شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر سید شیرعلی شاہ المدنی رحمہ اللہ اور ان کی علمی ودینی خدمات

از: مولاناسیدحبیب اللہ شاہ حقانی

بلال دارالعلوم ملاوی، افریقہ

            شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ المدنی رحمہ اللہ کا نامِ نامی اسمِ گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ فضلائے حقانیہ میں آپ کی شخصیت اظہر من الشمس ہیں ۔ آپ کے اوصاف و کمالات، علمیت و قابلیت، تقویٰ و للّٰہیّت، علمی رسوخ و بصیرتِ دین، ذوق و شوقِ مطالعہ، انابت الی اللہ و رقت قلبی، اتباعِ سنت و تعلق مع اللہ، عاجزی و انکساری، زہد و استغناء، دینی مدارس و معاہد اور طالبان و مجاہدین کی سرپرستی غرض کس کس پہلو سے پردہ اُٹھایا جائے۔ ہر ایک وصف پر لکھا جائے تو سیکڑوں صفحات سیاہ ہوجائیں گے۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ کے تلامذہ ومتعلقین نے حضرت شیخؒ کی حیات وخدمات کے متعلق کتابیں لکھی ہیں ،تحقیقی مقالات لکھے ہیں ،ان کے علمی خدمات و فیوضات کے مختلف گوشوں پر قلم اٹھایا ہے،جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ترجمان مجلہـ ماہنامہ الحق نے خصوصی اشاعت شائع کروایا،اس طرح حضرت شیخ ؒ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا،ذیل میں حضرت شیخؒ کے یوم وفات کی مناسبت سے آپؒ کی حیات وخدمات کے متعلق مختصراً لکھا جارہا ہے ورنہ

ع         سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

            ولادت باسعادت: آپ ۱۱؍شعبان ۱۳۴۹ھ /۱۹۳۰ء میں مولانا قدرت شاہ بن مولانا عنبر شاہ بن مولانا میردیس شاہ کے ہاں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔

خاندانی پس منظر

             آپ کے اجدادِ کرام شاہانِ مغلیہ کے دور میں بخارا سے باجوڑ اور پھر باجوڑ سے ہشت نگر آئے۔  اجداد میں حضرت مولانا میردیس شاہ رحمہ اللہ بہت بڑے فقیہ گزرے ہیں ، کنز الدقائق کے حافظ تھے، آپ نے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒکے رفقاء کے ہمراہ جہاد میں حصہ لیا۔ غرض آپ کے خاندانی اکابر اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت میں مصروف رہتے تھے اور اب حضرت شیخ مدظلہٗ اپنے آبائی و اجدادی ورثے کے وارث و امین ہیں ۔

ابتدائی تعلیم

            آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد مولانا قدرت شاہ کے ہاں ہوئی۔ نظمِ فارسی کی چند کتابیں حضرت مولانا عبدالرحیم سے پڑھیں۔  صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمنؒ فاضلِ دیوبند سے پڑھیں ۔

اعلیٰ تعلیم

             شیخ الجامعہ حضرت مولانا بادشاہ گلؒ سے کافیہ مع ترکیب، بدیع المیزان اور میبذی کے کچھ اسباق پڑھے۔ اور دوبارہ کافیہ، تحریر سنبٹ اور میبذی محدثِ کبیر شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمہ اللہ سے اس وقت پڑھیں ، جب وہ شعبان ۱۳۶۶ھ میں دارالعلوم دیوبند سے تعطیلات گزارنے گاؤں تشریف لائے تھے۔ اسی دوران حضرت شیخ ؒ اور مولانا قاضی انوار الدین مدظلہٗ سابق مدرس دارالعلوم حقانیہ و قاضی علاقۂ خٹک نے حضرت شیخ الحدیثؒ کے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے حضرت شیخ الحدیث نے قبول فرمایا؛ مگر اللہ کا کرنا تھا کہ اسی رمضان میں پاکستان آزاد ہوا، اور فسادات شروع ہوئے۔ آمد و رفت کے راستے مسدود ہوگئے تو حضرت شیخ الحدیث کے پاس بعض طلبہ آئے جو دیوبند جانا چاہتے تھے؛ مگر فسادات کی وجہ سے نہ جاسکے۔ انہوں نے حضرت شیخ الحدیث ؒسے دورۂ حدیث پڑھانے کی فرمائش کی۔ جسے حضرت شیخ الحدیثؒ نے قبول فرمایا۔ یوں حضرت شیخ ؒ بھی دارالعلوم حقانیہ ہی میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے زیرسرپرستی پڑھتے رہے۔ گویا آپؒ دارالعلوم حقانیہ کے اوّلین طلباء میں سے ہیں ۔ حضرت مولانا عبدالغفور سواتی اور صدر المدرسین مولانا عبدالحلیم زروبوی اور دیگر اساتذہ سے بھی مختلف علوم و فنون میں استفادہ کیا۔

سنِ فراغت

            ۱۳۷۳ھ میں محدثِ کبیر شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمہ اللہ سے دورۂ حدیث پڑھا۔ دورۂ حدیث کے امتحان میں اوّل رہے۔ دارالعلوم حقانیہ سے فراغت کے بعد تقریباً تین ماہ آپ نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں وہاں کے اساتذہ شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ بانی و مہتمم جامعہ اشرفیہ سے بھی خوب استفادہ کیا۔

درس و تدریس

              چونکہ آپ ؒکو طالب علمی ہی سے حضرت شیخ الحدیثؒ  کی شفقت و محبت، اصلاح و تربیت اور نظرِ کرم حاصل تھی، تو فراغت کے بعد ۱۱؍شوال ۱۳۷۳ھ بمطابق ۱۳؍ اپریل ۱۹۵۴ء اپنی مادرِ علمی دارالعلوم حقانیہ میں تقرری ہوئی۔ ابتدائی کتابیں بار بار پڑھائیں اور چند سالوں کے بعد مشکوٰۃ شریف ج۱ ، موطائین، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، شمائل ترمذی اور شرح نخبۃ الفکر آپ کے زیردرس رہیں ۔

            مسندِ درس پر بیٹھ کر پھر استاد کے سامنے گھٹنے ٹیکنا بہت دل گردے کی بات ہے؛ مگر حضرت شیخ ؒ اب تک خود کو طالب علم سمجھ رہے ہیں ۔ دورانِ درس بھی آپ نے ۱۳۷۸ھ میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے ترجمہ و تفسیر پڑھی۔ استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہیدؒ بھی آپ کے رفیقِ درس تھے۔ پھر ۱۳۸۲ھ میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒؒ سے تفسیر میں استفادہ کیا اور سند حاصل کی۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ سے بھی ترجمہ و تفسیر پڑھی۔ ردّقادیانیت و عیسائیت اور فنِ مناظرہ کے اسباق مناظرِ اسلام مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ سے پڑھیں ۔ ۲۰ سال درس و تدریس کے بعد محدثِ کبیر شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے مشورہ سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ۱۳۹۳ھ کو داخلہ لیا اور وہاں پندرہ برس تک مختلف شعبہ جات میں استفادہ کرتے رہے۔ یہاں تک ماجستر اور دکتورہ کی ڈگریاں نمایاں نمبرات سے حاصل کی۔ قیامِ جامعہ کے دوران مسلکِ احناف کا خوب دفاع فرماتے اور احناف پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات دیتے؛ اس لیے آپ وہاں وکیلِ احناف کے نام سے مشہور تھے۔ آپ ؒ نے مسجد نبوی ﷺ   میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

            جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد ۱۴۰۷ھ میں آپؒ کو جامعہ کی طرف سے دارالعلوم کراچی میں بطورِ استاد متعین کیا گیا، بعد میں آپ ؒ  نے حضرت مولانا مفتی زرولی خان مدظلہ کے مدرسہ جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی اور مولانا جلال الدین حقانی رحمہ اللہ کے مدرسہ منبع العلوم میران شاہ میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں اور بالآخر اپنی مادرِ علمی جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں اپنے دیرینہ رفیق شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی دعوت پر شوال ۱۴۱۷ھ میں تشریف لائے اور کتبِ حدیث پڑھانے میں  مصروف ہوئے،اور تادم آخر دارالعلوم حقانیہ میں تشنگانِ علوم نبوت کو سیراب فرماتے رہے ۔

             آپؒ نے تحفظ عقیدۂ ختم نبوت میں بھی مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ۱۹۷۷ء میں دو ماہ تک سنت یوسفی پر عمل کرتے ہوئے پابند سلاسل رہے۔

            حضرت شیخ ؒکو اکابر و مشائخ سے اجازتِ حدیث اور اعزازی سندات حاصل تھے اورعلالت وکہولت میں بھی اگر پتہ چلتاکہ فلاں جگہ شیخ الحدیث ہیں اور ان کی سندِ عالی ہے تو باوجود ضعف و نقاہت کے سیکڑوں میل سفر کی صعوبت برداشت کرکے تشریف لے جاتے اور سند الاجازۃ حاصل فرماتے ۔ آپ کے چند مشائخ جنھوں نے اعزازی سندات سے نوازا  تھا۔ ان کے اسمائِ گرامی درج ذیل ہیں  :

            شیخ عبدالکریم کردیؒ صدر المدرسین مدرسہ قادریہ بغداد، شیخ محمود تذیر طرازی مدنیؒ مدرس مسجد نبوی علی صاحب تحیۃ و سلام، حضرت مولانا عبدالرحمن کاملپوریؒ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا بدرعالم میرٹھیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا رسول خان ہزارویؒ، مفتی محمد شفیعؒ، مفتی محمودؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا عزیر گلؒ، مولانا نافع گلؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا قاری محمد طیبؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین غورغشتویؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ، مولانا عبدالغنیؒ، مولانا سرفراز خان صفدر ؒ،مولانا شریف اللہ خانؒ اور مولانا عبدالحلیم چشتی مدظلہٗ۔

تصنیف و تالیف

            حضرت شیخ رحمہ اللہ نے درس و تدریس، دعوت و تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ کے میدانوں میں خدمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف سے بھی رشتہ جوڑے رکھا اور کئی اہم کتابیں تصنیف فرمائیں جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گی، ان شاء اللہ۔

۱- تفسیر سورۂ کہف

            حضرت شیخ ؒجب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) میں علمی پیاس بجھا رہے تھے تو ایم۔ اے سالِ آخر میں مقالہ کے لیے سورۂ کہف کو منتخب فرمایا اور اس کی تفسیر اپنے مخصوص، نئے اور اچھوتے انداز میں کی۔ کہف کسے کہتے ہیں ؟ واقعہ اصحابِ کہف، یہ غار کہاں واقع ہے؟ واقعۂ ذوالقرنین اور اس سے حاصل ہونے والی سبق و نصیحت، واقعۂ موسیٰ و خضر علیہما السلام ، حیاتِ خضرؑ اور وفاتِ خضرؑ کے قائلین کے دلائل، دجال کون؟کب؟ اور کہاں ؟ دجالی فتنہ سے بچاؤ کے اسباب اور اسی طرح بیسیوں عنوانات قائم کرکے ایک تحقیقی، علمی اور تفسیری مقالہ شائع فرمایا ہے جو سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہے۔ کئی مرتبہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ کتاب چونکہ عربی میں ہے اور استفادہ کا حلقہ صرف عربی دان ہے ضرورت ہے کہ اردو، انگریزی، پشتو اور فارسی میں بھی ترجمہ ہو تاکہ حلقۂ استفادہ پھیل جائے۔

