از: مولانا محمد مصعب
معین مفتی دارالعلوم دیوبند
ماضی قریب میں چند ہستیاں ایسی گذری ہیں ، جو خیرالقرون کی یادگار، سلفِ صالحین کا نمونہ، علم وفضل اور قوت استعداد کے ساتھ ساتھ انابت الی اللہ، صلاح وتقویٰ، دینی ہمدردی وخیرخواہی، سادگی وتواضع، فنائیت وللہیت جیسی صفات کی جامع تھیں ، تمام امور میں صرف رضائے الٰہی اُن کا مقصد تھا، اُن کی ایک اہم خصوصیت دین کی تعبیر و تشریح میں محتاط ومعتدل اسلوب اور مزاج و مذاق میں اُن کی سلامت روی تھی، اِنہی ممتاز ہستیوں کو ’’اکابر دیوبند‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دیوبندی مسلک کوئی مذہبی فرقہ نہیں ہے، جس نے امت کی اکثریت سے ہٹ کر کوئی الگ راستہ نکالا ہو، اکابر دیوبند نے کسی نئے فرقے کی بنیاد نہیں ڈالی؛ بلکہ جمہور امت جن عقائد کے قائل اور جن اعمال پر کاربند چلے آتے ہیں ، علمائے دیوبند ٹھیک انہی عقائد واعمال کے پابند ہیں اور وہ قرآن کریم اور سنت نبوی کی ٹھیک اسی معتدل تعبیر کے قائل ہیں جو چودہ سو سال سے امت میں متوارث چلی آتی ہے؛ البتہ اکابر نے اگر کبھی قرآن وحدیث پر گرد وغبار آتا دیکھا، تو اسے حکمت اور استقامت سے دور کرنے کی کوشش ضرور کی۔ (مستفاد از: یادیں ، پہلی قسط)
اکابر دیوبند کے علوم ومعارف اور انسانی دنیا پر ان کی مخلصانہ ہمہ جہت خدمات کے اثرات آج روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر ہیں ، اُن کی خدمات کا جائزہ مختصر جملوں میں اس طرح پیش کیاجاسکتا ہے کہ انھوں نے جہاں اسلام پر کیے گئے شبہات کا معترضین کے نزدیک مسلمہ اصولوں سے تشفی بخش جواب دیا اور خارجی حملوں سے اسلام کی حفاظت کی ایک فصیل قائم کرکے اُس کا قلعہ مضبوط ومستحکم کیا، وہیں اسلام کی داخلی بنائوں کی بھی حفاظت کا انتظام کیا اور خود مسلمانوں کے شبہات اور مادیت کی راہ سے اُن کے ذہنوں میں پنپنے والے خلجانات اور تلبیسات کا بھرپور ازالہ کیا اور یہ بات پورے یقین اور بصیرت کے ساتھ کہی اور لکھی جاسکتی ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی جو تشریح اکابر دیوبند سے منقول ہے، بلاشبہ وہ مبنی بر اعتدال ہے، جس میں اُن کے پاکیزہ ذوق اور فطرت سلیمہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اکابر دیوبند کے علوم ومعارف اور خود اُن کی شخصیت کی اہمیت پر تبصرے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ اقتباس بڑا ہی چشم کشا ہے، حضرت فرماتے ہیں :
ہمارے اکابر کے ملفوظات وتحقیقات دیکھ لو، معلوم ہوجائے گا کہ اس زمانے میں بھی رازی وغزالی موجود ہیں۔۔۔۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُن کا (رازی و غزالی کا) زمانہ اس قدر فتن اور شرور کا نہ تھا جیساکہ اب ہے، یہ سب ان حضرات کی تصنیفات وتحقیقات دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے، مگر اُن کو دیکھتا کون ہے؛ کیوں کہ مذاق ہی بگڑ گیا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:۸/۱۳)
عصر حاضر میں اسلام کے حوالے سے جو شکوک پیدا کیے جارہے ہیں اور اُن سے متاثر ہوکر خود مسلمانوں کے دل ودماغ میں جو شبہات وخلجانات پیدا ہورہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اکابر دیوبند کی تحریرات کی روشنی میں اس کا بھرپور دفاع کیا جاسکتا ہے اور مخلص مسلمانوں کے تردد کو دور کرکے بہت حد تک مطمئن کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے اکابر دیوبند کی تحریریں بڑی ہی مستحکم اور اقدامی نوعیت کی ہیں ، جن کو پڑھ کر اسلام کی حقانیت وابدیت اور اس حوالے سے قلبی انشراح وبصیرت کی جو کیفیت حاصل ہوتی ہے، اس کو قاری خود محسوس تو کرسکتا ہے؛ لیکن الفاظ و زبان کی محدود تعبیرات میں اس کا اظہار مشکل ہے۔
موجودہ دور میں اکابر دیوبند کے اس گوشے کو اجاگر کرنے کی ضرورت اس لیے زیادہ محسوس ہورہی ہے کہ شکوک وشبہات کے دفاع کے حوالے سے جو تحریریں سامنے آرہی ہیں ، اُن میں معذرت خواہانہ تاویلات، مرعوب کن ذہنیت، مروجہ علمی تحقیقات کا رعب اور رائج نظریات کا دبائو محسوس کیا جاسکتا ہے، چنانچہ یہ جملہ کثرت سے پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ اسلام کو موجودہ تمدن کے مطابق کردینا اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے، حالانکہ یہ جملہ مرعوب اور شکست خوردہ ذہنیت کا اثر ہے، جب کہ اکابر دیوبند کی تحریریں اقدامی نوعیت کی نظر آتی ہیں ، جن سے مذہب اسلام کی ابدیت اور بالادستی اپنی واقعیت کے ساتھ موثر طریقے پر ظاہر ہوتی ہے۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں :
طالبان حقائق اور حامیان اسلام کی خدمت میں ہماری یہ درخواست ہے کہ تائید احکام اسلام اور مدافعت فلسفہ جدیدہ وقدیمہ کے لیے جو تدبیریں کی جاتی ہیں ، اُن کو بجائے خود رکھ کر حضرت خاتم العلماء کے رسائل کے مطالعہ میں بھی کچھ وقت ضرور صرف فرمائیں اور پورے غور سے کام لیں اور انصاف سے دیکھیں کہ ضروریات موجودہ زمانہ حال کے لیے وہ سب تدابیر سے فائق اور مختصر اور بہتر اور مفید تر ہیں یا نہیں ؟ (حجۃ الاسلام، ص:۱۶،۱۷)
اختصار کے پیش نظر یہاں بندہ عصر حاضر میں موضوع بحث ایک اہم مسئلہ سے متعلق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا صرف ایک اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہے، قارئین سے گذارش ہے کہ اس اقتباس کو بغور پڑھیں اور اندازہ کریں کہ اکابر دیوبند دین وشریعت کے حوالے سے کیا مزاج رکھتے تھے اور اُن کو کس درجے کی خود اعتمادی اور مسلک میں تصلب حاصل تھا۔
ایک سائل نے پردے کے مسئلے میں خود غور وفکر کا ذکر کرکے حضرت تھانویؒ سے سوال کیا تھا، جس کا حضرت نے مفصل جواب لکھا تھا، اس کا ابتدائی اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
عزیز من!
اس وقت بہ نظر تحقیق کسی امر میں غور کرنے کے لیے دو شرط کی ضرورت ہے:
اوّلاً وہ امر دقیق اور نظری ہو؛ کیوں کہ اگر بدیہی اور واضح ہے تو غور محض بے کار ہے۔ ثانیاً ہم لوگوں سے پہلے ہم سے بڑے درجہ کے لوگوں نے جو قوتِ علمیہ وتائید من اللہ اور طلبِ صادق و نظر غائر وفکر صائب اور حبِّ دین اور سلاستِ طبع اور مُنْصِفْ مزاجی اور خوفِ خدا اور اتباعِ حق اور مجاہدہٴ نفس ومخالفتِ ہویٰ وحریتِ خالصہ وغیرہا صفاتِ جمیلہ کاملہ میں ہم سے ہزارہا درجہ بڑھے ہوئے تھے، اس امر میں تحقیق اور کلام نہ کیا ہو اور کلام کرکے فیصل اور طے نہ کردیا ہو؛ کیوں کہ اگر اس درجہ کے لوگوں نے کوئی امر ثابت کردیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ امر نہایت درجہ منقّح ومحقّق ہوگا۔ اس میں فکر کرنا ایسا ہے جیسا عام رعایا قوانین مروّجہ پارلیمنٹ میں نظرثانی کرنے لگے اور اتباع واطاعت کو اپنی نظر کی رسائی پر موقوف رکھے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک گونہ بغاوت کا شعبہ سمجھا جائے گا۔
اب ہم پردہ کے مسئلہ کو جو دیکھتے ہیں اس میں یہ دونوں شرطیں مفقود پاتے ہیں ؛ کیوں کہ یہ مسئلہ اوّلاً نہایت بدیہی ہے؛ چناں چہ عنقریب آیات و احادیث کے ملاحظہ سے معلومہوگا۔ ثانیاً اس درجہ کے لوگ جو کہ باجماعِ اُمتِ مرحومہ (جس کا مرتبہ اور قوت کثرتِ آراء سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے) مقتدائے ملت اور پیشوائے شریعت مسلّم ہوچکے ہیں ، اس کو طے اور ختم کرچکے ہیں ؛ البتہ اتنی خدمت کے لیے حامیانِ دین اور خادمانِ مذہب ہمیشہ تیار اور آمادہ ہیں کہ اگر کسی طے شدہ مسئلہ میں خواہ وہ منصوص ہو یا اجماعی اور علیٰ سبیل الترقی خواہ اجتہادی ہو کسی مخالف کو اعتراض یا کسی موافق کو شبہ اور خلجان ہو، بشرطے کہ اُصولِ صحیحہ کے موافق اس کو پیش کیا جائے اور انصاف اور کسی خاص جماعت کی تقلید یا کسی خاص غرض کی اتباع سے آزادی کے ساتھ اس کا جواب سننے اور سمجھنے کا وعدہ کیا جائے تو کسی وقت یہ حامیانِ مذہب جواب دینے سے اور اس جواب کے جواب الجواب دینے سے عذر یا انکار کرنا نہیں چاہتے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا کوئی ذمہ دار نہیں کہ دوسرے شخص کو ہدایت بھی ہوجائے؛ کیوں کہ یہ امر مجیب یا مصلح کے اختیار سے خارج ہے؛ ورنہ آج ساری دنیا ایک طریقہ پر نظر آتی۔ اھ
اس اقتباس کے لفظ لفظ سے تصلب وخود اعتمادی اور تعبیر کی پختگی ظاہر ہورہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس اقتباس کی روشنی میں عصر حاضر کے بہت سے مسائل کا معاملہ بہ سہولت حل کیا جاسکتا ہے۔
حضرت تھانویؒ اقتباس کے آخر میں خود تحریر فرماتے ہیں :
یہ مضمون جو تمہید کے متعلق ہے خصوصیت کے ساتھ باوجود سلیس ہونے کے بہت ہی غور کے قابل ہے۔ اھ
موجودہ احوال میں سخت ضرورت ہے کہ اکابر دارالعلوم کی تصنیفات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے تاکہ دین وشریعت کے سلسلے میں ہم کو ہر طرح کا اطمینان وانشراح حاصل ہو اور ہم دین اسلام کی ترجمانی کے لیے صحیح تعبیر استعمال کرسکیں اور عصر حاضر میں رائج غلط افکار وشبہات کا صحیح اصولوں کی روشنی میں دفاع کرسکیں اور نہ صرف دفاع بلکہ اقدامی طور پر وقت کے فکری معیار کے مطابق اسلامی احکام کو پیش کرسکیں۔
آخر میں حکیم الامتؒ کا ایک اقتباس اور ملاحظہ فرمائیں ، حضرت لکھتے ہیں :
ایک ڈپٹی کلکٹر یہاں آئے تھے، مجھ سے سوال کیاکہ آپ کا سود کے متعلق کیا خیال ہے؟ یہ سوال کا طرز بھی آج کل کے لوگوں کا ہے کہ آپ کا کیا خیال ہے، میں نے کہا کہ میرا کیا خیال ہوتا، میں تو مسلمان آدمی ہوں ، مذہبی آدمی ہوں ، اللہ ورسول کا جو حکم ہے، وہی خیال ہے، وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا
(اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا اور سود کو حرام کردیا ہے) کہنے لگے کہ فلاں صاحب دہلوی اس آیت کی اور تفسیر کرتے ہیں ، میں نے کہا اگر ان کی تفسیر معتبر ہے تو وہ قانون جس سے آپ فیصلہ کرتے ہیں مجھ کو دیجیے میں اس کی شرح لکھوں گا، پھر آپ اس شرح کے موافق فیصلے کیا کیجیے جو یقینا قانون کے خلاف ہوں گے، پھر جب آپ پر گورنمنٹ اعتراض کرے (تو) یہ کہہ دیجیے کہ یہ فیصلہ فلاں شخص کی شرح کے مطابق ہے جو لکھا پڑھا ہے، اس پر جو جواب آپ کو گورنمنٹ کی طرف سے ملے گا وہی جواب میری طرف سے ہے اور جن کا آپ نام لے رہے ہیں وہ کیا جانیں کہ تفسیر کسے کہتے ہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت/ الافاضات الیومیہ: ھ۴، ص۲۹۴)
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 5-6، جلد:103، رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء
* * *