از: مولانا مبین الرحمن

فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

            بچے ملک وملت کا مستقبل ہوتے ہیں ، انہی پر معاشرے اور ملک کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے،  ان کی بہتر تعلیم وتربیت سے ایک بہترین اور مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ جب کہ ان کی تعلیم وتربیت سے غفلت کے نتیجے میں معاشرہ جہالت اور طرح طرح کی اخلاقی برائیوں کا شکار ہوکر تباہی کے دہانے پہ جا کھڑا ہوتا ہے، پھر ظاہر ہے کہ معاشرے کی اس زبوں حالی کے واحد ذمہ دار ہم خودہیں ۔

ہماری ذمہ داری

            اس نازک صورت حال میں تمام والدین،تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، اساتذئہ کرام اور معاشرے کے سنجیدہ افراد سے انتہائی دردمندانہ گزارش ہے کہ گھر سے لے کر بازار تک اور مسجد سے لے کر تعلیمی اداروں تک؛ ہر جگہ ان بچوں کے لیے بہترین تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاق پر مشتمل ایک مثالی ماحول فراہم کرنے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کی جائے اور ان کی بہترین اخلاقی تربیت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر غور کیا جائے۔

بچوں کو مسجد لانے کی ضرورت اور اس کا شرعی حکم

            بچوں کے لیے جس طرح گھر، اسکول اور مدرسہ تربیت گاہ ہیں اسی طرح مسجد بھی ایک بہترین تربیت گاہ ہے، جہاں بچوں کو تعلیم وتربیت کے بہترین مواقع میسر آسکتے ہیں ؛ البتہ یہ بات واضح رہے کہ مسجد جہاں بچوں کی ایک تربیت گاہ ہے تو دوسری طرف مسجد ایک مقدس جگہ بھی ہے جس کی وجہ سے اس کے کچھ آداب بھی ہیں ؛ اس لیے بچوں کو مسجد لانے کے معاملے میں دونوں پہلووں کو مدّنظر رکھنا چاہیے تاکہ معاملہ حدود واعتدال میں رہے، اگر ان دونوں باتوں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو اس سے کافی بے اعتدالی پیدا ہوتی ہے جس سے شریعت کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، بچوں کی تربیت کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور مسجد کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے اور اسی بے اعتدالی اور شریعت سے بے خبری کا نتیجہ ہے کہ بعض حضرات تو سِرے سے بچوں کے مسجد آنے کے حق میں ہی نہیں ، چاہے وہ بچے کسی بھی عمر کے ہوں ؛ جب کہ بعض دیگر حضرات تو ایسے بے شعور بچوں کو بھی مسجد لے آتے ہیں جن کی خود شریعت ہی اجازت نہیں دیتی، یہ دونوں طرزِ عمل واضح غلطی پر مبنی ہیں ؛ اس لیے بچوں کو مسجد لانے سے متعلق شریعت کا حکم اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

عمر اور شعور کے اعتبار سے بچے دو طرح کے ہوتے ہیں

            ٭         جو بچے اس قدر چھوٹے اور نا سمجھ ہوں کہ مسجد کے تقدس کو ذرا بھی نہیں سمجھتے یا پاکی ناپاکی کا شعور نہیں رکھتے حتی کہ ان کی وجہ سے مسجد کے ناپاک ہونے کا غالب گمان ہو تو ایسے بچوں کو مسجد لانا ہی جائز نہیں ؛ البتہ اگر مسجد کے ناپاک ہونے کا غالب اندیشہ نہ ہو اور ان کی وجہ سے مسجد کا تقدس بھی پامال نہ ہو اور نہ ہی کسی کی عبادت میں خلل آئے تو ایسی صورت میں انھیں مسجد لانا درست ہے اگرچہ بہتر یہی ہے کہ بلا ضرورت انھیں مسجد نہ لایا جائے۔ (صحیح البخاری،حدیث:۷۰۷مع عمدۃ القاری ، ردالمحتار، فتاویٰ محمودیہ، فتاویٰ دارالعلوم زکریا)

            ٭        جوبچے پاکی ناپاکی کا شعور رکھتے ہوں اور مسجد میں شور شرابہ بھی نہ کرتے ہوں جو کہ تقریباً سات سال کی عمر میں اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں تو ایسے بچوں کو مسجد لانا جائز ہے؛ بلکہ ان کو مسجد لانا بھی چاہیے؛ تاکہ انھیں نماز کی عادت پڑے۔ (رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ،فتاویٰ دارالعلوم زکریا)

سرپرست حضرات کی ذمہ داری

            بچوں کو مسجد لانے کے بعد ہر سرپرست کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کی نگرانی بھی کرے؛ تاکہ بچے مزید سلیقہ مندی کا مظاہرہ کریں ۔بعض ایسے باشعور بچے ناواقفیت کی بنا پر ابتدا میں شور وشرابہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں اگر ان کو سمجھا دیا جائے تو وہ سمجھ جاتے ہیں ؛ اس لیے ساتھ ساتھ ان کو آدابِ مسجد سے بھی آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔

بچوں کی صف سے متعلق احکام

            جہاں تک ایسے باشعور بچوں کی صف بنانے اور ان کو صف میں کھڑا کرنے کا مسئلہ ہے تو اس حوالے سے درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھا جائے:

o          اگر بچے اِکّا دُکّا ہی ہوں تو ان کو بڑوں ہی کی صف میں کھڑا کردیا جائے، اس سے بڑوں کی نماز پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اس حالت میں ان کے پیچھے کھڑے ہونے والے حضرات کی نماز بھی بالکل درست ہے اور اس صورت میں ان کو پہلی صف میں کھڑا کرنا بھی درست ہے؛ البتہ مناسب یہ ہے کہ امام کے قریب کھڑا نہ کیا جائے؛ کیوں کہ امام کے قریب اہلِ علم وفہم افراد کو کھڑا ہونا چاہیے۔ (رد المحتار،البحر الرائق،فتاویٰ محمودیہ)

o          اگر بچے متعدد ہوں تو ایسی صورت میں شریعت کا تقاضا؛ بلکہ سنت بھی یہی ہے کہ ان کو بڑوں کی صفوں میں کھڑا نہ کیا جائے؛ بلکہ ان کے لیے علیحدہ صف بنائی جائے، اور یہ صف بڑوں کی صفوں کے بعد بنائی جائے گی، جس کا طریقہ یہ ہے کہ جماعت شروع ہونے تک بڑوں کی صفیں جہاں تک مکمل ہوجائیں ان کے متصل بعد ہی ان بچوں کی صف بنائی جائے، اس صورت میں اگر بڑوں کی صف میں جگہ موجود بھی ہو تب بھی بچوں کی صف علیحدہ ہی بنائی جائے، پھر بعد میں آنے والے مرد حضرات پہلے اگلی صف مکمل کریں ، اگر اگلی صف مکمل کرنے کے لیے ان کو مجبوری میں بچوں کے آگے سے بھی گزرنا پڑے تو یہ بھی جائز ہے۔ پھر اس کے بعد بچوں کی صف میں اگر جگہ خالی ہو تو اس کو پُر کریں ، پھر بچوں کی صف کے بعد صف بنائیں ۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی بخوبی ذہن نشین کرلی جائے کہ بچوں کی صف کا پیچھے ہونا یہ اس وقت ہے جب جماعت شروع نہ ہوئی ہو؛ لیکن جب بچے مردوں کی صفوں کے بعد صف بنا لیں اور نماز شروع ہوجائے تو ایسی صورت میں بعد میں آنے والے مرد حضرات بچوں کو پیچھے نہ کریں کیوں کہ وہ اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں ، اس صورت میں بڑے حضرات جب بچوں ہی کی صف میں کھڑے ہوجائیں یا وہاں جگہ نہ ہونے کی صورت میں بچوں کی صف کے بعد اپنی صف بنائیں تو اس سے ان کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ البتہ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اگر بچے سلیقہ مند نہ ہوں اور ان کی علیحدہ صف بنانے سے ان کے شور وشغف یا لوگوں کی نماز خراب ہونے کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے؛ بلکہ ان کو متفرق طور پر بڑوں ہی کی صفوں میں کھڑا کردیا جائے۔(رد المحتار مع تقریراتِ رافعی، فتاویٰ محمودیہ،فتاوی ٰدارالعلوم زکریا،فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)

o          صفوں کی یہ ترتیب اسی صورت میں بہتر انداز میں بن سکتی ہے جب جماعت شروع ہونے سے پہلے تمام صفوں کو سیدھا رکھنے کا اہتمام کیا جائے، اور بچوں کی صف کو مردوں کی صفوں کے بعد بنایا جائے؛ اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ وہ مسجد میں آنے والے بچوں کی صف بنانے اور ان کومناسب مقام پر کھڑا کرنے کا خصوصی اہتمام فرمائیں ۔

اہم گزارش

            مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جو بچے  پاکی ناپاکی اور مسجد کا شعور رکھتے ہوں ان کو مسجد لانے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے، ان کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے، ان کے لیے مسجد میں تربیت کے دلچسپ سلسلے بھی ہونے چاہیے، ان کو مسجد کے آداب اورصف بنانے کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کرتے رہنا چاہیے، ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی ہونی چاہیے، اس سے رفتہ رفتہ ان میں شعور اور بہتری آتی جائے گی اور ان کی اچھی تربیت ہوسکے گی۔

            آج کل افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ متعدد حضرات بچوں کے مسجد آنے اور ان کے صف میں کھڑے ہونے سے متعلق نہایت ہی منفی ذہن رکھتے ہیں ؛ بلکہ بعض تو ذرا سی باتوں پر بچوں کو ڈانٹتے؛ بلکہ بے دردی سے مارتے بھی ہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بچوں سے زیادہ ان حضرات کی وجہ سے مسجد کا تقدس پامال ہورہاہوتا ہے اور لوگوں کی عبادات میں خلل بھی آتا ہے، حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو اگر کسی بچے نے مسجد میں شور یا شرارت کر بھی لی تو ظاہر ہے کہ اس کو تو  گناہ نہیں ملے گا؛ کیوں کہ وہ مکلف نہیں ؛ بلکہ ان کو تو تربیت کی ضرورت ہے؛ لیکن جو حضرات ان کو اس طرح ڈانٹتے ہیں کہ ان کی آواز اور انداز کی وجہ سے مسجد کا تقدس پامال ہورہا ہوتا ہے یا لوگوں کی عبادات میں خلل آرہا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ گناہ کی باتیں ہیں ، جس کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، بچوں کو شرارت وغیرہ سے منع کرنے کے لیے حکمت اور بصیرت کی ضرورت ہوا کرتی ہے، اسی حکمت وبصیرت کی کمی کا اثر ہے کہ بچے ہمارے منع کرنے کے باوجود بھی باز نہیں آتے؛ اس لیے بچوں کو ان عادات سے باز رکھنے اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے مستقل نظام ہونا چاہیے، جس کی وجہ سے بچے آہستہ آہستہ با شعور ہوتے جائیں گے، بہرحال ہمیں یہ تمام نامناسب رویے اور نظریے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

            (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں :فقہی رسائل از استاد محترم حضرت اقدس مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب دام ظلہم)۔

تفصیلی عبارات:

          o وفی صحیح البخاری:

          حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِیُّ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَبِی قَتَادَۃَ عَن النَّبِیِّ صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: إِنِّی لَأَقُومُ فِی الصَّلَاۃِ أُرِیدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِیہَا فَأَسْمَعُ بُکَاء الصَّبِیِّ فَأَتَجَوَّزُ فِی صَلَاتِی؛ کَرَاہِیَۃَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمِّہِ. (بَاب مَنْ أَخَفَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بُکَائِ الصَّبِیِّ، رقم الحدیث:۷۰۷)

          o وفی فیض الباری شرح صحیح البخاری للإمام الکشمیری:

          قولہ: (فأسْمَعُ بکاء الصبیِّ)، یمکن أن یکون الصبیان فی بیوتہنَّ ویَسْمَعْنَ بکاء ہم من المسجد، أو یکونوا فی المسجد مع أمہاتہم.  (بَاب مَنْ أَخَفَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بُکَائِ الصَّبِیِّ، رقم الحدیث:۷۰۷)

          o وفی عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام العینی:

          استدل بہ بعضہم علی جواز إدخال الصبی فی المسجد، وقال بعضہم: فیہ نظر؛ لاحتمال أن یکون الصبی کان مخلفا فی بیت یقرب من المسجد، قلت: لیس ہذا موضع النظر؛ لأن الظاہر أن الصبی لا یفارق أمہ غالبا۔ (بَاب مَنْ أَخَفَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بُکَائِ الصَّبِیِّ، رقم الحدیث:۷۰۷)

          o وفی فتح الباری شرح صحیح البخاری للإمام ابن حجر:

          قال ابن رشید: فہم منہ البخاری أن النساء والصبیان الذین ناموا کانوا حضورا فی المسجد، ولیس الحدیث صریحا فی ذلک؛ إذ یحتمل أنہم ناموا فی البیوت، لکن الصبیان جمع محلی باللام فیعم من کان منہم مع أمہ أو غیرہا فی البیوت ومن کان مع أمہ فی المسجد، وقد أورد المصنف فی الباب الذی یلیہ حدیث أبی قتادۃ رفعہ: أنی لأقوم إلی الصلاۃ الحدیث، وفیہ: فأسمع بکاء الصبی فأتجوز فی صلاتی؛ کراہیۃ أن أشق علی أمہ، وقد قدمنا فی شرحہ فی أبواب الجماعۃ أن الظاہر أن الصبی کان مع أمہ فی المسجد، وأن احتمال أنہا کانت ترکتہ نائما فی بیتہا وحضرت الصلاۃ فاستیقظ فی غیبتہا فبکی بعید، لکن الظاہر الذی فہمہ أن القضاء بالمرئی أولی من القضاء بالمقدر، انتہی۔ (بَاب مَنْ أَخَفَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بُکَائِ الصَّبِیِّ، رقم الحدیث:۷۰۷)

          o وفی الدر المختار:

          ویحرم إدخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم، وإلا فیکرہ۔ (کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا)

          o وفی رد المحتار:

          قولہ (ویحرم الخ)؛ لما أخرجہ المنذری مرفوعا: جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم وبیعکم وشرائکم ورفع أصواتکم وسل سیوفکم وإقامۃ حدودکم، وجمروہا فی الجمع، وجعلوا علی أبوابہا المطاہر۔ بحر، والمطاہر جمع مطہرۃ بکسر المیم والفتح لغۃ، وہو کل إناء یتطہر بہ کما فی المصباح۔ والمراد بالحرمۃ کراہۃ التحریم؛ لظنیۃ الدلیل۔ وعلیہ فقولہ: وإلا فیکرہ أی تنزیہا، تأمل۔

          o وفی البحر الرائق:

          قَوْلُہُ: (وَیَصُفُّ الرِّجَالَ ثُمَّ الصِّبْیَانَ ثُمَّ النِّسَاء ُ)؛ لِقَوْلِہِ علیہ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: لیلنی مِنْکُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ والنہی۔۔۔۔۔۔ وفی شَرْحِ مُنْیَۃِ الْمُصَلِّی: الْمَذْکُورُ فی عَامَّۃِ الْکُتُبِ أَرْبَعَۃُ أَقْسَامٍ، قِیلَ: وَلَیْسَ ہذا التَّرْتِیبُ لِہَذِہِ الْأَقْسَامِ بِحَاصِرٍ لِجُمْلَۃِ الْأَقْسَامِ الْمُمْکِنَۃِ فَإِنَّہَا تَنْتَہِی إلَی أثنی عَشَرَ قِسْمًا، وَالتَّرْتِیبُ الْحَاصِرُ لہا: أَنْ یُقَدَّمَ الْأَحْرَارُ الْبَالِغُونَ ثُمَّ الْأَحْرَارُ الصِّبْیَانُ ثُمَّ الْعَبِیدُ الْبَالِغُونَ ثُمَّ الْعَبِیدُ الصِّبْیَانُ ثُمَّ الْأَحْرَارُ الْخَنَاثَی الْکِبَارُ ثُمَّ الْأَحْرَارُ الْخَنَاثَی الصِّغَارُ ثُمَّ الْأَرِقَّائُ الْخَنَاثَی الْکِبَارُ ثُمَّ الْأَرِقَّائُ الْخَنَاثَی الصِّغَارُ ثُمَّ الْحَرَائِرُ الْکِبَارُ ثُمَّ الْحَرَائِرُ الصِّغَارُ ثُمَّ الإِمَائُ الْکِبَارُ ثُمَّ الْإِمَاء ُ الصِّغَارُ. اہـ

          وَظَاہِرُ کَلَامِہِمْ مُتُونًا وَشُرُوحًا تَقْدِیمُ الرِّجَالِ علی الصِّبْیَانِ مُطْلَقًا سَوَائٌ کَانُوا أَحْرَارًا أو عَبِیدًا فإن الصَّبِیَّ الْحُرَّ وَإِنْ کان لہ شَرَفُ الْحُرِّیَّۃِ لَکِنَّ الْمَطْلُوبَ ہُنَا قُرْبُ الْبَالِغِ الْعَاقِلِ بِالْحَدِیثِ السَّابِقِ، نعم یُقَدَّمُ الْبَالِغُ الْحُرُّ علی الْبَالِغِ الْعَبْدِ وَالصَّبِیُّ الْحُرُّ علی الصَّبِیِّ الْعَبْدِ وَالْحُرَّۃُ الْبَالِغَۃُ علی الْأَمَۃِ الْبَالِغَۃِ وَالصَّبِیَّۃُ الْحُرَّۃُ علی الصَّبِیَّۃِ الْأَمَۃِ لِشَرَفِ الْحُرِّیَّۃِ من غَیْرِ مُعَارِضٍ۔ ولم أَرَ صَرِیحًا حُکْمَ ما إذَا صلی وَمَعَہُ رَجُلٌ وَصَبِیٌّ، وَإِنْ کان دَاخِلًا تَحْتَ قَوْلِہِ: وَالِاثْنَانِ خَلْفَہُ، وَظَاہِرُ حدیث أَنَسٍ أَنَّہُ یُسَوِّی بین الرَّجُلِ وَالصَّبِیِّ وَیَکُونَانِ خَلْفَہُ فإنہ قال: فَصَفَفْت أنا وَالْیَتِیمُ وَرَائَہُ وَالْعَجُوزُ من وَرَائِنَا۔ وَیَقْتَضِی أَیْضًا أَنَّ الصَّبِیَّ الْوَاحِدَ لَا یَکُونُ مُنْفَرِدًا عن صَفِّ الرِّجَالِ بَلْ یَدْخُلُ فی صَفِّہِمْ، وَأَنَّ مَحَلَّ ہذا التَّرْتِیبِ إنَّمَا ہو عِنْدَ حُضُورِ جَمْعٍ من الرِّجَالِ وَجَمْعٍ من الصِّبْیَانِ فَحِینَئِذٍ تُؤَخَّرُ الصِّبْیَانُ، بِخِلَافِ الْمَرْأَۃِ الْوَاحِدَۃِ فَإِنَّہَا تَتَأَخَّرُ عن الصُّفُوفِ کَجَمَاعَتِہِنَّ۔ (کتاب الصلاۃ باب الإمامۃ)

          o وفی مراقی الفلاح:

          (ثم) یصف (الصبیان)؛ لقول أبی مالک الأشعری: أن النبی ﷺ صلی، وأقام الرجال یلونہ، وأقام الصبیان خلف ذلک، وأقام النساء خلف ذلک۔ وإن لم یکن جمع من الصبیان یقوم الصبی بین الرجال۔ (کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)

          o وفی درر الحکام:

          ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء والخنثی المشکل یقوم قدام النسائ، والترتیب بین الرجال والصبیان سنۃ لا فرض، ہو الصحیح۔۔۔۔(کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)

          o وفی الدر المختار:

          (ثم الصبیان) ظاہرہ تعددہم، فلو واحدا دخل الصف۔ (کتاب الصلاۃ باب الامامۃ)

          o وفی رد المحتار:

          قولہ: (ولو کان فرجۃ الخ) کان تامۃ، وفرجۃ فاعلہا۔ قال فی القنیۃ: قام فی آخر الصف فی المسجد بینہ وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف؛ لأنہ أسقط حرمۃ نفسہ فلا یأثم المار بین یدیہ۔ دل علیہ ما ذکر فی الفردوس بروایۃ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما عن النبی ﷺ أنہ قال: من نظر إلی فرجۃ فی صف فلیسدہا بنفسہ فإن لم یفعل فمر مار فلیتخط علی رقبتہ فإنہ لا حرمۃ لہ أی فلیتخط المار علی رقبۃ من لم یسد الفرجۃ۔اہـ  قلت: ولیس المراد بالتخطی الوطء علی رقبتہ؛ لأنہ قد یؤدی إلی قتلہ ولا یجوز؛ بل المراد أن یخطو من فوق رقبتہ، وإذا کان لہ ذلک فلہ أن یمر من بین یدیہ بالأولی، فافہم۔ (کتاب الصلاۃ باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا)

————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:103‏،  ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts