سوال:  ہمارے شہر کی ایک مسجد میں شہر کی شوریٰ کے ساتھی نے جمعہ کے بیان میں کہا کہ گھر اور مسجد کی تعلیم اللہ کے لیے شہید ہونے سے بڑا عمل ہے ۔اور دلیل میں انہوں نے اس حدیث کو پیش کیا جس میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن علماء کی قلم کی سیاہی شہیدوں کے خون سے زیادہ وزنی ہوگی۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا گھر اور مسجد کی تعلیم کی جو اہمیت ان صاحب نے بتائی ہے وہ درست ہے یا غلو فی الدین ہے ؟اوردلیل کے طور پر جو حدیث پیش کی ہے اس کی یہ تشریح صحیح ہے ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا مصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: گھر میں اسی طرح مسجد میں کوئی معتبر دینی کتاب پڑھنے کا معمول بہت اچھا اور مفید ہے؛ لیکن اسے اللہ کے لیے شہید ہونے سے بڑا عمل قرار دینا غلو اور حد سے تجاوز کرنا ہے، اس پر جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ بے جوڑ ہے، وہ مدّعیٰ پرکسی بھی طرح منطبق نہیں ہے ، بہرحال اس طرح کی بے اصل باتوں کے بیان سے احتراز ضروری ہے ؛ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بیان کا اختیار تو صرف ایسے عالم دین ہی کو دیا جائے جو قرآن کریم ،احادیث نبویہ اور شراحِ حدیث کی تشریحات کی روشنی میں بیان کی استطاعت رکھتے ہوں یا پھر بیان کرنے والے کے لیے دائرہ متعین ہو کہ انھیں فلاں فلاں کتاب (مثلا فضائل اعمال ، حیاۃ الصحابہ وغیرہ)کی روشنی میں اور ان ہی کے حوالے سے بات کرنی ہے ، نیز انھیں پابند کیا جائے کہ وہ بیان سے پہلے ان کتابوں کا اچھی طرح مطالعہ کرکے جائیں ، یا وہ کتاب پڑھ کر سنائیں اپنی طرف سے استدلالی باتوں کو شامل نہ کریں ۔     

  فقط  واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی،محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۵؍۸؍۱۴۴۰ھ=۲۱؍۴؍۲۰۱۹ء

==============================

            سوال:   میرا ایک دوست ہے جو غیرمسلم ہے، اس نے مجھ سے۷۸۶ کے عدد کو لے کر سوال کیا ہے جس کا جواب مجھے معلوم نہیں ۔ اس کاسوال یہ ہے کہ۷۸۶ کا مطلب کیا ہے اور اس کا ذکر قرآن میں ہے نہیں تو پھر اس کو عوام نے کیوں گھروں ، دوکانوں میں اور تمام پروگرام کے کارڈوں میں لکھا جاتا ہے؟ آپ سے گزارش ہے کہ صحیح اور تحقیق کے ساتھ اس کا جواب دیں اور سمجھائیں کہ اس کی شروعات کب اور کہاں سے ہوئی؟

            نوٹ: جلد اس کا جواب دیجیے، بہت ضروری ہے۔

ابصارالحق

مراد نگر، غازی آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا مصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: حساب کی ایک قسم ہے جسے ’’حساب جمل‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں ہندسے (اعداد) کے ذریعے حروف تہجی کی طرف اشارہ کیاجاتا ہے اور ہر حرف کا ایک خاص عدد متعین ہے، ۷۸۶ کا عدد درحقیقت ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ میں جو حروف ہیں ان کا مجموعۂ  ہے، خط وغیرہ میں ۷۸۶ لکھ کر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

            واضح رہے کہ اصل حکم بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا ہے؛ اس لیے اگر کاغذ ایسا ہو کہ اس کے پامال ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو بسم اللہ الخ حروف کے ساتھ ہی لکھنا چاہیے؛ ہاں جن کاغذات کے نالی وغیرہ میں گرکر پامال ہونے کا اندیشہ ہو وہاں بسم اللہ حروف کے ساتھ نہیں لکھنا چاہیے؛ البتہ اگر اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ’’۷۸۶‘‘ لکھ دیا جائے تو گنجائش ہے اور خطوط وغیرہ میں بسم اللہ حروف کے ساتھ لکھنے کے بہ جائے ۷۸۶ لکھنے کا پس منظر بھی غالباً یہی ہے یعنی بے ادبی سے بچانا ہے۔

  فقط  واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی،محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۳؍۷؍ ۱۴۴۰ھ

==============================

            سوال:  جمعہ کی نماز کے بعد چندہ جمع کرنا کیسا ہے؟ چندہ جمع کرنے کی وجہ سے سنت نماز میں دس سے پندرہ منٹ کی دیری ہوجاتی ہے تو چندہ جمع کرنے کا کیا حکم ہے شریعت میں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا مصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: نمازجمعہ کے بعد سنتوں سے پہلے چندہ کرنا قابل ترک ہے، فقہاء نے صراحت کی ہے کہ فرض سے فراغت کے بعد مختصر دعا کرکے سنن میں مشغول ہونا چاہیے، زیادہ تاخیر شرعا نا پسندیدہ اور مکروہ ہے؛ اس لیے چندے کا مذکورہ طریقہ ترک کردیا جائے، چندہ یا تو امام کے منبرپر جانے سے پہلے کرلیا جائے یا پھر سنن ونوافل سے فراغت کے بعد۔

          ویکرہ تأخیر السنۃ إلا بقدر اللہم أنت السلام إلخ قال الحلوانی: لا بأس بالفصل بالأوراد واختارہ الکمال. قال الحلبی: إن أرید بالکراہۃ التنزیہیۃ ارتفع الخلاف قلت: وفی حفظی حملہ علی القلیلۃ؛…(قولہ إلا بقدر اللہم إلخ) لما رواہ مسلم والترمذی عن عائشۃ قالت ’’کان رسول اللّٰہ – صلی اللّٰہ علیہ وسلم – لا یقعد إلا بمقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام‘‘ وأما ما ورد من الأحادیث فی الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔ وقول عائشۃ بمقدار لا یفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ؛ بل کان یقعد بقدر ما یسعہ ونحوہ من القول تقریباإلخ [الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) 2/447،ط: زکریا]

  فقط  واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۹؍۸؍ ۱۴۴۰ھ=۱۵؍۴؍۲۰۱۹ء

==============================

——————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:103‏،  ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts