از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنا اوراسے خرچ نہ کرنا، انسانی فطرت میں داخل ہے، اسلام نے ان دونوں میں اعتدال کی تعلیم دی ہے، حرص و ہوس، بد دیانتی اور خیانت سے بچنے کی تلقین کی ہے، عام طور سے معاملات کو مبہم رکھنے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، آج کل مسلمانوں کے درمیان زیادہ جھگڑے اسی بنیاد پر ہورہے ہیں ، مال کا جھگڑا شدت اختیار کرلیتا ہے تو رشتوں میں بدمزگیاں پیداہوجاتی ہیں ، مرنے اور مارنے پر فریقین اترآتے ہیں ؛ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملات کی صفائی کا حکم ارشاد فرمایا، خرید وفروخت میں دستاویز لکھوائے (ترمذی:۱۲۴) قرآنِ پاک میں معاملات کو لکھنے کا حکم بھی صراحت کے ساتھ دیاگیا (بقرہ:۲۸۲) فقہائے امت نے لین دین کی ہر قسم کو واضح کرنے کی رہنمائی کی، معاملے کے ہر ہر جزو کی شرعی حیثیت متعین فرمائی۔

            آج کل باپ بیٹے کے درمیان کاروبار کی مشترکہ شکلیں مشکلات پیدا کررہی ہیں ، اگر باپ اپنی اولاد کو کاروبار میں شریک کرنے سے پہلے ہی یہ واضح کردے کہ

             (۱) تم میرے معاون ہو کاروبار میں تمہارا کوئی حق نہیں ، میں تمہاری پرورش کرتاہوں ، جملہ اخراجات برداشت کرتاہوں ، یہی اس کا عوض ہے تو اولاد والد کے مرنے کے بعد کاروبار میں شرکت کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

            (۲) اسی طرح اگر والد پہلے ہی یہ وضاحت کردے کہ تمہاری حیثیت اجیر اور نوکر کی ہے اور روزانہ یا ماہانہ یا سہ ماہی یا سالانہ اُجرت متعین ہو تو بھی والد کے مرنے کے بعد اولاد کاروبار میں اپنی شرکت کا دعویٰ نہیں کرسکتی؛ اس لیے کہ اجیر اُجرت کا مستحق ہوتا ہے، رأس المال میں اس کی کوئی شرکت نہیں ہوتی۔

            (۳) یا والد یہ وضاحت کردے کہ فلاں ، فلاں اولاد میرے کاروبار میں شریک ہے اوراس کی شرکت کی مقدار بھی متعین کردے مثلاً دس فی صد، بیس فی صد وغیرہ تو والد کی وفات کے بعد کاروبار میں شرکت پر دوسری اولاد کو اعتراض کا حق نہ ہوگا؛ خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔

            مذکورہ بالا وضاحت اگر شروع معاملہ میں ہی کردی جائے تو بعد میں اولاد کے درمیان جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی۔ بعض لوگ مذکورہ بالا نوعیت متعین نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ اس کو باعثِ شرم و عار محسوس کرتے ہیں ، پھر بعد میں سرپھُٹوَّل کی نوبت آجاتی ہے؛ اس لیے ذیل میں چندصورتیں لکھی جاتی ہیں اور اُن کا حکم بیان کیاجاتا ہے؛ تاکہ اولاد کے درمیان اختلاف رفع ہوجائے۔

۱- باپ بڑے بیٹے کو بلاکسی وضاحت کے اپنے ساتھ کرلے

            اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باپ کاروبار شروع کرتا ہے اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھتا ہے، بڑے بیٹے کا کوئی سرمایہ کاروبار میں نہیں ہوتا، اسی طرح باپ بیٹے کے اجیر یا شریک یا معاون ہونے کی صراحت بھی نہیں کرتا، اسی انداز سے کاروبار چلتا رہتا ہے اور باپ کی وفات ہوجاتی ہے تو ترکہ کی تقسیم کے وقت دیکھا جائے گا کہ بیٹا باپ کی کفالت میں تھا یا نہیں ؟ اگر بیٹا باپ کی کفالت اور اس کی پرورش میں تھا، اس کے جملہ اخراجات باپ ہی برداشت کرتا تھا تو بیٹے کو باپ کا معاون قرار دیا جائے گا اور ترکہ ساری اولاد میں فرائض کے اصول کے مطابق تقسیم ہوگا۔ بڑے بیٹے کو یہ کہنے کا حق نہیں ہوگا کہ میں نے پورا کاروبار سنبھالا تھا؛ اس لیے تنہا میں ہی اس کا حق دار ہوں۔

            فتاویٰ مہدیہ کی ایک عبارت میں اس مسئلہ کی صراحت موجود ہے:

          سئل في رجل مات عن ثلاثۃ أولاد ذکور وکان في حیاتہ معہ من الثلاثۃ إثنان في کسبٍ واحدٍ ومعیشۃ واحدۃٍ والثالث من حَمَلَۃِ القرآن في معیشۃ علی حدتہٖ وجمیع کسب المیت والولدین لا یتمیز الخ أجاب: جمیع ما ترکہ الأب المذکور یقسم بین أولادہ الثلاثۃ بالسویۃ حیث لا وارث لہ سواہم ولیس للاثنین الذین ہما في عائلۃ أبیہم ومعیناہُ لہ منع أخیہما عما یخصہ في ترکۃ والدہ بدون وجہ شرعي۔ (۲/۳۱۴ مصر)

            ترجمہ: ’’ایک ایسے آدمی کے بارے میں استفتاء کیاگیا جس نے تین لڑکے چھوڑے تھے ان تینوں میں سے دو لڑکے باپ کی زندگی میں ایک آمدنی اور ایک کاروبار میں تھے اور تیسرابیٹا الگ کاروبار میں حاملینِ قرآنِ پاک میں تھا، (صورتِ حال یہ ہے کہ ) میت اور دونوں لڑکوں کی کمائی ایک ساتھ ہے۔ تو اس کا ’’جواب‘‘ اس طرح دیا کہ مذکورہ باپ کا سارا ترکہ تینوں بیٹوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا جب کہ ان کے علاوہ کوئی اوراس کا وارث نہ ہو اور وہ دونوں لڑکے جو باپ کی پرورش و پرداخت میں جنھوں نے باپ کی مدد کی ہے ان کو اپنے تیسرے بھائی کو باپ کے ترکہ سے روکنے کا حق شرعی دلیل کے بغیر نہ ہوگا۔‘‘

            اگر بیٹا باپ کی کفالت اور اس کی عیال داری میں نہ ہو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچہ خود برداشت کرتا ہو اور باپ نے اس کو اپنے کاروبار میں بلاکسی صراحت کے شریک کیا ہو، بیٹے نے اپنا سرمایہ بھی نہ لگایا ہوتو وفات کے بعد نزاع کی صورت میں بیٹے کو معروف اجرتِ عمل دی جائے گی، اس کے بعد ترکہ کی تقسیم عمل میں آئے گی، پھر یہ بیٹا ترکہ میں بھی حصۂ شرعی کا مستحق ہوگا، ’’فقہ اکیڈمی دہلی‘‘ کے فقہی اجتماع میں یہی فیصلہ اہل علم علماء نے کیاہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (کاروبار میں اولاد کی شرکت، ص۱۵، ایفا پبلی کیشنز)

            میرے خیال میں اجرتِ عمل کی حیثیت قرض سے مشابہ لازمی ادائیگی کی ہے؛ اس لیے کہ پوری محنت کرنے والے لڑکے کو کچھ نہ دینا ظلم ہے اور  سارا دے دینا دوسرے ورثاء پر ظلم ہے اور کاروبار میں سب کو برابر تصور کرنا بھی عدل نہیں ہے۔

            کسی بھی صنعت میں بیٹے کو باپ کا معاون ثابت کرنے کے لیے شرکتِ صنائع کی ایک عبارت پیش کی جاتی ہے:  ’’الأبُ وابنُہ یکتسبان في صنعۃ واحدۃ ولم یکن لہما شيء، فالکسب کلہ للأب إن کان الابن في عیالہ لکونہ معینا لہ۔ (ردالمحتار)  اس عبارت میں تین شرطیں بیان کی گئی ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ کاروبار ایک ہو، دوسری یہ کہ دونوں کے پاس مال نہ ہو، تیسری یہ کہ بیٹا باپ کی کفالت، پرورش اور عیال داری میں ہو یعنی باپ بیٹے کے پورے اخراجات برداشت کرتاہو۔ یہاں تیسری شرط مفقود ہے، اس کی وضاحت فتاویٰ مہدیہ میں ہے:  ۔۔۔۔ فہو مشروط کما یعلم من عبارتہم بشروط: منہا اتحاد الصنعۃ وعدم مال سابق لہما وکون الابن في عیال أبیہ فإذا عدم واحد منہا لا یکون کسب الابن للأب۔ (۲/۳۵۶، ۲/۴۰۴ مصر)

            ترجمہ: مذکورہ بالاعبارت چند شرطوں سے مشروط ہے: ان میں سے کاروبار کا ایک ہونا ہے اور دونوں کے پاس پہلے سے مال کا نہ ہونا ہے اور بیٹے کا باپ کی کفالت میں ہونا، پس جب ان دونوں میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوگی تو بیٹے کی کمائی باپ کی نہیں ہوگی۔

            (نوٹ) چوں کہ یہ عبارت شرکت صنائع سے متعلق ہے؛ اس لیے اس سے یہاں استدلال نہیں کرنا چاہیے۔

۲- اگر بیٹا بلاکسی معاہدے کے سرمایہ لگائے

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹا باپ کے ساتھ کاروبار میں محنت کرتا ہے اور بلاکسی معاہدے کے اپنا کچھ سرمایہ بھی کاروبار میں لگاتا ہے، نفع کی کوئی مقدار متعین نہیں کرتا، باپ جو بھی دیتا ہے وہ لے لیتا ہے، باپ کی وفات کے بعد اگر بیٹا خود یہ وضاحت کرے کہ اس کا دیا ہوا سرمایہ والد صاحب کو بہ طور ہبہ اور تبرع تھا اس نے تعاون کے لیے دیا تھا تو سارا سرمایہ ترکہ میں تقسیم ہوگا۔

            اور اگر بیٹا قرض کی صراحت کرتا ہے تو جملہ قرضوں کی طرح باپ کے ترکہ سے اس کو بلاکسی اضافے کے پورا سرمایہ واپس ہوگا۔

            اور اگر کاروبار میں اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے (اس کا دعویٰ کرنا شرکت کا قرینہ ہے) تو اس کو سرمایہ کی مقدار کے تناسب سے شریک مانا جائے گا، چاہے بیٹا باپ کی کفالت میں رہتا ہو یا الگ تھلگ رہتا ہو، مبسوط کی عبارت اس کی تائید کرتی ہے:

          فإذا خلطا المالین علی وجہ لا یمکن تمییز أحدہما عن الآخر فقط ثبتت الشرکۃ في الملک فیبني علیہ شرکۃ العقد۔ (مبسوط: ۱۱/۱۵۲)

            ترجمہ: جب دو طرح کے سرمایہ کو دو آدمی اس طرح ملادیں کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں تو شرکتِ ملک ثابت ہوگئی، لہٰذا اس پر شرکت عقد کی بنا ہوجائے گی۔

            دو آدمیوں کے مالوں کا برابر ہونا بھی ضروری نہیں ہے، جیساکہ عالم گیری میں ہے:

          والمساواۃ في رأس المال لیست بشرط فما کان من ربحٍ فہو بینہما علی قدر رؤوس أموالہما۔ (ہندیۃ:۲/۳۲۰)

            ترجمہ: شرکت (عقد) میں اصل سرمایہ میں برابری شرط نہیں ہے، لہٰذا جو بھی نفع ہوگا، وہ دونوں کے درمیان اصل سرمایہ کی مقدار کے لحاظ سے تقسیم ہوجائے گا۔

۳- باپ کے سرمایہ سے بیٹے کا کاروبار

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ کے سرمایہ سے بیٹے کوئی کام شروع کرتے ہیں اور آمدنی باپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور وہ باپ کی کفالت میں ہی زندگی بسر کرتے ہیں ، باپ اس کے جملہ اخراجات برداشت کرتا ہے تو اگر باپ نے ہبہ اور عطیہ کی کوئی صراحت نہ کی ہو تو ساری ملکیت باپ کی ہوگی اور بچے ان کے معاون ومناصر کہلائیں گے؛ کم محنت کرنے والے بھی اور زیادہ محنت کرنے والے بھی۔ باپ کی وفات کے بعد سارا کاروبار منافع کے ساتھ ترکہ ہوگا، سارے بیٹوں کو حصۂ رسد ملے گا۔

            اور اگر باپ ہبہ کی صراحت کردے تو کاروبار کی ملکیت بیٹوں کی سمجھی جائے گی، چاہے وہ کاروبار الگ الگ کررہے ہوں یا ایک ساتھ۔ باپ کی زندگی میں اور وفات کے بعد دونوں کا حکم یہی ہے۔

            اور اگر بیٹے باپ کی پرورش وکفالت میں نہیں ہیں اور سب کو باپ نے سرمایہ دیا ہے اور الگ الگ سب اپنی آمدنی استعمال کررہے ہیں تو اس صورت میں کاروبار کے مالک بیٹے ہوں گے، باپ کے مرنے کے بعد وہ ترکہ نہیں بنیں گے۔

۴- بیٹوں کو کمپنی میں شریک کرنا

            باپ کبھی بیٹوں کو کمپنی میں شریک کرتا ہے، یہ شرکت کبھی تو کمپنی کی ملکیت میں ہوتی ہے اور وہ فی صد کے حساب سے ہوتی ہے، یہ شرکت باپ کی طرف سے ’’ہبہ‘‘ کہلائے گی، اس پر مالکانہ قبضہ اور تصرف کا حق دینا ضروری ہوگا، آئندہ نزاع کے نہ ہونے کی پیش بندی کے لیے کاغذی کارروائی بھی کرانا ضروری ہے، قبضہ دیے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا ہے:

          وتتم الہبۃُ بالقبض الکامل (الدرالمختار مع رالمحتار ۸/۴۹۳ زکریا) أن یصیر الشيء في حیز القابض۔ (الدر المنتقی ۳/۴۹۰)

            ترجمہ: ’’اور ہبہ مکمل قبضہ دینے کے بعد پوراہوتا ہے۔‘‘ ’’اس طرح کہ چیز قبضہ کرنے والے کی دسترس میں ہوجائے۔‘‘

            اور کبھی باپ کمپنی کے منافع میں فی صد کے حساب سے بیٹے کو شریک کرتا ہے، اس صورت میں اس کو ہبہ قرار دینا مشکل ہے؛ اس لیے کہ منافع معدوم میں اور معدوم کا ہبہ درست نہیں ہوتا۔

            اور اگر باپ ملکیت اور منافع کی تصریح کے بغیر بیٹے کو کمپنی میں فی صد کے حساب سے شریک کرتا ہے تو اس کو اصل کمپنی کی ملکیت میں شرکت مانی جائے گی اور مشاع ہونے کے باوجود ہبہ درست ہوگا اور دستاویز پر قبضہ عرفاً قبضہ کہلائے گا۔

۵- بیٹے اگر اپنے سرمایہ سے والد کے نام سے کمپنی قائم کریں

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹے اپنے سرمائے سے کمپنی قائم کرتے ہیں ؛ لیکن کمپنی کا نام والد کے نام پر رکھتے ہیں ، کاغذات میں کمپنی کا مالک والد ہی کو بتاتے ہیں تو کیا والد کا نام ہونے کی وجہ سے اس کمپنی کا مالک اسی کو قرار دیا جائے گا؟ اور وفات کے بعد اس میں والد کے سارے ورثاء حصہ دار ہوں گے؟

            تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ کمپنی کے مالک بیٹے ہی ہوں گے، ان کا سرمایہ لگاہوا ہے اور والد کا نام محض احترام کی غرض سے لکھوایاگیا ہے، والد کی ملکیت کہنا حقیقت کے خلاف ہے، اس کی نظیر ’’بیع تلجئہ‘‘ ہے کہ اس میں دشمن کے خوف سے محض دکھاوے کے لیے بیع کا معاملہ کیا جاتا ہے، حقیقت سے اس کا تعلق نہیں ہوتا؛ مثلاً انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے ایک کاروبار میں بہت سے لوگوں کا نام ظاہر کیا جاتا ہے؛ مگر ملکیت ایک آدمی کی ہوتی ہے۔ بیع تلجئہ کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں :

          بیع التلجئۃ: أن یظہر عقدًا وہما لا یریدانہٖ، یُلْجأ إلیہ لخوف عدو وہو لیس ببیع في الحقیقۃ بل کالہزل۔ (الدرالمختار مع رد المحتار ۷/۵۴۲ زکریا)

            ترجمہ: ’’بیع تلجئہ یہ ہے کہ ظاہر میں معاملہ کیاجائے؛ لیکن (درحقیقت وہ دونوں معاملہ کا ارادہ نہ رکھتے ہوں ، دشمن کے خوف سے اس کی طرف جایا جاتا ہے اور یہ درحقیقت بیع نہیں ہوتی؛ بلکہ ڈھونگ ہوتا ہے۔‘‘

            فتاویٰ مہدیہ کے ایک جزئیہ میں اس کی صراحت بھی موجود ہے:

            إذا کان للابن کسب مستقل بہ وہو غیر معین لأبیہ في ذلک، وعقد شرکۃ مع آخر من مالہ الخاص بہٖ، لا یکون لأبیہ ولا لورثتہ من بعدہٖ مشارکۃ في أصل مال الشرکۃ ونمائہا۔ (۲/۳۸۲)

            ترجمہ: جب بیٹے کا مستقل کاروبار ہو اور بیٹا اس میں باپ کا معین ومددگار بھی نہ ہو اور دوسرے کے ساتھ اپنے خاص مال سے شرکت کا معاملہ ہوتو اس کے باپ اور باپ کے بعد دیگر ورثاء کا اصل مالِ شرکت (رأس المال) میں اور اس کے منافع میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ بیٹے کے تحت رہتا ہے، باپ کے کھانے، پینے ، دوا علاج اور دیگر اخراجات کا انتظام بیٹا کرتا ہے، اس صورت میں بیٹے کے کاروبار میں باپ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، اگر مذکورہ صورت میں یہ بات بھی ہوتو یہ مزید دلیل ہوگی کہ مذکورہ کمپنی بیٹوں کی ہی ہے اس میں باپ اور دیگر ورثا کا حصہ بالکل نہیں ہے۔ فتاویٰ مہدیہ میں ہے:

          إذا لم یکن الولد المذکور فی عیالہ أبیہ ولا معینا لہ في الکسب بل الأب في عیال ابنہ ولا کسب للأب أصلاً والکسب للابن خاصۃ لنفسہٖ۔ (۲/۳۹۱)

            ترجمہ: ’’جب مذکورہ بیٹا اپنے باپ کی پرورش میں ہو اور کمانے میں باپ کا معین ومددگار نہ ہو؛ بلکہ باپ ہی اپنے بیٹے کی کفالت میں ہو اور سرے سے باپ کی کوئی کمائی نہ ہو تو ساری کمائی محض لڑکے کی ہوگی۔‘‘

            اگر باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء (یعنی بیٹے، بیٹیاں وغیرہ) یہ دعویٰ کریں کہ کمپنی میں والد کا نام مالک ومختار ہونے کی حیثیت سے تھا، اصل مالک والد صاحب تھے یا یہ دعویٰ کریں کہ والد صاحب کمپنی میں شریک تھے تو ان دونوں صورتوں میں اُن کو ’’بینہ‘‘ پیش کرنا ہوگا، اگر وہ سب دلائل سے باپ کی مکمل ملکیت یا شرکت ثابت کردیں تو اُن کے دعوی کا اعتبار ہوگا ورنہ نہیں۔

۶- اگر باپ اپنے سرمایہ سے بیٹوں کا الگ الگ کاروبار کروادے

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹے باپ سے الگ رہتے ہیں ، اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں ، باپ کی کفالت میں نہیں ہوتے ہیں اور باپ سب کو الگ الگ کاروبار کراتا ہے، عام طور سے باپ سارے بیٹوں کو ان کے کاروبار کا مالک بنادیتا ہے، بیٹے کماتے اور کھاتے ہیں ، یہ صورت بیٹوں کی ملکیت کی ہے، باپ کی وفات کے بعد اس میں سارے ورثاء کا یہ دعویٰ کرنا کہ سب باپ کی ملکیت ہے؛ اس لیے وہ سب ترکہ ہیں ، صحیح نہیں۔

            مذکورہ صورت میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سارے بچوں کی کمائی باپ کے پاس جمع ہوتی ہے اور باپ گھر کی مختلف ضروریات میں اپنی صواب دید پر خرچ کرتا ہے، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تو اگر بیٹے کوئی صراحت نہیں کرتے تو بہ ظاہر باپ کو دینا تملیک پرمبنی ہوگا اورالگ الگ کاروبار پر سارے بیٹوں کی ملکیت برقرار مانی جائے گی۔ اگر بیٹے امانت کے طور پر باپ کے پاس اپنے روپے رکھتے ہیں اور اس کی صراحت کرتے ہیں تو باپ کو اُن کی مرضی کے بغیر صرف کرنا جائز نہ ہوگا۔

            اگر باپ اپنے بیٹوں کو الگ الگ کاروبار کرارہے ہیں ؛ مگر سب پر اپنی ملکیت باقی رکھتے ہیں اور اس کی صراحت بھی کرتے ہیں تو سارے بچے باپ کے معاون کہلائیں گے اور ساری آمدنی باپ کی ہوگی۔

            اگر باپ نے کوئی صراحت نہیں کی تھی اور انتقال ہوگیا تو قرائن سے فیصلہ کیاجائے گا کہ باپ نے ملکیت کے طور پر سب کو کاروبار کرایا ہے یا سب بچے باپ کے معاون تھے، ایک قرینہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر ورثاء کا آپس میں نزاع نہ ہو تو تملیک سمجھی جائے اور نزاع کی صورت میں باپ کی ملکیت سمجھی جائے اور سارے ورثاء کو حصۂ رسد کے مطابق دیا جائے۔ درمختار کے ایک جزئیہ کی روشنی میں یہ بات لکھی گئی ہے، وہ جزئیہ یہ ہے:

          دفع لابنہ مالاً لیتصرف فیہ ففعل وکثر ذلک فمات الأب إن أعطاہ ہبۃً فالکل لہ وإلٍا فمیراث۔ (الدرالمختار مع رد المحتار ۸/۵۲۰ زکریا)

            ترجمہ: اپنے بیٹے کو تصرف کے لیے مال دیا تو بیٹے نے تصرف کیا اور مال بڑھا پھر والد کی وفات ہوئی تو اگر والد نے ہبہ کے طور پر دیا تو سارا مال بیٹے کا ہوگا، ورنہ میراث ہوگا۔

۷- باپ کی وفات کے بعد تقسیم ترکہ سے پہلے اگر بعض بیٹے کاروبار کو سنبھالیں

            اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باپ کی وفات ہوجاتی ہے اور ترکہ تقسیم نہیں ہوتا مرحوم باپ کے بعض بیٹے کاروبار سنبھالتے ہیں ، سب کا رہنا سہنا ایک ساتھ ہی رہتا ہے، پورے گھر کا خرچہ اسی کاروبار کے حاصل شدہ آمدنی سے چلتا ہے، کافی عرصے کے بعد تقسیم کا خیال آتا ہے ایسی صورت میں کاروبار سنبھالنے والے بیٹے حاصل شدہ اضافی آمدنی پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ؛ اس لیے کہ انھوں نے مشترکہ مال میں محنت کی ہے، ان کی محنت تبرع سمجھی جائے گی، اس کا قرینہ یہ ہے کہ سب کے سب ایک ساتھ ہی رہ رہے تھے اور پورے گھر کا خرچ اسی کاروبار کی آمدنی سے چلتا تھا، علامہ شامی لکھتے ہیں :

          لو اجتمع إخوۃً یعملون في ترکۃِ أبیہم ونما المال فہو بینہم سویۃ ولو اختلفوا في العمل والرأي۔ (ردالمحتار ۳/۳۸۳)

            ترجمہ: ’’اگر سارے بھائی اپنے والد کے ترکہ میں اجتماعی محنت کریں اورمال بڑھے تو یہ مال ان کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا؛ اگرچہ رائے اور محنت میں سب کم وبیش ہوں۔‘‘

            مذکورہ بالا صورت میں بہتر یہ ہے کہ دوسرے ورثاء جنھوں نے کاروبار کو نہیں سنبھالا ہے، ان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ محنت کرنے والے کو معروف اجرتِ عمل دے دیں پھربقیہ مال آپس میں تقسیم کریں ؛ تاکہ محنت کرنے والے بیٹوں کی اشک شوئی بھی ہوجائے۔

۸- اگر کوئی وارث تقسیم سے پہلے ہی ترکہ میں سے رقم لے کر اپنا کاروبار شروع کردے

            کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترکہ کی تقسیم میں تاخیر ہوتی ہے اور بعض وارث تقسیم سے پہلے ہی ترکہ میں سے کچھ رقم لے کر تجارت شروع کردیتے ہیں ، تو اگر وہ سارے ورثاء کے لیے تجارت کرتا ہے تو سب اس میں شریک ہوں گے اور یہ سب کا متبرع اور معاون کہلائے گا۔

            اور اگر سارے ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور ان کی اجازت سے کوئی وارث اپنا ذاتی کاروبار ترکہ کی رقم سے کرتا ہے تو بھی آمدنی اس کے لیے حلال ہوگی، ہندیہ میں ہے:

          ولو تصرف أحدُ الورثۃ في الترکۃ المشترکۃ وربح فالربح للمتصرف وحدہ۔ (ہندیہ ۲/۳۴۶ زکریا)

            ترجمہ: ’’اگر کوئی وارث مشترک ترکہ میں تصرف کرے اور فائدہ ہو تو سارا فائدہ تنہا اسی کا ہوگا۔‘‘

            اوراگر دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی وارث اپنا ذاتی کاروبار کرتا ہے تو بھی وہ آمدنی کا تنہا مالک ہوگا؛ مگر دوسروں کی طرف سے اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یہ آمدنی مکروہ ہوگی، گویا اس نے غصب کے مال سے منافع حاصل کیا؛ اس لیے اس آمدنی کو بھی اصل ترکہ کے ساتھ ملاکر سارے ورثاء کو دے دینا چاہیے۔

            اور اگر معروف اجرتِ عمل لے کر بقیہ آمدنی اور ترکہ سے لی ہوئی رقم کو ورثاء کے حوالے کردے اور ترکہ حصۂ شرعی کے مطابق سب کے درمیان تقسیم ہوتو بھی راقم الحروف کے نزدیک کوئی حرج نہیں۔

۹- اگر معاملے کی نوعیت کی صراحت نہ ہو

            باپ کی وفات سے معاملے کی نوعیت کی صراحت نہ ہونے کی صورت میں ، نوعیت کی تعیین کے لیے قرائن اور عرف کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔

۱۰- باپ اپنی زندگی میں ہی نوعیت اور بیٹے کی حیثیت واضح کرے

            کاروبار کے سلسلے میں باپ بیٹے کا جھگڑا اس وقت ہوتا ہے جب کہ بیٹے کی حیثیت واضح نہیں ہوتی، اگر پہلے ہی بیٹے کے معاون ومددگار ہونے، یا شریک وسہیم ہونے یا ملازم و نوکر ہونے کی حیثیت واضح کردی جائے تو بعد میں اختلاف نہیں ہوگا؛ اس کے لیے عوام کو آمادہ کرنا اور اُن کو شرعی حیثیت سے واقف کرانا ضروری ہے ، اردو اور علاقائی زبانوں میں چھوٹے چھوٹے کتابچے لکھے جائیں اور مساجد کے ائمہ اور خُطَباء کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جائے کہ مرنے سے پہلے جائیداد اور کاروبار کے سلسلے میں معاملہ صاف کریں ؛ تاکہ بعد میں ورثاء کے درمیان سرپھٹوَّل کی نوب نہ آئے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts