از: مفتی توقیر عالم قاسمی
استاذِ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال
ترکہ : میت کا چھوڑا ہوا وہ مال ہے جس سے کسی انسان کا حق وابستہ نہ ہو۔ مثلاً میت کا وہ مال جو میت کے دین میں رہن رکھا ہوا ہو ترکہ میں شمار نہ ہوگا؛ کیوں کہ اس سے دائن یعنی قرض خواہ کا حق متعلق ہے۔ یا مثلاً وہ مبیع (خریدی گئی چیز) جس کی قیمت اب تک ادا نہ کی گئی ہو اور خریدنے والا مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے مرگیا تو یہ مبیع ترکہ میں شمار نہ ہوگی؛ اس لیے کہ اس سے بیچنے والے کا حق متعلق ہے، یہ مبیع بائع ہی کی ملک ہوگی۔ ( مجمع الانہر:۲/۷۵۶)
قال فی الشامی: الترکۃُ فی الاصطلاحِ مَاتَرَکَہُ المیتُ من الأموالِ صافیاً عن تعلّقِ حقِّ الغیرِ بعینٍ من الأموالِ۔(۵/۴۱۸)
میراث: وہ مال وجائداد وغیرہ جو مرنے والے کی طرف سے حق داروں کو ملے ۔ یعنی ترکہ اور میراث دونوں کے ایک ہی معنی ہیں ۔
میت کی ملکیت میں جو چیز بھی تھی، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، جیسے روپے پیسے ، زمین جائداد، گھرمکان، کپڑے اور گھریلو سامان، فیکٹری اور آلات ومشین ،وغیرہ ، سب ترکہ ہیں ،ہر چیز میں ہر وارث کا حق ہے، کسی وارث کا کوئی خواص چیز بغیر تقسیم کے خود رکھ لینا جائز نہیں ۔سورۂ نساء آیت: ۷، میں اللہ تعالی نے میراث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ‘‘۔ یعنی میت کا چھوڑا ہوا مال کم ہو یا زیادہ سب میراث ہیں ، سب وارثین کو ملیں گے۔
آدمی کے مرنے کے بعداس کے ترکہ اور میراث کے ساتھ چار حقوق متعلق ہوتے ہیں :
(۱) تجہیز وتکفین: مرنے کے بعد میت کے ترکہ اور میراث میں سے اس کی تجہیز وتکفین کی جائے گی، اس میں نہ اسراف اور فضول خرچی ہوگی اور نہ کمی و کوتاہی۔ یعنی مرد اور عورت کو کفن کے کپڑوں کی تعداد میں کفن سنت کی رعایت کی جائے گی، مرد کے لیے تین کپڑے اور عورت کے لیے پانچ؛ اس میں کمی بیشی نہ کی جائے اور کفن کے کپڑے کی قیمت میں بھی اسراف اور کمی نہ ہویعنی نہ بہت بیش قیمتی ہو اور نہ بہت گھٹیا؛ بلکہ وہ اپنی زندگی میں جس معیار کا کپڑا پہنتا تھاقیمت کے اعتبار سے اس معیار کا کپڑا کفن میں دیا جائے۔
اور تجہیز کے تحت میت کے مرنے سے قبر تک کی تمام ضروریات داخل ہیں ۔
(۲) ادائے قرض : تجہیز و تکفین میں خرچ کے بعد جو مال بچا ہے اگر میت کے ذمے لوگوں کا قرض ہے تو اس کو ادا کیا جائے اگرچہ ادائے قرض میں سارا مال ختم ہو جائے اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
اس کے بعد اگر اس پر اللہ کا دین اور حق ہے تو اس کو ادا کیا جائے گا، مثلاً اس پر زکاۃ کی ادائیگی فرض تھی اور اس نے ادا نہیں کیا اور وفات ہو گئی، یا قسم وغیرہ کا کفارہ اس پر واجب تھا اور ادا نہیں کیا تو اگر اس نے اس کو ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو لوگوں کا قرض ادا کرنے کے بعد جو مال بچا ہے اس کی ایک تہائی میں سے اس کوادا کیا جائے گا۔ بہر حال یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بندے کے دین کو پہلے ادا کیا جائے اس کے بعد جو مال بچا ہے اس کے ثلث (تہائی) میں سے اللہ کے دین کو ادا کیا جائے اگر اس نے اس کو ادا کرنے کی وصیت کی ہے، اور اگر اس نے وصیت نہیں کی ہے تو واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر ورثاء نے بطور تبرع اور احسان، میت کی طرف سے ادا کردیا تو میت کی طرف سے واجب ساقط نہ ہوگا۔(درمختار مع الشامی نعمانی: ۵/۴۸۴)
(۳) نفاذِ وصیت: اگر تجہیز وتکفین اور ادائے دین کے بعد کچھ مال بچ جائے اور مرنے والے نے کوئی وصیت کی ہے جیسے مسجد کے لیے، یا مدرسے کے لیے، یا کسی آدمی کو دینے کے لیے وصیت کی ہے تومابقی مال کے ثلث (تہائی) سے اس کی وصیت نافذ کی جائے گی اور جس کے لیے اس نے وصیت کی ہے اس کو دیدیا جائے گا ، اس مصرف میں خرچ کردیا جائے گا۔
(۴) حقِ وارثین : نفاذ وصیت کے بعد جو مال بچ جائے اس کو میت کے ان وارثین کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا جن کا وارث ہونا قرآن ، یاحدیث،یا اجماع سے ثابت ہے۔ (سراجی)
تنبیہ : واضح رہے کہ میت کے قرض کو ادا کرنا اور اس کی وصیت پر عمل کرنا اور وصیت کو نافذ کرنا فرض اور واجب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت تاکید کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے۔ سورۂ نساء آیت:۱۱، ۱۲، میں میراث کے احکام اور حصے کو بیان کرکے دومرتبہ فرمایا : مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍتُوْصُوْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ۔ یعنی میراث کی تقسیم ہوگی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد جس کی وصیت تم کرجاؤ اور دین ادا کرنے کے بعد۔
اور ایک بار فرمایا: مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصَی بِہَا أَوْدَیْنٍ۔ تقسیم میراث ہوگی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد جس کی وصیت کی جا چکی ہے، یا اگر دین ہے تو اس کو ادا کرنے کے بعد ہی میراث تقسیم ہوگی۔
اگر دین ا ور وصیت نہ ہو تو تجہیزو تکفین کے بعد بچا ہوا کل مال وارثوں میں تقسیم ہو جائے گا۔
مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا
مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوگا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہ ہوگا :خواہ ان میں آپس میں کوئی بھی نسبی رشتہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لایرثُ المسلمُ الکافرَ ولا الکافرُ المسلمَ۔ (بخاری حدیث: ۶۷۶۴، مسلم حدیث:۱- ۱۶۱۴)
یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہ ہوگا۔
مرتد کی میراث کا حکم : یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پیدائش کے بعد ہی سے کوئی شخص مسلمان یا کافر ہو؛ لیکن اگر کوئی شخص پہلے مسلمان تھا پھر- العیاذ باللہ- اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا (جیسے قادیانی ہو گیا) ، اگر ایسا شخص مرجائے، یا مقتول ہوجائے تو اس کا وہ مال جو زمانۂ اسلام میں کسب کیا تھا، کمایا تھا،وہ اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گااور جو ارتداد کے بعد کمایا ہے وہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔
لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تو اس کا کل مال خواہ زمانۂ اسلام میں حاصل ہوا ہو یا زمانۂ ارتداد میں ، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا؛ لیکن خود مرتد مرد یامرتد عورت اس کو نہ کسی مسلمان سے میراث ملے گی نہ کسی مرتد سے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۲)
قاتل مقتول کی میراث سے محروم ہوگا
اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو قتل کردے جس کے مال میں اس کو میراث پہنچتی ہو(جیسے بیٹے نے باپ کو قتل کردیا، یا بھائی نے بھائی کو قتل کردیا (العیاذ باللہ) تو یہ قاتل اس شخص کے میراث سے محروم ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: القاتلُ لایرثُ۔ یعنی قاتل وارث نہ ہوگا۔ (ترمذی حدیث: ۲۱۰۲، ابن ماجہ حدیث: ۲۷۳۵) (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الفرائض: ۴/۱۸۸)
میراثِ حمل
اگر کسی شخص نے اپنی کچھ اولاد چھوڑی اور بیوی کے پیٹ میں بھی بچہ ہے تو یہ بچہ بھی وارثوں کی فہرست میں آئے گا؛ لیکن چوں کہ یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی، یا ایک سے زیادہ بچے ہیں ؛اس لیے بچہ پیدا ہونے تک تقسیم میراث ملتوی رکھنا مناسب ہوگااور اگر تقسیم کرنا ضروری ہو تو سردست ایک لڑکا یا ایک لڑکی فرض کرکے دونوں کے اعتبار سے دو صورتیں فرض کی جائیں ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں ورثاء کو کم ملتا ہو وہ ان میں تقسیم کردیا جائے اور باقی اس حمل کے لیے رکھا جائے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۳)
معتدہ کی میراث
جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور طلاق رجعی ہے ، پھر طلاق سے رجوع اور عدت ختم ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو یہ عورت میراث میں حصہ پائے گی ؛اس لیے کہ ابھی نکاح باقی ہے۔
اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات میں بیوی کو طلاق دی اگرچہ طلاق بائن یا مغلظہ ہی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مر گیا تب بھی وہ عورت اس کی وارث ہوگی۔
اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات سے پہلے صحت کے زمانے میں اپنی بیوی کوبائن یا مغلظہ طلاق دیدی اور اس کے چند دن بعد عورت کی عدت میں وہ فوت ہوگیا تو اس صورت میں عورت کومیراث میں سے حصہ نہیں ملے گا؛ البتہ طلاق رجعی دی ہے تو وہ وارث ہوگی۔
مسئلہ: اگر کسی عورت نے شوہر کے مرض وفات میں خود سے خلع کرلیا تو وارث نہیں ہوگی، اگرچہ اس کا شوہر اس کی عدت کے دوران مرجائے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۳)
پیدائش کے وقت جو بچہ مر گیا اس کی میراث
جو بچہ زندہ پیدا ہوا، اور اس میں آثار حیات میں سے کچھ بھی پایا گیااور اس کے بعد فوراً مر گیا تو یہ بچہ خود دوسرے کا وارث ہوگا اور دوسرا بھی اس کا وارث ہوگا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ -وَرِثَ وَوُرِّثَ-۔ (ابن ماجہ حدیث: ۲۷۵۰، سنن دارمی حدیث: ۳۱۶۸،۳۱۶۹)
یعنی جب بچہ ولادت کے وقت آواز نکالے یعنی اس میں آثارِ حیات پائے جائیں تو اس پر جنازے کی نماز پڑھی جائے گی اور اس کے وارث ہوں گے اور ایک روایت میں ہے : وہ وارث ہوگا اور دوسرے اس کے وارث ہوں گے۔
میت پر قرض سے متعلق چند ضروری باتیں
اگرمیت پرکسی کا قرض ہو اور وہ اس کو ادا نہ کیا ہو تو اس قرض کی ادائیگی کی وصیت کرنا مرنے والے پر موت سے پہلے واجب ہے، خواہ وہ قرض اللہ کا ہو یا بندے کا۔
فی المواہب: تجبُ علی مدیونٍ بما علیہ للّہِ تعالی أو للعبادِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)
کیوں کہ دین اور قرض بندے کا حق ہے، جس کو ادا کرنا ضروری ہے۔ حدیث میں ہے کہ سعد بن اطول کے بھائی کا انتقال ہوا، ان کے بھائی نے تین سو دراہم میراث میں چھوڑے، انہوں نے ان دراہم کو اپنے بھائی کے اہل وعیال کے لیے رکھنا چاہا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے دَین میں مقید ومحبوس ہے(یعنی اس کی وجہ سے اس کی مغفرت نہیں ہورہی ہے) ، پس اس کا دَین پہلے ادا کرو: إنَّ أخاکَ مُحْتَبَسٌ بدینِہ، فَاقْضِ عنہ۔(ابن ماجہ، باب أداء الدین عن المیت، حدیث نمبر: ۲۴۳۳)
اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: مَنْ فَارَقَ الروحُ الجسدَ، وہُوَ بَرِئٌمِنْ ثَلاَثٍ دَخَلَ الجنۃَ، مِنَ الکبرِ، والغلولِ، والدینِ۔ (سنن دارمی حدیث: ۲۶۳۴)
ترجمہ: جس آدمی کی روح جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں سے بری ہے وہ جنت میں جائے گا : (۱) تکبر (۲) خیانت (۳) اور قرض۔
اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر کسی آدمی کو اللہ کے راستے (جہاد) میں قتل کیا جائے ، پھر زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے،پھر زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا؛ یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیاجائے۔ (سنن کبری للبیہقی حدیث: ۱۰۹۶۳)
اور ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفسُ المؤمنِ معلقۃٌ بدَینہ، حتی یُقْضَی عنہ۔( سنن صغیر للبیہقی حدیث: ۲۳۲۵)
اور ایک روایت میں ہے: نفسُ المؤمنِ معلقۃٌ ماکانَ علیہ دَینٌ۔ (موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان حدیث: ۱۱۵۸، دارمی حدیث: ۲۶۳۳)
یعنی مؤمن کا نفس اس کے قرض کے ساتھ معلق (گرفتار) رہتا ہے (اس کی مغفرت نہیں ہوتی) یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔
بیوی کا مہر
یہ دیکھنا چاہیے کہ مرنے والے نے بیوی کا مہر ادا کیا ہے یا نہیں ؟ اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو دوسرے قرضوں کی طرح اولاً کل مال سے قرض مہر ادا ہوگا، اس کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا، اور مہر لینے کے بعد عورت اپنی میراث کا حصہ بھی میراث میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے وصول کرے گی اور اگر میت کا مال اتنا ہے کہ مہر ادا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا تو بھی دوسرے دیون کی طرح پورا مال قرض مہر میں عورت کو دیدیا جائے اور کسی وارث کو کچھ حصہ نہ ملے گا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۲۶)
ایک رسم بد پر تنبیہ
بعض علاقے میں شوہر جب مر جاتا ہے تو اس کو کفنانے کے بعد جنازہ اٹھانے سے پہلے اس کی بیوی کو لوگ پکڑکر لاتے ہیں اور اس سے اپنا مہر معاف کرنے کو کہتے ہیں اور وہ خواہی نہ خواہی معافی کے الفاظ بول دیتی ہے اس طرح مہرمعاف نہیں ہوتا، میت کو سنانا فضول ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ میت یعنی اس کے شوہر کے ترکہ میں سے اس کے مہر کو ادا کیا جائے؛ تاکہ اس کا کچھ سہارا ہوجائے؛ البتہ اگر شوہر مفلس او قلاش ہوکر مرا ہے اور اس نے مال وجائدادکچھ نہیں چھوڑا ہے تو خود بیوی کو چاہیے کہ اپنا مہرمعاف کردے؛ تاکہ اس کا شوہر اس کے دین میں محبوس اور گرفتار نہ رہے۔
وصیت سے متعلق آداب واحکام
وصیت کی تعریف: الوصیۃُ تصرّفٌ فی ثلثِ المالِ فی آخرِ العمرِ زیادۃً فی العملِ، فکانتْ مشروعۃً۔ (بدائع الصنائع، بیان جواز الوصیۃ: ۷/۳۳۰)
وصیت آخری عمر یعنی مرض الوفات میں تہائی مال میں تصرف کرنا ہے، عمل میں زیادتی کے لیے، پس یہ مشروع ہے۔
وصیت اصطلاح شریعت میں کہتے ہیں اس مال کو جس کے متعلق میت نے وفات سے پہلے کسی شخص کو، یا کسی مصرف میں دینے کا اظہار کیا ہو۔ (معارف القرآن:۱/۴۴۰)
(باقی آئندہ)
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:103، رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء
٭ ٭ ٭