حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ ایک دیانت دار منتظم، باکمال مدرس، عظیم الشان مربی

از:مفتی عبدالرؤف غزنوی

استاذ:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، سابق استاذ دارالعلوم دیوبند

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی (سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) قُدّس سرُّہٗ سے احقر کو پہلی ملاقات کا شرف ماہِ شوال ۱۴۰۱ھ کے شروع میں ’’مسجد عبد النبی‘‘ دہلی کے احاطہ میں – جہاں جمعیت علمائے ہند کا دفتر واقع تھا- اس وقت اچانک حاصل ہوا جب میں مدرسہ امینیہ دہلی میں سالِ ہفتم کی تعلیم مکمل کرکے دورۂ حدیث میں داخلہ لینے کے لیے دارالعلوم دیوبند جانے کی تیاری کررہا تھا۔ یہ ملاقات حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے ایک شاگرد حضرت مولانا مفتی عبد الرزاق خان بھوپالی فاضل دارالعلوم دیوبند اور مفتی شہر بھوپال دامت برکاتہم کے توسُّط سے ہوئی۔ حضرت مفتی صاحب موصوف کا خاندان ایک پٹھان برادری سے تعلق رکھتا تھا جو تقسیمِ ہند سے پہلے بھوپال میں مقیم ہوگیا تھا اور آج تک پٹھانوں کی روایات اور پشتوزبان کو اپنایا ہوا ہے۔ مفتی صاحب سے میرا تعارف چند مہینے قبل حضرت حکیم مصباح الدین صاحب مردانی قاسمیؒ (مقیم علاقہ لال کنواں دہلی) کے مکان پر اس وقت ہوچکا تھا جب میں مدرسہ امینیہ دہلی میں سالِ ہفتم کا طالبِ علم تھا، مفتی صاحب نے اس وقت ایک غریب الوطن طالبِ علم کی حیثیت سے میری ہمت افزائی فرماتے ہوئے شفقت واپنائیت کا معاملہ فرمایاتھا؛ جب کہ عام طور پر ایک ایسے اجنبی طالب علم کی طرف کوئی خاص توجُّہ نہیں کی جاتی۔

            بہرصورت! حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے اس غیر متوقع ملاقات کے موقع پر ان کے شاگرد حضرت مفتی عبد الرزاق خان صاحب نے احقر کا تعارف کراتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ یہ ایک غریب الدیار، محنتی اور یکسوئی کے ساتھ پڑھنے والا طالب علم ہے، سالِ ہفتم کی تعلیم مدرسہ امینیہ دہلی میں مکمل کرچکا ہے اور آنے والے تعلیمی سال ۱۴۰۱ -۱۴۰۲ھ کو دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کی جماعت میں داخلہ کا خواہشمند ہے۔ سالِ گزشتہ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کا وقت ختم ہوگیا تھا، ورنہ وہ سالِ ہفتم کی تعلیم بھی دارالعلوم میں حاصل کرنا چاہتاتھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب کی فراست اور دوررس نگاہوں نے پرانے کپڑوں میں ملبوس اس غربت زدہ طالبِ علم کے دل میں چُھپے ہوئے طلبِ علم کے جذبات اور دارالعلوم دیوبند کے لیے اس کی اندرونی بے تابی اور بے قراری کا اندازہ کرہی لیا! اس لیے نہایت مشفقانہ انداز سے بات کرتے ہوئے میری ہمت افزائی فرمائی اور میری دلجوئی کے لیے میری مادری زباں ’’پشتو‘‘ میں بھی چند مختصر الفاظ کے ساتھ گفتگو فرمائی، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انھیں پشتو زباں سے ایک قسم کی دلچسپی اور ا س کے چند مختصر جملے یادہیں ۔ بہرکیف! حضرت مولانا معراج الحق صاحب نے آخر میں فرمایا کہ: جب تم داخلہ کے لیے دیوبند پہنچو تو مجھ سے ملنا۔

            حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے اس پہلی اور غیر متوقع ملاقات کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ وہ عام طالب علموں اور بالخصوص غریب الدیار اور بے سہارا طالب علموں سے محبت فرماتے ہیں ۔ اور ہندوستان کے ماحول میں پشتو زباں میں ان کی مختصر گفتگو تو مجھے بہت ہی اچھی لگی۔ چند دن بعد جب امتحانِ داخلہ کے مقررہ وقت پر میری دیوبند حاضری ہوئی تو حسبِ وعدہ حضرت والا کے کمرہ میں جو جنوبی دروازے (دارالعلوم دیوبند کے چار بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ جو طلبہ کے درمیان حضرت والا کی نسبت سے ’’معراج گیٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہے) کے بغل میں دوسری منزل پر واقع تھا، ان کی ملاقات کے لیے حاضری دی، حضرتِ والا نے دیکھتے ہی پہچانا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے انتظار میں تھا اور چونکہ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں حضرت والا کے علاوہ نہ کسی مدرس اور نہ ہی کسی طالب علم سے اس وقت تک میری کوئی شناسائی تھی؛ اس لیے حضرت والاہی نے داخلہ کے نظام وطریقۂ کار سے متعلق میری پوری رہنمائی فرماتے ہوئے برکت اور امتحان میں کامیابی کی دعا سے نوازا  اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دارالعلوم کے نظامِ داخلہ کے متعلق رہنمائی کرنا آپ کا حق اور میری ذمہ داری بنتی تھی، آگے آپ کا کام ہے، اگر آپ نے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی جیساکہ مجھے امید بھی ہے تو آپ کا داخلہ ہوجائے گا اور اگر خداناخواستہ دوسری بات ہوئی (امتحانِ داخلہ میں کامیابی حاصل نہ کرسکے) تو میں ابھی سے بتادیتا ہوں کہ پھر میں کچھ بھی نہیں کرسکتا اور دارالعلوم کے اصول کے خلاف کسی کے لیے سفارش کرنا میرا معمول نہیں اور نہ ہی ایسی سفارش کو شفاعتِ حسنہ کا نام دے سکتا ہوں ۔ حضرت مولانا کی بات سن کر احقر عرض کرنے لگا کہ حضرت والا! اس ادنیٰ طالب علم کا طرزِ عمل بھی یہ نہیں کہ کسی مقصد تک پہنچنے کے لیے نامناسب اور خلافِ اصول راستہ اختیار کیا جائے؛ بلکہ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے اصول وضوابط کے مطابق طریقۂ کار کو اپنا یاجائے، آپ سے صرف دعا کی درخواست کرتا ہوں ۔

حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے پہلا تربیتی سبق لینا

            دارالعلوم دیوبند کے نظام اور قواعدِ داخلہ کے مطابق احقر نے داخلہ کے تمام مراحل طے کرکے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے امتحانِ داخلہ میں اعلیٰ نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی اور دورۂ حدیث میں داخلہ پانے والے طلبہ کی فہرست میں میرا نام بھی دفترِ تعلیمات کے سامنے آویزاں کیاگیا، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اسے اپنی زندگی کی خوشیوں میں سے ایک اہم خوشی شمار کیا اور حضرت مولانا معراج الحق صاحب کو فوری طور پر آگاہ کردیا جس سے وہ بے حد خوش ہوئے۔ اس کے بعد ایک عجیب منظر میرے سامنے آیا: میں نے دیکھا کہ جن طلبہ کو داخلہ ملا ہے وہ اپنے جاننے والوں سے مبارکبادیاں وصول کررہے ہیں ، کوئی اپنے ساتھیوں کو مٹھائی کھلارہا ہے اور کسی سے اس کے ساتھی مٹھائی کا مطالبہ کررہے ہیں !جب کہ اس پراگندہ حال اَنجان طالبِ علم کو نہ تو کوئی مبارکباد دینے کی ضرورت محسوس کررہا ہے! اور نہ ہی کوئی شخص اس سے مٹھائی کا مطالبہ کررہاہے! اس صورت حال سے احقر بہ یک وقت خوشی اور پریشانی دونوں کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہوگیا، خوشی اس وجہ سے کہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ملنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ایک اہم مقصد میں کامیابی نصیب فرمائی اور پریشانی اس وجہ سے کہ وہاں پر میرا کوئی ایسا جاننے والا ساتھی یا رشتہ دار ودوست موجود نہیں تھا جسے میں اپنی خوشی سے آگاہ کردیتا، یا مٹھائی کھلادیتا، یا اس کی طرف سے مٹھائی کے مطالبہ کا لطف اُٹھاتا۔

            مذکورہ بالا کیفیت کے اندر بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ دارالعلوم کے ماحول میں تاحال چونکہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب (جو اَب تک صدر المدرسین کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے، البتہ چند ہی مہینے بعد مجلسِ شوریٰ نے صدر المدرسین کے باوقار علمی عہدہ کے لیے ان ہی کا انتخاب فرمایا) کے علاوہ کسی استاذ یا طالب علم سے میری شناسائی نہیں ، لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ اپنی حیثیت کے مطابق مٹھائی کا ایک چھوٹا سا ڈبہ خرید کر اُن ہی کی خدمت میں پیش کرکے اپنی اجنبیّت کو دور کرنے کی کوشش کروں ؛ چنانچہ اپنے ارادے کے مطابق ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ڈبہ دیوبند کے بازار سے خرید کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اس سے قبل جب بھی میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ مسکراتے اور خوشی کا اظہار فرماتے، اس مرتبہ میرے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیکھ کر ان کے چہرے پر رنجیدگی کا اثر محسوس ہوا، میں نے سلام کیا، انھوں نے سلام کا جواب دیتے ہی سوال کیا کہ تمہارے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ داخلہ کی خوشی میں مٹھائی کا ایک مختصر سا ڈبہ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتاہوں ۔ انھوں نے فرمایا کہ: تم کو یہ معلوم نہیں کہ میں طلبہ کے ہدایا قبول نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا: مجھے کون بتاتا؟ میں تو دارالعلوم کے ماحول میں اب تک آپ کے علاوہ کسی کو پہچانتابھی نہیں ، انھوں نے فرمایا: ٹھیک ہے! میں خود آپ کو بتاتاہوں کہ میں ایک عرصہ سے تدریس کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے انتظامی امور سے متعلق بھی کوئی نہ کوئی ذمہ داری انجام دیتا رہاہوں  اور کسی بھی ادارے کے کسی انتظامی منصب پر فائز شخص کے لیے شریعت کی روشنی میں یہ جائز نہیں کہ وہ اس ادارے سے وابستہ افراد سے ہدایا وصول کرے اور بالخصوص ایک ایسا ادارہ جو دینی حیثیت کا حامل ہو اور لوگ اسے رہنما کا درجہ دیتے ہوں ، اُس ادارے کے ذمہ داروں کے لیے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے! میں نے پھر عاجزانہ انداز میں درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت! اس ہدیہ کے پیچھے اللہ کی رضا کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں ؛ اس لیے کہ میرا بنیادی مقصد دارالعلوم میں داخلہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دارالعلوم کے نظام واصول کے مطابق حل ہوگیا، اس کے علاوہ میرا کوئی ایسا مقصد باقی نہیں جسے حاصل کرنے کے لیے میں ہدیہ کا سہارا لینے کی کوشش کروں ! حضرت نے فرمایا: تم اپنی بات منوانے کا اصرار مت کرنا، اپنا ہدیہ واپس لے جاؤ، اللہ تجھے جزائے خیر دے، اور از راہِ مذاق یہ بھی فرمایا: ’’پٹھان ہے، ضد کرنے لگے۔‘‘

            خلاصہ یہ کہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب نے ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرماتے ہوئے میرے لیے تمام راستے مسدود کردیئے، لہٰذا میں اپنا ہدیہ واپس لے کر حضرت کے کمرے سے نکلا اور باہر موجود چند طلبہ کے درمیان تقسیم کردیا۔ حضرت مولانا کے اس طرزِ عمل سے احقر نے دارالعلوم کی مربّیانہ فضا میں علمی اسباق کے آغاز سے قبل یہ پہلا تربیتی سبق حاصل کیا کہ کسی ادارے کے ذمہ دار شخص کو اس ادارے سے منسلک افراد کے ہدایا قبول کرنے سے معذرت کرنی چاہیے  اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سے تادمِ تحریر مذکورہ سبق کو یاد رکھنے کی وجہ سے مجھے موقع بہ موقع بڑا فائدہ محسوس ہوا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ! آئندہ بھی اسے فراموش نہیں کروں گا۔

ہدیہ سے متعلق حضرت مولانا معراج الحق صاحب کا ایک اور واقعہ

            دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ملنے کے بعد جب احقر کو حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے پڑھنے، استفادہ کرنے اور ان کی خدمت میں موقع بہ موقع حاضر ہونے کا موقع ملا اور تعلُّقات میں مضبوطی پیداہوگئی تو ایک مرتبہ انھوں نے ہدیہ سے متعلق مندرجہ ذیل اپنا ایک واقعہ سنایا:

            ’’ہندوستان کے مشہور شہر مدراس (موجودہ چنّائی) سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایک مرتبہ دارالعلوم کی زیارت کی اور مجھ سے بھی ملے، اس دوران انھوں نے مجھے ہدیہ کے طور پر ایک چھڑی پیش کی، مذکورہ شخص کا چونکہ دارالعلوم سے کوئی رسمی تعلق نہیں تھا اور نہ کوئی اور ایسی علامت تھی جس سے اس ہدیہ میں کوئی شبہ پیدا ہوجاتا، لہٰذا میں نے شکریہ کے ساتھ ان کا ہدیہ قبول کیا اور ان کو رخصت کردیا؛ البتہ میرے پاس چونکہ اپنی چھڑی موجود تھی؛ اس لیے ان کی چھڑی حفاظت سے رکھی اور استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد وہ شخص پھر دارالعلوم آئے اور مجھ سے مل کر اپنے ایک رشتہ دار طالبِ علم سے متعلق بتایا کہ وہ دارالعلوم میں پڑھتاہے اور امتحان میں اعلیٰ نمبرات حاصل نہ کرنے کی وجہ سے دارالعلوم کے نظام کے مطابق ایک عام کمرہ میں اس کو رہائش دی گئی ہے؛ جب کہ میری یہ تمنا ہے کہ اعلیٰ نمبرات والے طلبہ کے لیے مخصوص کمروں میں اس کو رہائش دی جائے؛ تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ پڑھ سکے؛ لہٰذا آپ اس کے لیے سفارش فرمادیں ! میں نے اُٹھ کر اپنے کمرے کے ایک کونے میں حفاظت سے رکھی ہوئی ان کی مذکورہ چھڑی نکالی اور یہ کہہ کر واپس کردی کہ آپ کے اس ہدیہ ہی نے آپ کے اندر یہ جرأت پیدا کردی کہ مجھ سے دارالعلوم کے اُصول وقواعد کے برخلاف سفارش کرنے کی بلا تکلف فرمائش کی جس سے آپ کا یہ ہدیہ مشکوک ہوگیا؛ لہٰذا آپ اپنا ہدیہ واپس لے جائیں ۔‘‘

مشکوک ہدایا قبول کرنے سے حضرت مولانا کا انکار اتّباعِ سنت پر مبنی تھا

            اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مخلصانہ ہدایا کا تبادلہ مسلمانوں کے درمیان محبت ودوستی اور عزت واحترام کی نشانی ہے جس سے ان کے قلوب کے اندر قربت ونزدیکی پیدا ہوتی ہے اور بغض وکینہ دور ہوجاتاہے، اسی وجہ سے نبی کریمﷺ  نے مسلمانوں کو آپس میں ہدایا کے تبادلہ کی ترغیب دی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓکی روایت ہے کہ آپﷺ  نے فرمایا: ’’  تہادَوْا تحابُّوا‘‘ (رواہ البخاری فی الادب المفرد وابویعلی باسناد حسن) یعنی ’’تم آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ پیش کیا کرو، تاکہ تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے۔‘‘ البتہ اس بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ  کی ترغیب کا تعلق ان ہدایا سے ہے جو شکوک وشہبات سے پاک اور خلوص وللہیت پر مبنی ہوں اور اگر ہدایا کے پیچھے نامناسب اغراض یا ناجائز مقاصد کار فرما ہوں تو ایسی صورت میں ہدیہ دینا اور لینا دونوں ناجائز ہوں گے، ایسا ہدیہ درحقیقت رشوت ہے۔

            اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے امام بخاریؒ نے صحیح البخاری، جلد اول، صفحہ نمبر: ۳۵۳ پر ایک باب بعنوان ’’باب من لم یقبل الہدیّۃ لِعلّۃ‘‘ یعنی ’’کسی شک کے تحت ہدیہ قبول نہ کرنے کا بیان‘‘ قائم کیا ہے، اور اس کے تحت سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’کانت الہدیّۃ فی زمن رسول اللّٰہ ﷺ ہدیّۃً والیومَ رشوۃٌ ‘‘ یعنی ’’حضورﷺ  کے زمانہ میں ہدیہ واقعی ہدیہ ہوا کرتا تھا اور آج وہ رشوت بن گیا ہے۔‘‘ راقم عرض کرتاہے کہ غور کیا جائے کہ جب ایک خلیفۂ عادل اور جلیل القدر تابعی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو اپنے زمانے کے ہدایا میں شکوک وشبہات نظر آتے تھے تو آج کل کے ہدایا میں کتنے شکوک وشبہات ہوسکتے ہیں ؟ اور کتنی احتیاط کی ضرورت ہے!

            امام بخاریؒ نے مذکورہ بالاعنوان کے تحت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا قول ذکر کرنے کے بعد دو مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے صرف ایک ہی حدیث کا ترجمہ ومفہوم درج کیاجارہاہے:

            ’’حضرت ابوحمید ساعدیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ  نے قبیلۂ ’’ازد‘‘ کے ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولیابی کا عامل بناکر بھیجا جس کو ابن اللُّتْبِیَّہ کہاجاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا کہ یہ تو زکوٰۃ کا مال ہے اور یہ دوسرا مال مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ پیغمبرﷺ نے اس کی بات سن کرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا؟ تاکہ اسے معلوم ہوجاتا کہ ہدیہ ملتا ہے یا نہیں ؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لے گا وہ قیامت کے دن اس کو گردن پر اُٹھائے ہوئے آئے گا، اگر وہ مالِ زکوٰۃ کوئی اونٹ ہوگا تو وہ اونٹ والی آوازنکالے گا، اور اگر گائے ہوگی تو گائے والی آواز نکالے گی اور اگر بکری ہوگی تو بکری والی آواز نکالتی ہوگی، پھر آپ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا، یہاں تک کہ ہم نے آپ کے بغل کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچادیا؟ اے اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچادیا؟ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔‘‘      (بخاری شریف، جلد :۱، ص: ۳۵۳، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ)

            راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ درج بالا نصوص کی روشنی میں ہمارے اکابرین ہدایا کے سلسلہ میں بڑی احتیاط فرماتے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے یہاں ہدیہ کے لیے اصول وآداب مقرر تھے جو ’’اشرف السوانح‘‘ کے اندر ’’ہدیہ کے متعلق اصول‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیے گئے ہیں ۔ حضرت مولانا معراج الحق صاحب بھی ان ہی اکابرین کے خوشہ چینوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دور کے اہل علم حضرات، ذمہ دارانِ مدارس وامورِ دینیہ، قائدینِ قوم وملت اور عام مسلمانوں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت مولانا معراج الحق صاحب سے احقر کا تعلُّق واستفادہ اور ان کی سندِ حدیث

            احقر نے حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ سے ترمذی شریف جلد ثانی پڑھی ہے، انھوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے، انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ سے، انھوں نے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے، انھوں نے حضرت  شاہ عبد الغنی مجددیؒسے، انھوں نے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ سے، انھوں نے حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒسے، انھوں نے مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی سند، حدیث کی بنیادی کتابوں تک مشہور ومعروف ہے۔

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب سے ترمذی شریف جلد ثانی پڑھتے ہوئے احقر اور دورۂ حدیث کے تمام ساتھیوں کو پورے تعلیمی سال کے دوران ان سے خوب استفادے کا موقع ملا، اس کے علاوہ احقر کو حضرت والا سے تقریباً گیارہ سال تک ایک طالب علم اور پھر مدرس ومسجدِ دارالعلوم کے امام کی حیثیت سے خصوصی استفادے کا موقع بھی اللہ کی توفیق سے میسَّر ہوا  اور وہ اس طرح کہ ۱۴۰۱ھ کو جب احقر دورۂ حدیث کے طالبِ علم کی حیثیت سے دارالعلوم سے منسلک ہوگیا اور پھر فراغت کے بعد ہی دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی سعادت نصیب ہوئی؛ جب کہ مسجدِ دارالعلوم میں امامت وخطابت کی ذمہ داری دورۂ حدیث کے سال سے انجام دے رہاتھا، اس وقت سے حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کے وصال (ماہِ صفر ۱۴۱۲ھ) تک احقر اُن کی اجازت سے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مغرب وعشاء کے درمیان اور کبھی جمعہ کے دن صبح نو بجے سے دس بجے تک ان کے کمرہ میں ملاقات واستفادہ کے لیے حاضرِ خدمت ہوتا، جہاں ان کے پاس اکثر اوقات ان کے متعلقین میں سے دو تین دیگر بزرگ حضرات بھی موجود ہوتے۔ حضرت الاستاذ اپنے اساتذۂ کرام اور اسلاف واکابرِ دار العلوم دیوبند کے واقعات سناتے، اور اپنی گزری ہوئی طویل زندگی کے سبق آموز اور عبرت انگیز حالات بیان فرماتے اور کبھی دارالعلوم کے موجودہ اور سابقہ حالات کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ذمہ دارانِ دارالعلوم اور طلبہ کی موجودہ صورتِ حال کو مدِ نظر رکھ کر اُن کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرتے اور یوں تبصرہ فرماتے کہ دارالعلوم کی ترقی کا دار ومدار ’’کَیْف‘‘  یعنی اخلاص وللہیت اور تقویٰ ومحنت پر ہے، ’’کَمْ‘‘ یعنی تعمیرات وطلبہ واساتذہ کی تعداد میں اضافہ پر نہیں ۔

            حضرت الاستاذ کی مجلس میں موجود دیگر دو تین بزرگ حضرات ان کی باتیں غور سے سنتے اور کبھی وہ بھی کچھ تبادلۂ خیال کرتے؛ البتہ احقر کے حصہ میں صرف خاموشی اور حضرت الاستاذ ودیگر بزرگوں کی مجلس سے استفادہ کرنا ہوتا؛ تاہم! اگر کبھی کسی بات کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا تو ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے سوال کے انداز میں کچھ لب کشائی کرتا اور حضرت الاستاذ میرے سوال کا تسلی بخش جواب عنایت فرماتے۔

            بہرصورت! حضرت الاستاذ مولانامعراج الحق صاحب اپنے اکابرین کا ایک نمونہ او ران کا وجود ہم جیسے بے سہاروں کے لیے باعثِ سعادت تھا؛ اس لیے احقر کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کی خدمت میں حاضری کا ہفتہ وار سلسلہ ہر صورت میں قائم رہے اور کسی معقول عذر کے بغیر اس میں کوئی ناغہ نہ ہو، اس صحبتِ صالح سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا اتنا فائدہ تو میں اپنی غفلتوں کی وجہ سے نہ اُٹھا سکا؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی برکات آج تک اپنی زندگی میں محسوس کررہاہوں اور حضرت کے حق میں غائبانہ دعائیں کرتا رہتا ہوں ۔

دارالعلوم کی خدمت میں انہماک اور اصول وضوابط کی پابندی

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب نے تقریباً نصف صدی تک اخلاص وانہماک کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی خدمت کی، اس طویل عرصہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف انتظامی امور سے بھی منسلک رہے اور اپنی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریاں کامیابی اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ آپ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی قُدّس سرُّہٗ کے دورِ اہتمام میں تقریباً پانچ سال تک ناظمِ دارالاقامہ اور دس سال تک نائب مہتمم اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قُدّس سرُّہٗ کے دورِ اہتمام میں تقریباً دس سال تک صدر المدرسین کے عہدے پر فائز رہے  اور آخر الذکر عہدے پر ہوتے ہوئے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

            اس طویل عرصے میں آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں دارالعلوم کی خدمت میں لگائے رکھیں اور اپنی مقبولیت وشہرت اور ناموری ووجاہت سے اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی؛ چنانچہ آپ نے اپنی ذات کے لیے ایک چھوٹا سا مکان تو درکنار ایک کمرہ بنانے کی سعی بھی نہیں کی، بلکہ زندگی کے آخری لمحات تک دارالعلوم کی طرف سے ان کے لیے مہیّا کیے گئے ایک سادہ کمرہ میں مقیم رہے اور اسی کمرہ سے آپ کی نعش اُٹھائی گئی۔ دارالعلوم کے اصول وقواعد کے وہ خود بھی پابند اور دوسروں کو بھی پابند دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر کوئی شخص اصول کی خلاف ورزی کرتا تو مناسب انداز میں تنبیہ وداروگیر کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ جو احقر نے براہ راست حضرت والا سے سنا ہے‘ قلم بند کیاجارہاہے:

            ’’حضرت مولانا معراج الحق صاحب جس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم کے عہدہ پر فائز تھے، اس زمانے میں ایک دفعہ ان کو پتہ چلا کہ دارالعلوم کے ایک شعبہ کے ناظم روزانہ تقریباً پندرہ منٹ تاخیر سے اپنے دفتر پہنچتے ہیں ! حضرت کو ناگواری ہوئی اور ایک دن دفتر کے مقررہ وقت پر جاکر ان کی نشست پر بیٹھ گئے، ناظم صاحب جب اپنی عادت کے مطابق تاخیر سے دفتر پہنچے تو حضرت نائب مہتمم صاحب کو اپنی نشست پر دیکھ کر گھبرا گئے اور سلام کیا! حضرت نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں اس لیے آپ کے دفتر میں آکر بیٹھ گیا کہ آپ کو وقت پر پہنچنے میں شاید کوئی دقت درپیش ہے جس سے دارالعلوم کا نقصان ہورہا ہے؛ اس لیے میں نے سوچا کہ آپ کے آنے تک میں ہی آپ کا کام انجام دیتا رہوں ! اس پر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور آئندہ اپنے وقت کے پابند ہوگئے۔‘‘

حضرت مولانا کے عزمِ مصمم واصول پسندی کا ایک اور واقعہ

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کے غیر متزلزل عزم واصول پسندی کا ایک اور واقعہ جس کا عینی شاہد خود راقم الحروف ہے، قارئین کے فائدے کے لیے پیش کیا جارہاہے:

            ’’ایک طالبِ علم جو داخلہ لینے کی غرض سے دارالعلوم دیوبند آکر نظام کے مطابق تحریری امتحان میں شریک ہوگیا تھا، وہ پرچۂ امتحان میں درج شدہ سوالات کے درست جوابات نہیں لکھ پایا تھا، تو اس نے اپنے جوابی پرچے کے آخر میں یہ لکھا تھا: ’’اگر مجھے فیل کردیاگیااور درالعلوم میں داخلہ سے محروم کردیاگیا تو میں اپنی پریشانی اور احساسِ محرومی کے تحت احاطۂ دارالعلوم کے اندر خود کشی کروں گا۔‘‘ ممتحنین حضرات اجتماعی طور پر حضرت مولانا معراج الحق صاحب صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی زیر نگرانی پرچے چیک کررہے تھے، جب مذکورہ جوابی پرچے کی باری آئی اور چیک کرنے والے استاذ نے پرچے کی کمزوری کو دیکھ کر اس کے مطابق نمبر لگانے کا ارادہ کیا تو ان کی نظر طالبِ علم کے لکھے ہوئے مذکورہ آخری خطرناک جملے پر پڑی! اس جملے کو پڑھ کر وہ شش وپنج میں مبتلا ہوگئے؛ اس لیے کہ پرچہ لکھنے والا فیل قرار دیئے جانے کا مستحق تھا! لیکن فیل قرار دیئے جانے کی صورت میں یہ پریشانی سامنے تھی کہ اگر خدا ناخواستہ اس آخری جملے کو عملی جامہ پہنایاگیا تو وہ اس طالب علم کے حق میں اور اسی طرح دارالعلوم کے حق میں بڑا خطرناک ثابت ہوسکتاہے، لہٰذا انھوں نے نمبر لگانے سے پہلے کچھ دوسرے چیک کرنے والے حضرات اساتذہ سے مشورہ کیا کہ اس صورت حال میں کیاکیا جائے؟ لیکن وہ بھی کوئی حتمی مشورہ نہ دے سکے، بالآخر سب نے مذکورہ مسئلہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے سامنے پیش کیا، انھوں نے بلاتوقف فرمایا: اسے فیل کردو، اگر وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے تو ابھی کرے؛ اس لیے کہ اپنے عمل کا ذمہ دار وہ خود ہے اور ہم لوگ بھی اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں ! پھر انھوں نے چیک کرنے والے اساتذہ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا: آپ مطمئن رہیں ، ا س نے یہ جملہ صرف دباؤ ڈالنے کے لیے لکھا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کرے گا، اس لیے کہ جو شخص اتنا آرام طلب ہو کہ اپنی تعلیم میں محنت نہ کرسکتا ہو وہ خود کشی کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت نے جیسا فرمایا تھا ایسا ہی ہوا، اسے فیل قرار دے کر داخلہ نہیں دیاگیا اور وہ چلا گیا اور کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘

اجلاسِ صد سالہ کی مخالفت

            دارالعلوم دیوبند میں ۳،۴،۵ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۱،۲۲،۲۳ مارچ ۱۹۸۰ء کو سہ روزہ اجلاسِ صد سالہ منعقد ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں اندرونِ ملک وبیرونِ ملک کے لوگوں نے شرکت کی جن میں علمائے کرام، مفکّرین، داعیانِ حق، اربابِ قلم ودانش، قائدینِ ملت، زعمائے قوم اور عام مسلمان شامل تھے۔ اس اجلاس کے کچھ ہی عرصہ بعد دارالعلوم دیوبند کے اربابِ انتظام کے درمیان ایک اختلاف نے سراُٹھایا اور بڑھتے بڑھتے اس نے شدت اختیار کی، جس سے پورے برِّصغیر کے دینی حلقوں میں ایک ہلچل اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی، اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے متعلقین ومحبینِ دارالعلوم کو بڑی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس اختلاف کے نتیجہ میں اس مرکزِ اسلام کے وجود کو کوئی نقصان نہ پہنچے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس شدید اختلاف کے باوجود دارالعلوم محفوظ رہا اور بعد میں اختلاف کی فضا بھی ختم ہوگئی، وللّٰہ الحمد والمنۃ۔

            دارالعلوم کے اساتذۂ کرام ومتعلقین میں سے اکثروہ حضرات جو اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد سے پہلے اس کی حمایت میں پیش پیش تھے، اجلاس کے بعد اُٹھنے والے ناگفتہ بہ حالات واختلافات کو دیکھ کر ان کی آراء بدل گئیں اور انھوں نے تسلیم کیا کہ مذکورہ اجلاس کا انعقاد شاید دار العلوم واسلافِ دارالعلوم کے متوکلانہ مزاج کے مطابق نہیں تھا؛ اس لیے اس کا نتیجہ مثبت نہیں رہا! البتہ اجلاس کے انعقاد سے پہلے میرے علم کے مطابق اساتذۂ دارالعلوم میں سے صرف حضرت مولانا معراج الحق صاحب ہی تھے جنھوں نے واشگاف الفاظ میں اس اجلاس کی مخالفت کی تھی؛ لیکن کسی نے ساتھ نہیں دیاتھا، میں نے حضرت والا سے براہِ راست یہ فرماتے ہوئے سناہے:

            ’’اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد سے پہلے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے دارالعلوم کی روایت کے مطابق مشورہ کرنے اور رائے لینے کے لیے اساتذہ کا اجلاس بلایا، اس اجلاس میں اکثر حضرات نے اجلاسِ صد سالہ کے انعقاد کو دارالعلوم کے لیے مفید قراردیا اور جب میری باری آئی تو میں نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ اگر اس اجلاس کا مقصد دارالعلوم کی شہرت کو بڑھانا اور اس کی آواز کو پھیلانا ہے تو یہ مقصد اس اجلاس کے بغیر پورا ہوچکا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فضلاء اور محبینِ دارالعلوم کے ذریعے اس کی شہرت ومقبولیت کو چار دانگ عالم میں اتنا پھیلایاہے کہ مزید اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی! اور اگر اجلاس کا منشأ دارالعلوم کے لیے چندہ کی فراہمی اور مالی ضروریات کی تکمیل ہے تو اس منشأ کی تکمیل بھی قیامِ دارالعلوم سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے خود بخود ہو رہی ہے، ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ، لہٰذا! میں اس اجلاس کا انعقاد اور اس کے انتظامات پر پیسہ اور وقت خرچ کرنا نہ تو دارالعلوم کے حق میں مفید سمجھتا ہوں اور نہ ہی اُسے اسلافِ دارالعلوم کے مزاج کے مطابق قرار دے سکتا ہوں ۔‘‘

            اجلاسِ صد سالہ سے متعلق حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب کی رائے ابتداء ہی سے یہی رہی تھی، جسے انتظامیہ اور اساتذۂ دارالعلوم کی اکثریت نے قبول نہیں کیا تھا، لیکن بعد میں تاریخ نے خود یہ ثابت کردیا کہ اُن ہی کی رائے درست تھی، واقعی اجلاسِ صدسالہ کا انعقاد دارالعلوم کے مزاج کو راس نہیں آیا۔

اپنی ذاتی مصلحتوں کو دارالعلوم کی مصلحتوں پر قربان کرنا

            حضرت مولانا معراج الحق صاحب دارالعلوم کے اصول وقواعد کے بے حد پابند تھے، وہ نہ تو اصول وقواعد کے برخلاف کسی رعایت ودرگزر کو درست سمجھتے اور نہ ہی قانون ونظام کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سخت گیری وجواب طلبی کا معاملہ کرتے ہوئے ہچکچاتے یا ان کے ردِ عمل سے گھبراتے۔ اور اس حقیقت کو تقریباً ہر شخص جانتاہے کہ ایک اصول پسند شخص کو آج کل کے سہولت پسند معاشرہ اور راحت طلب دور میں اگر مبغوض نہ سمجھا جائے تو زیادہ محبوب ومقبول بھی نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت مولانا معراج الحق صاحب بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف اور اس صورت حال سے آگاہ تھے کہ وہ اصول پسندی کی وجہ سے اکثر متعلقہ افراد کی ناپسندی اور طعنہ زنی کا نشانہ بن سکتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے اس کے باوجود یہ طے کیا تھا کہ وہ دارالعلوم کے اصول وضوابط پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنی ذاتی مصلحتوں کو دارالعلوم کی مصلحتوں پر ترجیح دیں گے۔

            چنانچہ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک دارالعلوم کے اصول وضوابط پر کاربند رہے اور یکسوئی اور پوری توجہ کے ساتھ دارالعلوم اور طلبۂ دارالعلوم کی خدمت کو ترجیح دیتے ہوئے پوری زندگی تجرُّد کے ساتھ گزار کران علمائے کرام کی فہرست میں شامل ہوگئے جنھوں نے اپنی زندگیاں اور صلاحیتیں علمِ دین اور طلبۂ علم کی خدمت کے لیے وقف کرکے عفت وپاکدامنی کے ساتھ غیر ازدواجی زندگیوں کو اپنایا اور اپنے آپ کو بال بچوں اور اپنی نسل کی بقاء سے محروم رکھا۔

شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے خصوصی تعلق اور ان کا ایک واقعہ

            حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ نے دارالعلوم کے مایۂ ناز اساتذہ ومشایخ جیسے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ اور جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ  وغیرہ سے پڑھ کر خوب فیض حاصل کیا اور سب سے عقیدت وتعلق رہا، اور بالخصوص شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے انھوں نے خصوصی فیض وتربیت حاصل کی؛ ان کا شمار حضرت شیخ الادب کے خصوصی شاگردوں میں ہوتا تھا۔ حضرت مولانا معراج الحق صاحب اپنے تمام اساتذۂ کرام اور بالخصوص حضرت شیخ الادبؒ کے سبق آموز واقعات سنایا کرتے تھے، ان واقعات میں سے صرف ایک ہی عبرت آموز واقعہ بطور نمونہ پیش کیا جارہاہے:

            ’’شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ طلبہ کی تعلیمی وتربیتی نگرانی کے لیے مغرب وعشاء کے بعد دارالعلوم میں احاطۂ مسجد کے اندر جنوبی سمت میں واقع ایک کمرہ میں تشریف فرما ہوتے اور وقفہ وقفہ سے احاطۂ دارالعلوم میں گشت فرماتے؛ تاکہ طلبہ تکرار ومطالعہ میں مصروف اور لایعنی مصروفیات سے محفوظ رہیں ، اسی دوران حضرت کا کھانا ان کے گھر سے جو دارالعلوم سے ذرا فاصلے پر واقع تھا آجاتا اور مذکورہ کمرے میں رکھ دیاجاتا اور بوقتِ فرصت حضرت اپنا کھانا تناول فرماتے۔ ایک چھوٹے سے ڈبے میں موجود ان کا سالن سردیوں میں اکثر جم جاتا اور جب کھانے کا وقت آتا تو ہم خدام حضرت سے اجازت طلب کرتے کہ ہم سالن کا ڈبہ لے کر دارالعلوم کے مطبخ میں گرم کرکے لاتے ہیں ؛ تاکہ قابلِ استعمال بن سکے، حضرت یہ کہہ کر انکار فرماتے کہ دارالعلوم کا مطبخ طلبہ کے لیے بناہے، اساتذہ کے لیے نہیں ، اس پر ہم عرض کرتے کہ حضرت ! ہم آپ کے سالن گرم کرنے کے لیے مستقل آگ نہیں جلائیں گے؛ بلکہ پہلے سے جلی ہوئی آگ کے کنارہ میں تھوڑی دیر کے لیے رکھ کر واپس لاتے ہیں ، حضرت ہمارے اس اصرار کے باوجود انکار فرماتے اور روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر جمے ہوئے سالن میں اس کا جمود ختم کرنے کے لیے گھماتے اور پھر اس ٹھنڈے سالن کو روٹی کے ساتھ تناول فرماتے۔‘‘

            راقم الحروف عرض کرتاہے کہ حضرت شیخ الادبؒ کے مندرجہ بالا واقعہ سے ملتے جلتے اپنے دوسرے اکابرکے بے شمار واقعات ہیں ! اللہ تعالیٰ ہمیں اور ان اکابرین کے تمام نام لیواؤں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے!

حفظِ قرآن کی آسانی اور قوتِ حافظہ کے لیے ایک مسنون عمل کی وصیت

            احقر نے ابتدائی اور متوسط درجات کی تعلیم ایک ایسے ماحول میں پائی ہے جہاں حفظِ قرآن کا معمول نہیں تھا اور حفاظِ قرآن کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا،اور جب حدیث پڑھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبند پہنچایا تو اس ماحول میں احقر نے دیکھا کہ طلبہ کا ایک عام معمول یہ تھا کہ سب سے پہلے حفظِ قرآن کرکے پھردرسِ نظامی کی کتابیں پڑھتے تھے؛ چنانچہ اسی معمول کی برکت سے صورتِ حال یہ بنی تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں میرے دورۂ حدیث کے ساتھیوں میں سے حفاظِ قرآن کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی، ان ساتھیوں کو دیکھ کر میری بھی یہ تمنا ہوتی کہ کاش! میں بھی اس نعمت سے سرفراز ہوتا؛ لیکن دورۂ حدیث کے سال اسباق کی مصروفیات کی وجہ سے اس تمنا کو پورا کرنے کی کوئی ممکن صورت نظر نہیں آتی تھی۔

            فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اپنے اساتذۂ کرام کی دعاؤں کی برکت سے دارالعلوم ہی میں مدرس کی حیثیت سے احقر کا تقرر ہوا، تدریس کے دوران میں نے محسوس کیا کہ مدرس اگر حافظِ قرآن نہ ہو تو تدریس میں اُسے دقَّت پیش آتی ہے؛ اس لیے کہ دینی مدارس کے نصابِ تعلیم کا تعلق یاتو براہِ راست یا پھر بالواسطہ قرآن کریم سے جڑتاہے؛ کیونکہ وہ تمام علوم کا سرچشمہ ہے اور جب مدرس قرآن پاک کا حافظ نہ ہو تو تدریس میں اسے ایک قسم کی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ دورۂ حدیث کے سال اپنے حفاظ ساتھیوں کو دیکھ کر میرے دل میں حفظِ قرآن کا ولولہ پیدا ہوچکا تھا، اب تدریس میں حفظِ قرآن کے بغیر مشقت محسوس کرنے کے بعد اس ولولے میں اضافہ ہوگیا  اور دل نے چاہا کہ تدریس اور مسجدِ دارالعلوم کی امامت اور دار الاقامہ کے ایک حلقہ کی نظامت کے ساتھ ساتھ خارجی وقت میں حفظِ قرآن شروع کروں ؛ البتہ مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود حفظِ قرآن میں لگنا کوئی آسان کام نہیں تھا؛ اس لیے اپنی عادت کے مطابق حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند (حال شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا اور حفظِ قرآن کے لیے اپنی رغبت وارادے کا اظہار کیا۔ حضرت والانے ہمَّت افزائی فرماتے ہوئے میرے ارادے کی تائید فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ تم نے بہت عمدہ سوچاہے؛ البتہ بچپن کی عمر کے بعد اور مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود حفظِ قرآن کے لیے ایک پختہ نظام الاوقات بنانے، مسلسل محنت اور وقت کی پابندی کی سخت ضرورت ہے۔ اگر تم مذکورہ تین شرائط کو بجالانے کے لیے تیار ہو تو اللہ کی توفیق سے حافظِ قرآن بن جائوگے اور میں ہی روزانہ تمہارا سبق اور آموختہ متعیّنہ اوقات میں سن لیا کروں گا۔

            میں چونکہ حضرت والا کی خدمت میں صرف مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا، حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ دارالعلوم کے مایۂ ناز استاذِ حدیث اپنی گوناگوں علمی مصروفیات کے باوجود مجھ جیسے ناکارہ کے لیے روزانہ کی بنیاد پر وقت نکالیں گے؛ اس لیے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت والا! میں تو صرف مشورہ کے لیے حاضر ہوا تھا؛ لیکن آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا احسان کا معاملہ فرمایا جو میرے تصور میں بھی نہ تھا؛ لہٰذا میں آپ کو اطمینان دلاتاہوں کہ آپ نے جن تین شرائط کی نشاندہی فرمائی ہے‘ میں اللہ کی توفیق سے تینوں کی مکمل پابندی کروں گا۔ حضرت نے فرمایا کہ: جاؤ، اور آج ہی سے سورۂ ’’قٓ‘‘ سے حفظ کرنا شروع کرو اور کل فلاں وقت کو ایک منٹ کی تقدیم وتاخیر کے بغیر میرے پاس آنا، میں سن لوں گا۔ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کی ہدایت کے مطابق بروز یکشنبہ بتاریخ ۲۸/۲/۱۴۰۴ھ مطابق ۴/۱۲/۱۹۸۳ء سورۂ ’’قٓ‘‘ سے احقر حفظِ قرآن میں مصروف ہوگیا، اور چند ہی دن کے بعد حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبؒ کو اپنی ا س نئی مصروفیت سے آگاہ کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی، انھوں نے خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے کامیابی کی دعا سے نوازا، اور نظام الاوقات کی پابندی اور مسلسل محنت کرنے کے ساتھ ساتھ حفظِ قرآن کی سہولت اور حافظہ کی قوت کے لیے ترمذی شریف کی ایک روایت میں بیان شدہ مسنون عمل کو اپنانے کی ترغیب بھی دی! روایت کا مفہوم وترجمہ پیش کیا جارہاہے:

            ’’حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریمﷺ  کے پاس تھے کہ اچانک حضرت علیؓ آئے اور عرض کیا: میرے باپ وماں آپ پر قربان! یہ قرآن پاک میرے سینے سے نکل جاتاہے اور میں اُسے (یاد سے) پڑھ نہیں پاتا۔ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: اے ابوالحسن! کیا میں تمہیں کچھ ایسے کلمات نہ سکھلاؤں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائیں اور ان لوگوں کو بھی جن کو تم وہ کلمات سکھلاؤ، اور ان کلمات کی وجہ سے جو کچھ تم نے سیکھا ہے وہ تمہارے سینہ میں محفوظ رہے؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں ! اے اللہ کے رسول! مجھے وہ کلمات ضرور سکھا دیجیے، نبی ﷺ  نے فرمایا: جب جمعہ کی رات آئے، تو اس رات کو اگر تم رات کی آخری تہائی میں اُٹھ سکو (تو بہت اچھاہے) کیونکہ وہ ایسی گھڑی ہے جس میں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور اس گھڑی میں دعا قبول ہوتی ہے، اور میرے بھائی حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے جو کہا تھا کہ میں عنقریب تمہارے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا وہ اسی وقت کے لیے کہہ رہے تھے، اور اگر یہ تمہارے بس میں نہ ہو تو آدھی رات میں  اُٹھو، اور اگریہ بات بھی تمہارے بس میں نہ ہو تو شروع رات میں کھڑے ہوجاؤ اور چار رکعتیں پڑھو، پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور یٰسٓ پڑھو، دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور ’’حمٓ الدخان‘‘ پڑھو، تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور ’’الٓمٓ تنزیل السجدۃ‘‘ پڑھو اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۂ ’’المُلْک‘‘ پڑھو، جب آپ تشہد سے فارغ ہوجائیں تو اللہ کی تعریف کریں اور بہترین تعریف کریں ، اور مجھ پر درود بھیجیں اور بہترین درود بھیجیں اور تمام انبیاء پر درود بھیجیں اور استغفار کریں مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے لیے اور اپنے ان تمام مؤمن بھائیوں کے لیے جو آپ سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں ، پھر یہ دعا پڑھیں :

          ’’اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِيْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِيْ أَبَدًا مَّا أَبْقَیْتَنِيْ وَارْحَمْنِيْ أَنْ أَتَکَلَّفَ مَا لَا یَعْنِیْنِيْ وَارْزُقْنِيْ حُسْنَ النَّظْرِ فِيْ مَا یُرْضِیْکَ عَنِّيْ، اَللّٰہُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِيْ لَاتُرَامُ أَسْأَلُکَ یَا اَللّٰہُ یَا رَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْہِکَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِيْ حِفْظَ کِتَابِکَ کَمَا علَّمْتَنِيْ، وَارْزُقْنِيْ أَنْ أَتْلُوَہٗ عَلَی النَّحْوِ الَّذِيْ یُرْضِیْکَ عَنِّيْ، اَللّٰہُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِيْ لَاتُرَامُ أَسْأَلُکَ یَا اَللّٰہُ یَا رَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْہِکَ أَنْ تُنَوِّرَ بِکِتَابِکَ بَصَرِيْ وَأَنْ تُطْلِقَ بِہٖ لِسَانِيْ وَأَنْ تُفَرِّجَ بِہٖ عَنْ قَلْبِيْ وَأَنْ تَشْرَحَ بِہٖ صَدْرِيْ وَأَنْ تَغْسِلَ بِہٖ بَدَنِيْ فَإِنَّہٗ لَایُعِیْنُنِيْ عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ وَلَایُؤْتِیْہِ إِلَّا أَنْتَ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ  ۔‘‘

             اے ابو الحسن! آپ یہ کام تین یاپانچ یا سات جمعہ تک کریں ، اللہ کے حکم سے آپ کی دعا قبول ہوگی اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، یہ عمل ودعا کسی مؤمن کے حق میں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

            ابن عباسؓکہتے ہیں : بخدا ابھی پانچ یا سات ہی جمعے گزرے ہوں گے کہ حضرت علیؓ پھر ایسی ہی مجلس میں نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ: اے اللہ کے رسول! میں اس سے پہلے چار کے آس پاس آیتیں یاد کرتا، پھر جب انہیں اپنے دل میں دہراتا تو وہ یکدم میرے سینے سے نکل جاتی تھیں ، اور آج میں چالیس کے آس پاس آیتیں یاد کرتاہوں اور جب انہیں اپنے دل میں دہراتاہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن میری آنکھوں کے سامنے ہے اور میں آپ کی حدیثیں سنتا تھا، پھر جب میں ان کو دہراتاتھا تو وہ یکدم میرے سینے سے نکل جاتی تھیں ، اور اب میں حدیثیں سنتاہوں ، پھر جب میں ان کو بیان کرتاہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا! آپ ﷺ  نے ان سے فرمایا: اے ابو الحسن! تم ایماندارہو ربِّ کعبہ کی قسم!‘‘ (ترمذی شریف،ج:۲،ص:۱۹۷)

            مذکورہ بالا حدیث کی سند پر اگرچہ بعض محدثین حضرات نے کلام کیاہے، تاہم! خود حضرت امام ترمذیؒ  نے اسے حسن قرار دیاہے، اور اسی طرح ’’الْعَرْفُ الشَّذِيّ‘‘ میں محدِّث العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کا یہ قول نقل کیاگیاہے کہ: ’’اس روایت کی سند درست وصحیح ہے اور جو عمل اس میں بتایاگیا ہے وہ حفظِ قرآن وقوتِ حافظہ کے لیے مفید ہے۔‘‘ اس کے علاوہ راقم الحروف یہ عرض کرتاہے کہ مذکورہ روایت فضائل الاعمال کی روایات میں سے ایک روایت ہے، لہٰذا اگر اس کی سند میں کچھ کمزوری کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی اکثر محدِّثین کے نزدیک ایسی روایت پر عمل کرنا باعثِ اجر وبرکت وفائدہ ہے۔ احقر نے حفظِ قرآن پاک کے دوران جہاں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کی ہدایات پر عمل کرنے کے فوائد دیکھے، وہاں مذکورہ مسنون عمل کے فیوض وبرکات بھی محسوس کیے، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک سال تین مہینے کے اندر مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کے پاس بروز دو شنبہ بتاریخ ۱۱/۶/۱۴۰۵ھ مطابق ۴/۳/۱۹۸۵ء حفظِ قرآن مکمل کیا۔

            اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مصروفیات کے باوجود مختصر وقت کے اندرمجھ جیسے سیاہ کار کا حفظِ قرآن کی دولت سے مالامال ہونا اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت وتوفیق کے بغیر نہیں ہوسکتاتھا، اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس میں بھی کوئی تردُّد نہیں کہ اگر حضرت الاستاذ مفتی پالن پوری صاحب (اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی عظیم نعمتوں سے ان کو مالا مال فرمائے) کی خصوصی نگرانی اور مبارک توجہات ساتھ نہ ہوتیں تو ظاہری اسباب کے تحت مختلف مصروفیات کے باوجود بڑی عمر کے اندر میں اس عظیم نعمت کو حاصل نہیں کرسکتا تھا، اسی طرح مجھے اس اعتراف میں بھی کوئی تأمُّل نہیں کہ حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی (اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کو درجاتِ عالیہ نصیب فرمائے) نے جس مسنون علم کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی، اس کی برکات بھی شاملِ حال رہیں اور میں نے اس کی نورانیت وفائدہ محسوس کیا۔

حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ سے مختلف میدانوں میں استفادہ کرنے کے مواقع

            دارالعلوم دیوبند سے احقر ابتدائً ایک طالبِ علم کی حیثیت سے، پھر مسجد دارالعلوم کے امام وخطیب کی حیثیت سے اور پھر مدرس کی حیثیت سے وابستہ رہا، ان تینوں حیثیات میں سے ہرایک حیثیت کے حامل افراد کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں ؟ احقر نے اس سلسلہ میں جہاں دیگر اساتذۂ کرام سے ہدایات لی ہیں وہاں خصوصی طور پر حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے؛ اس لیے کہ ان کا طویل تجربہ، ان کا عزم وارادہ، ان کا طرزِ عمل او ران کی عادات وخصائل مجھ جیسے تہی دامنوں کے لیے مشعلِ راہ تھیں ۔ وہ اسلاف واکابر دارالعلوم سے اپنے شاگردوں کو واقف ومتعارف کرانے کا بہترین اور قابلِ اعتماد ذریعہ تھے۔ احاطۂ دارالعلوم میں ایک طویل مدّت تک تدریسی وانتظامی اُمور سے وابستہ رہنے کی بنیاد پر ان کو ہرمیدان میں تجربہ حاصل تھا۔ احقر نے جن جن امور ومعاملات میں ان سے استفادہ کیا ہے ان کی تفصیلات کے لیے تو مستقل کتاب کی ضرورت ہے، تاہم! اس مختصر مضمون میں اجمالاً ان امور کو قلمبند کرنا مناسب معلوم ہوتاہے:

طالبِ علم کی علمی وعملی ترقی کے اسباب کیا ہیں ؟ امام وخطیب کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کو کن کن آداب کا حامل ہونا چاہیے؟ مدرس کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ اور دیگر مدرسین، اربابِ انتظام اور طلبہ کے ساتھ ہر طبقے کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اگر دین کی خدمت میں لگاہوا شخص حاسدین کے حسد وایذارسانی کا شکار ہوجائے تو اسے گھبرانے کے بجائے کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟ اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور اصول وضوابط کی پابندی اور حالات وزمانہ کے تغیرات کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا دین کے ایک خادم کے لیے کتنا اہم ہے؟ مذکورہ تمام سوالات کے اطمینان بخش جوابات حضرت والا کے پاس موجود تھے اور احقر کو ان تمام میدانوں میں ان سے استفادہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔

            اس کے علاوہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب قُدِّسَ سِرُّہٗ سے صحت وتندرستی کے اصول وقواعد سے متعلق جن کے وہ خود بھی پابند تھے احقر نے کافی استفادہ کیاہے، وہ کھانے پینے میں خود بھی محتاط اور متعلقین کو بھی محتاط رہنے کی تلقین فرماتے، اور سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا حوالہ دیتے: ’’وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا‘‘ (اور کھاؤ اور پیوا ور حد سے تجاوز نہ کرو)، روزانہ نظم وترتیب کے ساتھ چہل قدمی کرنا ان کے معمولات میں سے ایک اہم معمول تھا، اور نبی کریمﷺ  کے اس فرمان: ’’فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘‘ (پس بے شک تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے) کے مطابق صحت وتندرستی کے اصول کی پابندی کو ضروری اور باعثِ اجر وثواب سمجھتے تھے۔ انگریزی دواؤں کے استعمال سے خود بھی اجتناب فرماتے تھے اور اپنے شاگردوں اور متعلقین کو بھی ان کے استعمال سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے۔ احقر کو تادمِ تحریر اللہ تعالیٰ نے آج کل کے ماحول میں پھیلی ہوئی اکثر جسمانی بیماریوں سے جو محفوظ رکھاہے اس میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم کے بعد ظاہری اسباب کے تحت حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒکی قیمتی ہدایات اور بابرکت نصائح کا بڑا دخل ہے۔

            خلاصہ یہ ہے کہ مجھے مختلف میدانوں میں حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبؒ سے خصوصی استفادہ کرنے کا موقع ملا،میں اس بات کا تو معترف ہوں کہ اپنی غفلتوں کی وجہ سے اگرچہ ان کی ہدایات کی مکمل پابندی نہ کرسکا؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی پر اثر نصائح کی برکات اپنی زندگی کے ہرہر پہلو میں آج تک محسوس کررہا ہوں اور اپنے دروس وبیانات میں عزیز طلبہ او رعام مسلمان بھائیوں کے فائدے کی خاطر حضرت الاستاذؒ کی نصیحتوں کا حوالہ دیتارہتاہوں اور ان کے حق میں غائبانہ دعائیں کرتا اور کراتا رہتا ہوں ۔

خواب میں حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ کی زیارت

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبؒ کے حقوق واحسانات کو یاد کرتے ہوئے جب احقر نے ان سے متعلق مضمون لکھنے کا ارادہ کیا اور اپنی ڈائریوں ، اپنے حافظہ اور دل ودماغ کے گوشوں میں محفوظ یاد داشتوں کو ترتیب دینے لگا، اسی دوران ایک دفعہ خواب میں ان کی ایک ایسی حالت میں زیارت نصیب ہوئی جس سے مجھے بے حد مسرت ہوئی اوراس امید میں مزید پختگی پیدا ہوگئی کہ ان شاء اللہ! وہ عالمِ برزخ میں خوش وخرم ہوکر اپنے اعمالِ صالحہ کے ثمرات سے خوب مستفید ہو رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قبر کو ان کے لیے جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادیاہوگا۔ خواب میں احقر نے یہ دیکھا:

            ’’ایک عام راستہ میں حضرت والا سے ایسی حالت میں احقر کا اچانک سامنا ہوتاہے کہ وہ جوانوں کی طرح چل رہے ہوتے ہیں اور جسم بالکل تندرست اور چمکتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں ، صاف ستھرے سفید لباس میں ملبوس اور سرپرسفید عمامہ ہوتاہے (واضح رہے ! حضرت والا اپنی زندگی میں عمامہ باندھنے کے عادی نہیں تھے؛ بلکہ دوپلی ٹوپی استعمال کرتے تھے) حضرت والا کو دیکھ کر میں انہیں سلام کرتے ہوئے معانقہ کرتاہوں ، وہ مجھے اپنے سینے سے لگالیتے ہیں ، میں عرض کرتاہوں کہ حضرت والا! آپ کی صحت ماشاء اللہ! بہت اچھی لگ رہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کی غائبانہ دعائیں شامل حال رہیں گی تو میری صحت کیوں اچھی نہیں ہوگی!؟۔‘‘

حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ    کا وصال اور ان کے شاگردوں پر عائد ایک ذمہ داری

            حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبؒ نے اس دارِ فانی میں تقریباً اکیاسی سالہ زندگی بسر کرکے بروز یکشنبہ بتاریخ ۷/۲/۱۴۱۲ھ مطابق ۱۸/۸/۱۹۹۱ء دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ان کی رہائش کے لیے مہیا کیے گئے ا س کمرہ میں جہاں وہ سالوں سال تک مقیم رہے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور احاطۂ دارالعلوم میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ اور آس پاس کے رہنے والے عام مسلمانوں نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ کے بعد ان کے جسدِ مبارک کو مزارِ قاسمی میں اپنے اکابرین کے پہلو میں سپردخاک کیاگیا، رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔

            حضرت الاستاذ نے اپنے پیچھے نسبی اولاد میں سے کسی کو نہیں چھوڑا؛ کیونکہ یکسوئی کے ساتھ دین کی خدمت کرتے ہوئے آپ نے تجرُّد کی زندگی کو ترجیح دی تھی؛ تاہم! نصف صدی تک دارالعلوم دیوبند کی خدمت کرتے ہوئے انھوں نے بے شمار روحانی اولاد اور شاگرد تیار کیے۔ نسبی رشتہ داروں میں سے ان کے دو بھائی تادمِ تحریر (ماہِ صفر ۱۴۴۱ھ تک) الحمد للہ بقید حیات اور کراچی میں مقیم ہیں ۔ ایک جناب محترم نسیم الحق صدیقی صاحب جن کی عمر تقریباً نوے سال ہے اور نارتھ ناظم آباد کراچی میں مقیم ہیں ، دوسرے جناب محترم شمس الحق صدیقی صاحب جن کی عمر تقریباً اکیاسی سال ہے او رگلشن اقبال کراچی میں مقیم ہیں ۔ ان کو دیکھ کر حضرت الاستاذ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ ان دونوں کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔

            حضرت مولانا معراج الحق صاحبؒ کی زندگی دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ مدارسِ دینیہ کے موجودہ ماحول میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان کے فرمودات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، اور آئندہ شاید اس سے بھی زیادہ ضرورت محسوس ہوگی۔ انھوں نے اپنے پیچھے نسبی اولاد نہیں چھوڑی جو ایک عام روایت کے مطابق ان کی مفصّل ومنظم سوانح لکھنے کا انتظام کرتی یا سیمیناروں کے ذریعے ان کی زندگی اور عادات وخصائل کو اجاگر کرتی،لہٰذا! ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جس ہستی نے اپنی زندگی ان کی تعلیم وتربیت اور ان کی مادرِ علمی کی خدمت میں صرف کردی، وہ بھی ان کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے ان کی وفات کے بعد ان کی یادوں ، ان کی زندگی کے مختلف مفید پہلوؤں اور ان کے فرموداتِ عالیہ اور عاداتِ طیبہ کو اپنی زبان وقلم کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کریں ؛ تاکہ ایک طرف موجودہ عصر کے اساتذۂ کرام، اربابِ انتظام، طلبۂ عزیز اور عامۃ المسلمین ان کی زندگی سے راہنمائی لیتے ہوئے دارَین کی ترقی حاصل کریں اور دوسری طرف خود حضرت والاؒ کے حق میں ان کی سیرتِ طیبہ کے احیاء کے ذریعے غائبانہ دعاؤں اور صدقۂ جاریہ کا ایک سلسلہ قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحب صدیقی دیوبندیؒکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts