از: مولانا اخترامام عادل قاسمی

بانی ومہتمم جامعہ ربانی منورواشریف بہار

تعزیربالمال کے منسوخ ہونے کامسئلہ

            ٭یہاں ایک چیزاوربھی قابل ذکرہے کہ تعزیربالمال کے نسخ کی بات بھی بزازیہ کے عہد تک ماقبل کی کتابوں میں نہیں ملتی،بزازیہ نویں صدی ہجری کے اوائل میں لکھی گئی،بزازیہ اوراس سے ماقبل کی کتابوں میں تعزیربالمال کے بارے میں ائمۂ مجتہدین کااختلاف توملتاہے؛لیکن کسی کتاب میں عمومیت کے ساتھ تعزیرکے منسوخ ہونے کادعویٰ نہیں کیاگیا،نسخ کی بات غالباًسب سے پہلے دسویں صدی ہجری میں شروع ہوئی،جس کاایک نمونہ علامہ ابن نجیم مصریؒ (متوفیٰ۹۷۰ھ)کی کتاب ’’البحرالرائق‘‘ہے،ابن نجیم نے البحرالرائق میں ’’شرح الآثار‘‘کے حوالے سے نقل کیاہے کہ ’’تعزیربا لمال‘‘ کاقانون ابتداء اسلام میں تھابعدمیں منسوخ ہوگیا:

          وفی شَرْحِ الآثَارِ التَّعْزِیرُ بِالْمَالِ کان فی ابْتِدَائِ الإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ اہـ(۳۱)۔

             البحرالرائق کے بعدکئی کتابوں میں یہ بات نقل کی گئی اورپھرمشہورہوتی چلی گئی۔ شرح الآثار سے مرادغالباًامام طحاویؒ (متوفیٰ ۳۲۱ھ)کی شرح معانی الآثارہے؛حالانکہ امام طحاویؒنے اپنی مشہور کتاب ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں صراحت کے ساتھ تعزیربالمال کے نسخ کا انکار کیاہے، مدینہ منورہ میں حرمت شکارکی بحث کے ذیل میں امام طحاویؒ نے یہ گفتگو کی ہے،اورحضرت عمربن الخطاب ؓاور حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ وغیرہ کے عہدکی مثالوں سے ثابت کیاہے کہ یہ حکم عہد نبوت کے بعد بھی باقی رہا:

          وَکَمَا قَالَ بَعْدَ -(403)- تَحْرِیمِ صَیْدِ الْمَدِینَۃِ: ’’مَنْ وَجَدْتُمُوہُ یَصِیدُ فِی شَیْئٍ مِنْہَا فَخُذُوا سَلَبَہُ‘‘. وَقَدْ ذَہَبَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمْ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ إلَی أَنَّ ذَلِکَ الْحُکْمَ کَانَ بَاقِیًا بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَمِنْ ذَلِکَ مَا قَدْ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ فِیہِ کَمَا حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ رِجَالٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ، عَنْ أَخِیہِ، عَنْ سُلَیْمَانَ وَہُوَ ابْنُ بِلَالٍ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ کَانَ یَغْدُو فَیَنْظُرُ إلَی الْأَسْوَاقِ، فَإِذَا رَأَی اللَّبَنَ أَمَرَ بِالْأَسْقِیَۃِ فَفُتِحَتْ، فَإِنْ وَجَدَ مِنْہَا شَیْئًا -(405)- مَغْشُوشًا قَدْ جُعِلَ فِیہِ مَائً غُشَّ بِہِ أَہْرَاقَہَا۔ قَالَ: وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ اللَّبَنَ وَإِنْ غُشَّ فَفِیہِ بَعْدَ ذَلِکَ مَنْفَعَۃٌ قَدْ یَنْتَفِعُ بِہِ أَہْلُہُ، وَہُوَ کَذَلِکَ، وَإِنَّ عُمَرَ لَمْ یُہْرِقْہُ إلَّا خَوْفًا مِنْ أَہْلِہِ أَنْ یَغُشُّوا بِہِ النَّاسَ فَأَہْرَاقَہُ لِذَلِکَ، وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یَکُونَ مَنْعُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَہُ أَنْ یَجْعَلَ الْخَمْرَ خَلًّا لِمِثْلِ ذَلِکَ؛ خَوْفَ أَنْ یَخْلُوَ بِہَا فَیَأْتِیَ مِنْہَا مَا حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ مِنْہَا، فَأَمَرَہُ بِإِہْرَاقِہَا لِذَلِکَ۔ وَقَدْ شَدَّ ہَذَا التَّأْوِیلُ مَا کَانَ مِنْہُ فِی الزِّقَاقِ الَّتِی خَرَقَہَا، وَقَدْ رَأَی زِقَاقًا غَیْرَہَا، وَفِیہَا خَمْرٌ، فَلَمْ یَخْرِقْہَا إذْ کَانَ أَہْلُہَالَمْ یَفْعَلُوا فِیہَا مِثْلَ الَّذِی فَعَلَہُ أَہْلُ تِلْکَ فِیہَا(۳۲)۔

            یہ کہناتوشایدچھوٹامنہ بڑی بات ہوکہ غالباً یہ غلط فہمی امام طحاوی ؒ کی ’’شرح معانی الآثار‘‘کی ایک  عبارت سے پیداہوئی:

          فکانت العقوبات جاریۃ فیما ذکر فی ہذہ الآثار علی ما ذکر فیہا حتی نسخ ذلک بتحریم الربا فعاد الأمر إلی أن لا یؤخذ ممن أخذ شیئا إلا مثل ما أخذ وإن العقوبات لا تجب فی الأموال بانتہاک الحرمات التی ہی غیر أموال(۳۳)۔

            حالانکہ شرح معانی الآثارکی مذکورہ عبارت کاپس منظراورپوری بحث پیش نظر رہے توسمجھا جاسکتا ہے کہ امام طحاوی ؒنے صرف مخصوص مسائل میں مخصوص نسخ کی بات کہی ہے،مطلق تعزیرمالی یا عقوبت مالیہ کے نسخ کادعویٰ نہیں کیاہے،اس کی مختصرتفصیل یہ ہے:

            ’’امام طحاوی ؒ نے بیوی کی باندی سے زناکی بحث میں پہلے حضرت سلمہ بن المحبق ؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں نبی کریم… نے بصورت جبر باندی کو آزادکرنے اوربصورت رضا زانی کی ملکیت میں دینے کاحکم فرمایا،اورزانی پراس کی قیمت واجب قراردی،اس کے بعدامام طحاوی ؒنے حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت نقل کی ہے کہ اب ایسی صورت میں محصن پررجم اورغیرمحصن پرکوڑے کی سزا آئے گی،حضرت نعمان ؓ کی روایت سے حضرت سلمہ بن المحبقؓ کی روایت منسوخ ہوگئی:

          فھذا الذی ذکر النعمان عندنا- ناسخ لمارواہ سلمۃ بن المحبق۔

            اس کے بعدنسخ کی تفصیل اورتاریخ بیان کی ہے :

          وذلک ان الحکم کان فی اول الاسلام یوجب عقوبات بافعال فی اموال ویوجب عقوبات فی ابدان باستھلاک اموال۔

            کہ ابتداء اسلام میں قانون یہ تھاکہ خلاف شریعت عمل کے ارتکاب پرمالی عقوبت واجب ہوتی تھی اورکسی کامال ہلاک کرنے پربدنی عقوبت،مثلاًزکوۃ نہ دینے والے سے مقررہ زکوٰۃ کے علاوہ بطور جرمانہ اس کاآدھامال بھی لیاجاتاتھا،گم شدہ اونٹ چھپانے والے سے اونٹ کی قیمت کے بقدر ضمان بھی لیاجاتاتھا،امام طحاویؒ نے حریسۃ الجبل اورثمرمعلق کی روایات بھی نقل کی ہیں جن میں بقدرقیمت ضمان کے علاوہ مزیدایک مثل مال  بطورغرامت لیے جانے کاحکم دیاگیاہے،یعنی مالی جرائم میں ضمان مثل کے علاوہ مزیدمال بھی لے کرمظلوم کودلوایاجاتاتھا، گویادوہری عقوبت؛لیکن بعدمیں تحریم ربا،قانون زنا، اورقانون سرقہ وغیرہ احکام آجانے کے بعد عقوبت مثلین کایہ قانون منسوخ ہوگیا،اورمقررہ طورپرضمان مثل کاقانون نافذہوا:

          عن جدہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص أن رجلا من مزینۃ أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فقال: یا رسول اللّٰہ کیف تری فی حریسۃ الجبل فقال لیس فی شیء من الماشیۃ قطع إلا ما أواہ المراح فبلغ ثمنہ ثمن المجن ففیہ قطع الید وما لم یبلغ ثمن المجن ففیہ غرامۃ مثلیہ وجلدات نکال قال یا رسول اللّٰہ کیف تری فی الثمر المعلق قال ہو ومثلہ معہ والنکال ولیس فی شیء من الثمر المعلق قطع إلا ما أواہ الجرین فما أخذ من الجرین فبلغ ثمنہ ثمن المجن ففیہ القطع وما لم یبلغ ثمن المجن ففیہ غرامۃ مثلیہ وجلدات نکال فکانت العقوبات جاریۃ فیما ذکر فی ہذہ الآثار علی ما ذکر فیہا حتی نسخ ذلک بتحریم الربا فعاد الأمر إلی أن لا یؤخذ ممن أخذ شیئا إلا مثل ما أخذ وإن العقوبات لا تجب فی الأموال بانتہاک الحرمات التی ہی غیر أموال فحدیث سلمۃ عندنا کان فی الوقت الأول فکان الحکم علی من زنا بجاریۃ امرأتہ مستکرہا لہا علیہ أن تعتق عقوبۃ لہ فی فعلہ ویغرم مثلہا لامراتہ وإن کانت طاوعتہ ألزمہا جاریۃ زانیۃ وألزمہ مکانہا جاریۃ طاہرۃ ولم تعتق ہی بطواعیتہا إیاہ وفرق فی ذلک بینما إذا کانت مطاوعۃ لہ وبینما إذا کانت مستکرہۃ ثم نسخ ذلک فردت الأمور إلی أن لا یعاقب أحد بانتہاک حرمۃ لم یأخذ فیہا مالا بأن یغرم مالا ووجبت علیہ العقوبۃ التی أوجب اللّٰہ علی سائر الزناۃ فثبت بما ذکرنا ما روی النعمان ونسخ ما روی سلمۃ بن المحبق وأما ما ذکروا من فعل عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ومذہبہ فی ذلک إلی مثل ما روی سلمۃ فقد خالفہ فیہ غیرہ من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم(۳۴)۔

            لیکن اس کامطلب یہ لینادرست نہیں کہ اب کسی جرم میں تعزیرمالی کی گنجائش نہیں رہی،علامہ عینیؒ نے شرح معانی الآثارکی شرح نخب الافکارمیں اس حدیث کی شرح کے تحت ایک اعتراض کے جواب میں عہدصحابہ کے بعض واقعات سے استدلال کرتے ہوئے لکھاہے کہ بہ طورزجر وسیاست تعزیر مالی کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے اوریہ امام طحاویؒ کی گفتگوکے دائرہ سے خارج ہے:

          قلت ھذا محمول  منھم علی السیاسۃ زیادۃ فی الزجروالعقوبۃ۔

            نخب الافکارمیں تقریباًبیس(۲۰) صفحات میں یہ بحث پھیلی ہوئی ہے (۳۵)۔

            اس طرح حنفیہ میں امام طحاوی ؒ سے امام بدرالدین عینیؒ تک کوئی بھی اس حدیث کے نسخ کاقائل نہیں ہے،یہ تمام تر اکابر علامہ ابن نجیمؒ سے قبل کے ہیں ،علامہ علی بن خلیل علاء الدین طرابلسی ؒ(متوفی ٰ۸۴۴ھ) صاحب معین الحکام بھی قدیم ترین حنفی فقہاء میں ہیں ، انہوں نے طاقتور لہجہ میں تحریر کیا ہے کہ تعزیر بالمال کے نسخ کادعویٰ نقل اوراستدلال دونوں لحاظ سے غلط ہے (۳۶)۔

فقہاء حنفیہ میں تعزیرمالی کے جوازکے قائلین

            سابقہ تفصیلات سے یہ امرمنقح ہوچکا ہے کہ امام ابویوسفؒ کے قول جوازکومرجوح اور کمزور بنانے کاسلسلہ دسویں صدی ہجری سے شروع ہوا، ماقبل کی صدیوں میں اسے عام طورپر ایک معتبر اور لائق اختیارقول کی حیثیت حاصل تھی،فقہاء اپنی کتابوں میں بلاتنکیروتضعیف اس قول کونقل کرتے تھے اور متعدد بڑے فقہاء نے اس قول کی جانب اپنارجحان ظاہرکیاتھا۔۔۔۔۔مثلاً:

            ٭علامہ علاء الدین علی بن خلیل طرابلسی ؒ (متوفیٰ ۸۴۴ھ)کارجحان اوپرنقل کیاگیا۔

            ٭امام طحاوی کی رائے جوازکی ہے،وہ تعزیرمالی کومنسوخ قرارنہیں دیتے ہیں (عبارت آچکی ہے)(۳۷)

            ٭علامہ ابن ہمام صاحب فتح القدیربھی جوازکارجحان رکھتے ہیں ،عبارت پہلے گذرچکی ہے(۳۸)۔

            ٭علامہ بابرتی ؒکی رائے بھی یہی ہے (۳۹)۔

            ٭علامہ زیلعی بھی جواز کارجحان رکھتے ہیں ،عبارت پہلے گذرچکی ہے (۴۰)۔

            ٭علامہ ابن البزازالکردری ؒ صاحب فتاویٰ بزازیہ بھی جوازکی رائے رکھتے ہیں (۴۱)۔

            ٭خاتمۃ المجتہدین علامہ رکن الدین ابویحییٰ الخوارزمی اورامام ظہیرالدین التمرتاشی ؒ کی بھی یہی رائے ہے(۴۲)۔

            ٭صاحب خلاصۃ الفتاویٰ کارجحان مالی تعزیرکے جوازکی طرف ہے،اکثرکتابوں میں ان کا حوالہ دیاگیاہے(۴۳) ۔

            ٭مفتی عبدالقادرآفندی نے فتاویٰ بزازیہ کی عبارت کی بنیادپرجوازکافتویٰ دیا (۴۴)۔

            ٭صاحب فتاویٰ تاتارخانیہ کے اندازبیان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی جوازکارجحان رکھتے ہیں (۴۵) عبارت پہلے نقل کی جاچکی ہے۔

            ٭علامہ ابن نجیمؒ کارجحان بھی البحرالرائق میں اسی کے قریب نظرآتاہے،عبارت گذرچکی ہے(۴۶)۔

            ٭علامہ نجم الدین الزاہدی الغزمینیؒصاحب المجتبیٰ(متوفیٰ۶۵۸ھ)بھی جوازکے قائل ہیں (۴۷)۔

            ٭حنفی فقیہ قاضی نجم الدین طرطوسی (متوفیٰ۷۵۸ھ)بھی تعزیربالمال کے جوازکے قائل ہیں۔

            فالذی یبرطل علی القضاء یستحق عندی التعزیربالمال والضرب(۴۸)۔

            ٭علامہ مخدوم جعفرسندھیؒ بھی جوازکے قائل ہیں ،گوکہ اس کی عام اشاعت کووہ سلاطین زمانہ کے خوف سے مناسب نہیں سمجھتے۔

            ان روایۃ جوازالتعزیرباخذالمال ینبغی ان لایطلع علیہ سلاطین زماننالأنہم بعد الاطلاع قد یتجاوزون حد الأخذ بالحق إلی التعدی بالباطل(۴۹)۔

            ٭ماضی قریب کے علماء میں ابوالحسنات حضرت مولاناعبدالحئی فرنگی محلیؒ بھی تعزیربالمال کے جواز کے قائل ہیں (۵۰):

            صرح فی الخلاصۃ والظہیریۃ بجواز التعزیر بأخذ المال وإحراق البیت ونحو ذلک(۵۱)۔

            ٭ہندوستان کے فقیہ النفس عالم دین اورمحدث حضرت مولاناابوالمحاسن سیدمحمدسجادصاحبؒ بانی امارت شرعیہ نے بھی جوازکافتویٰ دیاہے(۵۲)۔

            ٭حضرت مولاناعبدالحق حقانیؒ(صاحب فتاویٰ حقانیہ) بھی امام ابویوسف ؒکے قول جواز کو ترجیح دیتے تھے اورکہتے تھے کہ یہ مسئلہ قضاکاہے اورباب قضامیں امام ابویوسف کے قول کوترجیح حاصل ہوتی ہے (۵۳)۔

            ٭علامہ شمس الحق افغانی سابق استاذدارالعلوم دیوبندوسابق شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل بھی جوازکے قائل ہیں۔

            یجوز التعزیر بأخذ المال وھو مذھب أبی یوسف وبہ قال مالک ومن قال ان العقوبۃ المالیۃ منسوخۃ فقط غلط وفعل الخلفاء الراشدین وأکابر الصحابۃ لہا بعد موتہ ﷺ مبطل لدعویٰ نسخھا والمدعون للنسخ لیس معہم سنۃ ولا اجماع(۵۴)۔

            ٭استاذی المکرم حضرت مولانامفتی نظام الدین اعظمی سابق صدرمفتی دارالعلوم دیوبندبھی جواز  کے قائل تھے (۵۵)۔

            ٭عصرجدیدکے فقیہ اکبرقاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ بانی مجمع الفقہ الاسلامی ہندبھی جوازکی رائے رکھتے ہیں (۵۶)۔

            ٭حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب  دامت برکاتہم بھی جواز کے وکیل ہیں اورآپ نے اس کی اہم بنیادوں کی نشاندہی بھی کی ہے(۵۷) ۔وغیرہ ۔

            یہ تقریباًپندرہ (۱۵)فقہاء متقدمین اورسات(۷)علماء متا خرین یعنی کم ازکم تیئس(۲۳) شخصیات کے اسماء گرامی ہیں اوران میں زیادہ تروہ لوگ ہیں جودسویں صدی ہجری سے پہلے کے ہیں ، جن کاعرصہ عہدائمۂ مجتہدین کے بعدتقریباًسات آٹھ صدیوں تک محیط ہے اور جوبہرحال زمانۂ مابعدکے لحاظ سے خیرالقرون کے ایام تھے،دسویں صدی ہجری سے رجحانات کی تبدیلی کاسلسلہ شروع ہوا، اس کے پیچھے ممکن ہے سلاطین زمانہ کے مظالم کاخوف ہویااورکوئی سبب،اس کے بعد جو فقہی کتابیں اورمجموعے تیار ہوئے ان میں بالعموم عدم جوازکے قول کواصل مسلک حنفی کی حیثیت سے نمایاں کیاگیا اورامام ابویوسفؒ کے قول جواز کو مختلف دلائل وتاویلات کے ذریعہ کمزور ثابت کیا گیا، مگر عہداخیرکی ان چارپانچ صدیوں میں اگربڑے فقہاء اورمصنّفین کی فہرست بنائی جائے توشایدوہ مذکورہ تعدادتک نہ پہونچ سکے اوریوں بھی سلف ہرحال میں خلف پرفضیلت رکھتے ہیں۔

مالکیہ کااصل مذہب

            تعزیرات مالیہ کے سلسلے میں مالکیہ کااصل مذہب بھی یہی ہے کہ ناجائز ہے، علامہ صاویؒ اور دسوقی وغیرہ نے یہی نقل کیا ہے:

          ٭ و أما التعزیر بأخذ المال فلا یجوز إجماعاً و ما روی عن الإمام أبی یوسف صاحب أبی حنیفۃ من جواز التعزیر للسلطان بأخذ المال فمعناہ کما قال البراذعی من أئمۃ الحنفیۃ أن یمسک المال عندہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ إلیہ لا أنہ یأخذ لنفسہ أو لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ، إذ لا یجوز أخذ مال بغیرسبب شرعی و فی نظم العملیات: (ولم تجز عقوبۃ بالمال ٭٭  أو فیہ عن قول من الأقوال)(۵۸)

          ٭ وَلَا یَجُوزُ التَّعْزِیرُ بِأَخْذِ الْمَالِ إجْمَاعًا وما رُوِیَ عن الإِمَامِ أبی یُوسُفَ صَاحِبِ أبی حَنِیفَۃَ من أَنَّہُ جَوَّزَ لِلسُّلْطَانِ التَّعْزِیرَ بِأَخْذِ الْمَالِ فَمَعْنَاہُ کما قال الْبَزَّازِیُّ من أَئِمَّۃِ الْحَنَفِیَّۃِ أَنْ یَمْسِکَ الْمَالَ عِنْدَہُ مُدَّۃً لینزنجر ’’لینزجر‘‘ ثُمَّ یُعِیدَہُ إلَیْہِ لَا أَنَّہُ یَأْخُذُہُ لِنَفْسِہِ أو لِبَیْتِ الْمَالِ کما یَتَوَہَّمُہُ الظَّلَمَۃُ إذْ لَا یَجُوزُ أَخْذُ مَالِ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ سَبَبٍ شَرْعِیٍّ أَیْ کَشِرَائٍ أو ہِبَۃٍ(۵۹)۔

          ٭ قال الدسوقی المالکی فی حاشیتہ: (قولہ: وتصدق بما غش) أی جوازا لا وجوبا خلافا لعبق لما یذکرہ المصنف آخرا من قولہ، ولو کثر فإن ہذا قول مالک والتصدق عندہ جائز لا واجب وما ذکرہ المصنف من التصدق ہو المشہور وقیل: یراق اللبن ونحوہ من المائعات وتحرق الملاحف والثیاب الردیئۃ النسج قالہ ابن العطار وأفتی بہ ابن عتاب وقیل: إنہا تقطع خرقا خرقا وتعطی للمساکین وقیل: لا یحل الأدب بمال امرء مسلم فلا یتصدق بہ علیہ ولا یراق اللبن ونحوہ ولا تحرق الثیاب ولا تقطع الثیاب ویتصدق بہا، وإنما یؤدب الغاش بالضرب حکی ہذہ الأقوال ابن سہل، قال ابن ناجی: واعلم أن ہذا الخلاف إنما ہو فی نفس المغشوش ہل یجوز الأدب فیہ أم لا، وأما لو زنی رجل مثلا فلا قائل فیما علمت أنہ یؤدب بالمال، وإنما یؤدب بالحد وما یفعلہ الولاۃ من أخذ المالفلا شک فی عدم جوازہ، وقال الونشریسی أما العقوبۃ بالمال فقد نص العلماء علی أنہا لا تجوز وفتوی البرزلی بتحلیل المغرم لم یزل الشیوخ یعدونہا من الخطأ اہـ(۶۰)

بعض مالکیہ کے یہاں جوازکی رائے

            لیکن مشہورمالکی فقیہ علامہ ابن فرحون نے مالکیہ کامسلک جوازکانقل کیاہے اور تعزیرمالی کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں جوخودحضرت امام مالک ؒ سے منقول ہیں ، مثلاًامام مالکؒ نے فتویٰ دیاکہ ملاوٹ والے دودھ یامشک کوصدقہ کردیاجائے گا؛تاکہ ملاوٹ کرنے والے کوسبق ملے، یاکوئی بدکردار شخص اپنے پڑوسیوں کوتنگ کرے تواس کامکان فروخت کردیاجائے گا اوردوسری جگہ منتقل ہونے کا حکم دیاجائے گا،یہ مالی اورجسمانی دونوں لحاظ سے سزاہے،وغیرہ ۔

          وَالتَّعْزِیرُ بِالْمَالِ: قَالَ بِہِ الْمَالِکِیَّۃُ فِیہِ، وَلَہُمْ تَفْصِیلٌ ذَکَرْت مِنْہُ فِی کِتَابِ الْحِسْبَۃِ طَرَفًا، فَمِنْ ذَلِکَ سُئِلَ مَالِکٌ عَنْ اللَّبَنِ الْمَغْشُوشِ أَیُہْرَاقُ؟ قَالَ: لَا، وَلَکِنْ أَرَی أَنْ یُتَصَدَّقَ بِہِ إذَا کَانَ ہُوَ الَّذِی غَشَّہُ .وَقَالَ فِی الزَّعْفَرَانِ وَالْمِسْکِ الْمَغْشُوشِ مِثْلَ ذَلِکَ قَلِیلًا أَوْ کَثِیرًا، وَخَالَفَہُ ابْنُ الْقَاسِمِ فِی الْکَثِیرِ. وَقَالَ یُبَاعُ الْمِسْکُ وَالزَّعْفَرَانُ عَلَی مَنْ لَا یُغَشُّ بِہِ وَیُتَصَدَّقُ بِالثَّمَنِ أَدَبًا لِلْغَاشِّ۔ مَسْأَلَۃٌ: وَالْفَاسِقُ إذَا آذَی جَارَہُ وَلَمْ یَنْتَہِ، تُبَاعُ عَلَیْہِ دَارُہُ وَہُوَ عُقُوبَۃٌ فِی الْمَالِ وَالْبَدَنِ۔ مَسْأَلَۃٌ: وَمَنْ مَثَّلَ بِأَمَتِہِ عَتَقَتْ عَلَیْہِ وَذَلِکَ عُقُوبَۃٌ بِالْمَالِ(۶۱)۔

            بعض علماء نے اسی کومالکیہ کاقول مشہورقراردیاہے،جیساکہ فتاویٰ ابن تیمیۃ  اور الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ سے ظاہر ہوتا ہے،ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

          ومذہب مالک وأحمد وغیرہما: أن العقوبات المالیۃ کالبدنیۃ، تنقسم إلی ما یوافق الشرع وإلی ما یخالفہ، ولیست العقوبۃ المالیۃ منسوخۃ عندہما(۶۲)۔

            موسوعہ کی عبارت ہے:

          أمافی مذہب مالک فی المشہور عنہ، فقد قال ابن فرحون: التعزیر بأخذ المال قال بہ المالکیۃ(۶۳)۔

شافعیہ-اختلاف اقوال

            تعزیر بالمال کے سلسلہ میں امام شافعیؒ سے دو قول منقول ہیں ، ایک قول عدم جواز کا ہے اور یہ امام شافعیؒ کا قول جدید ہے، دوسرا قول جواز کا ہے اور یہ ان کا قول قدیم ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں علامہ شبراملسی کے حوالے سے نقل کیاگیاہے:

          ٭ وقال الشبراملسی: ولا یجوز علی الجدید بأخذ المال۔ یعنی لا یجوز التعزیر بأخذ المال فی مذہب الشافعی الجدید، وفی المذہب القدیم: یجوز(۶۴)

          ٭ وَلَا یَجُوزُ عَلَی الْجَدِیدِ بِأَخْذِ الْمَالِ(۶۵)۔

            کتاب الام میں ہے:

          ٭ قال الإمام الشافعیؒ:  لا یعاقب رجل فی مالہ وإنما یعاقب فی بدنہ وإنما جعل اللّٰہ الحدود علی الأبدان وکذلک العقوبات فأما علی الأموال فلا عقوبۃ علیہا(۶۶)۔

            علامہ نوویؒ تحریرفرماتے ہیں :

          ٭ ھذا مذھبہ الجدید و ھو المفتی بہ۔ وھذا فی غیر اخذ سلب من اصطاد فی حرم المدینۃ لأن المفتی بہ فیہ مذہبہ القدیم.قال النوویؒ: ولا بأس بتسوید وجہہ والمناداۃ علیہ ویحرم حلق لحیتہ وأخذ مالہ(۶۷)۔

حنابلہ-اختلاف آراء

            حنابلہ کے نزدیک  تعزیزبالمال قطعی جائزنہیں ؛اس لیے کہ شریعت میں اس کادوردورتک ثبوت نہیں ہے،نیزاصل واجب تادیب اورتنبیہ ہے اوراتلاف سے یہ مقصد پورانہیں ہوتا،مذہب حنبلی کی  تمام کتابوں میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ موجودہے:

          والتعزیر یکون بالضرب والحبس والتوبیخ ولا یجوز قطع شیء منہ ولا جرحہ ولا أخذ مالہ لأن الشرع لم یرد بشیء من ذلک عن أحد یقتدی بہ ولأن الواجب أدب والتأدیب لا یکون بالاتلاف(۶۸)۔

علامہ ابن تیمیہؒ اورابن القیمؒ کی رائے

            لیکن مسلک حنبلی کے دوممتازفقیہ علامہ ابن تیمیہؒ اورعلامہ ابن القیم ؒنے اس رائے سے اختلاف کیاہے؛بلکہ ان لوگوں کی تغلیط کی ہے جوعلی الاطلاق عدم جوازکی نسبت امام احمدبن حنبل ؒ یاامام مالک کی طرف کرتے ہیں ،علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک علی الاطلاق مالی سزاؤں کوناجائزکہنا درست نہیں ، اس لیے کہ رسول اللہ …کے بعدخلفاء راشدین اورصحابۂ کرامؓ کاعمل تعزیربالمال پررہاہے،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کاجوازمنسوخ نہیں ہواہے۔

          ٭ ومن قال:إن العقوبات المالیۃ منسوخۃ، وأطلق ذلک عن أصحاب مالک وأحمد، فقد غلط علی مذہبہما، ومن قال مطلقاً من أی مذہب؟ کان، فقد قال قولاً بلا دلیل، ولم یجی عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم شی قط یقتضی انہ حرام جمیع العقوبات المالیۃ ؛ بل أخذ الخلفاء الراشدین واکابر اصحابہ بذلک بعد موتہ دلیل علی أن ذلک محکم غیر منسوخ(۶۹)۔

          ٭ وادعی قوم أن العقوبات المالیۃ منسوخۃ ولا حجۃ معہم فی ذلک أصلا کما أن البدن إذا قام بالفجور أقیم علیہ الحد وإن کان قد یتلف بإقامۃ الحد کذلک الذی قام بہ صنعۃ الفجور مثل الصنم یجوز إتلافہ وتحریقہ کما حرق رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأصنام، وکذلک من صنع صنعۃ محرمۃ فی طعام أو لباس أو نحو ذلک(۷۰)۔

نسخ کادعویٰ صحیح نہیں

            علامہ ابن قیمؒ نے تویہاں تک دعویٰ کردیا ہے کہ تعزیزمالی کے نسخ پرکتاب وسنت  اوراجماع امت سے کوئی دلیل موجود نہیں ہے،محض  ایک خیال کودلیل سمجھ لیاگیاہے:

          وہذہ قضایا صحیحۃ معروفۃ ولیس یسہل دعوی نسخہا ومن قال إن العقوبات المالیۃ منسوخۃ وأطلق ذلک فقد غلط علی مذاہب الأئمۃ نقلا واستدلالا فأکثر ہذہ المسائل سائغ فی مذہب أحمد وغیرہ وکثیر منہا سائغ عند مالک وفعل الخلفاء الراشدین وأکابر الصحابۃ لہا بعد موتہ صلی اللہ علیہ وسلم مبطل أیضا لدعوی نسخہا والمدعون للنسخ لیس معہم کتاب ولا سنۃ ولا إجماع یصحح دعواہم إلا أن یقول أحدہم مذہب أصحابنا عدم جوازہا فمذہب أصحابہ عیار علی القبول والرد وإذا ارتفع عن ہذہ الطبقۃ ادعی أنہا منسوخۃ بالإجماع وہذا غلط أیضا فإن الأمۃ لم تجمع علی نسخہا ومحال أن ینسخ الإجماع السنۃ ولکن لو ثبت الإجماع لکان دلیلا علی نص ناسخ(۷۱)۔

تنقیح وتجزیہ

            اس تجزیہ سے ظاہرہوتا ہے کہ تعزیربالمال کے مسئلہ پرکسی مذہب فقہی میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے اورہرمسلک میں کچھ مضبوط علماء عدم جوازکے بالمقابل جوازکے حامی اوروکیل رہے ہیں ، جب کوئی مسئلہ اس قدرمختلف فیہ بن جائے تواس کی شدت خودبخودکم ہوجاتی ہے اوردونوں جانب گنجائش کی راہ نکل آتی ہے،ایسی صورت میں مسئلہ حلال وحرام کے بجائے اصول کے مطابق زیادہ سے زیادہ مکروہ وغیرمکروہ کارہ جاتاہے اوراگردلیلوں کی بنیادپرکسی جانب بھی انسان کامیلان ہووہ قابل طعن نہیں ہوسکتااورنہ اس کوخروج عن المذہب قراردیاجاسکتاہے۔

عدم جوازکے وجوہات

            ٭ دراصل عدم جوازکے قائلین کے ذہن میں یہ ہے کہ مالی جرمانہ مسئلہ کاحل نہیں ہے،اس لیے کہ ممکن ہے کہ مجرم کے پاس مال ہی نہ ہوتووہ مالی جرمانہ کہاں سے ادا کرے گا اوراگرمجرم بہت زیادہ مال دارہواتوجرمانہ اداکرنااس کے لیے کچھ مشکل نہ ہوگا؛لیکن اس سے اس کے آئندہ جرم پر قابو پانا ضروری نہیں ؛اس لیے کہ جرمانہ دینے کے بعد مجرم میں احساس ندامت کے بجائے اکثراپنے بچ جانے کا احساس فتح پیداہوتاہے اور جرم کاسلسلہ جاری رہ سکتاہے،مالی جرمانہ زیادہ سے زیادہ متوسط درجہ کے لوگوں کے لیے مفید ہوسکتاہے،جوجرمانہ کی ادائیگی کے بعدمالی دباؤمحسوس کریں اورآئندہ  جرم کے ارتکاب کی جرات نہ کریں۔

            ٭ دوسری خرابی یہ ہے کہ مالی جرمانہ عائدکرنے کی صورت میں کبھی بدکرداراورظالم افسروں کے لیے ظلم اورناجائزلوٹ کھسوٹ کادروازہ کھل سکتاہے، نیز معاشرہ میں رشوت کے جراثیم بھی جنم لے سکتے ہیں۔

            قانون تعزیر کامقصدیہ ہے کہ سزاایسی ہوجوسب کے لیے قابل عمل ہو، اورآئندہ انسداد جرم  کے حق میں بھی مفید ہو۔

            ٭عدم جوازکے قائلین کی طرف سے یہ دلیل بھی پیش کی گئی ہے کہ کتاب وسنت میں مالی جرمانہ کے جوازپرکوئی دلیل موجود نہیں ہے؛اس لیے مالی جرمانہ وصول کرناکسی کے مال کوبلاسبب شرعی ہڑپ کرنے کے مترادف ہوگا۔قرآن وحدیث کی کئی نصوص میں یہ مضمون واردہواہے،فرمان باری تعالیٰ ہے:

          ٭ وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَرِیقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ(۷۲)۔

          ٭ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا(۷۳)۔

            ٭ ارشادات نبویہ یہ ہیں :

          ٭ وقال النبی ﷺ : لایحل مال امری مسلم إلا بطیب نفس منہ(۷۴)۔

          ٭ عن عمرو بن یثربی، قال: شہدت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع بمنی فسمعتہ یقول: لا یحل لامرء من مال أخیہ شیء إلا ما طابت بہ نفسہ، فقلت حینئذ: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرأیت إن لقیت غنم ابن عم لی فأخذت منہا شاۃ فاجتزرتہا أعلیَّ فی ذلک شیء؟ قال: إن لقیتہا نعجۃ تحمل شفرۃ وأزنادا فلا تمسہا. (قال الزیلعی فی نصب الرایہ: اسنادہ جید)(۷۵)

             ترجمہ:حضرت عمرو بن یثربی ضمری سے مروی ہے کہ میں نبی  …کے اس خطبے میں شریک تھا جو نبی …نے میدان منیٰ میں دیا تھا آپ نے من جملہ دیگر باتوں کے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کا مال اس وقت تک حلال نہیں ؛ جب تک وہ اپنے دل کی خوشی سے اس کی اجازت نہ دے میں نے یہ سن کر بارگاہِ رسالت مآب … میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کا ریوڑ ملے اور میں اس میں سے ایک بکری لے کر چلاجاؤں تو کیا اس میں مجھے گناہ ہوگا؟نبی … نے فرمایا: اگر تمہیں ایسی بھیڑ ملے جو چھری اور چقماق کا تحمل کرسکتی ہو تو اسے ہاتھ بھی نہ لگانا۔

            مگران روایات سے استدلال کمزورہے؛ اس لیے کہ ان میں اس مسلمان کامال لینے سے منع کیا گیا ہے جوکسی گناہ اورجرم کامرتکب نہ ہواہو؛ لیکن اگر کوئی مسلمان کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر جس طرح جسمانی سزا عائد کی جاسکتی ہے، اسی طرح مالی سزا بھی عائد کی جاسکتی ہے؛ اس لیے کہ مسلمان کا مال تو طیبِ نفس سے حلال ہوجاتا ہے؛ لیکن اس کی جان طیب نفس سے بھی حلال نہیں ہوتی؛  لہٰذا جب کسی مسلمان نے جرم کیا اور پھر سزا کے طور پر اس کی جان کو کوئی نقصان پہنچایا جائے تو یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔ تو پھر مال جو طیب نفس سے حلال ہوجاتا ہے وہ جرم کے ارتکاب میں بطریق اولیٰ جائز ہوجانا چاہیے (۷۶)۔

            ٭ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ مالی جرمانہ کاجوازمنسوخ ہوچکاہے اوراس پراجماع ہے:

          ٭ قال الطحاویؒ: فکانت العقوبات جاریۃ فیما ذکر فی ہذہ الآثار علی ما ذکر فیہا حتی نسخ ذلک بتحریم الربا , فعاد الأمر إلی أن لا یؤخذ ممن أخذ شیئا إلا مثل ما أخذ وإن العقوبات لا تجب فی الأموال بانتہاک الحرمات التی ہی غیر أموال۔ فحدیث سلمۃ  عندنا  کان فی الوقت الأول فکان الحکم علی من زنی بجاریۃ امرأتہ مستکرہا لہا، علیہ أن تعتق عقوبۃ لہ فی فعلہ، ویغرم مثلہا لامرأتہ۔ وإن کانت طاوعتہ ألزمہا جاریۃ زانیۃ وألزمہ مکانہا جاریۃ طاہرۃ ولم تعتق ہی بطواعیتہا إیاہ۔ وفرق فی ذلک، بینما إذا کانت مطاوعۃ لہ، وبینما إذا کانت مستکرہۃ ثم نسخ ذلک فردت الأمور إلی أن لا یعاقب أحد بانتہاک حرمۃ لم یأخذ فیہا مالا بأن یغرم مالا، ووجبت علیہ العقوبۃ التی أوجب اللّٰہ علی سائر الزناۃ۔ فثبت بما ذکرنا ما روی النعمان ونسخ ما روی سلمۃ بن المحبق(۷۷)۔

          ٭ قال البنانی فی حاشیتہ: ’’وہل یکون التعزیر بأخذ المال فی معصیۃ لاتعلق لہا بالمال أم لا الخ۔ یدل علی قصورہ ما ذکرہ ابن رشد فی رسم مساجد القبائل من سماع ابن القاسم من کتاب الحدود فی القذف ونصہ مالک لا یری العقوبات فی الأموال وإنما کان ذلک فی أول الإسلام من ذلک ما روی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مانع الزکاۃ أنہا تؤخذ منہ وشطر مالہ عزمۃ من عزمات ربنا وما روی عنہ علیہ الصلاۃ والسلام فی حریسۃ الجبل أن فیہا غرامۃ مثلہا وجلدات نکال وما روی عنہ علیہ الصلاۃ والسلام إن سلب من أخذ وہو یصید فی الحرم لمن أخذہ کان ذلک کلہ فی أول الإسلام وحکم بہ عمر بن الخطاب ثم انعقد الإجماع علی أن ذلک لا یجب وعادت العقوبات علی الجرائم فی الأبدان اہـ(۷۸)۔

          ٭ قال ابن رشدؒ: وقول ابن القاسم فی أنہ لا یتصدق من ذلک علی الغاش إلا بالشیء الیسیر أحسن من قول مالک؛ لأن الصدقۃ بذلک من العقوبات فی الأموال، والعقوبات فی الأموال أمر کان فی أول الإسلام، من ذلک ما روی عن النبی عَلَیْہِ السَّلَامُ  فی مانع الزکاۃ: إنما آخذہا منہ وشطر مالہ عزمۃ من عزمات ربنا، وما روی عنہ فیہ: حریسۃ الجبل أن فیہا غرامۃ مثلیہا وجلدات نکال، وما روی عنہ من أن من أخذ بصید فی حرم المدینۃ شیئا، فلمن أخذہ سلبہ، ومن مثل ہذا کثیر، ثم نسخ ذلک کلہ بالإجماع علی أن ذلک لا یجب، وعادت العقوبات فی الأبدان، فکان قول ابن القاسم أولی بالصواب استحسانا، والقیاس أن لا یتصدق من ذلک بقلیل ولا کثیر، وباللہ التوفیق(۷۹)۔

            مگربہت سے علماء کواس سے اتفاق نہیں ہے؛اس لیے کہ خلفاء راشدین اورصحابہ کاتعامل اس تصورنسخ کے خلاف ہے جیساکہ اس کاذکرپہلے آچکاہے،اورکچھ تفصیل آگے آرہی ہے۔

تعزیرمالی کے جوازکے دلائل

             جب کہ قائلین جواز کی دلیلوں میں بھی بڑادم ہے،مثلاً:

            ٭کوئی ایسی صریح دلیل موجودنہیں ہے جس میں مالی سزاؤں کی ممانعت کی گئی ہو۔

            ٭بلکہ متعددروایات سے ثابت ہوتاہے کہ بعض جرائم پرعہدنبوت میں بھی مالی سزائیں دی جاتی تھیں ،مثلاًحضرت بہزبن حکیم کی روایت میں ہے کہ حضور… نے ارشادفرمایا:جوزکوٰۃ ادانہیں کرے گااس سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی وصول کیاجائے گا:

          ٭ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ: سَمِعْتُ نَبِیَّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’فِی کُلِّ إِبِلٍ سَائِمَۃٍ۔ فِی کُلِّ أَرْبَعِینَ ابْنَۃُ لَبُونٍ. لَا تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِہَا. مَنْ أَعْطَاہَا مُؤْتَجِرًا فَلَہُ أَجْرُہَا، وَمَنْ مَنَعَہَا فَإِنَّا آخِذُوہَا مِنْہُ وَشَطْرَ إِبِلِہِ عَزْمَۃً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا لَا یَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْہَا شَیْئٌ‘‘ قال المحقق ارنؤوط: إسنادہ حسن(۸۰)۔

            ٭علامہ ابن تیمیہؒ اورعلامہ ابن قیمؒ اس موقف کے بہت مضبوط وکیل ہیں ، ان دونوں نے مشترکہ طورپرعہدنبوت اورعہدخلفاء راشدین کے کئی واقعات سے مالی جرمانہ کے جوازپراستدلال کیا ہے، مثلاً:

            ٭رسول اللہ …نے حرم مدینہ میں شکارکرنے والے کا شکار ضبط کرلینے کی اجازت دی ۔

            ٭شراب کے مٹکے اورظروف توڑدینے کاحکم فرمایا۔

            ٭ حضرت  عبدللہ بن عمرؓ کو زرد کپڑے جلادینے کاحکم فرمایا۔

            ٭خیبرکے دن ان ہانڈیوں کوتوڑدینے کاحکم فرمایاجن میں گھریلوگدہوں کے گوشت پکائے گئے تھے۔

            ٭عہدنبوت میں آپ …کے حکم سے مسجدضرارمنہدم کی گئی ۔

            ٭مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کا مال نذرآتش کیاگیا۔

            ٭ درختوں کے پھل وغیرہ کی چوری کرنے والے پرتاوان کی دگنی رقم مقرر کی گئی ۔

            ٭گم شدہ چیزچھپانے والے پرمالی تاوان زائد عائدکیاگیا۔

            ٭سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے والے کی انگوٹھی پھینک دی گئی ۔

            ٭ حضور…نے مسجدکی نماز باجماعت چھوڑنے والوں کے مکانات بھی جلانے کا ارادہ فرما لیا  تھا؛ لیکن پھرعورتوں اوربچوں کی وجہ سے ارادہ ترک فرمادیا۔

            ٭حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کوجلوادیاتھا بنی اسرائیل جس کی عبادت کرنے لگے تھے۔

            ٭حضرت عمربن الخطابؓ نے وہ مکان اورحضرت علی نے وہ بستی نذرآتش کرادی تھی جہاں شراب کاکاروبارہوتاتھا۔

            ٭حضرت سعد بن وقاصؓ نے ایک محل (دارالامارت) تعمیر فرما کر دربان مقرر کیاتھا، امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کواس کی اطلاع ملی توآپ نے وہ محل نذرآتش فرمادیا، اس حکم کی تنفیذ حضرت  محمدبن مسلمہ کے ذریعہ کرائی گئی ۔

            ٭جس دودھ میں ملاوٹ کی خبرملتی حضرت عمرفاروقؓ اس کوزمین پرپھینکوادیتے تھے (۸۱)۔

            ٭حضرت عمر نے زکوٰۃ ادانہ کرنے والوں کامال ضبط کرلینے کافرمان جاری کیاتھا (۸۲)۔

            ٭ حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب سے روایت ہے کہ حاطب کے غلاموں نے مزینہ کے ایک آدمی کی اونٹنی چرا کر ذبح کر لی۔ یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کثیر بن صلت کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں تم لوگ انھیں بھوکارکھتے ہو۔ مزید غور و فکر کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

            وَاﷲِ لَاُغَرِّمَنَّکَ غُرْمًا یَشُقُّ عَلَیْکَ۔ ثُمَّ قَالَ لِلْمُزَنِیِّ کَمْ ثَمَنُ نَاقَتِکَ؟ فَقَالَ الْمُزَنِیُّ: قَدْ کُنْتُ وَﷲِ اَمْنَعُہَا مِنْ اَرْبَعِ مِائَۃِ دِرْہَمٍ۔ فَقَالَ عُمَرُ رضی اللّٰہ عنہ اَعْطِہِ ثَمَانَ مِائَۃِ دِرْہَمٍ۔

            خدا کی قسم میں تمہیں اتنا تاوان کر دوں گا کہ تم تنگی محسوس کرو گے۔ پھر مزنی سے فرمایا کہ تمہاری اونٹنی کی قیمت کیا ہو گی؟ مزنی نے کہا کہ خدا کی قسم میں چار سو درہم میں بھی بیچنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے آٹھ سو (۸۰۰)درہم دو(۸۳)۔

            ٭حضرت سعد نے زیادتی کرنے والے غلام کوضبط فرمالیا،اوراس کے مالکان کوواپس نہیں کیا:

          عن عامر بن سعد، أن سعدًا رکب إلی قصرہ بالعقیق، فوجد عبدا یقطع شجرا، أو یخبطہ، فسلبہ، فلما رجع سعد، جائہ أہل العبد فکلموہ أن یرد علی غلامہم أو علیہم  ما أخذ من غلامہم، فقال: ’’معاذ اللّٰہ أن أرد شیئا نفلنیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وأبی أن یرد علیہم‘‘(۸۴)۔

             عہدنبوت سے عہدصحابہ تک کے یہ تمام  واقعات بلاشبہ مالی سزاؤں سے متعلق ہیں ،اگر مالی سزاکاحکم منسوخ ہوچکاہوتاتوخلفاء راشدین کواس کی خبرکیوں نہیں تھی؟ اس سے اس دعوائے اجماع کی حقیقت بھی منکشف ہو جاتی ہے جوبعض علماء کی جانب سے پیش کیاگیا ہے۔

            ٭جہاں تک حکام کی بدعنوانیوں کاسوال ہے تویہ اندیشے ہرجگہ ممکن ہیں ، ان کے تدارک کے لیے مضبوط نظام العمل بنایاجاسکتاہے اوران اندیشوں سے بچاجاسکتاہے۔

ترجیح اوروجوہ ترجیح

             ان مضبوط دلائل کے پیش نظرعدم جوازکے مقابلے میں جواز کامسلک موجودہ حالات میں زیادہ لائق ترجیح محسوس ہوتاہے،اوراس کی کئی وجوہ ہیں :

            ٭یہ تصورخلاف واقعہ ہے کہ مالی سزااسلام کے مزاج کے خلاف ہے،اگرمالی  سزائیں اسلام کے مزاج کے خلاف ہوتیں تومختلف صورتوں میں دیت یامالی کفارات کاحکم صادر نہ کیاجاتا،جب حدوداورکفارات کی صورتوں میں مالی سزائیں موجودہیں توتعزیرات میں مالی سزاکی گنجائش کیوں ممکن نہیں ، فرق صرف تعین اورعدم تعین کاہے،نفس سزامیں کوئی تفاوت نہیں ہے،دیت وکفارات کی آیات کریمہ ملاحظہ کریں :

          وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُواْ فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ وَکَانَ اللّہُ عَلِیمًا حَکِیمًا(۸۵)۔

           ٭ لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِکُمْ وَلَـکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِینَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ(۸۶)۔

          ٭ وَالَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَائِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌO  فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِینًا ذَلِکَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ(۸۷)۔

            ٭ دوسری بات یہ ہے کہ تعزیزکاتعلق جب حاکم کی صواب دیدسے ہے تواس سے مالی عقوبات کے استثناء کے کوئی معنیٰ نہیں ،بعض صورتوں میں مجرم کے لیے مالی سزائیں جتنی مؤثرہوتی ہیں ، غیرمالی سزاؤں کاوہ اثرنہیں ہوتا۔جس طرح کہ زانی کے متعلق حکم ہے کہ اگرحاکم مناسب سمجھے تو بہ طور تعزیر  اس کوجلاوطن کرسکتا ہے۔غورکیجیے توجلاوطنی کامالی نقصانات سے بھی گہراتعلق ہے۔

            ٭آج کے دورمیں مختلف معاملات میں مالی تعزیرات کا رواج اتناعام ہوگیاہے کہ اس سے بچنا بہت مشکل ہے،اسلامی قانون میں عرف اورتعامل کی بڑی اہمیت ہے اوراس کوترک کرنے میں جو حرج ہوسکتاہے اس کے لیے رفع حرج بھی معیاربن سکتاہے۔

            ٭ نیزضرورت وحاجت کے وقت فقہاء نے دوسرے مذہب یااپنے ہی مذہب کے قول ضعیف پرعمل اورفتویٰ کی اجازت دی ہے،اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

            ٭اسی طرح فقہاء کااتفاق ہے کہ تعزیرات کے معیارمیں زمان ومکان کے لحاظ سے فرق  ہوسکتاہے،اس دورمیں مالی جرمانہ (پلانٹی)کوجس طرح ہرمسئلے میں بنیادمان لیاگیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ قدیم معیارترک کرکے تعزیرکے نئے معیار(یعنی تعزیرمالی)کواختیارکیاجائے۔

            قال القرافی: إن التعزیر یختلف بإختلاف الأمصار والأمصار، فرب تعزیر فی بلاد یکون إکراما فی بلد اخر کقلع الطیلسان بمصر تعزیر وفی الشام إکرام(۸۸)۔

            ٭ عصرحاضرمیں جسمانی سزاؤں کااختیارصرف حکومتوں کے ہاتھ میں ہے،حکومت کی اجازت کے بغیرکسی کوجسمانی سزادیناغیرقانونی اورباعث فتنہ ہے،ایسی صورت میں مالی تعزیرات کے علاوہ کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہ جاتی؛ لہٰذا بہ صورت مجبوری حضرت امام ابویوسف ؒکے قول پرفتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

            اورچونکہ تعزیرات میں حدودکی طرح حاکم کی اجازت شرط نہیں ہے؛بلکہ عام آدمی بھی قانون تعزیرات سے استفادہ کرسکتا ہے،اس لحاظ سے موجودہ دورمیں تعزیرات مالیہ کونافذ کرناغیرشرعی نہیں ہوگا۔

          وَقَالَ التُّمُرْتَاشِیُّ: یَجُوزُ التَّعْزِیرُ الَّذِی یَجِبُ حَقًّا لِلَّہِ تَعَالَی لِکُلِّ أَحَدٍ بِعِلَّۃِ النِّیَابَۃِ عَنْ اللَّہِ وَسُئِلَ أَبُو جَعْفَرٍ الْہِنْدُوَانِیُّ عَمَّنْ وَجَدَ رَجُلًا مَعَ امْرَأَۃٍ أَیَحِلُّ لَہُ قَتْلُہُ؟ قَالَ: إنْ کَانَ یَعْلَمُ أَنَّہُ یَنْزَجِرُ عَنْ الزِّنَا بِالصِّیَاحِ وَالضَّرْبِ بِمَا دُونَ السِّلَاحِ لَا یَقْتُلُہُ۔ وَإِنْ عَلِمَ أَنَّہُ لَا یَنْزَجِرُ إلَّا بِالْقَتْلِ حَلَّ لَہُ قَتْلُہُ، وَإِنْ طَاوَعَتْہُ الْمَرْأَۃُ یَحِلُّ قَتْلُہَا أَیْضًا۔ وَہَذَا تَنْصِیصٌ عَلَی أَنَّ الضَّرْبَ تَعْزِیرٌ یَمْلِکُہُ الْإِنْسَانُ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ مُحْتَسِبًا، وَصَرَّحَ فِی الْمُنْتَقَی بِذَلِکَ، وَہَذَا لِأَنَّہُ مِنْ بَابِ إزَالَۃِ الْمُنْکَرِ بِالْیَدِ۔ وَالشَّارِعُ وَلَّی کُلَّ أَحَدٍ ذَلِکَ حَیْثُ قَالَ (مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ) الْحَدِیثَ(۸۹)۔

            ٭ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ حضرت امام ابویوسفؒچونکہ خودقاضی؛ بلکہ قاضی القضاۃ تھے اوران چیزوں کاعملی تجربہ بھی رکھتے تھے؛اس لیے ان کا قول دلائل کے ماسواتجربات اور واقعیت پر بھی مبنی ہے،اورچونکہ تعزیرات کاتعلق زیادہ ترمحکمۂ قضاسے ہے؛اس لیے ان میں امام ابویوسفؒ کے قول کوترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم۔

٭        ٭        ٭

حواشی

(۳۱)       البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ، مکان النشر بیروت۔

(۳۲)      شرح مشکل الآثار ج ۸ ص ۴۰۴ حدیث نمبر:۳۳۴۳، المؤلف: أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامۃ بن عبد الملک بن سلمۃ الأزدی الحجری المصری المعروف بالطحاوی (المتوفی:۳۲۱ہـ) تحقیق: شعیب الأرنؤوط الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ الطبعۃ: الأولی ۱۴۱۵ہـ/۱۹۹۴م عدد الأجزاء:۱۵-۱۶، وجزء للفہارس)

(۳۳)      شرح معانی الآثارج ۳ ص ۱۴۶ المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامۃ بن عبدالملک بن سلمۃ أبو جعفر الطحاوی الناشر: دار الکتب العلمیۃ – بیروت، الطبعۃ الأولی۱۳۹۹ھـ۔

                تحقیق: محمد زہری النجارعدد الأجزاء: ۴۔

(۳۴)      شرح معانی الآثارج ۳ ص ۱۴۶ حدیث نمبر: ۴۵۱۰ المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامۃ بن عبدالملک بن سلمۃ أبو جعفر الطحاوی الناشر: دار الکتب العلمیۃ – بیروت۔ الطبعۃ الأولی ۱۳۹۹، تحقیق: محمد زہری النجار عدد الأجزاء: ۴۔

(۳۵)      نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبارعلی شرح معانی الآثار للامام بدرالدین عینی (م ۸۷۵ھـ) کتاب الحدود، الرجل یزنی بجاریۃ امرأتہ ج ۱۵ ص ۴۸۱ تا ۵۰۰ مطبوعہ وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیۃ قطر، ۱۴۲۹ھـ  مطابق ۲۰۰۸ء۔

(۳۶)       معین الحکام فیما یتردد بین الخصمین من الأحکام ج ۲ ص ۴۴۹ المؤلف: علی بن خلیل الطرابلسی، أبو الحسن، علاء الدین (المتوفی:۸۴۴ہـ) مصدر الکتاب: موقع الإسلام۔

(۳۷)  مشکل الآثار للطحاوی ج ۴ ص ۲۰۸۔

(۳۸)  فتح القدیر ج ۵ ص ۳۴۵ کمال الدین محمد بن عبد الواحد السیواسی سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۶۸۱ہـ الناشر دار الفکر، مکان النشر بیروت۔

            عدد الأجزاء۔

(۳۹)   العنایۃ شرح الہدایۃ ج ۷ ص ۳۰۲ المؤلف: محمد بن محمد البابرتی (المتوفی: ۷۸۶ہـ) مصدر الکتاب: موقع الإسلام۔

(۴۰)  تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشِّلْبِیِّ ج ۳ ص ۲۰۸ المؤلف: عثمان بن علی بن محجن البارعی، فخر الدین الزیلعی الحنفی (المتوفی: ۷۴۳ہـ) الحاشیۃ: شہاب الدین أحمد بن محمد بن أحمد بن یونس بن إسماعیل بن یونس الشِّلْبِیُّ (المتوفی:۱۰۲۱ہـ) الناشر: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ – بولاق، القاہرۃ، الطبعۃ: الأولی ۱۳۱۳ہـ۔

(۴۱)   فتاوی بزازیۃ علی الہندیۃ ج ۶ ص ۴۲۷ المطبعۃ الکبری الامیریۃ، بولاق مصر ۱۳۱۰ھـ۔

(۴۲)  فتاویی بزازیۃ علی الہندیۃ ج ۶ ص ۴۲۷ المطبعۃ الکبری الامیریۃ، بولاق مصر ۱۳۱۰ھـ۔

(۴۳)  الفتاوی التتارخانیۃ ج ۶ ص  ۴۰۱-۴۰۲ ترتیب وتخریج مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآباد، مطبوعہ مکتبہ زکریادیوبند۔

(۴۴)  واقعات المفتین  ص ۵۹ المطبعۃ المنیریۃ مصر۔

(۴۵)  الفتاویی التتارخانیۃ ج ۶ ص ۴۰۱-۴۰۲ ترتیب وتخریج مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآباد، مطبوعہ مکتبہ زکریادیوبند۔

(۴۶)   البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ، مکان النشر بیروت۔

(۴۷)  البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ، مکان النشر بیروت۔

(۴۸)  تحفۃ الترک فیما یجب ان یعمل فی الملک، الفصل الخامس فی الکشف عن القضاء اونوابھم ص ۴۹۔

(۴۹)   المتانۃ ص ۵۴۵ بحوالہ احسن الفتاوی ج ۵ ص ۵۵۳۔

(۵۰)   مجموعۃ الفتاوی ج ۳ ص ۴۸، مطبوعہ قیومی کانپور۔

(۵۱)    حاشیۃ شرح وقایۃ ج ۵ ص ۳۰۸۔

(۵۲)   فتاوی امارت شرعیہ: ۱؍۲۵۷،۲۹۰۔

(۵۳)  فتاوی حقانیہ ج ۲ ص ۳۳۴ مطبوعہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ۔

(۵۴)  معین القضاۃ والمفتین ج ۱ ص ۷۰، مطبوعہ میر محمد کتب خانہ ۔

(۵۵)   منتخبات نظام الفتاوی ج ۳ ص ۳۷۶ مطبوعہ دیوبند۔

(۵۶)   دارالقضاء کے فیصلے ص مطبوعہ امارت شرعیہ پٹنہ۔

(۵۷)  تقریرترمذی ج ۲ ص ۱۱۸ مطبوعہ دیوبند۔

(۵۸)  بلغۃ السالک لأقرب المسالک ج ۴ ص ۲۶۸ أحمد الصاوی تحقیق ضبطہ وصححہ: محمد عبد السلام شاہین الناشر دار الکتب العلمیۃ سنۃ النشر۱۴۱۵ہـ -۱۹۹۵م مکان النشر لبنان؍ بیروت، عدد الأجزاء۴۔

(۵۹)   حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر ج ۴ ص ۳۵۵ محمد عرفہ الدسوقی تحقیق محمد علیش الناشر دارالفکر مکان النشر بیروت عدد الأجزاء ۴۔

(۶۰)   الشرح الکبیر و حاشیۃ الدسوقی ۳/۴۶، ط: دار الفکر۔

(۶۱)    تبصرۃ الحکام فی أصول الأقضیۃ ومناہج الأحکام ج ۵ ص ۲۷۴ المؤلف: إبراہیم بن علی بن محمد، ابن فرحون، برہان الدین الیعمری (المتوفی:۷۹۹ہـ)۔

(۶۲)   الحسبۃ لابن تیمیۃ ص ۷۵ المؤلف: تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیۃ الحرانی (المتوفی:۷۲۸ہـ) عدد الصفحات:۵۰۔

(۶۳)   الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ج ۱۲ ص ۲۷۰ صادر عن: وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ – الکویت عدد الأجزاء: ۴۵ جزء ۱ الطبعۃ: (من ۱۴۰۴-۱۴۲۷ہـ)۔

            الأجزاء: ۱-۲۳ الطبعۃ الثانیۃ، دارالسلاسل، الکویت۔ الأجزاء: ۲۴-۳۸، الطبعۃ الأولی، مطابع دارالصفوۃ  مصر ۔ الأجزاء: ۳۹-۴۵، الطبعۃ الثانیۃ، طبع الوزارۃ۔

(۶۴)   الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ج ۱۲ ص ۲۷۰ صادر عن: وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ – الکویت عدد الأجزاء: ۴۵، جزء ۱ الطبعۃ: (من ۱۴۰۴-۱۴۲۷ہـ)۔

            الأجزاء: ۱-۲۳ الطبعۃ الثانیۃ، دارالسلاسل، الکویت۔ الأجزاء: ۲۴-۳۸، الطبعۃ الأولی، مطابع دارالصفوۃ  مصر ۔ الأجزاء: ۳۹-۴۵، الطبعۃ الثانیۃ، طبع الوزارۃ۔

(۶۵)   حاشیتا قلیوبی وعمیرۃ ج ۱۵ ص ۳۰۴ المؤلف: شہاب الدین القلیوبی (المتوفی: ۱۰۶۹ہـ) وأحمد البرلسی عمیرۃ (المتوفی: ۹۵۷ہـ) ہی حاشیۃ علی کتاب المنہاج للنووی (المتوفی: ت ۶۷۶ہـ)۔ حواشی الشروانی والعبادی ج ۹ ص ۱۲۹ المؤلف: عبد الحمید المکی الشروانی (المتوفی: ۱۳۰۱ہـ) و أحمد بن قاسم العبادی (المتوفی:۹۹۲ہـ) الکتاب حاشیۃ علی تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج لابن حجر الہیتمی (المتوفی: ۹۷۴ہـ) الذی شرح فیہ المنہاج للنووی (المتوفی: ۶۷۶ہـ) مصدر الکتاب: موقع یعسوب (ترقیم الکتاب موافق للمطبوع) نہایۃ المحتاج إلی شرح المنہاج ج ۲۶ ص ۲۵۳ المؤلف: شمس الدین محمد بن أبی العباس أحمد بن حمزۃ شہاب الدین الرملی (المتوفی: ۱۰۰۴ہـ) ہو شرح متن منہاج الطالبین للنووی (المتوفی ۶۷۶ہـ)۔

(۶۶)   الأم للشافعی، ۴/۲۶۵، ط: دار المعرفۃ۔

(۶۷)   المجموع شرح المھذب،  ۲۰/۱۲۵، دار الفکر۔

(۶۸)   المغنی فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی ج ۱۰ ص ۳۲۴ المؤلف: عبد اللہ بن أحمد بن قدامۃ المقدسی أبو محمد الناشر: دار الفکر – بیروت الطبعۃ الأولی ۱۴۰۵ھـ۔

            عدد الأجزاء: ۱۰۔ کشاف القناع عن متن الإقناع ج ۲۰ ص ۴۸۹ المؤلف: منصور بن یونس بن إدریس البہوتی (المتوفی: ۱۰۵۱ہـ) ی شرح منتہی الإرادات المسمی دقائق أولی النہی لشرح المنتہی ج ۳ ص ۳۶۶ منصور بن یونس بن إدریس البہوتی سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۱۰۵۱ الناشر عالم الکتب سنۃ النشر ۱۹۹۶، مکان النشر بیروت۔ عدد الأجزاء ۳۔

(۶۹)    فتاوی ابن تیمیہ: ۲۸/۱۱۱۔

(۷۰)  مختصر الفتاوی المصریۃ لابن تیمیۃ ج ۱ ص ۳۴۱ بدر الدین أبو عبد اللہ محمد بن علی الحنبلی البعلی سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۷۷۷ہـ تحقیق محمد حامد الفقی، الناشر دار ابن القیم، سنۃ النشر ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶، مکان النشر الدمام – السعودیۃ، عدد الأجزاء ۔

(۷۱)   الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ لابن قیم ج ۲۲ ص ۱۹۔ جامع الفقہ لإبن القیم: ۶/۵۴۹-۵۵۰، ترتیب، یسریٰ السید محمد (ط: دارالصفاء، بیروت)۔

(۷۲)  البقرۃ: ۱۸۸۔

(۷۳)  النساء: ۲۹۔

(۷۴)  مسند الإمام أحمد: ۳۴/۳۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵، ت: شعیب أیرناؤط، ط: مؤسسۃ الرسالۃ عام ۱۴۲۱ھـ۔ ومسند ایبویعلی: ۳/۱۰۴، رقم: ۱۵۰۷، ت: حسین سلیم، ط: دارالمأمون للتراث- دمشق عام ۱۴۰۴ھـ۔

(۷۵)  سنن الدارقطنی، ۳/۴۲۳، ط: مؤسسۃ الرسالۃ مسند احمد بن حنبل ۲۰۶۹۵۔

(۷۶)   مولانا تقی عثمانی، درس ترمذی۔

(۷۷)  شرح معانی الآثار، ۳/۱۴۶، ط: عالم الکتب۔ اس عبارت کی تشریح پہلے گذر چکی ہے۔

(۷۸)  شرح الزرقانی علی مختصر الخلیل و حاشیۃ البنانی، ۸/۲۰۱، ط: دار الکتب العلمیۃ۔

(۷۹)   البیان و التحصیل، ۹/۳۲۰، ط: دار الغرب الإسلامی۔

(۸۰)  سنن أبی داود، ۳/۲۶، ط: دار الرسالی العالمیۃ۔ مسند الإمام أحمد بن حنبل ج ۳۳ ص ۲۲۰ حدیث نمبر:۲۰۰۱۶ المؤلف: أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (المتوفی: ۲۴۱ہـ) المحقق: شعیب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون إشراف: د عبد اللّٰہ بن عبد المحسن الترکی الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ الطبعۃ: الأولی ۱۴۲۱ھـ/۲۰۰۱م، إسنادہ حسن، بہز بن حکیم وأبوہ صدوقان. وأخرجہ عبد الرزاق (۶۸۲۴)، وابن أبی شیبۃ ۳/۱۲۲، وأبو عبید فی ’’الأموال‘‘ (۹۸۷)، وابن زنجویہ فی ’’الأموال‘‘ (۱۴۴۳)، والدارمی (۱۶۷۷)، وأبو داود (۱۵۷۵)، والنسائی ۵/۲۵، وابن خزیمۃ (۲۲۶۶)، والطحاوی فی ’’شرح معانی الآثار‘‘ ۲/۹ و ۳/۲۹۷، والطبرانی فی ’’الکبیر‘‘ (۹۸۴) و (۹۸۵) و (۹۸۶) و (۹۸۷) و (۹۸۸)، والحاکم  ۱/۳۹۸، وابن حزم فی ’’المحلی‘‘ ۶/۵۷، والبیہقی ۴/۱۰۵ و ۱۱۶، والخطیب فی ’’تاریخہ‘‘ ۹/۴۴۸ من طرق عن بہز بن حکیم، بہذا الإسناد۔

            و قال الأعظمی: إسنادہ حسن (صحیح ابن خزیمۃ ج ۴ ص ۱۸ حدیث نمبر: ۲۲۶۶، المؤلف: محمد بن إسحاق بن خزیمۃ أبو بکر السلمی النیسابوری الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، ۱۳۹۰/۱۹۷۰ تحقیق: د۔ محمد مصطفی الأعظمی عدد الأجزاء: ۴، الأحادیث مذیلۃ بأحکام الأعظمی والألبانی علیہا)۔

(۸۱)   الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ ج ۲۲ ص ۱۹۔

(۸۲)  السندی ۷/۶۰۴، ۱/۶۰۵، والبزازیۃ ۲/۴۵۷، وابن عابدین ۳/۱۸۴۔

(۸۳)  مؤطأ امام مالکؒ ج ۲: ۷۴۸، رقم: ۱۴۳۶، دار احیاء التراث العربی مصری مصنف عبد الرزاق، ۱۰/۲۳۹، المجلس العلمی- الھند۔

(۸۴)  صحیح مسلم، ۲/۹۹۳، دار احیاء التراث العربی۔

(۸۵)  النساء: ۹۲۔

(۸۶)   الْمَآئِدَۃ: ۸۹۔

(۸۷)  الْمُجَادَلَۃ: ۳-۴۔

(۸۸)  الفروق: ۴/۱۸۳، الفرق السادس والأربعون والمائتان۔

(۸۹)   شرح فتح القدیر ج ۴ ص ۳۴۶ کمال الدین محمد بن عبد الواحد السیواسی سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۶۸۱ہـ، الناشر دار الفکر، مکان النشر  بیروت عدد الأجزاء۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts