حضرت مولانا محمد طلحہ صاحبؒ — حیات وخدمات (سانحہ ارتحال کے موقع سے تحریر)

                                                                                                                                                                                  از:مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

رفیق تصنیف دار الدعوۃوالارشاد، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد

استا ذ دار العلوم دیودرگ

            آج ملک جن احوال سے گذر رہا ہے ، ایسے میں بڑے بڑے اکابر اسلاف علماء کا دنیا سے گذر جانا دل کو نہایت پریشان اور غم آگیں کرنے والا لمحہ ہے ، آفات وبلیات سے گذرتی امت کے لیے اکابر علماء کا سایہ ، ان کی امت کے تئیں کڑھن ، درد وکسک اور ان کی آہِ سحرگاہی امت مسلمہ کے لیے درد کا درماں تھا، لیکن جب خاصان خاص ، اللہ والے اور اللہ کے محبوب ومقرب مستجاب الدعوات شخصیات اس دنیا سے گذر جاتے ہیں ، تو امت کو اپنی کم دامنی اور کوتاہ قد اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

            ابھی یہ اندوہ ناک خبر پڑھنے کو ملی کہ  علم وعمل کے پیکر محدث عظیم، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب سہارنپوری اس دنیا سے کوچ کر کے راہی دار بقا ہوگئے ، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

حیات وخدمات

            آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے اکلوتے فرزند او رصاحبزادے ہیں ، ۲؍جمادی الاولی ۱۳۶۰ھ=۲۸؍مئی ۱۹۴۱ء کو پیدا ہوئے ، مدرسہ کاشف العلوم بستی حضرت نظام الدین دہلی او رمظاہر العلوم میں تعلیم حاصل کی اور فراغت مدرسہ کاشف العلوم سے ۱۳۸۳ھ ؍۱۹۶۳ء میں ہوئی جہاں حضرت مولانا محمد یوسفؒ صاحب امیر تبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒوغیرہ حدیث کی اعلیٰ کتابیں پڑھاتے تھے ۔

            حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے بیعت ہوئے اوراجازت وخلافت حضرت شیخ الحدیث ؒ نے عطا فرمائی۔

            ۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۲ء میں مظاہر علوم سہارن پور کے رکن شوری وسرپرست منتخب ہوئے، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ء میں جامعہ مظاہر العلوم کے ’’امین عام‘‘ کا عہدہ شروع ہونے کے بعد آپ پہلے امین عام (جنر ل سکریٹری ) مقرر ہوئے اور اس منصب پر ۱۴۱۳ھ؍۱۹۹۳ ء تک فائز رہے ۔

            ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے ، اس کے علاوہ آپ بہت سے اہم مدارس ومعاہد کے سرپرست اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے شیخ ومرشد رہے ۔

حضرت کی خصوصیات

            آب بیتی میں چند خصوصیات  اور بزرگوں کی عنایات کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں موجود تھا، در اصل یہ اقتباس ہی حضرت کی للہیت،  توجہ الی اللہ، بزرگان دین کی ان پر خصوصی شفقت وعنایت ، ا ن کی انتظامی صلاحیت ، توازن واعتدال اور خدمت کے جذبہ اور اصابت رائے کا پتہ دیتا ہے جو انھیں پدری وراثت میں ملی تھی ، میری اس حقیر سراپا تقصیر کی حضرت سے ملاقات ایک دفعہ دارالعلوم کے طالب علمی کے زمانے میں مسلسلات کے سبق میں مظاہرعلوم میں شرکت کے وقت ہوئی تھی اور اس کے بعد حضرت کی دعا میں شرکت بھی میسر آئی تھی، اتفاق سے اسی رات سہارنپور کا مشہور مشاعرہ تھا، جس میں طلبہ نے شرکت کی تھی، یہ خطاکار بھی بعض حیدرآبادی طلبہ کے ساتھ مشاعرہ میں گیاتھا، فجر کے بعد حضرت کا نہایت دل دہلا دینے والا خطاب ہوا اور جمعرات کی مبارک رات کے ایسے بے حیا مشاعروں میں گذارنے پر بڑی ڈانٹ پلائی تھی، بڑاافسوس ہوا تھا، واقعۃ اس مشاعرے میں شرکت جیسا کہ حضرت شیخ زکریا صاحب ؒ نے ’’فضائل اعمال‘‘ میں بتایا ہے کہ کب رات گیارہ بجے مشاعرے میں گئے اور کھڑے کھڑے مشاعرہ سنا اور صبح آئے پتہ بھی نہیں چلا، یعنی عبادت گذار ، اللہ کے محبوب بندوں کی شب گذاری پر حضرت نے یہ مثال فضائل اعمال میں پیش کی تھی کہ وہ اللہ کی محبت میں ایسے شب گذاری کرتے ہیں ، جیسے ان معصیتوں میں شرکت کرنے والوں کو راتوں کا پتہ ہی نہیں چلتا ، کب گذری، بعد فجر حضرت کا نہایت پرمغز اور خوف وخشیت اور ضیاع وقت اور خصوصاً ایسے مشاعروں میں جمعرات کی مبارک رات گذارنے پر پر مغز خطاب نے دل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔

            آپ بیتی کے آخری حصہ کایہ اقتباس ملاحظہ ہو ، جس میں حضرت مولانا طلحہ صاحب رحمہ اللہ کی خصوصیات اور خوبیوں کا جامع تذکرہ موجود ہے ۔

            ’’ مولوی محمد طلحہ صاحب : صاحبزادہ عزیز گرامی قدر مولوی محمد طلحہ کی زندگی  ہی میں حافظ وعالم وذاکر وشاغل اور صاحب اجازت ہوگئے او ر ان پر شروع سے حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی خاص نگاہِ شفقت تھی اور بعض اوقات حضرت نے ان کی خاطر اپنے سفر کا پروگرام ملتوی فرمادیا اور فرمایا:’’ طلحہ نے مجھے روک دیا ‘‘ ویسے بھی تمام معاصر بزرگوں اور شیخ کے یہاں آنے جانے والے صلحاء علماء کی ان پر نظر خاص رہی، اللہ تعالیٰ نے ان کو انتظامی صلاحیت، توازن واعتدال ، تواضع اور خدمت کا جذبہ او راصابت رائے کا جوہر عطا فرمایا، جو ان کی پدری میراث بھی تھی، حضرت شیخ کے سہارنپور میں رمضان گزرانے کے آخر میں وہی بڑے محرک تھے ، شیخ نے ان کی خصوصی تربیت فرمائی اور امکانی حد تک ان کے اندر صاحبزادگی اور مخدومیت کی بو نہیں پیدا ہونے دی؛ اس لیے ان کے دوروں اور شیخ کے اہلِ تعلق میں جانے کو ہمیشہ ناپسند کرتے رہے اور خود بھی اس سے محترز رہے ۔

            شیخؒ کے آخری زمانہ قیام مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے مع والدہ صاحبہ کے ان کو حضرت شیخ کے پاس پہنچادیا اورا ن کو خدمت کا پورا موقع ملا، شیخ کی وفات پر انہوں نے اسی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور دوسرے کے لیے باعث تقویت وتسلی بنے ، جیسے خود شیخ اپنی زندگی میں تعزیت کرنے والوں کے لیے بن جاتے تھے ۔‘‘(آپ بیتی: ۲/۵۴۳، مکتبہ عمر فاروق کراچی )

            حضرت قدس سرہ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادے اور صاحب علم وفضل اور کئی ایک مدارس کے سرپرست ، خصوصاً سہارنپور اور دار العلوم دیوبند کے رکن شوری تھے اور آخری دور میں امت کے لیے نعمت عظمی تھے ، حضرت کا وصال امت کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ، اللہ عزوجل حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور محبین معتقدین ، متوسلین اور اقرباء ورشتہ داروں کو صبر جمیل نصیب فرمائے !

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:103‏،  محرم الحرام 1441ھ مطابق ستمبر 2019ء

*    *    *

Related Posts