حسنِ اتفاق کمرے میں ڈھال کافی تھا، پانی اسی ڈھال میں رہتا تھا ۔ ایک مہینے کے بعد حوالات سے رہائی ملی۔ اور ۶ماہ کے لیے دہلی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اگست کے مہینے میں حبس بے جا کا یہ اثر ہوا کہ تمام ساتھیوں کو عوارض لاحق ہوگئے۔ احقر کو پیچش ہوگئی۔ ‘‘(مستفاد از مجاہد ملت ایک سیاسی مطالعہ۔ص ۱۵۰)
جلوس کی قیادت اور گرفتاری
مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے وہ نمائندے جنھوں نے سول نافرمانی کی تحریک کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا، ان میں ایک ممتاز نام امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کا بھی ہے۔ ایک مرتبہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی قیادت میں طلبہ کا ایک قافلہ دیوبند سے دہلی کے لیے روانہ ہوا۔ اس میں مولانامنت اللہ رحمانی بھی شامل تھے۔ انٹیلی جنس کی رپورٹ پر پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مدنی کو مظفر نگر اسٹیشن سے ہی گرفتار کرلیا ؛لیکن طلبہ کی چوں کہ شناخت نہیں تھی کہ کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟کس مقصد کے لیے سفر کررہے ہیں ؟لہٰذا طلبہ کو گرفتار نہیں کیا گیا اور تمام طلبہ دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور جلوس کی شکل میں دفتر جمعیۃ علماء کے لیے روانہ ہوئے۔ چاندنی چوک میں پولیس نے طلبہ کے اس جلوس پر لاٹھی چارج کیا جس میں مولانا منت اللہ رحمانیؒ بھی زخمی ہوئے اور دفتر پہنچنے سے پہلے انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ اور ایک ہفتہ تک قید وبند کی صعوبتیں آپ کو بر داشت کرنی پڑی۔ قید وبند کی صعوبتیں کیا تھیں ، ان کی تفصیل مولانا محمد میاں صاحب کی تحریر میں پہلے آچکی ہے۔
اس گرفتاری کے تعلق سے استاذ محترم فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں :
’’تحریک ۱۹۳۲ء میں حضرت مدنی ایک موقع سے ڈکٹیٹر بنائے گئے اور آپ طلبہ کی ایک جماعت کے ساتھ دہلی روانہ ہوئے۔ حکومت نے آپ کو راستہ میں گرفتار کرلیا؛ مگر آپ کے ساتھ جو طلبہ جارہے تھے وہ سب دہلی پہنچے اور جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے اسٹیشن سے دفتر جمعیۃ علماء کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اس جماعت کی قیادت فرمارہے تھے۔ چاندنی چوک میں جب یہ جلوس پہنچا، تو پولیس نے اس پر لاٹھی چارج کیا، جس میں بہت سارے طلبہ زخمی ہوئے، خود مولانا رحمانی بھی زخمی ہوئے۔ دفتر پہنچنے سے پہلے یہ سارا قافلہ گرفتار کرلیا گیا۔ مولانا کی یہ پہلی گرفتاری تھی (نقیب، امیر شریعت رابع نمبر ص ۴۶) (باقی آئندہ)
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:103، ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر 2019ء
٭ ٭ ٭