۲- تفسیر حسن بصری

            امام حسن بصریؒ سید التابعین کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کی ماں اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں ۔ آپ انھیں کے گھر پیدا ہوئے اور اُم المؤمنین کے گھر اور گود میں آپ کی پرورش اور تربیت ہوئی۔ آپ بہت بڑے عالم، عابد اور زاہد تھے۔ آپ کی تفسیر بالماثور اوّلین تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ تفسیر ابن عباسؓ، تفسیر مجاہد، تفسیر عکرمہ اور حسن بصری کی تفسیر یہ تمام دیگر تفاسیر کے لیے مرجع ہے۔

            تاتاری جنگوں میں یہ تفسیر مفقود ہوگئی تھی۔ عالمِ اسلام کی عظیم یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ شعبہ دراساتِ علیا نے اس تفسیر کو معتمد و مستند تفاسیر سے دوبارہ جمع کرنے کے لیے دراساتِ علیا کے دو بڑے معتمد علماء کو یہ گراں قدر کام حوالہ کیا جس کے پہلے چودہ پارے مدینہ منورہ کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر عمر یوسف کمال مدنی کو اور آخری سولہ پارے امام المجاہدین شیخ الحدیث والتفسیر مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ المدنی دامت برکاتہم کو حوالہ کیے گئے۔ دونوں حضرات نے چار سال کی طویل مدت میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس عظیم خدمت کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ حدیث اور سیرت و تاریخ کے لاکھوں صفحات سے حضرت حسن بصریؒ کے تفسیری اقوال کو جمع فرمایا اور پھر رجالِ اسناد، روایت کی توثیق، اختلافی مسائل میں ترجیح راجح، فنِ تفسیر مین حسن بصری کا منہج، مفسرین میں آپ کا مقام، محدثین میں انکی روایات کا درجہ، صحابۂ کرامؓ کی صحبت میں پنج سالہ قیام، مواعظ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے نام مکاتیب، اور ان کے لیے بیشمار علمی، دینی، تبلیغی کارہائے نمایاں ، تفسیری فوائد و عجائب کا خزینہ و گنجینہ ہے جو کئی مرتبہ پانچ جلدوں میں طبع ہوچکی ہے ۔

۳- زبدۃ القرآن

            جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے ولیِ کامل شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی قدس سرہٗ سے ترجمہ و تفسیر پڑھا، دورانِ درس آپؒ نے اپنے شیخ کے امالی، افادات، قرآنی علوم و معارف اور علمی نکات کو لکھتے رہے۔ حضرت لاہوری کی تفسیر کا محور تفسیر بالاعتبار والتاویل ہے جو قرآن مجید کا لبِ لباب ہے۔ حضرت لاہوری کا طرزِتفسیر اپنے استاد و مربی امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ کا ہوتا اور انہی کے طرز پر ترجمہ و تفسیر پڑھاتے۔

            حضرت شیخ ؒنے بعض مخلص احباب کی ترغیب و تشویق اور اصرار پر ۴۶ سال بعد ۱۴۲۳ھ میں اسے القاسم اکیڈمی سے افادۂ عام کے لیے شائع فرمائی تھی اس کے بعد بھی کئی دفع شائع ہوئی۔

            شہید ناموس رسالت شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ نے بھی ولیٔ کامل شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی قدس سرہٗ سے دورہ تفسیر پڑھا تھا اور پورے دورے کو قلم بند فرمایا تھا،شہادت سے کچھ عرصہ قبل اس تقریر کی کتابت شروع کروائی تھی اور بس تھوڑا ہی کام باقی تھا کہ کسی بدبخت نے حضرت مولاناؒ کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔اب ان کے صاحبزادے مولانا راشدالحق سمیع کے زیر نگرانی تکمیل واشاعت کے آخری  مراحل میں ہے۔

۴- زاد المنتہی شرح سنن الترمذی

             زاد المنتہی جامع السنن للترمذی کی عربی شرح ہے جو قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے درسی افادات پر مشتمل ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنے درسِ ترمذی کے دوران خود اپنے قلم سے ترمذی پر حواشی، مختصر نوٹ، توضیحی تشریحی اور مختصر؛ مگر جامع شرح لکھی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ آپ سفرِ بیت اللہ پر روانہ ہوئے اور کراچی میں ایک علمی مباحثہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ آپ کے لائق فرزند،قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ نے اپنے عظیم والد کی عظیم علمی شرح کی ترتیب و تحقیق اور مراجعت و اشاعت کے سلسلے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ صاحب ؒسے رابطہ کیا تو حضرت شیخؒ نے اپنی  مصروفیات کے باوجود ہمہ تن  اس طرف توجہ مبذول فرمائی اور ترتیب و تدوین، تحقیق و تخریج کے بعد زیورِ طباعت سے آراستہ فرمائی۔اور یوں ایک علمی گنجینہ وخزینہ اہلِ علم کے ہاتھ لگا۔

۵-  مکانۃ اللحیۃ فی الإسلام

            حضرت شیخ ؒ کتاب کے سببِ تالیف میں تحریر فرماتے ہیں  :  مسجدِ اقصیٰ کے سفر شوال ۱۳۸۶ھ کے دوران جب میں القدس مبارک کے ایک بازار میں جا ررہا تھا کہ مجھے ایک مسلمان نوجوان نے آواز دی: اے سکھ! تو میں خاموش رہا، گویا کہ میں نے اس کی آواز سنی ہی نہیں اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا، بیت المقدس کی سرزمین پر میرے کانوں میں ایسی باتیں پڑگئیں اور اس سے سخت قسم کی باتیں میں نے بغداد اور عمان شہر کے راستوں میں سنی تھیں ، اسی دوران اس مقدسی نوجوان نے پھر گرجدار آواز میں کہا تو میں حیران ہوگیا، او رکھڑا ہوگیا۔ ایک قدم آگے لیتا اور دوسرا قدم پیچھے کرتا اور متردد ہوا کہ اس سے بات کرلوں یا چشم پوشی اور اعراض کرلوں ؛ اس لیے کہ اجنبی اور مسافر کو یہ زیب دیتا ہے کہ جھگڑوں او رمباحثوں سے دور رہے ، تو تیسری مرتبہ اس نے پھر تیز آواز سے کہا: اے سکھ! ایک قدم آگے گیا تو ضمیر نے فتویٰ دیا کہ جب دینی شعائر کی توہین ہو ، تو خاموش نہیں رہنا چاہیے؛ بلکہ اس وقت خاموش رہنا کسی گونگے شیطان کی علامت ہے۔۔۔۔۔۔  تو اس سفر میں میں نے ارادہ کرلیا کہ ایک کتاب ’’مکانۃ اللحیۃ فی الإسلام،، (اسلام میں ڈاڑھی کا مقام) کے عنوان سے لکھوں گا،،۔

اسلام میں داڑھی کا مقام

            جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ کتاب عربی زبان میں ہے اردودان اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے اردو میں ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ احقرنے ترجمہ کے بارے میں اپنے شفیق و مہربان استاد حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی دامت برکاتہم سے عرض کیا تو آپ نے حضرت شیخ ؒ کے نام مکتوبِ گرامی تحریر فرمائی اور ترجمہ کی اجازت طلب فرمائی۔ حضرت شیخ ؒ نے تحریراً اجازتِ ترجمہ و اشاعت مرحمت فرمائی۔ احقر نے اپنے محسن استاد حضرت حقانی صاحب مدظلہٗ کی نگرانی اور سرپرستی میں اردو ترجمہ کیا ،جسے حضرت شیخ ؒ نے دوبار اور حضرت حقانی صاحب مدظلہٗ نے ایک مرتبہ بنظرِ غائر اصلاح اور نظر ثانی فرمائی۔ترجمہ پر حضرت شیخ رحمہ اللہ اور حضرت حقانی صاحب مد ظلہٗ نے وقیع تقاریظ بھی تحریر فرمائے۔ حضرت شیخ مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں  :

            ’’بندہ نے ’’اسلام میں داڑھی کا مقام‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ ماشاء اللہ موصوف نے پوری امانت و دیانت سے عام فہم، سلیس اردو میں ترجمہ کرنے سے اس اہم موضوع سے استفادہ کے دائرہ کو وسیع تر کردیا ہے‘‘۔

۶- ماقال استاذی علٰی اصول الشاشی

            جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ حضرت شیخ ؒ ایک کامیاب مدرس اور شفیق اتالیق تھے۔ آپؒ کا ہر درس سیکڑوں طلباء قلم و قرطاس سے محفوظ کرتے ۔ ’’ماقال استاذی علیٰ اصول الشاشی‘‘  آپ رحمہ اللہ کی اصولِ فقہ کی مشہور کتاب اصوال الشاشی کی تقریر ہے، جو حضرت شیخ کے شاگرد مولانا محمد یعقوب خان نے مرتب کی ہے، اور طلباء و علماء کے افادہ کے لیے شائع کی ہے۔

۷- سراج النحوشرح ہدایۃ النحو

            ہدایۃ النحو علمِ نحو کی مشہور کتاب ہے۔ درسِ نظامی میں شاملِ نصاب اور درجۂ ثانیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ سال۲۰۰۲ھ میں اصول الشاشی کی طرح ہدایۃ النحو بھی حضرت شیخ ؒ کے زیردرس تھی۔ حضرت مولانا عرفان الحق حقانی صاحب مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ نے انہی دروس کو کیسٹوں میں ریکارڈ کروایا۔ اس کے بعد حضرت مولانا امین الحق گستوئی (مصنف عجائب قرآن) کے صاحبزادے مولانا ظاہر شاہ حقانی نے اسے حضرت شیخؒ کی اجازت سے کیسٹوں سے نقل کیا  جسے اکوڑہ خٹک میں ایک مکتبہ نے شائع کروایا، اب یہ کتابی شکل میں ہے اور علماء و طلبہ اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔

۸- ختم نبوت پر امیر شریعت سید عطاء اللّٰہ شاہ بخاریؒ کی مایہ ناز تقریر

              امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اکوڑہ خٹک تشریف لائے اور ختم نبوت کے موضوع پر شانداز خطاب فرمایا تھا، جسے حضرت شیخ ؒ نے قلم بند کرکے شائع فرمایا تھا۔ بعد ازاں یہی تقریر ’’خطباتِ امیر شریعت‘‘ مرتبہ مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی میں بھی اور گنجینۂ علم و عرفان میں بھی شائع ہوئی۔

۹-  گنجینۂ علم وعرفان

            گنجینۂ علم و عرفان حضرت شیخ رحمہ اللہ کے انقلابی اور مؤثر خطبات ( جو آپ نے مختلف مواقع پر جامعہ ابوہریرہ میں فرمائے ) علمی، تاریخی اور تحقیقی مقالات، مختلف موضوعات پر جامع مضامین، مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہٗ کے نام وقیع مکاتیب، ادبیات اور منظومات اور دلچسپ سفرناموں کا بہترین مجموعہ ہے، جسے حضرت حقانی صاحب مدظلہٗ کے لائق فرزند حافظ محمد طیب حقانی (ناظم دفتر جامعہ ابوہریرہ و فاضل جامعہ دارالعلوم حقانیہ) نے ترتیب دی ہے۔ علماء، طلباء، خطباء، عامۃ المسلمین، اربابِ علم و قلم اور مطالعاتی ذوق رکھنے والے احباب کے لیے ایک نادر علمی سوغات ہے۔

۱۰-  خطبات و بیاناتِ جمعہ

              حضرت شیخ ؒکا وعظ و تقریر اپنی مثال آپ تھا۔ آپؒ دور دراز دینی اجتماعات میں لوگوں کی دعوت پر تشریف لے جاتے  اور قرآن و سنت اور اسلافِ اُمت کے کارناموں کی روشنی میں بیان فرماتے ۔ سارا مجمع شاعر کے اس شعر کا مصداق ہوتا۔؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جاناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

            آپؒ   جامع مسجد فاطمہ ؓ  اکوڑہ خٹک میں جمعہ سے قبل خطاب فرماتے ، جسے سننے کے لیے دور دراز سے عوام الناس، علماء اور طلباء تشریف لاتے ۔ انھیں بیانات و مواعظِ جمعہ کو حضرت شیخؒ کے شاگرد مولانا محمد راشد حقانی نورانی نے جمع کرنا شروع کیاتھا، کتابت بھی شروع کروائی تھی؛مگر شاید مولانا نورانی سیاست میں لگ گئے اور اس عظیم کام کو بھول گئے۔

۱۱-  شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر سیدشیر علی شاہ  کی درسگاہ میں

            یہ کتاب مولانا سعید الحق جدون کی تالیف ہے،اس کتاب میں انہوں نے حضرت شیخؒ سے درس کے دوران سنے ہوئے واقعات،علمی نکات کو جمع کیا،اسی طرح حضرت شیخؒ کے سفرناموں اور کتابوں سے بھی مواد کو جمع کیا ہے،جسے مکتبہ رشیدیہ اکوڑہ خٹک نے شائع کی ہے۔

سیاست اور جمعیت علمائے اسلام سے وابستگی

            حضرت شیخ ؒ شروع ہی سے جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ تھے،جمعیت کے اکابر قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مجاہدِ ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، محدث کبیر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحقؒ اور حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستیؒ  سے خصوصی تعلق رہا،اور جماعت کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں ، شیخ الحدیثؒ کے الیکشن لڑنے کے زمانے میں خصوصی حصہ لیا،خود بھی جمعیت کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے الیکشن لڑا تھا،قائد جمیعت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ حضرت شیخ ؒ کے شاگرد ہیں ؛ مگر حضرت شیخؒ انھیں سیاست میں اپنا امام مانتے تھے۔

سفر آخرت

            ۳۰  اکتوبر ۲۰۱۵ء کو علم و عمل کا یہ  آفتاب ومہتاب  رحمان میڈیکل کمپلیکس پشاور میں غروبِ آفتاب سے قبل غروب ہوگیا انا للہ وانا الیہ راجعون،آپ کے انتقال کی خبر پوری دنیا میں جنگل کے  آگ کی طرح پھیل گئی،اور  دنیا بھر سے تلامذہ ومتعلقین اور عوام الناس کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دارالعلوم حقانیہ پہنچنا شروع ہوگیا، اور ۳۱؍اکتوبر کو لاکھوں لوگوں ،علماء ،مشائخ ،اولیاء اللہ اور طلبہ نے شرکت فرمائی اور  اپنے والد کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے،رات میں آپ کے مرقد سے خوشبو پھوٹنی شروع ہوئی،علماء و مشائخ حقانیہ نے راتوں رات جنگلے لگوائے؛ تاکہ لوگ خرافات شروع نہ کریں ،یہ خوشبوکئی دنوں تک محسوس ہوتی رہی،شیخ التفسیر حضرت مولانا عبدلحلیم المعروف دیر باباجی مدظلہ نے خصوصی دعا فرمائی کہ اے اللہ ! ہمیں پتہ ہے ان کی ولایت کا، اے اللہ ! اس خوشبو کو ختم فرمادے۔ بعدمیں یہ خوشبو ختم ہوگئی؛ لیکن اصحابِ حال پھر بھی محسوس فرماتے۔

            دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ ؒ کے درجات کو بلند فرمائے ،ہم فقیر طالب علموں اور  آپؒ کے خاندان کو ان کے فیوض سے محروم نہ فرمائے ۔(آمین) یقینا دارالعلوم حقانیہ اپنے اس عظیم علمی اور روحانی فرزند پر رہتی دنیا تک فخر کرتی رہے گی۔ 

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts