سوال:  میرا سوال یہ ہے کہ میں جس کالج میں پڑھتا ہوں اس کے ہوسٹل میں انتظامیہ کی طرف سے پانی گرم کرنے کی کیتلی ، پریس، ہیٹر وغیرہ استعمال کرنا منع ہے۔ اس کے بعد ہمارے احباب اس کو بلا اجازت استعمال کرتے ہیں ، تو کیا یہ شرعاً جائز ہے؟ اور اگر کوئی ایسی کیتلی سے بنائی ہوئی چائے پر بلائے تو و چائے بھی پینا کیا شرعاً دُرست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا موصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: انتظامیہ کی طرف سے ممانعت کے باوجود پانی گرم کرنے کی کیتلی،پریس اور ہیٹر وغیرہ استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے، یہ بھی ایک قسم کی چوری اور خیانت ہے، اگراس طرح کی الکٹرانک کیتلی میں کوئی دوست چائے بنائے اور اس پر آپ کو مدعو کرے تو آپ اس میں شامل نہ ہوں ۔

          عن أبی حرۃ الرقاشی، عن عمہ… قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: اسمعوا منی تعیشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ. [مسند أحمد، رقم: ۲۰۶۹۵] کتاب السرقۃ (ہي) لغۃ أخذ الشيء من الغیر خفیۃ، وتسمیۃ المسروق سرقۃ مجاز. وشرعا باعتبار الحرمۃ أخذہ کذلک بغیر حق نصابا کان أم لاإلخ [الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (ردالمحتار) ۶/۱۳۷، ط: زکریا ، دیوبند]

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمد اسد اللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۸؍۱۱؍۱۴۴۰ھ

==============================

            سوال: میں ایک کمپنی کے ساتھ کام کررہاہوں اور ہمارا معمو ل یہ ہے کہ ہم کام شروع کرنے سے پہلے دعا کرتے ہیں ، اور کچھ وقت عرصہ سے ہم صبح کی مجلس میں تلاوت قرآن کے بعد اس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں ، اور کبھی کبھار دعا کی مجلس میں کچھ ہی ممبر شریک ہوتے ہیں ، اب تمام ممبروں نے ایک نوٹس جاری کیا ہے کہ تین چار دنوں تک جو بھی غیرحاضر ہوگا اس کے اکائونٹ سے اس کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی، میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ دعا یا قرآن کے ترجمے کی مجلس میں زبردستی اسٹاف کو شریک کرنے کا یہ نوٹس از روئے شرع کیسا ہے؟کیا منطقی نتیجہ نہیں ہوگا کہ اسٹاف صرف اپنی تنخواہ کو بچانے کے لیے مجلس میں شریک ہوں گے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا موصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: دعا کرنا، قرآنِ کریم کی تاوت کرنا وغیرہ انفرادی اور ذاتی اعمال ہیں ، کمپنی کے ذمے داران کی طرف سے ملازمین کو انھیں انجام دینے کی ترغیب دینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس پر جبر جائز نہیں ہے اور نہ ہی یہ اعمال نہ انجام دینے کی بنا پر ملازمین کی تنخواہ وضع کرلینا جائز ہوگا؛ ہاں کمپنی ملازمین کو اس بات کا پابند بناسکتی ہے کہ وقت (یعنی کام کا وقت جو طے شدہ ہو) پرآفس میں موجود رہیں ، تاخیر کی صورت میں حسب ضابطہ تاخیر کے بقدر تنخواہ وضع کرسکتی ہے۔

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمد اسد اللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۱؍۷؍۱۴۳۹ھ

==============================

            سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ایام حیض میں اگر کوئی کچھ بھی نہ کھائے اور پیے اور روزہ دار کی طرح رہے تو یہ صحیح ہے؟ یا پھر کچھ کھا پی لے اور روزہ داروں کی طرح مشابہت رکھے یہ صحیح ہے؟ برائے کرم وضاحت کے ساتھ جواب دیں ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

            حامدًا موصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: اگر حیض کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا یا روزہ کے دوران حیض آگیا تو اس کے لیے کھانا پینا جائز ہے ؛ بلکہ بہتر ہے کہ کچھ کھا پی لے، بس لوگوں کے سامنے نہ کھائیں ؛ البتہ اگر عورت دن کے کسی حصے میں پاک ہوئی ہو تو بقیہ حصے میں کھانا پینا اس کے لیے درست نہیں ہے۔

          وہل یکرہ لہا التشبہ بالصوم أم لا؟ مال بعض المحققین إلی الأول؛ لأن الصوم لہا حرام فالتشبہ بہ مثلہ. واعترض بأنہ یستحب لہا الوضوء والقعود فی مصلاہا وہو تشبہ بالصلاۃ. اہـ تأمل [الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (ردالمحتار) ۱/۴۸۵، ط: زکریا،دیوبند]

          یجب علی الصحیح وقیل یستحب ’’الإمساک بقیۃ الیوم علی من فسد صومہ‘‘ ولو بعذر ثم زال ’’وعلی حائض ونفساء طہرتا بعد طلوع الفجر۔۔۔۔‘‘ ’’وعلی حائض ونفساء طہرتا‘‘ وأما فی حالۃ تحقق الحیض والنفاس فیحرم الإمساک لأن الصوم منہما حرام والتشبہ بالحرام حرام [حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 678،ط: اشرفی، دیوبند] نیز دیکھیں : امداد الاحکام ۱/۱۳۹، ط: کراچی، احسن الفتاوی ۴/۴۳۸،ط: زکریا)

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمد اسد اللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۶؍۱۰؍۱۴۴۰ھ

==============================

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:103‏،  محرم الحرام 1441ھ مطابق ستمبر 2019ء

*    *    *

Related Posts