از:   مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبند اشاعتِ اسلام کی تحریک ہے، اس کا امتیاز دینی علوم کی ترویج ہے، اردو زبان کو دیوبند نے اپنی تحریک کا ذریعہ بنایا، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اردو زبان کی حفاظت کے وجوب کا فتویٰ دیا۔ (امداد الفتاوی ۴/۶۵۵ زکریا دیوبند ۱۹۷۴ء) دیوبندیت کی ترجمانی اس زبان میں کی گئی ہے، ابنائے دیوبند کے مآثر اسی زبان میں ملتے ہیں ، اس کے حفاظت کے لیے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ نے جلسے کیے، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے ’’اردو پارک دہلی‘‘ کے جلسے میں اردو کے لیے جان کے نذرانے پیش کرنے کی دھمکی دی (ڈاکٹر اسجد ترکی: علمائے دیوبند اور اردو صحافت ’’مقالہ: پی ایچ، ڈی‘‘ ص۱۳۹)، دارالعلوم دیوبند کا پورا نظام اردو زبان میں چلتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں دفتری نظام کے بعض قضیے نثر کے بجائے نظم میں حل کیے گئے، طرفین نے اپنے دلائل منظوم پیش کیے، مہتمم دارالعلوم مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے منظوم فیصلہ صادر فرمایا۔ دارالعلوم میں تدریس کا میڈیم اردو ہے۔ ’’اصولِ شاعری‘‘ باضابطہ نصاب کا حصہ رہے ہیں ۔ طلبہ کی بڑی تعداد میں شاعری کا ذوق ہے، بیت بازی اور شعری نشستیں تُزک واحتشام سے منعقد ہوتی ہیں ۔ عربی اور فارسی ادب کے ساتھ راست طور پر اردو ادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے؛ البتہ بڑا ذخیرہ غیرافسانوی ادب کا ہے، صحافتی مشق وتمرین کے لیے تقریباً ایک سو پچیس (۱۲۵) دیواری پرچے نکلتے ہیں ، ان میں اکثر کی زبان اردو ہوتی ہے، بعض عربی، فارسی، پشتو، بنگالی،آسامی، تمل اور ملیالم زبان میں آویزاں ہوتے ہیں ۔  اکثر ماہ نامے ہوتے ہیں ، بعض پندرہ روزہ اور بعض ہفت روزہ اخبار کی شکل میں نکلتے ہیں ، ان میں نثری اصناف میں فِکشن، خاکہ، تذکرہ، مضمون، افسانچہ، رپورتاژ، انشائیہ، طنز ومزاح اور مقالہ۔ شعری اصناف میں نظم، غزل، قصیدہ، قطعہ،مرثیہ،۷ مثنوی اور رباعیات وغیرہ کی نوخیز مثالیں ملتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب طلبۂ دارالعلوم علماء بن کر میدانِ عمل میں آتے ہیں تو تحریکِ دیوبند کا حصہ بن جاتے ہیں ، علمی اور قلمی میدان میں مشّاق شہ سوار کی طرح اپنی جولانیاں دکھاتے ہیں ۔

            اردو زبان وادب کی خدمات کے تعارف میں علمائے دیوبند نے متعدد کتابیں تالیف کی ہیں ، ’’علمائے دیوبند اور اردو ادب‘‘ یہ مولانا عبداللہ قاسمی حیدرآبادی کی کتاب ہے، یہ موصوف کے قسط وار مقالوں کا مجموعہ ہے جو روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں طبع ہوے تھے، اردو کے عظیم ترین مصنف حضرت مولانا سید محمدمیاں دیوبندی ناظم جمعیۃ علمائے ہند دہلی نے کتابی شکل میں اس کی طباعت واشاعت کا مشورہ دیا تھا، دوسری کتاب حقانی القاسمی کی ہے، اس کا عنوان ہے:

            ’’دارالعلوم دیوبند – ادبی شناخت نامہ‘‘: اس میں شعری منظرنامہ، نثری منظرنامہ پیش کرنے کے ساتھ ہی افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں علمائے دیوبند کی خدمات پیش کی گئی ہیں ، عظیم ترین نقادوں اور جلیل القدر مصنّفین کے چند نمونے پیش کیے ہیں ، کتاب میں مصنف کی زبان، ان کا البیلا بیان، اسلوب وادا اور ترسیل وپیش کش دارالعلوم دیوبند کی چہاردیواری کی تربیت کا مظہر ہیں ، اب تک کسی فاضل نے دارالعلوم دیوبند کو اتنا عمدہ خراجِ ادب پیش نہیں کیا ہے۔ تیسری کتاب مولانا اعجاز ارشد قاسمی کی ’’من شاہِ جہانم‘‘ ہے، اس میں بھی زبان وادب، صحافت وتصنیف اور نظم ونثر کے حوالے سے دارالعلوم کا تعارف پیش کیاگیا ہے۔

            دارالعلوم دیوبند کاقیام ۱۲۸۳ھ میں ہوا، اس کے اولین بزرگوں میں جن لوگوں کا نام آتا ہے، ان میں سے اکثر کا ادبی ذوق بلند تھا، ان میں اردو کے علاوہ فارسی اور عربی میں بھی مہارت تھی، شاعری پر بھی قدرت، مثلاً ’’تذکرۃ البلاغت‘‘ کے مؤلف حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندی (۱۲۲۸ھ/۱۸۱۳ء – ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) میں فنِ بلاغت (معانی، بیان اور بدیع) کو اردو زبان میں سب سے پہلے منتقل کرنے کا اعزاز ان کو حاصل ہے، اس پر موصوف کو ایوارڈ بھی ملاتھا، (مولانا سید اصغرحسین: حیات شیخ الہند ص۱۵) بریلی کالج کے پروفیسر تھے پھر محکمۂ تعلیم سے میرٹھ میں مدارس کے ڈپٹی انسپکٹر بنائے گئے، مغربی علوم سے بھی واقفیت کے ساتھ تینوں زبانوں کے ادیب تھے، ’’دیوانِ حماسہ، دیوان متنبی، سبع  معلقات، قصیدہ بانت سُعاد اور قصیدہ بُردہ‘‘ کی اردو شرحیں ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی کلاسیکیت کا لطف دیتی ہیں ۔ (مولانا مدثر جمال تونسوی: ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند مارچ، اپریل ۲۰۱۲ء)۔

            دوسرے مولانا فضل الرحمن عثمانی (وفات: ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء) بریلی، بجنور اور سہارن پور میں محکمۂ تعلیم میں مدارس کے ڈپٹی انسپکٹر تھے، اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر تھے، عربی زبان سے بھی واقفیت تھی، دیوبند میں طاعون کے زمانے  (۱۳۰۱ھ/۱۸۸۳ء) میں کہی گئی موصوف کی نظم ’’غم دیبن‘‘ بہت معروف ہے، پہلے دیوبند کو ’’دیبن‘‘ کہاجاتا تھا، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی استاذ الکل مولانا مملوک العلی کے فرزند ہیں ، یہ بلند پایہ شاعر تھے، تخلص ’’گمنام‘‘ تھا، ’’بیاض یعقوبی‘‘میں ادبی شہ پارے کی مثالیں ملتی ہیں ۔ غالبؔ، مومنؔ، ذوقؔ، صہبائیؔ اور آزردہؔ کے ہم عصر ہیں ۔ سوانح نگاری میں آپ کو اولیت حاصل ہے، ’’سوانح عمری مولانا قاسم‘‘ ۱۸۸۰ء میں لکھی، یہ مولوی حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ کی ہم عصر سوانح ہے، بعد کی اصطلاح کے لحاظ سے اس کو ’’خاکہ‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہے، اسی کو سامنے رکھ کر  مولانا مناظر احسن گیلانی نے ’’سوانح قاسمی‘‘ کی پہلی جلد تیار فرمائی ہے، مولانا محمد یعقوب کی سوانحی تحریر میں خاکہ کی مکمل خوبو موجود ہے، ولادت سے لے کر وفات تک کی ساری باتیں نہایت ہی سیدھے سادے الفاظ میں لکھی ہیں ، مبالغہ آمیزی سے بالکل پاک ہے، اخلاق و عادات، خدمات وآثار کو سلجھے ہوئے انداز میں لکھا ہے، اس کو حیاتِ نانوتوی کی قلمی تصویر کہنا بالکل برمحل ہے، خاکہ کے اجزائے ترکیبی: اختصار، وحدت تأثر، کردار نگاری، واقعہ نگاری، منظر کشی اور زبان وبیان کی جاذبیت سب کچھ موجود ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں اس سے پہلے خاکہ کی مثال نہیں ملتی، افسوس ہے کہ ناقدین ادب کی نگاہ اب تک اس پر نہ پڑسکی، ’’سوانح قاسمی‘‘ کی پہلی جلد کے شروع میں شاملِ اشاعت ہے، دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں اس کے دو نسخے مقالہ نگار نے دیکھے ہیں ۔ ’’آب حیات‘‘ تو اصلاً تاریخ ہے، اس میں خاکہ کے نقوش ہی ملتے ہیں ؛ لیکن پوری خوبی کے ساتھ خاکہ کی اولین مثال مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی تحریر ہے۔

            سوانحی صنف کا دوسراخاکہ ۱۸۹۶ء/۱۳۱۴ھ میں حاجی محمد مرتضیٰ خان قنوجیؒ نے تیار کیا، یہ حضرت حاجی صاحب کے مریدوں میں سے تھے، اصلاً یہ مولانا عبدالغنی عظیم آبادی بہاریؒ کی فارسی تصنیف ’’نفحاتِ مکیہ‘‘ کے بارہ نفحات میں سے سات کا ترجمہ ہے۔

            ۱۹۰۵ء/۱۳۲۳ھ میں ’’وصل الحبیب‘‘ مرتب ہوئی۔ اس میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے مرض الوفات سے وفات تک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ، اسی کے ساتھ ایک عربی قصیدے کا اردو ترجمہ اور حضرت گنگوہی کا وصیت نامہ اس میں شامل ہے، مرتب مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ ہیں ، موصوف کا قلم نہایت عمدہ ہے، تعبیرات میں بالیدگی اور بلاغت خوب ہے۔ اس تحریر کو مقالہ نگار صنفی لحاظ سے ’’تذکرہ‘‘ سمجھتا ہے، جن میں زندگی کے ایک خاص پہلو کا ذکر ہوتا ہے، عام طور سے اس کو شاعروں سے جوڑ کر سمجھاجاتاہے کہ شاعر کی زندگی اور اس کے کلام پر گفتگو ہوتی ہے؛ مگر راقم تذکرہ میں شاعر اور شاعری کی قید کو احترازی نہیں سمجھتا، کسی بھی شخص کی زندگی کے خاص گوشے کو ادبی اسلوب میں ذکر کرنے کو ’’تذکرہ‘‘ کہنا چاہیے۔ غرض یہ کہ ’’وصل الحبیب‘‘ ایک ادبی مرقع ہے۔

            مولانا عاشق الٰہی نے ۱۹۰۸ء/۱۳۲۶ھ میں ’’تذکرۃ الرشید‘‘ مرتب فرمائی، یہ حضرت گنگوہی کی مفصل سوانح حیات ہے، دو جلدوں میں چھ سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں سوانح نگاری کے سارے اوصاف موجود ہیں ، صاحبِ سوانح کو ایسا ہی پیش کیا ہے جیسے وہ ہیں ، کہیں کہیں انداز والہانہ ہے، اس میں ادبیت وبلاغت کے لوازم مکمل طور پر موجود ہیں ۔ حضرت گنگوہی کی سوانح بڑی مقبول ہوئی تو احباب ومعاصرین نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری کی وفات ۱۳۴۶ھ/۱۹۲۷ء کے بعد سوانح نگار سے سوانح نگاری کی خواہش کی، موصوف نے تین سو صفحات پر مشتمل سوانح تحریر فرمائی، ان سب سے پہلے ۱۹۰۲ء/۱۳۲۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری ’’اسلام‘‘ کے نام سے چار حصوں میں لکھ چکے تھے۔ علمائے دیوبند میں اردو زبان میں لکھی گئی سب سے پہلی سوانح عمری ہے جو چار سو صفحات میں لکھی گئی۔

            ۱۹۰۶ء/۱۳۲۴ھ میں مولانا سیّد اصغر حسین میاں صاحبؒ نے ’’مولانا روم‘‘ کا خاکہ مرتب فرمایا، یہ وہی سال ہے جس سال علامہ شبلی نے ’’سوانح مولانا روم‘‘ لکھی تھی، مولانا سید اصغرحسین صاحب کا دوسرا خاکہ ’’حیاتِ خضر‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ ۱۹۱۴ء/۱۳۳۳ھ میں ’’تذکرۃ العابدین‘‘ لکھی گئی، اس میں  تین سو اٹھارہ بزرگوں کا تذکرہ ہے، بعض بزرگوں کے خاکے بھی ہیں ، تاریخ، تصوف کے بہت سے حقائق بھی اس میں محفوظ ہیں ، حضرت حاجی سیدمحمد عابد دیوبندیؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے نام اور اہل معرفت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اس کا نام ’’تذکرۃ العابدین امداد العارفین‘‘ ہے، تذکرہ  نگار حاجی محمد نذیراحمد دیوبندی ہیں ، یہ حضرت حاجی صاحب کے خلیفہ تھے۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۱۹ء میں ’’سوانح عمری ابوذرغفاری‘‘ مولانامناظراحسن گیلانی نے مرتب فرمائی، صحابی رسولؐ کی سوانحی معلومات اس سے زیادہ کسی کتاب میں موجود نہیں ، افادی نقطئہ نظر سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ ۱۹۱۸ء/۱۳۳۷ھ میں ’’حضرت اویس قرنی‘‘ کا خاکہ بھی مولانا گیلانی کا مرتب کردہ ہے، اس میں سوانح نگار کی علمی مقام خصوصاً محدثانہ حیثیت کھل کر نظر آتی ہے۔ تابعی موصوف کی زندگی کے سلسلے میں بے اصل روایات کی تردید فرمائی ہے۔ ۱۹۱۰ء/۱۳۳۹ھ میں ’’حیاتِ شیخ الہند‘‘ (مولانا محمودحسن دیوبندی) کے نام سے مولانا سیداصغرحسین دیوبندیؒ نے سوانح مرتب فرمائی، اس پر سوانح کی اصطلاح مکمل طور پر چسپاں ہوتی ہے۔ اسی سال حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کا ایک خاکہ ’’ذکرمحمود‘‘ کے نام سے مرتب فرمایا، اس کا انداز دفعاتی ہے، ’’ذکر‘‘ کے عنوان کے تحت نمبروار الگ الگ یادداشت کو مرتب فرمایا ہے۔ حضرت تھانوی کی سوانحی تصنیف میں ’’امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے احوال کو بہت ہی تفصیل و ترتیب سے جمع فرمایا ہے، شخصیت کے ہمہ پہلو کو اعتدال و توازن سے بیان کیاہے۔ یہ ۱۹۲۴ء/۱۳۴۳ھ کی تالیف ہے۔ حضرت تھانوی نے ۱۹۲۶ء/۱۳۴۹ھ میں حضرت گنگوہی کا خاکہ ’’یاد یاراں ‘‘ کے نام سے مرتب فرمایا، اس کا انداز بھی ’’ذکر محمود‘‘ جیسا ہے۔

            ۱۹۳۴ء/۱۳۵۲ھ میں ’’تدکرۃ الانوار‘‘ یہ ماہ نامہ ’’القاسم‘‘ دیوبند میں شائع شدہ علامہ انور شاہ کشمیری کا خاکہ ہے، اس میں خاکہ نگار کا نام لکھا ہوا نہیں ہے۔ ۱۹۳۵ء/۱۳۵۴ھ میں ’’ذوالنون مصری‘‘ کا خاکہ حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ نے مرتب فرمایا، اس میں سوانحی معلومات کے ساتھ ملفوظات، اشعار اور کرامتوں کو بھی اکٹھا کیا ہے۔ ۱۹۳۵ء/۱۳۵۴ھ  میں مولانا مناظراحسن گیلانیؒ نے حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کی سوانح مرتب فرمائی، اس کی پہلی جلد مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے لکھے ہوئے خاکہ کی تفصیلات و مضمرات پر مبنی ہے گویا خاکہ متن اور سوانح شرح کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسری اور تیسری جلد میں بھی دوسری سوانحی نگارشات سے لیے گئے مواد کی تشریحات اور رُموز بیانی کا انداز غالب ہے، سوانحی اصول وضابطے پر ’’سوانح قاسمی‘‘ اتررہی ہے، اس کے باوجود مقالہ نگار کو اس کے بعض مندرجات پر تسامحات کا شبہ ہے۔

            ۱۹۵۳ء/۱۳۷۳ھ میں ’’نقشِ حیات‘‘ وجود میں آئی، یہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی ’’خودنوشت‘‘ ہے۔ اس میں زندگی کے اہم کارنامے جمع ہیں ، خصوصاً استاذ محترم حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی سے جُڑے احوال بڑی تفصیل سے درج ہیں۔

            ۱۹۳۶ء/۱۳۵۵ھ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جد امجد، عظیم مجاہد آزادی، بالاکوٹ کے شہید حضرت سید احمد بریلویؒ کی سوانح مرتب فرمائی، اس کی ترتیب بہت عمدہ ہے، شبلی مکتب کی چھاپ نظر آتی ہے، افادی نقطئہ نظر سے لکھی گئی ہے، مواد موثوق اور قابلِ اعتماد ہے، پہلی جلد میں سوانح اور دوسری جلد میں مجاہدانہ کارناموں کی تفصیل ہے۔

            ۱۹۳۷ء/۱۳۵۶ھ میں خواجہ عزیزالحسن مجذوب اور مولانا عبدالحق نے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سوانح ’’اشرف السوانح‘‘ کے نام سے مرتب کی، اس سوانح کی ابتدائی تین جلدیں حضرت تھانویؒ کی نظر سے گزری ہیں ، حضرت نے ان میں اصلاح فرمائی، غلو سے پاک کرنے اور اعتدال پر لانے کی رہنمائی کی، بعض عناوین خود لگائے، اس کے اندر ’’آپ بیتی‘‘ اور ’’خود نوشت‘‘ جیسی خصوصیات بھی آگئی ہیں ، چوتھی جلد ۱۹۴۴ء/۱۳۶۴ھ میں وفات کے بعد لکھی گئی ہے، اس سوانح میں بھی ’’افادی مکتب‘‘ کی خوبو محسوس ہوتی ہے؛ البتہ واقعاتِ حیات کے احاطے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

            ۱۹۳۸ء/۱۳۵۷ھ میں ’’رحمۃ الرضوان فی تذکرۃ ابی حنیفۃ النعمان‘‘ کے نام سے حضرت امام اعظم کا خاکہ مولانا سیداصغرحسین دیوبندیؒ نے مرتب فرمایا۔ اسی سال شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کی حیات وخدمات کو ذکر کرنے کے لیے مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے اپنی ادارت میں نکلنے والے رسالہ ’’الفرقان‘‘ کا ’’مجدد نمبر‘‘ نکالا، اس میں زندگی کے سارے گوشے ذکر کیے گئے ہیں اور بلاشبہ یہ سوانح کے زمرے میں شامل ہے، اسی رسالے کا دوسرا نمبر ۱۹۴۱ء/۱۳۶۰ھ میں ’’شاہ ولی اللہ دہلوی‘‘ کی نسبت سے شائع ہوا، اس میں بھی زندگی کے سارے گوشے اس طرح اکٹھا ہیں کہ مقالہ نگار کو کوئی اور جگہ اتنا کثیر مواد حضرت شاہ صاحب پر نہیں ملا، اس میں سوانح نگاری کے ’’جزئیاتی اور حقیقت پسندی والے مکتب‘‘ کی خوبو نظر آتی ہے، مولانا مودودی نے سارے مجددین کی ناکامی کے اسباب پر بھی جارحانہ خامہ فرسائی کی ہے، مدیر محترم نے اپنی تعلیقات کے ساتھ اس کو بھی شاملِ اشاعت کیا ہے۔ ۱۹۳۹ء/ ۱۳۵۸ھ میں مولانا  سیدمحمد میاں دیوبندی نے ’’علمائے ہند کا شان دار ماضی‘‘ لکھ سوانح نگاری کے باب میں اضافہ فرمایا، اس میں بھی افادی دبستان کی خصوصیات نظر ا ٓتی ہیں ، اس میں بعض اہلِ علم کی سوانح اور اکثر کے خاکے پیش کیے گئے ہیں ، خاکے میں جامعیت کا عنصر غالب ہے۔

            ۱۹۴۴ء/۱۳۶۴ھ میں بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمدالیاس کاندھلویؒ کی سوانح مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے مرتب فرمائی، ترتیب اور انداز بہت عمدہ ہے، اولین سوانح عمری اتنی معلومات افزا ہے کہ موصوف پر اس سے اچھی سوانح اب تک لکھی نہ جاسکی، اس میں افادی دبستان کی رونق نظر آتی ہے۔ اسی سال مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی خودنوشت لکھی، اس کا نام ’’میری زندگی‘‘ رکھا اس کی زبان نہایت ہی سادہ، پرکشش اور چست ہے، الفاظ کا انتخاب، چھوٹی چھوٹی ترکیبیں پڑھنے کا لطف دیتی ہیں ، مثالی خود نوشتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے، دوسال بعد مولانا سندھی کی ’’ذاتی ڈائری‘‘ طبع ہوئی، اس میں خاکہ بھی ہے اور ’’خود نوشت‘‘ بھی اسی طرح معاصرین کی دوٹوک رائیں بھی ہیں ، موصوف کے کمزور پہلو کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

            ۱۹۴۵ء/۱۳۶۵ھ میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے حضرت تھانویؒ کی سوانح ایک نئے انداز سے لکھی، محض خطوط اور ذاتی معلومات کو ترتیب دے کر سوانح نگاری کی دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی، ۱۹۴۹ء۱۳۶۹ھ میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ لکھی، اس میں امام اعظم کے خاکے کے ساتھ اس کی سیاسی زندگی، قید وبند کی صعوبتوں کو تفصیل سے لکھا۔

            ۱۹۵۶ء/۱۳۷۶ھ میں مولانا محمد منظورنعمانی مدیر ماہ نامہ الفرقان نے ’’حضرت شاہ اسماعیل شہید اور اُن کے معاندین کے الزامات‘‘ کے نام سے صاحب سوانح کے خاکے کے ساتھ ان کی طرف سے الزامات کے جواب لکھے۔

            ۱۹۵۷ء/۱۳۷۷ھ میں ’’تذکرہ فضل رحمن گنج مرادآبادی‘‘ کے نام سے مولانا ابوالحسن علی ندوی نے سوانح لکھی، یہاں تذکرہ کا لفظ سوانح کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

            ۱۹۶۱ء/۱۳۸۱ھ میں مولانا سعیداحمد اکبرآبادی نے ’’صدیق اکبر‘‘ لکھا، ۱۹۶۵ء/۱۳۸۵ھ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ’’سوانح مولانا عبدالقادر رائے پوری‘‘ شائع ہوئی، اس میں سوانحی مواد بڑی تفصیل سے موجود ہے، شبلی کے ’’افادی دبستان‘‘ سے قریب ہے۔ اسی سال مفتی اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی نے ’’تذکرہ شیخ الہند‘‘ (مولانا محمودحسن دیوبندی) تحریر فرمائی، ۱۹۷۲ء/۱۳۹۲ھ میں ’’پرانے چراغ‘‘ کے نام سے بہت سی شخصیات کے خاکے مولانا ابوالحسن علی  ندوی کے قلم سے شائع ہوے،  یہ بڑے قیمتی مواد پر مشتمل ہیں ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح یعنی سیرت نگاری میں بھی علمائے دیوبند کی خدمات قابل قدر ہیں ، انیسویں صدی کے شروع  (۱۹۰۲ء/۱۳۲۰ھ) میں مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری کو ’’اسلام‘‘ کے نام سے مرتب فرمایا، اس میں قابلِ اعتماد مراجع ومآخذ سے مواد حاصل کیاگیا ہے، چارحصوں میں مکمل ہوئی، تکمیل کے بعد اس کا نام ’’تاریخِ اسلام‘‘ رکھا؛ لیکن اس نام سے اکبر شاہ نجیب آبادی اور شاہ معین الدین ندوی کی کتابیں بھی بازار میں ملتی ہیں ؛ اس لیے اس کتاب کو ’’تاریخ اسلام عاشقی‘‘ کے نام سے لوگ جانتے ہیں ، ’’مکتبہ فیصل دیوبند‘‘ نے اسی نام سے چھاپا ہے۔ اس کے نوسال بعد ۱۹۱۱ء/۱۳۳۰ھ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ لکھی گئی، اس کو قبول عام حاصل ہوا، پھر ۱۹۲۴ء/۱۳۴۳ھ میں حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندیؒ نے ’’سیرت خاتم الانبیاء‘‘ کے نام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح مرتب فرمائی، یہ کتاب آج بھی دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر چلنے والے مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔

            ۱۹۳۶ء/۱۳۵۵ھ میں ممبرپارلیامنٹ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے ’’سیرت رسول کریم …‘‘ کے نام سے طلبۂ مدارس کے لیے سوانح نبوی تصنیف فرمائی۔ اسی سال مولانا مناظراحسن گیلانیؒ نے ’’فلسفۂ سیرت‘‘ پر ایک کتاب ’’النبی الخاتمؐ‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی، اس کتاب میں موصوف کے نادر استدلال، اچھوتے اسلوب اور اختصار کے بانک پن بہت ہیں ، یہ نودہائیوں سے سیرت کی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ ایک بار پڑھ کر دوبارہ پڑھنے کا جی چاہتا ہے۔

            ۱۹۳۹ء/۱۳۵۸ھ میں مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے ’’سیرۃ المصطفیٰ‘‘ تصنیف فرمائی، یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، سیرت کے سارے پہلو کو محیط ہے اس کا انداز بیان علمی اور تحقیقی ہے، اکثر محدثین کے انداز کی گفتگو ہے اور بعض جگہوں پر مناظرانہ انداز بھی ہے، مخالف اسلام نظریات کی مرعوبیت سے پاک ہے۔ اسی سال قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی نے نہایت ہی آسان زبان میں ابتدائی طلبۂ مدارس ومکاتب کے لیے ’’نبی عربیؐ‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی، اس کو بڑی قبولیت حاصل ہوئی۔ ۱۹۷۰ء/۱۳۹۰ھ میں الجمعیۃ دہلی نے ’’حیاتِ آدمؑ‘‘ شائع کی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی ناظم جمعیۃ علماء ہند نے بچوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو سوانح ترتیب دی، ایک کا نام ’’ہمارے پیغمبرؐ‘‘ رکھا اور دوسرے کا ’’محمد رسول اللہؐ‘‘، حضرت استاذ مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی مفتی دارالعلوم دیوبند نے ’’اُسوئہ حسنہ‘‘ (مصائب سرورکونینؐ) کے نام سے سیرت کے ایک گوشے کو قلم بند فرمایا، جس میں ناگہانی حالات اور مصائب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو پیش کیا؛ تاکہ قارئین غیرمسلموں کی طرح حالات سے دلبرداشتہ ہوکر کوئی خطرناک اقدام نہ کربیٹھیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں ؛ اس لیے کہ صبر کا بدلہ جنت ہے۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:103‏،  رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts