حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            گذشتہ دوتین سال میں تسلسل کے ساتھ علم وفن کی دنیا سے متعدد اہل علم رخصت ہوئے ہیں ، خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کے علمی افق سے کئی روشن ستارے غروب ہوگئے ہیں۔ ۲۳؍رجب  ۱۴۴۰ھ مطابق ۳۱؍مارچ ۲۰۱۹ء بروز اتوار اس فہرست میں ایک نام کا اضافہ ہوگیا کہ دارالعلوم دیوبند کے مقبول  استاذ اور کتب درسیہ کے مشہور ومقبول شارح حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ بھی رحلت فرماگئے۔  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔  اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے، آمین!

            حضرت مولانا رحمہ اللہ گذشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے، اس لیے ان کا حادثۂ وفات، اسباب کی دنیا میں غیرمتوقع نہیں تھا؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اہل کمال، کسی بھی طرح یا کسی بھی عمر میں جائیں ان کی جدائی کا غم شدید ہوتا ہے۔

            حضرت مولانا جمیل احمد رحمہ اللہ کو قدرت نے متعدد خصوصیات سے نوازا تھا، وہ ۱۹۴۷ء میں ضلع سہارنپور کے ایک گائوں سکروڈہ کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے؛ لیکن اپنی مسلسل محنت اور علمی کمال سے وہ مقام حاصل کیا کہ جب اُن کی وفات ہوئی تو ان کی شہرت ملکوں کی حدود پارکرگئی تھی اور دنیا کے مختلف ممالک خاص طور سے برصغیر کے تینوں ملکوں میں ان کی وفات کا غم محسوس کرنے والے لاکھوں لوگ تھے۔

            حضرت مولانا مرحوم دور طالب علمی ہی میں اپنی محنت اور اچھی صلاحیت کی بناء پر ممتاز ومتعارف تھے اور اُن پر اساتذہ کی نظر تھی، یہی وجہ تھی کہ ان کو فراغت کے سات آٹھ سال بعد ہی مادرعلمی میں تدریس کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ اُن کی فراغت ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں ہوئی، اس کے بعد قریب کے چند مدارس میں تدریسی خدمت انجام دے کر ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹۷۷ء میں وہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس ہوگئے۔ یہاں آکر بہت جلد انھوں نے طلبہ میں مقبولیت حاصل کرلی۔ ۱۴۰۲ھ میں وقف دارالعلوم کے قیام کے موقع پر وہ اس کے قافلۂ تدریس میں شامل ہوگئے اور وہاں متعدد اہم اور کلیدی کتب ان کے زیرتدریس رہیں۔ خاص طور پر ترمذی شریف کے وہ مشہور استاذ رہے، بسا اوقات بخاری شریف کا سبق اُن سے متعلق ہوتا رہا۔

            ۱۴۲۰ھ میں وہ دوبارہ دارالعلوم دیوبند واپس آگئے اور یہاں اُن سے اہم اسباق متعلق ہوئے۔ یہاں کچھ ہی عرصہ میں ان کے سبق کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی۔

            حضرت مولانا کا اصل میدان تدریس تھا جس میں ان کی صلاحیت کے جوہر سامنے آتے تھے؛ لیکن انھوں نے ضرورت کے تحت درسی کتابوں کی اردو شروح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو بہت جلد ان کی لکھی ہوئی شروحات بھی ان کے سبق کی طرح مقبول ہوگئیں اور یہ دراصل اُن کی تدریسی صلاحیتوں کا تحریری ظہور تھا۔ ان کو اللہ رب العزت نے یہ کمال عطاء کیاتھا کہ وہ بالکل آسان درسی انداز میں شرح کے اندر بھی مضمون واضح فرمادیتے تھے۔ اسی لیے اُن کی شروحات نے برصغیر کے تینوں ممالک میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔

            حضرت مولانا کی سب سے نمایاں خصوصیت وقت کی پابندی تھی اور بلاشبہ یہ ایک استاذ کے لیے کامیابی کی کلید ہے۔ مولانا بالکل ٹھیک وقت پر درسگاہ میں داخل ہوجاتے تھے؛ بلکہ عام طور پر دیکھا جاتا تھا کہ گھنٹہ شروع ہونے سے پہلے ہی درسگاہ کے باہر ٹہلنا شروع کردیتے تھے، جیسے ہی گھنٹہ بجتا اور سابقہ استاذ اٹھتے، مولانا فوراً درسگاہ میں داخل ہوجاتے، وقت کے اول حصہ میں جو برکت ہوتی ہے اس کا ظہور اس طرح ہوتا تھا کہ وہ گھنٹہ کے آخر تک پڑھائے بغیر آسانی سے نصاب پورا کرلیتے تھے۔ حضرت مولانا کا طرزتدریس نہایت آسان تھا، آواز صاف اور انداز دلنشیں تھا، طلبہ ان کے سبق سے مانوس رہتے تھے۔

            اس کے علاوہ ذہانت، ظرافت، صاف گوئی، معاملات کی صفائی، اوقات کی قدردانی، نزاعی معاملات میں احتیاط ان کی نمایاں صفات تھیں۔

            انھوں نے تزکیہ وسلوک کی راہ سے بھی غفلت نہیں برتی، اور تلمیذ شیخ الاسلام، خلیفۂ محی السنۃ، حضرت مولانامفتی عبدالرحمن صاحب بنگلہ دیشی رحمۃ اللہ علیہ سے مجاز ہوئے۔

            حضرت مولانا کی شخصیت کی پختگی اور صبر وضبط کا کمال اس وقت زیادہ ظاہر ہوا جب وہ کچھ عرصہ پہلے کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہوئے، جیسے ہی اس کی تشخیص ہوئی انھوں نے باقاعدگی سے اُس کا علاج شروع کردیا اور ہر قدم پرراضی برضاء ہونے کا ثبوت دیا، کینسر کے علاج سے جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بھی سامنے آئے؛ لیکن مولانا نے پوری ہمت کے ساتھ اپنے کام جاری رکھے، پابندی سے اسباق پڑھاتے رہے، امتحان کی ڈیوٹی باقاعدہ دیتے رہے۔ آخری زمانے میں سبق کے درمیان خشکی کی وجہ سے بار بار پانی پینے کی ضرورت پیش آتی تھی؛ لیکن جب تک آنے کے لائق رہے، سبق پڑھاتے رہے، صرف آخر کے چند ہفتے اُن کے اسباق موقوف رہے جن کے دوران وہ اکثر وبیشتر ہسپتال میں داخل رہے۔ بیماری کے زمانے میں جب بھی اُن سے بات ہوتی تھی وہ پوری بشاشت سے جواب دیتے تھے اور واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ وہ دل سے راضی برضاء الٰہی ہیں ، بلاشبہ یہ کیفیت ان کے لیے حسن انجام کی بشارت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اسی کیفیت میں صبر وشکر کے ساتھ تکالیف برداشت کرتے ہوئے وہ اپنے خالق ومالک سے جاملے۔

            اللہ رب العزت حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

===========================

نئے تعلیمی سال کا آغاز

            رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں سایہ فگن ہوچکی ہیں اور اللہ کے بندے اپنے اپنے ظرف اور ہمت کے بقدر اُن سے بہرہ ور ہونے کے لیے سرگرم عبادت ہیں اور مدارس کی تعلیمی سرگرمیاں موقوف ہیں ؛ لیکن رمضان کے رخصت ہوتے ہی مدارس کا نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے، اب مدارس اسلامیہ نئے سرے سے اپنا تعلیمی سفر شروع کریں گے۔ اس مناسبت سے دو تین ضروری باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

            (۱) اس وقت سب سے پہلے نئے داخلوں کا عمل شروع ہوگا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سارے سال کے تعلیمی معیار کا دارومدار داخلوں کے نظام کی عمدگی پر ہی ہوتا ہے؛ اس لیے ذمہ داران مدارس کو چاہیے کہ اپنے مدارس میں داخلہ کے نظام پر خاص توجہ دیں۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس طالب علم کو آپ جس درجہ میں داخلہ دے رہے ہیں وہ صحیح جانچ کے بعد اپنے آپ کو اس درجہ کا اہل ثابت کرچکا ہو۔ اگر خدانخواستہ اس کا لحاظ نہ رکھاگیا تو ایسا طالب علم سارے سال استاذ کے لیے مسئلہ بنے گا اور مدرسہ کے لیے باعث بدنامی ہوگا۔ خاص طور پر دورہٴ حدیث میں داخلہ کے لیے تو امتحان اور زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے، صرف دورے کے امیدوار کی آمد کو غنیمت سمجھ کر تعداد نہ بڑھائی جائے، اس لیے کہ اس کے پاس تلافی کا کوئی اور موقع باقی نہیں رہے گا اور داخلہ مل جانے کی صورت میں وہ اسی طرح پاس ہوکر اپنے کو عالم کہلانے کا مستحق سمجھے گا، پھر آگے چل کر ایسے فضلاء کی کثرت سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اُن سے کوئی اور واقف ہویا نہ ہو، ذمہ داران مدارس ضرور واقف ہیں۔

            (۲) اسی موقع پر عام طورسے نئے اساتذہ کا تقرر بھی ہوتا ہے، اس بارے میں بھی یہی عرض کرنا ہے کہ جن درجات کی تعلیم و تدریس کے لیے تقرر کیاگیا جارہا ہے ان کے لیے متعلقہ شخص کی واقعی اہلیت وصلاحیت کو پرکھ کر ہی تقرر دیا جائے، ورنہ نااہل یا کم صلاحیت کے حامل شخص کے حوالے طلبہ کو کردینا، طلبہ پر بھی ظلم ہے اور خود اس مدرس کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہے۔

            (۳) اچھے افراد کی تیاری میں تعلیم کی عمدگی سے بڑھ کر تربیت کا دخل ہوتا ہے، اس لیے ذمہ داران مدارس کو چاہیے کہ ایک تو نئے آنے والے طلبہ کے سابقہ ریکارڈ کی معلومات حاصل کرلیں اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اپنے نظام تربیت کو بہترین انداز میں استوار کریں ، طلبہ کی نگرانی کا نظام چست رکھیں ، دارالاقامہ کے نظام کو بہترین اصول کے مطابق فعال کریں۔ اس مقصد کے لیے رابطۂ مدارس عربیہ دارالعلوم دیوبند کے نظام تعلیم وتربیت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اپنے قریب میں جن مدارس کا نظام تعلیم وتربیت عمدہ ہو اُن کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھائیں ، مجموعی اعتبار سے طلبہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کو باحسن وجوہ سمجھ کر بخوبی انجام دینے کی کوشش کی جائے تاکہ افراد سازی کا عمل جو سست پڑا ہوا ہے، تیز رفتار ہوجائے اور ملت اسلامیہ کو مدارس سے اچھے افراد زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملنا شروع ہوجائیں۔

            سردست یہ دوتین امور جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ، پیش کردیے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض دیانت وامانت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts