از:  مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد

            محدثِ جلیل، فقیہ عظیم، صاحب تصانیف کثیرۃ ،علاء الدین علی بن حسام متقی برہانپوری ، ہندی ، قادری ، چشتی، شاذلی صوبہ گجرات کے برہانپور شہر میں ۸۸۵ھ، ۱۴۸۰م کو پیدا ہوئے ، یہ دراصل جونپور کے متوطن تھے ، ان کے آباء نے نقل مکانی کر کے برہان پور کی سکونت اختیار کرلی تھی، یہ جب آٹھ سال کے ہی تھے کہ تب ان کے والد ان کو شیخ باجن عمری کے یہاں لے گئے او ر ان کو ان کے دست حق پر بیعت کروایا۔

            ان کی پرورش وپرداخت نہایت بہترین اور صالح اور دین دار ماحول میں ہوئی، اپنے والد کے زیر عاطفت جو کہ علاقے کے بڑے عالم تھے تربیت پائی؛ لیکن ان کے والد کی حیات نے زیادہ وفا نہ کی، ابھی یہ آٹھ سال کے ہی تھے کہ والدکا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا؛ لیکن شیخ نے کم ہمتی نہیں دکھائی؛ بلکہ تمام مصائب ومتاعب اور مشکلاتِ زمانہ کا نہایت خندہ پیشانی اورپوری قوت اور جواں مردی اور ہوش مندی کے ساتھ مقابلہ کیا۔

            انھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد ’’مندہ‘‘ کے کسی امیر کے پاس کتابت کی نوکری پر فائز ہوئے ، اس کے ذریعے وہ اپنا اور اپنے اہل وعیال کے معاش کا نظم کرتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے پاس ایک مال ودولت کاایک وافر ذخیرہ اکٹھا ہوگیا، ذات باری توجہات اور عنایات کا آپ مرکز رہے ، رحمت ایزدی آپ پر سایہ فگن رہی، آپ کے باطنی احوال میں تبدیلی آئی، جس کی وجہ سے آپ کی دل کی دنیا بدل گئی، آپ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ دنیا اپنی رنگ برنگیوں ، نت نئے مظاہر ، اپنی حسن وخوبصورتی اور اپنی جاذبیت وکشش کے ساتھ ایک دن یقینا ختم ہوجائے گی، زندگی کا سورج ایک دن ضرور غروب ہوجائے گا، دنیا دار العمل اور آخرت دار الجزاء ہے ، یہ دنیا دار الفناء اور آخرت دار البقاء ہے ، اس احساس نے آپ کے ضمیر اور اندرون کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور آپ پیشے سے سبکدوش ہو کر شیخ عبد الحکیم چشتی کی خدمت میں آئے اور ان کی صحبت اور رفافت کو اختیار کیا۔

            شیخ عبد الحکیم کے پاس آں محترم کی آمد بالکل عنفوان شباب میں ہوئی، وہاں وہ تدریس وتدریس، تعلیم وتربیتی باطنی میں مشغول رہے ، اس حوالہ سے نہایت مجاہدے اور ریاضات کیے ، دنیا سے کنارکش ہوگئے ، عبادت ، خلوت، لوگوں سے انقطاع کی طرف ان کا میلا ن ہوگیا۔

            پھر انھوں نے حسام الدین متقی کے یہاں ملتان میں درس وتدریس اور تربیت باطنی میں گذارے ، پھر گجرات واپس تشریف لائے اور احمد آباد میں اقامت پذیر ہوگئے ، پھر رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ، پھر اپنی اہلیہ اور دیگر اہل خاندان کے ساتھ زندگی گزاری، اس بیوی سے ان کے ایک لڑکا ہواجو لڑکپن میں ہی دارفانی سے کوچ کر گیا(الشیخ محدث دہلوی، اخبار الأخیار :۵۰۷، اکبر بک سیلرز، زبیدہ سنتر، اردو بازار ، لاہور)

آپ کے علمی اسفار

            آپ نے ملتان کا بغرضِ تحصیل علم کے سفر کیا جو کہ اس وقت علوم ومعارف کا مرکز اور سرچشمہ تھا، وہاں حسام الدین متقی (۹۶۰ھ) علم وفضل کے موتی برسارہے تھے ، ان کے درس وتدریس، علم وفضل اور ان کے ورع وتقوی کا ہر سو شہرہ تھا، طالب علم شوق علمِ میں دنیا کے اطراف واکناف سے تحصیل علم کے لیے ان کا قصد کرتے تھے؛ چنانچہ شیخ نے بھی ان کی صحبت اختیار کی ، ان کے علوم ومعارف سے استفادہ کیا، ان کے یہاں امام بیضاوی کی ’’انوار التنزیل فی أسرار التاویل‘‘ پڑھی، اسی طرح ’’عین العلم‘‘ بھی پڑھا، ان کی صحبت میں دو سال رہے ، پھر یہاں سے ۹۴۲ھ کو مکہ مکرمہ گئے، عمرہ کی ادائیگی کے بعد محمد بن محمد سخاوی سے شرف تلمذ حاصل کیا، یہ بڑے علما ء اور مشائخ میں سے تھے ، اور بڑے اللہ کے ولی تھے ، ان سے اجازت اور خلافت حاصل کی، اسی طرح طاہر زمان الزواری سے بھی تحصیل علم کیا، یہ بھی اپنے زمانہ کے نہایت زاہد ، عابد شخص تھے ، اسی طرح شیخ ابو الحسن البکری کی بھی شاگردی اختیار کی، ان کی صحبت سے استفادہ کیا، یہ بھی اپنے زمانے کے بڑے صاحب فضل عالم تھے ، اسی طرح شیخ ابو مدین شعیب المغربی سے مدنی طریقت میں اجازت حاصل کی، امام شیخ ابن حجر المکی سے حدیث شریف کا درس لیااور مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے قریب ہی مقیم رہے (عبدالحئی الحسنی، نزہۃ الخواطر، الطبعۃ العاشرۃ فی أعیان القرن العاشر: ۴؍۳۸۵، دار حزم، بیروت)

سیرت واخلاق

            آپ نہایت با اخلاق ، صاحب مروت، بہترین سیرت وشخصیت کے حامل تھے ، آپ کی شخصیت نہایت پرکشش تھی، طلباء آپ کی جانب بہت میلان ورحجان رکھتے ، آپ کا خطاب نہایت بالغ التاثیر اور پر اثر ہوا کرتا، آپ کے پند وموعظت کو سننے کے لیے بڑا مجمع جمع ہوتا، آپ کسی پر غصہ نہ ہوتے اور نہ کبھی آپ کے چہرے پر خشونت کے اثرات نظر آتے ، ناپسندیدہ اور ناگوارامور کو دیکھ کر بھی چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں نہ ہوتے ۔

            یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا ایک خادم تھا، جو نہایت سخت دل، ترش رو، بد اخلاق ،  اس کی بد اخلاقی کے باوجود اس کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی اور نرمی کا معاملہ فرماتے ، اس نے ایک دفعہ شیخ کے لیے شوربہ بنایا، اس میں نمک زیادہ ڈال دیا، آپ نے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا: اس کو چکھو، اور دیکھو کہ تم نے کیسے پکایا ہے ؟ اس نے چکھنے کے بعد نہایت سخت اور ترش لہجے میں کہا: اس میں کیا حرج ہے ، اس میں تھوڑا سا نمک زیادہ ہواہے؛ لیکن پھربھی لذیذ اورمزیدار ہے۔اسے کھالیجیے ، شیخ نے کہا: ٹھیک ہے ، اس میں تھوڑاپانی ملا کر اس کو کھالیا۔

زہد وتقوی

            یہ نہایت متقی، پرہیزگار، زاہد اور متورع تھے ، تمام امور کو کتاب و سنت کے مطابق انجام دیا کرتے ، ہر چیز کو شریعت کی کسوٹی اور ترازو میں تولتے ، جس میں کسی بھی قسم کا تردد یا شک وشبہ ہوتا اس پر عمل پیرا نہ ہوتے ، اس دعوت کو قبول نہ فرمادیتے میں جس میں کچھ مشتبہ امور ہوتے۔

            ان کے شاگرد خاص عبد الوہاب متقی ایک عجیب وغریب قصہ نقل کرتے ہیں :

            ان کو ایک دفعہ کسی وزیر نے دعوت دی، تو انھوں نے اس کو قبول نہیں کیا، جب وزیر نے اصرار کیا تو اس کی دعوت کو تین شرطوں کے ساتھ قبول فرمایا:(۱)  وہ جس جگہ چاہیں گے بیٹھے گے۔(۲) جو کھانا اچھا لگے کھائیں گے ۔(۳)  جب چاہے واپس آجائیں گے۔

            اور فرمایا: ہم تمہارے یہاں کل آتے ہیں ، وزیر دعوت قبول کرنے پر بہت خوش ہوا، اس نے نہایت اہتمام کیااور مختلف اصناف اور اقسام کے کھانے بنوائے ، جب کل ہوا اور وقت موعد آپہنچا، تو شیخ تنہا گئے ، اپنی تھیلی میں روٹی کی چند ٹکڑیاں رکھ لیں ، کسی کو بھی ساتھ نہ لیا۔ جب وزیر کے گھر پہنچے تو اس کے دروازے پر ایک کونے میں بیٹھ گئے، وزیر نے خواہش کی کہ مکان میں چلیں تو پہلی شرط کو بتلایا، پھر فرمایا: جلدی سے دسترخوان بچھادو، میرے پاس وقت نہیں ، نوع بنوع کے کھانے چنے گئے، انھوں نے اپنی تھیلی سے روٹی کے ٹکڑے نکالے ، اور ان کو بغیر دسترخوان سے کچھ لیے کھانے لگے، وزیر نے التماس کیا کہ دسترخوان سے کچھ کھائیں ، تو فرمایا: میرے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہوچکا ہے کہ میں جو چاہوں گاکھاؤں گا، پھر یہ کہہ کر لوٹ گئے ، وزیر نے کہا: تھوڑی دیر بیٹھے تو تیسری شرط یاد دلائی کہ وہ جب چاہیں لوٹ جائیں گے ، پھر وزیر کو سلام کر کے وہاں سے واپس ہوگئے (الشیخ عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار:۵۱۳)

شیوخ واساتذہ

            ان کے اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے ، چند ایک اجلہ اساتذہ یہ ہیں :(۱)  شیخ بہاء الدین باجن چشتی،(۲) شیخ حسام الدین ملتانی،(۳) شیخ محمد بن محمد سخاوی،(۴) شیخ ابو الحسن البکری۔

تلامذہ

            آپ کے تلامذہ کی بھی بڑی تعداد ہے ، جنہوں نے آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا،ظاہر ی وباطنی علوم میں شاگردی اختیارکی، آپ کاگھر مکہ مکرمہ میں بھی مستفیدین سے بھرا پُرا ہوتاتھا، ان کی کتاب وسنت کی روشنی میں تربیت وتزکیہ فرماتے تھے ۔

            آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :(۱) قاضی عبد اللہ بن ابراہیم سندی۔(۲)  قاضی عبد اللہ بن عبداللہ بافقیہ۔(۳) محمد بن طاہر پٹنی صاحب مجمع بحار الأنوار۔(۴)  رحمت اللہ سندی۔(۵) عبدالوہاب المتفی وغیرہ (السید محمد الشبلی الیمنی، النساء الباہر بتکمیل النور السافر فی أخبار القرن العاشر:۵۰۸، مکتبۃ الارشاد، صنعاء)

مناقب وفضائل

            آپ کے بے شمار مناقب وفضائل ہیں ، چند ایک ذکر کیے جاتے ہیں :آپ نے ایک مرتبہ نبی کریم … کا خواب میں دیدار فرمایا: یہ جمعہ کی رات اور رمضان کی ستائیسویں شب تھی، آپ نے نبی کریم … سے زمانے کے افضل شخص کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ … نے فرمایا: تم ہو، پھر کہا: کون؟ تو آپ … نے فرمایا: محمد بن طاہر ہندی۔

            اسی رات ان کے شاگرد شیخ عبد الوہاب نے بھی نبی کریم کا خواب میں دیدار فرمایا اور آپ …  سے اپنے شیخ کے مثل سوال کیا، تو آپ … نے فرمایا: تمہارے شیخ، پھر محمد بن طاہر ہندی، یہ شیخ علی متقی کے یہاں خواب کے بارے میں بتلانے کے لیے آئے تو انھوں نے کچھ کہنے سے پہلے فرمایا: میں نے تمہارے مثل خواب دیکھا ہے ۔

            آپ نہایت کثیر المجاہدہ تھے ، آپ کے متعلق آپ کا آخری عمر کا یہ قول منقول ہے کہ میں یہ چاہتا کہ میں نے اس قدر مجاہدہ نہ کیا ہوتا؛ چونکہ اس کی وجہ سے بوڑھاپے میں ضعف محسوس ہوتا ہے ۔

            یہ بہت مختصر کھانا تناول فرماتے ، اس قدر کم کہ اس پر انسان کا جینا مشکل ہو، یہ صرف  اس لیے تھا کہ اس کی وجہ سے جو ان کا ملکہ اور صفات حاصل ہوئیں تھی اور طول ریاضت جس سے وہ اس منزلت ومرتبہ پر پہنچے تھے ؛ اس لیے اگر ان کے کھانے کی عام مقدار بھی ایک ذرہ برابر بھی اضافہ کیاجاتا تو وہ اس کو ہضم نہ کرپاتے ۔

            علامہ عبد القادر بن احمد الفاکہی نے اپنی تالیف ’’القول النقی فی مناقب التقی‘‘ میں ان کی سیرت ، ان کے ریاضت ومجاہدات کا تذکرہ کیا ہے ، اور فرماتے ہیں کہ: ہمارے شیخ کا نام علی، ان کا لقب متقی یہ اسم بامسمّیٰ تھے ۔

            یہ کتاب مذکور میں ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :

            جو کوئی بھی عارف یا عالم ان سے ملاقات کرتا تو ان کی تعریف وتوصیف کیے بغیر نہیں رہتا، شیخ تاج العارفین أبو الحسن البکری ، شیخ فقیہ عارف ، زاہد وجیہ العمودی، شیخ امام الحرمین شہاب بن حجر الشافعی، اسی فقیہ مصر شمس الدین رملی ، انصاری، شیخ عالم شمس بکری ، ان تمام لوگوں نے ان کے کمال کا اعتراف کیاہے ۔

علماء کی مدح وثنا

            بڑے بڑے اہل علم اور اصحاب قلم نے ان کی مدح وتوصیف کی ہے ، ان کے کمال، وزہد وتقوی اور علمیت اور علو شان کو بیان کیا ہے ۔

            ۱-  عبد الوہاب شعرانی جب مناسک حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تو ان سے ملاقات کی، ان کے اعمال، علم ، ان کے ورع وتقوی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے ، وہ کئی کئی بار ان کی خانقاہ کاچکر لگاتے  اور روزانہ کے معمولات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرماتے ، کہتے ہیں :

            میں نے ان سے ۹۴۷ھ میں ملاقات کی، ان کے یہاں میری آمد ورفت ہوتی رہتی، یہ نہایت متقی پرہیز گار عالم تھے ،بالکل نحیف البدن، ایسا لگتا تھا کہ ایک اوقیہ گوشت بھی ان کے جسم پر نہ ہو، یہ نہایت خاموش مزاج، عزلت پسند تھے گھر سے بہت کم نکلا کرتے ، صرف جمعہ کی حرم شریف میں نماز کے ادائیگی کے لیے ، بعد جمعہ جلد وہاں سے واپس ہوجاتے ، میں ان کے گھر گیا تووہاں فقراء صادقین کی ایک جماعت تھی کچھ تو تلاوت ، کچھ ذکر واذکار، کچھ مراقبہ، کچھ مطالعہ وغیرہ میں مشغول تھے، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں ، جن میں سے ایک حافظ سیوطی کی جامع صغیر کی ترتیب ہے ، اسی طرح لغت میں مختصر النہایۃوغیرہ(عبد الوہاب الشعرانی، لواقح الانوار فی طبقات الأخبارالمعروف بالطبقات الکبری:۲؍۱۵۹، مکتبۃ الملیجی الکتبی وأخیہ، مصر)

            ۲-  شیخ امام ابو الحسن البکری شافعی نے جب علی متقی کی حدیث نبوی پر خدمات جن میں امام حافظ سیوطی کی جمع الجوامع حروف معجم کی ترتیب فقہی ابواب میں تقسیم کے کام کو دیکھا تو فرمایا: ’’إن للسیوطی منۃ علی العاملین وللمتقی منۃ علیہ‘‘( سیوطی کا تمام عالم پر احسان اور اور متقی کا سیوطی پر احسان ہے )( الشیخ عبد الحق محدث الدہلوی ، اخبار الأخیار :۵۰۸)

            ۳-  شیخ شہاب الدین احمد بن حجر مکی ان کے مجاہدات وریاضات کے مشاہدہ کے بعد ان کے پاس آیا جایا کرتے ، اور ان سے کافی متاثر تھے ، وہ ان کے تلامذہ کی فہرست میں ہونے کا فخر یہ اظہار فرماتے، انھوں نے ان سے بیعت کی اور ان سے خلافت سے سرفراز ہوئے (عمر بن رضا کحالۃ، معجم المؤلفین:۷؍۵۹، مکتبۃ المثنی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

            ۴- ان کے تعلق سے عبد القادر العیدروسی صاحب ’’النور السافر ‘‘ کہتے ہیں :یہ علماء عاملین اور اللہ کے صالح اور نیک بندوں میں سے تھے ، یہ اس کے ساتھ ساتھ ورع وتقوی اور عبادت میں ریاضت اور مجاہد کے حوالہ سے بہت بڑھے ہوئے تھے ، ان کی بہت سی تصانیف ہیں ، ان کے تعلق سے بہت سے سارے بہترین قصے او رحکایات منقول ہیں (عبد القادر بن شیخ بن عبد اللّٰہ العیدروسی، النور السافر عن أخبار القرن العاشر:۴۲۱، دار صادر، بیروت)

            ۵- محمد شبلی یمنی النساء الباہر میں فرماتے ہیں :علی متقی یہ محدث، صوفی ن زاہد صالح، متورع، عابد، بقیۃ السلف، صفوۃ الاولیاء ، استاذ الأساتذۃ، مرشد السالکین ، اوحد العلماء ہیں ، یہ تمام علوم وفنون کے جامع ہیں ( السید شبلی یمنی، النساء الباہر بتکمیل النور السافر فی أخبار القرن العاشر:۵۰۷، مکتبۃ الارشاد، صنعاء، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۵-۲۰۰۴م)

            ۶-  عمر رضا کحالہ دمشقی کہتے ہیں : علی بن حسام الدین بن عبد الملک جونفوری، ہندی، یہ متقی (علاء الدین) سے مشہور ہیں ، فقیہ، محدث، واعظ ہیں اور بعض علوم وفنون میں ان کی مشارکت رہی ہے۔ (عمر رضا کحالۃ، معجم المؤلفین:۷؍۵۹، مکتبۃ المثنی، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، بیروت)

            ۷-  نواب صدیق حسن خان ان کے تعلق سے فرماتے ہیں : میں نے ان کی تالیفات ومصنفات کی واقفیت حاصل کی ہے ، میں نے ان کو نہایت نفع بخش اور نہایت بہتر اور مفید پایا ہے (صدیق بن حسن القنوجی، أبجد العلوم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت:۱۸۷۸م)۔

کرامت

            کرامات گرچہ آدمی کے صلاح وتقوی پر دال نہیں ہوتے؛ لیکن یہ خارق عادت امور اللہ عزوجل کے ساتھ صحت ایمان اور اتباع رسول کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں ۔

            شیخ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’اخبار الأخیار‘‘ میں کرامات کا تذکرہ کیا ہے :

            ان کے شاگر د شیخ عبد الوہاب ان کے کرامات کا تذکرہ کہتے ہیں :ایک مرتبہ پیر ومرشد مکہ معظمہ میں سکونت پذیر تھے ، دو باپ بیٹے مغرب سے مکہ مکرمہ میں وارد ہوئے جو نہایت درجہ کے عبادت گذار تھے ، بیٹا دس یا پندرہ دن کے بعد اور باپ چار پانچ دن کے بعد کھانا کھایا کرتے تھے ،پیر ومرشد ان دونوں کی تعریف سن کر ان سے ملنے کے لیے تیار ہوئے ؛ لیکن کمزوری کی وجہ سے پیدل نہ چل سکتے تھے؛ چنانچہ آپ کے کہنے پر ایک تندرست اور قوی ہیکل آدمی آپ کو اپنے کندھوں پر سوارکر کے مغربی بزرگوں کے پاس لے گیا، پیر ومرشد کتاب حکم کبیر اور اس خادم کو اپنے ساتھ لیتے گئے ، جب ان دونوں مغربی بزرگوں کو معلوم ہوا کہ شہر کے مشہور اور معزز آدمی ملاقات کرنے آرہے ہیں ، جن کی وجہ سے ہماری شہرت ہوجائے گی اور ہماری عبادت میں خلل پیدا ہوگا تو ان دونوں نے ہماری آمد پر بے التفاتی کی؛  چنانچہ پیر ومرشد نے مجھے خادم (عبد الوہاب) سے کہا: دیکھو یہ دونوں کتنی بے رخی سے پیش آرہے ہیں اور اپنے سر کا بوجھ سمجھ کر ہم کو اپنے پاس سے نکالنا چاہتے ہیں ، اس کے بعد پیر ومرشد نے ان دونوں بزرگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا، ہم نے مشائخین کے چند اقوال جمع کیے ہیں ، وہ سنیے؛ چنانچہ پیر ومرشد میری جانب متوجہ ہوئے ، میں نے چند اقوال سنائے تھے کہ ان دونوں مغربی بزرگوں میں گرمی کے آثار پیدا ہوئے اور ان پر ذوق کی حالت طاری ہوگئی اس کے بعد ہمیشہ کے لیے یہ بزرگ شیخ کی خدمت میں رہے ، آخر کار دونوں نے پیر ومرشد سے بیعت کی، اللہ ان پر اور تمام صالحین پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

            پیر ومرشد متوکل تھے جن کو حصول رزق کے بغیر کسی واسطہ کے حاصل ہوتے تھے، اثر مقصد براری کے پیش نظر دیکھا گیا کہ پانی کنویں کی تہہ میں ہے اور پیاسے ہرن اس کی جانت حسرت سے دیکھ رہے ہیں کہ یکایک وہ تہ نشیں پانی چڑھ کر کنویں کے من پر سے بہنے لگا جسے ہرن وغیرہ اچھی طرح پی کر لوٹ گے اور وہ بہتا ہوا پانی ہم لوگوں نے بھی پیا ہے ۔

علمی کارنامے

            شیخ کا معمول تھا کہ وہ بیشتر وقت تصنیف وتالیف، علوم کی ترویج اور نقل وکتابت میں صرف فرماتے ، اور نسخے تیارفرما کر اس کے مختلف جگہوں پر روانہ فرماتے ، شیخ کی بہت سی مشہور کتابیں ہیں :

            ۱- کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال: یہ اہل علم کے مابین مشہور ومعروف کتاب ہے،  یہ کتاب تمام احادیث کو جامع ہونے کی حیثیت سے مشہور ہے ، یہکتاب ان کی مختلف کتابوں : منہج العمال فی سنن الأقوال، الاکمال فی منہج العمال اور غایۃ العمال وغیرہ کو حروف تہجی کی ترتیب دے کر وجود میں آئی ہے ۔

            ۲- تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان(یہ ایک چھوٹا رسالہ ہے ) یہ علامہ سیوطی کی کتاب ’’العروف الوردی فی أخبار المہدی‘‘  اور’’عقد الدرر فی أخبار المہدی المنتظر‘‘ وغیرہ کا خلاصہ ہے ، بعض لوگوں نے اس کا نام ’’البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان‘‘ بتلایا ہے۔

            ۳-  مطلع الغایۃ فی اختصار النہایۃ: یہ ابن اثیر کی کتاب’’النہایۃ فی غریب الحدیث‘‘  کا خلاصہ ہے ، اس کا نسخہ برلن میں موجود ہے ۔

            ۴-  غایۃ الکمال فی بیان أفضل الأعمال: اس کے دو نسخے ہیں ، ایک دا ر العلوم الاسلامیہ پشاور میں ہے ، اور دوسرا معہد الاستشراق ینغزار میں۔

            ۵- الفصول شرح جامع الأصول: اس کا نسخہ خود مولف کے خط میں خدابخش لائیریری میں ہے ۔

            ۶- جوامع الکلم فی المواعظ والحکم: اس کے نسخے ہندوستان، پیرس، برلین، جامعہ قاہرہ ، دار الکتب المصریۃ، دار العلوم الاسلامیۃ وغیرہ میں موجود ہیں ۔

            ۷- الأحادیث المتواترۃ: یہ اما م سیوطی کی کتاب ’’قطف الأزہار المتناثرۃ‘‘ کا اختصار ہے ، اس کا نسخہ مکتبۃ رضا رامپور میں موجود ہے ۔

            ۸- الرتبہ الفاخرۃ فی نصائح الملوک، اس کتاب کاتذکرہ ’’ہدیۃ العارفین وإیضاح المکنون‘‘ میں آیا ہے ۔

            ۹- تبیین الطریق یا تلقین الطریق۔

            ۱۰- البرہان الجلی فی معرفۃ الولی۔

            ۱۱-شرح الحکم لابن عباد۔

            ۱۲- العنوان فی سلوک النسوان۔

            ۱۳- مجمع بحار الأنوار فی شرح مشکل الآثار۔

            ۱۴- المواہب العلیۃ فی الجمع بین الحکم القرآنیۃ والحدیثیۃ۔

            ۱۵- ہدایۃ ربی عند فقد المربی۔

            ۱۶- النہج الأتم فی تبویب الحکم۔

            ۱۷- الوسیلۃ الفاخرۃ فی سلطۃ الدنیا والآخرۃ۔

            ۱۸- رسالۃ فی إبطال دعوی السید محمد بن یوسف الجونفوری۔

            ۱۹- الحکم العرفانیۃ فی معان ارشادیۃ وإشارات قرآنیۃ۔

            ۲۰- شرح الشمائل الترمذی۔

            ۲۱- نعم المعیار والمقیاس لمعرفۃ مراتب الناس۔

            ۲۲- زادالطالبین۔

            ۲۳- نظم الخدور۔

            ۲۴- سلوک الرجا۔

            ۲۵- سلوک الطریق إذا فقد الرفیق۔

            ۲۶- کفایۃ أھل الیقین فی طریق المتوکلین۔

            ۲۷- شرح الضابط لوصول الطریقۃ۔

            ۲۸- سلوک غزاۃ۔

            ۲۹- فتح الجواد۔

            ۳۰- عمدۃ الوسائل۔

وفات

            اس عالم صالح کی وفات بروز منگل ، وقت سحر سنۃ ۹۷۵کو مکہ مکرمہ میں ہوئی، اسی دن صبح میں تدفین عمل میں آئی ، ان کی قبر جنت المعلی میں فضیل بن عیاض کے مقابل ہے ، ان کی عمر اس وقت ۸۷سال تھی بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ۹۰ سال تھی۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:103‏،  رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts