از: مولانا اخترامام عادل قاسمی

بانی ومہتمم جامعہ ربانی منورواشریف بہار

            اسلام میں انسدادجرائم کے لیے حدودوتعزیرات کانظام ہے،مخصوص جرائم پرجومقررہ سزائیں ہیں ، ان کوحدود کہاجاتاہے،مثلاًزناکی سزارجم یاحدمقرر ہے،قتل کی سزاقصاص یادیت وغیرہ مقررہے۔

تعزیرات مفہوم اورحدود

            اورجن جرائم کی سزائیں شریعت نے مقر رنہیں کی ہیں ؛ بلکہ ان کوحکام کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے اورحکام جرم کی نوعیت،مقام اورمجرم کے حالات کے لحاظ سے سزائیں تجویزکرتے ہیں ، ان کو تعزیرات کہتے ہیں ،دیکھیے فقہاء کی عبارات:

٭ التعزیر ہو عقوبۃ غیر مقدرۃ شرعاً، تجب فی کل معصیۃ لیس فیہا حد ولا کفارۃ(۱)۔

        ٭ یَخْتَلِفُ ذلک بِاخْتِلَافِ الْأَشْخَاصِ فَلَا مَعْنَی لِتَقْدِیرِہِ مع حُصُولِ الْمَقْصُودِ بِدُونِہِ فَیَکُونُ مُفَوَّضًا إلَی رَأْیِ الْقَاضِی یُقَیِّمُہُ بِقَدْرِ ما یَرَی الْمَصْلَحَۃَ فیہ علی ما بَیَّنَّا تَفَاصِیلَہُ وَعَلَیْہِ مَشَایِخُنَا رَحِمَہُمْ اللَّہُ تَعَالَی(۲)

        ٭ قال ابن شاس الجنایات الموجبات للحد سبعۃ وما عدا ہذہ الجنایات ومقدماتہا فیوجب التعزیر وہو موکول إلی اجتہاد الإمام(۳)

        ٭ والتعزیر لا یختص بالسوط والید والحبس، وإنما ذلک موکول إلی إجتہاد الحاکم(۴)

تعزیرات کی قسمیں

            تعزیرات کی دوقسمیں ہیں :-

            ۱-         تعزیرات جسمانی :جن میں جسم کے کسی حصہ کوتکلیف پہونچائی جائے،ان کے جوازمیں علماء اسلام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

مالی تعزیرات کاحکم

            ۲-        دوسری قسم ہے تعزیرات مالی،یعنی مجرم کومالی اعتبار سے زیربار کیاجائے،اس کی بھی تین صورتیں ہیں :

            ۱-         جس مال  یامقام سے جرم کاتعلق ہو اس کوضبط یاضائع کردیاجائے،مثلاً خراب دودھ یاتیل کوضبط یاتلف کردینا،شراب خانہ یاقمارخانہ کوتباہ کردیاجانا،بت، موسیقی اورآلات لہو،شراب کے برتن اورمشکیزے توڑدینا،زندیقوں اورملحدوں کی کتابیں ،مخرب الاخلاق فلمیں ،تصاویر اورمجسمے ضائع کردیناوغیرہ ۔

            اس صورت کے جوازمیں بھی فقہاء مختلف الرائے نہیں ہیں ،حنفیہ کے یہاں مفتیٰ بہ قول کے مطابق آلات فسادکوتوڑدیناموجب ضمان نہیں ہے:

        وَعَلَی ہذا الِاخْتِلَافِ بَیْعُ النَّرْدِ وَالشِّطْرَنْجِ وَعَلَی ہذا الِاخْتِلَافِ الضَّمَانُ علی من أَتْلَفَہَا فَعِنْدَہُ یَضْمَنُ وَعِنْدَہُمَا لَا کَذَا فی الْبَدَائِعِ، وَلَکِنَّ الْفَتْوَی فی الضَّمَانِ علی وقولہما ’’قولہما‘‘ کما سَیَأْتِی فی الْغَصْبِ وَمَحَلُّہُ ما إذَا کَسَرَہَا غَیْرُ الْقَاضِی وَالْمُحْتَسِبِ أَمَّا ہُمَا فَلَا ضَمَانَ اتِّفَاقًا(۵)۔

            شوافع کابھی یہی خیال ہے:

        وَالْأَصْنَامُ) وَالصُّلْبَانُ (وَآلَاتُ الْمَلَاہِی) کَالطُّنْبُورِ (لَا یَجِبُ فِی إبْطَالِہَا شَیْئٌ)؛ لِأَنَّ مَنْفَعَتَہَا مُحَرَّمَۃٌ لَا تُقَابَلُ بِشَیْء ٍ، وَقَضِیَّۃُ التَّعْلِیلِ کَمَا قَالَ الْإِسْنَوِیُّ: إنَّ مَا جَازَ مِنْ آلَاتِ اللَّہْوِ کَالدُّفِّ یَجِبُ الْأَرْشُ عَلَی کَاسِرِہِ وَفِی أَوَانِی الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ خِلَافٌ مَبْنِیٌّ عَلَی حِلِّ الِاتِّخَاذِ، (وَالْأَصَحُّ أَنَّہَا لَا تُکْسَرُ الْکَسْرَ الْفَاحِشَ)، لإِمْکَانِ إزَالَۃِ الْہَیْئَۃِ الْمُحَرَّمَۃِ مَعَ بَقَاء ِ بَعْضِ الْمَالِیَّۃِ .نَعَمْ لِلْإِمَامِ ذَلِکَ زَجْرًا وَتَأْدِیبًا عَلَی مَا قَالَہُ الْغَزَالِیُّ فِی إنَاء ِ الْخَمْرِ بَلْ أَوْلَی(۶)۔

            حنابلہ بھی اسی پرفتویٰ دے رہے ہیں :

        فہذہ الآلات إذا ثبت تحریمہا؛ فإنہا لا حرمۃ لہا، فإذا أتلفت فإنہ لا ضمان علی متلفہا إذا أتلف ما یکون بہ الغناء(۷)۔

            ۲-دوسری صورت یہ ہے کہ متعلقہ چیزکوضائع کرنے کے بجائے شکل بدل دی جائے،مثلاًجعلی کرنسی توڑنا،اورتصاویروالے پردوں کوپھاڑکرتکیے وغیرہ بنالینا،اس کی بھی حسب موقع اجازت ہے (۸)۔

            ۳-تیسری صورت یہ ہے کہ جرم پرالگ سے کوئی مالی جرمانہ عائد کیاجائے؛تاکہ مالی دباؤسے مجبورہوکرمجرم اپنے جرم سے بازرہے،اورشایدتوفیق توبہ بھی نصیب ہو، اس کی بھی دوشکلیں ہیں :

            ۱-جرمانہ میں حاصل شدہ مال قابل واپسی نہ ہو،یعنی مجرم کووہ مال کبھی واپس نہ کیاجائے،عام طورپرعرف میں اسی کومالی جرمانہ  یا’’تعزیربالمال‘‘کہاجاتاہے۔

            یہ صورت ائمۂ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ رہی ہے؛البتہ کتب فقہیہ کے مطابق زیادہ ترفقہاء کی رائے عدم جوازکی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اورحضرت امام محمدؒ کی رائے یہی ہے اورمذہب حنفی میں اسی کوقول مفتیٰ بہ قراردیا گیاہے(۹) ۔

            ۲-دوسری صورت یہ ہے کہ جرمانہ میں حاصل شدہ مال کچھ مدت کے بعدجب  مجرم اپنے جرم سے بازآجائے اورتوبہ کرلے تواس کوواپس کردیاجائے،یہ درحقیقت ’’تعزیر بحبس المال‘‘ کی صورت  ہے،اوراسی کوکچھ لوگ’’تعزیرباخذالمال ‘‘بھی کہتے ہیں ۔

            دراصل یہ شکل بعض فقہاء کی جانب سے حضرت امام ابویوسف ؒکے قول کی تشریح وتاویل کے نتیجہ میں پیداہوئی؛چونکہ حنفیہ کامعروف مسلک تعزیزمالی کے عدم جواز کاہے؛جب کہ امام ابویوسف ؒ کا قول جوازکانقل کیاگیاہے،تواس کی تاویل علامہ کردریؒ وغیرہ نے یہ نقل کی کہ امام ابویوسفؒ کے قول کا منشاء یہ ہے کہ مجرم کامال کچھ دنوں کے لیے محبوس کردیاجائے،اورجب حاکم کو اطمینان ہوجائے کہ مجرم نے اپنے جرم سے توبہ کرلی ہے،تومال اس کوواپس کردیاجائے۔

        وَأَفَادَ فی الْبَزَّازِیَّۃِ أَنَّ مَعْنَی التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ علی الْقَوْلِ بِہِ إمْسَاکُ شَیْئٍ من مَالِہِ عند مُدَّۃً لِیَنْزَجِرَ ثُمَّ یُعِیدُہُ الْحَاکِمُ إلَیْہِ لَا أَنْ یَأْخُذَہُ الْحَاکِمُ لِنَفْسِہِ أو لِبَیْتِ الْمَالِ کما یَتَوَہَّمُہُ الظَّلَمَۃُ إذْ لَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ من الْمُسْلِمِینَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَیْرِ سَبَبٍ شَرْعِیٍّ  وفی الْمُجْتَبَی لم یذکر کَیْفِیَّۃَ الْأَخْذِ وَأَرَی أَنْ یَأْخُذَہَا فَیُمْسِکَہَا فَإِنْ أَیِسَ من تَوْبَتِہِ یَصْرِفُہَا إلَی ما یَرَی وفی شَرْحِ الآثَارِالتَّعْزِیرُ بِالْمَالِ کان فی ابْتِدَائِ الإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ اہـ وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْہَبَ عَدَمُ التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ(۱۰)۔

        ٭ مطلب فی التعزیربأخذ المال قولہ (لا بأخذ مال فی المذہب) قال فی الفتح وعن أبی یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال وعندہما وباقی الأئمۃ لا یجوز اہـ  ومثلہ فی المعراج وظاہرہ أن ذلک روایۃ ضعیفۃ عن أبی یوسف  قال فی الشرنبلالیۃ ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ اہـ  ومثلہ فی شرح الوہبانیۃ عن ابن وہبان  قولہ (وفیہ الخ) أی فی البحر حیث قال وأفاد فی البزازیۃ أن معنی التعزیر بأخذ المال علی القول بہ إمساک شیء من مالہ عند مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ لا أن یأخذہ الحاکم لنفسہ أو لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی وفی المجتبی لم یذکر کیفیۃ الأخذ ورأی أن یأخذہا فیمسکہا فإن أیس من توبتہ یصرفہا إلی ما یری  وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ اہـ والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال(۱۱)۔

        ٭وبقی التعزیر بالشتم وأخذ المال فأما التعزیر بالشتم فہو مشروع بعد أن لا یکون قذفا کما فی البحر عن المجتبی وأما بالمال فصفتہ أن یحبسہ عن صاحبہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ إلیہ کما فی البحر عن البزازیۃ اہـ۔ ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ(۱۲)۔

 اس تشریح کے مطابق حضرت امام ابویوسفؒ کے قول جوازاورحنفیہ کے معروف مسلک (عدم جواز) کاٹکراؤختم ہوجاتاہے۔ظاہرہے کہ انتظامی نقطئہ نظرسے وقتی حبس مال میں دوسرے فقہاء کوبھی اعتراض نہیں ہوگا۔

            لیکن اسی تشریح کااگلاحصہ یہ ہے کہ اگرجرم سے مجرم کے بازآنے کی امیدنہ ہوتوپھریہ مال محبوس قابل واپسی نہیں ہوگا؛بلکہ حسب مصلحت  عام انسانی یاملکی مفادات میں خرچ کیاجائے گا۔

        وفی الْمُجْتَبَی لم یذکرکَیْفِیَّۃَ الْأَخْذِ وَأَرَی أَنْ یَأْخُذَہَا فَیُمْسِکَہَا فَإِنْ أَیِسَ من تَوْبَتِہِ یَصْرِفُہَا إلَی ما یَرَی(۱۳)۔

            تشریح کے اس حصہ کی شمولیت کے بعدتعزیربالمال کی پہلی شکل پھر عودکرآتی ہے،اوراصل مذہب اورامام ابویوسفؒ کے درمیان سابقہ اختلاف برقراررہتا ہے،اوریہ تشریح بے معنیٰ ہوکررہ جاتی ہے،سوائے اس صورت کہ جب مجرم کوتوفیق توبہ نصیب ہوجائے۔

تعزیربالمال اورتعزیرباخذالمال کامفہوم

            اوراسی تشریح کی بنیادپرتعزیربالمال اورتعزیرباخذالمال میں فرق کا تصورپیداہوا، بزازیہ نے تعزیر باخذالمال کاایک نیامعنی متعارف کرایاکہ وقتی حبس مال کانام تعزیرباخذالمال ہے،بزازیہ میں صرف اتناہی ہے؛لیکن دوسرے علماء نے اس سے یہ معنی اخذکیاکہ پھرتعزیربالمال مطلقاًضبط مال کا نام ہے،خواہ وہ قابل واپسی ہو یانہ ہو، اورتعزیربالمال عام ہے اورتعزیرباخذالمال اسی کی ایک قسم ہے، یعنی تعزیربحبس المال؛لیکن اسی کے ساتھ اگرالمجتبیٰ کی تشریح بھی شامل کرلی جائے اورعدم توبہ کی صورت میں مال ناقابل واپسی قرارپائے توپھراس میں اورعام مالی جرمانہ (تعزیربالمال) میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا۔

            واضح رہے کہ یہ تشریح  یاتفریق خودحضرت امام ابویوسف ؒ سے منقول نہیں ہے،یہ بعدوالوں کی ایجادہے۔

            اسی لیے بشمول مسلک حنفی کسی مسلک فقہی کی کتاب میں تعزیربالمال اورتعزیرباخذالمال کی تعبیرات میں مذکورہ فرق ملحوظ نہیں رکھاگیاہے؛بلکہ اکثردونوں الفاظ ایک ہی سیاق میں ذکرکیے گئے ہیں ،دیکھیے چندعبارتیں :

        وفی شَرْحِ الآثَارِ التَّعْزِیرُ بِالْمَالِ کان فی ابْتِدَائِ الإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ اہـ وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْہَبَ عَدَمُ التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ(۱۴)۔

            اس میں تعزیربالمال اورباخذالمال  دونوں ایک ہی معنیٰ میں مستعمل  ہوئے ہیں ۔

            اسی طرح کی عبارتیں عالمگیری اور شامی وغیرہ میں بھی موجودہیں (۱۵)۔

        یَجُوزُالتَّعْزِیرُ بِأَخْذِ الْمَالِ وَہُوَ مَذْہَبُ أَبِی یُوسُفَ وَبِہِ قَالَ مَالِکٌ، وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْعُقُوبَۃَ الْمَالِیَّۃَ مَنْسُوخَۃٌ فَقَدْ غَلِطَ عَلَی مَذَاہِبِ الْأَئِمَّۃِ نَقْلًا وَاسْتِدْلَالًا وَلَیْسَ بِسَہْلٍ دَعْوَی نَسْخِہَا(۱۶)۔

            یہاں تعزیرباخذالمال اورعقوبت مالیہ (تعزیربالمال)ہم معنیٰ استعمال ہوئے ہیں ۔

            فقہ مالکی کی مشہورکتاب ’’حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر‘‘ میں یہ عبارت ہے:

        وَلَا یَجُوزُ التَّعْزِیرُ بِأَخْذِ الْمَالِ إجْمَاعًا وما رُوِیَ عن الإِمَامِ أبی یُوسُفَ صَاحِبِ أبی حَنِیفَۃَ من أَنَّہُ جَوَّزَ لِلسُّلْطَانِ التَّعْزِیرَ بِأَخْذِ الْمَالِ فَمَعْنَاہُ کما قال الْبَزَّازِیُّ من أَئِمَّۃِ الْحَنَفِیَّۃِ أَنْ یُمْسِکَ الْمَالَ عِنْدَہُ مُدَّۃً لینزجر(۱۷)۔

            اس میں جس تعزیرباخذالمال کوبالاجماع ناجائزقراردیاگیاہے وہ وہی ہے جسے ہم تعزیربالمال کہتے ہیں ۔

امام ابویوسف کے قول جوازکاجائزہ

             حنفیہ کے امام ثانی حضرت امام ابویوسف ؒ سے تعزیربالمال کے جوازکاقول منقول ہے؛البتہ مذہب میں اس قول کوضعیف اورغیرمفتیٰ بہ قراردیاگیاہے۔ابتدائی صورت حال بس اتنی ہی تھی کہ اس قول کومذہب میں غیرمفتیٰ بہ تسلیم کیاگیا تھااورامام ابویوسف ؒکی اس روایت کی اشاعت سے روک دیاگیاتھاکہ مبادااس سے ستم پرورحکمرانوں کے لیے ظلم کادروازہ کھل جائے۔

        قال فی الفتح وعن أبی یوسف یجوزالتعزیر للسلطان بأخذ المال وعندہما وباقی الأئمۃ لا یجوز اہـ ومثلہ فی المعراج وظاہرہ أن ذلک روایۃ ضعیفۃ عن أبی یوسف  قال فی الشرنبلالیۃ ولایفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ اہـ  ومثلہ فی شرح الوہبانیۃ عن ابن وہبان(۱۸)۔

             اس طرح کی عبارتیں فقہ حنفی کی کتابوں میں بکثرت موجودہیں ،ان عبارتوں سے یہی مترشح ہوتاہے کہ ابتدائی ادوارمیں امام ابویوسف کے قول کامفہوم وہی لیاجاتاتھاجوتعزیربالمال کے لفظ سے متبادرہوتاہے،یعنی ناقابل واپسی مالی جرمانہ،اس لیے کہ واجب الردہونے کی صورت میں مال کے ضائع ہونے کااندیشہ نہیں ہے؛بلکہ حکومت کی تحویل میں جانے کے بعدتحفظ مال کی پوری ذمہ داری حکومت پرعائدہوجاتی ہے؛لیکن بعد کے ادوارمیں امام ابویوسف ؒ کے قول کوحنفیہ کے معروف مسلک سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں تاویلات کی گئیں ،جن میں سرفہرست خاتمۃ المجتہدین مولانارکن الدین ابویحییٰ الخوارزمیؒ اورامام ظہیرالدین التمرتاشی الخوارزمیؒ (متوفیٰ ۶۱۰ھ مطابق ۱۲۱۴ء)(۱۹) ہیں ، ان حضرات نے امام ابویوسف ؒ کے قول کامطلب یہ بیان کیاکہ جرمانہ کا مال مجرم سے لے کرمحبوس کیاجائے؛ لیکن بحق سرکاریابحق مدعیٰ علیہ خرچ نہ کیاجائے؛ بلکہ محفوظ رکھاجائے اورتوبہ کے بعد اسے واپس کردیاجائے،یعنی گویاوقتی حبس مال کی صورت۔

            امام ابویوسف کے قول کی یہ تشریح کس بنیادپرکی گئی کچھ نہیں معلوم البتہ اس قدر یقینی ہے کہ یہ تشریح خودحضرت امام ابویوسف ؒسے منقول نہیں ہے۔

(باقی آئندہ)

٭        ٭        ٭

حواشی

(۱)          المبسوط للسرخسی۹/۴۵، ط: داراحیاء التراث العربی، وفتح القدیر۷/۱۱۹، ط: المیمنیۃ بیروت، القلیوبی علی شرح المنہاج: ۴/۳۰۵، إعلام الموقعین: ۲/۱۱۸، ط: دار الجیل، بیروت، زاد المحتاج بشرح المنہاج: ۴/۲۶۵، ط: المکتبۃ العصرییۃ، بیروت۔ وکشاف القناع ۴/۷۲، ط: المطبعۃ الشرقیۃ بالقاہرۃ، والأحکام السلطانیۃ للماوردی، ص ۲۲۴، مطبعۃ السعادۃ۔

(۲)         تبیین الحقائق شرح کنز الدقاں ر ج۳ ص۲۱۰، باب الخلع فخرالدین عثمان بن علي الزیلعي الحنفي، الناشر دارالکتب الإسلامی۔ سنۃ النشر ۱۳۱۳ھـ۔ مکان النشر لقاہرۃ۔ عدد الأجزاء ۶،۳۔

(۳)         التاج والإکلیل لمختصر خلیل ج۶ ص۳۱۹ محمد بن یوسف بن أبی القاسم العبدری أبو عبد اللّٰہ سنۃ الولادۃ/ سنۃ الوفاۃ ۸۹۷، الناشر: دار الفکر، سنۃ النشر۱۳۹۸ھـ۔ مکان النشر: بیروت، عدد الأجزاء ۶۔

(۴)         تبصرۃ الحکام:۲/۲۰۱۔

(۵)         البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۶ ص ۷۸ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ، الناشر دار المعرفۃ، مکان النشر بیروت۔

(۶)          مغنی المحتاج إلی معرفۃ ألفاظ المنہاج ج ۹ ص ۱۴۸، المؤلف: محمد بن أحمد الخطیب الشربینی (المتوفی:۹۷۷ہـ) [ہو شرح متن منہاج الطالبین للنووی] (المتوفی ۶۷۶ہـ)۔

(۷)         شرح زاد المستقنع ج ۲۳۳ ص ۷ المؤلف: محمد بن محمد المختار الشنقیطی مصدر الکتاب: دروس صوتیۃ قام بتفریغہا موقع الشبکۃ الإسلامیۃ۔ شرح أخصر المختصرات ج ۴۲ ص ۲۹ المؤلف: عبد اللہ بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن جبرین، مصدر الکتاب: دروس صوتیۃ قام بتفریغہا موقع الشبکۃ الإسلامیۃ۔

(۸)         توضیح الاحکام من بلوغ المرام۳۱۔

(۹)          رد المحتار: ۶/۱۰۶، نیز دیکھئے: البحرالرائق: ۵/۶۸۔

(۱۰)        البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ مکان النشر بیروت۔

(۱۱)         حاشیۃ رد المختار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار فقہ أبو حنیفۃ ج ۴ ص ۶۲ ابن عابدین. الناشر دار الفکر للطباعۃ والنشر۔ سنۃ النشر۱۴۲۱ہـ -۲۰۰۰م۔ مکان النشر: بیروت، عدد الأجزاء ۸، کذا فی العالمگیریۃ، فصل فی التعزیر ۲/۱۶۷، ط: ماجدیہ کوئٹہ۔

(۱۲)        درر الحکام شرح غرر الاحکام لملا خسرو، ۲/۷۵، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ۔

(۱۳)       البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ مکان النشر بیروت۔

(۱۴)       البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ مکان النشر بیروت۔

(۱۵)        حاشیۃ رد المختار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار فقہ أبو حنیفۃ ج ۴ ص ۶۲ ابن عابدین.الناشر دار الفکر للطباعۃ والنشر.سنۃ النشر ۱۴۲۱ہـ -۲۰۰۰م۔ مکان النشر بیروت. عدد الأجزاء ۸۔ کذافی العالمگیریۃ، فصل فی التعزیر ۲/۱۶۷، ط: ماجدیہ کوئٹہ۔

(۱۶)        معین الحکام فیما یتردد بین الخصمین من الأحکام ج ۲ ص ۴۴۹ المؤلف: علی بن خلیل الطرابلسی، أبو الحسن، علاء الدین  (المتوفی: ۸۴۴ہـ) مصدر الکتاب: موقع الإسلام۔

(۱۷)       حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیرج ۴ ص ۳۵۵ محمد عرفہ الدسوقی تحقیق محمد علیش الناشر دارالفکرمکان النشر بیروت عدد الأجزاء ۴ ۔

(۱۸)       حاشیۃ رد المختار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار فقہ أبو حنیفۃ ج ۴ ص ۶۲ ابن عابدین. الناشر دار الفکر للطباعۃ والنشر. سنۃ النشر ۱۴۲۱ہـ -۲۰۰۰م۔ مکان النشر بیروت. عدد الأجزاء ۸۔ کذا فی العالمگیریۃ فصل فی التعزیر ۲/۱۶۷ ط: ماجدیہ کوئٹہ۔

(۱۹)        بڑے عالم،امام اورفقیہ تھے،خوارزم کے مفتی تھے،تمرتاش خوارزم کاایک گاؤں ہے،کئی کتابوں کے مصنف ہیں (الاعلام للزرکلی،ج۱ ص ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۰ء۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts