حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            ملت اسلامیہ ہندیہ اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے اس پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ صورت حال اس ملت کی تاریخ میں نہایت سنگین موڑ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس طرح کے حالات میں کسی بھی  قوم کا طرزعمل، اس کے مستقبل کو دُور تک متاثر کرتا ہے۔ ایسے حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت  ہوتی ہے اور ہر فرد اورہر گروہ کو اپنے حصہ کا کام نہایت سنجیدگی سے کرنا پڑتا ہے، ورنہ اگر ذراسی بھی غیرسنجیدگی یا حالات کے تجزیہ میں عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا جائے تو وہی صورت حال ہوتی ہے کہ         ع

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزاپائی

            ان تمہیدی سطور کے بعد گفتگو تو کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے، یہاں تک کہ انتخابات پر بھی؛ لیکن سردست صرف ملت کے دینی اداروں کی صورت حال اور ان کے آپسی معاملات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے اہمیت تو اُن کے ہر قسم کے اداروں کی ہے لیکن اُن کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مدارس اسلامیہ اور دینی اداروں اور تحریکات کو حاصل ہے؛ کیوں کہ انہی کی برکت سے اس ملک میں اللہ کا کلمہ پڑھنے والوں کی آبادی قائم رہی اور اپنے دین وایمان پر اُن کی پختگی اور استقامت کا سروسامان ہوتا رہا ہے۔

            مدارس کا یہ مخصوص نظام جس کا آغاز، قیام دارالعلوم دیوبند سے ہوا۔ اپنی ایک مخصوص شناخت اور متعین فکری ڈھانچہ رکھتا ہے۔ جس کا خلاصہ دین اسلام پر مسلمانوں کی استقامت کی فکر کرنا اوراس کے لیے عملی کوششیں کرنا، نیز شریعت کے علمی ورثہ کی حفاظت، اشاعت اور ترقی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد وافکار پر استوار رکھنا، پھر ان مقاصد کے لیے تعلیم وتربیت کا ایک ٹھوس اور مرتب نظام برپا کرنا ہے۔ ضرورت کے تحت مدارس کے ماحول سے باہر مسلمانوں کی رہنمائی اور اُن کی دینی تربیت کے لیے انتظامات کرنا بھی مدارس اور اُن سے وابستہ طبقہ کے فرائض میں آتا ہے۔

            مدارس کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ ان مدارس نے ان مقاصد عالیہ کی تکمیل میں اپنے کردار سے ایسی روشن تاریخ مرتب کی ہے جو امت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ ان مدارس کے علماء نے اردو عربی اور دیگر زبانوں میں ایسا دینی وعلمی کتب خانہ تیار کردیا ہے جو دین اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح اور ترجمانی کے لیے کافی ہے۔ اِن مدارس کی کوکھ سے نکلنے والی تحریکات بشمول تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کو دین کی طرف راغب کرنے اور دین دار بنانے میں بے مثال کردار ادا کیاہے۔ ان مدارس کے ذمہ داران، اساتذہ اور فضلاء نے ہر شعبے میں رہنمائی کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں ، جن سے ملت اسلامیہ ہی نہیں ملک ووطن نے بھی فائدہ اٹھایاہے۔

            ان مدارس کے تعلق سے یہ پہلو بھی خاص طور سے ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ ان کا سفر اگرچہ غیرمنقسم ہندوستان سے شروع ہوا اور اسی خطے میں کثرت سے مدارس قائم ہوئے؛ لیکن ان کا علمی اور فکری فیض دنیا کے ہر خطے میں پہنچا، بالخصوص غیر اسلامی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی اپنے ایمان پر استقامت اور اُن کی دین داری میں ان مدارس اور اُن سے وابستہ تحریکات کا نمایاں کردار رہا۔ اس سلسلے میں شہادت کے طور پر دنیا بھر کے اُن ماہرین تعلیم و تربیت یا اصحاب علم وفضل کے تاثرات پیش کیے جاسکتے ہیں جو انھوں نے، مدارس کے سرخیل دارالعلوم دیوبند کی زیارت کے بعد لکھے یا ظاہر کیے؛ لیکن سردست ہم ان کو ذکر کرکے گفتگو کو دارالعلوم دیوبند کے ساتھ خاص نہیں کرنا چاہیے، حالانکہ وہ دارالعلوم دیوبند کے واسطے سے مدارس اسلامیہ کی مجموعی کارکردگی کا خلاصہ ہیں ۔

            دراصل عرض یہ کرنا ہے کہ موجودہ حالات میں مدارس کے اس نظام اور اس سے وابستہ تحریکات کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش، ملت اسلامیہ کے لیے سخت ہزیمت کا باعث ہوگی اور اس کا براہ راست فائدہ اُن طاقتوں کو پہنچے گا جن کا مشن ہی آپ کا خاتمہ ہے۔ اس لیے پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ ایسے تمام قولی یا عملی اقدامات سے اپنے آپ کو دور رکھنا ضروری ہے جن سے یہ تحریک مدارس یا اس کا کوئی حصہ کمزور ہو۔ ہاں اگر نظام کی اصلاح کے لیے کوئی کوشش کی جائے تو اسے مستحسن قرار دیا جائے گا؛ لیکن اصلاحی کوششوں کا اپنا ایک انداز اور مزاج ہوتا ہے جن میں اخلاص اور خیرخواہی کی روح کار فرماہوتی ہے، اس روح کے ساتھ جو اقدام کیا جائے اس کی تاثیر بھی الگ ہوتی ہے۔

            یہاں یہ بات بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ دارالعلوم دیوبند یا اِن مدارس اسلامیہ کا ایک اہم مقصد،مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت بھی ہے، اس لیے ان کو صحیح اور غلط کی نشان دہی کا فریضہ بھی انجام دینا پڑتا ہے اور اگر یہ اپنے اس کردار کو فراموش کردیں تو ان کے وجود کا مقصد ناقص رہ جاتا ہے۔ اس لیے مدارس کو صحیح تعبیر اور صحیح نیت کے ساتھ یہ فریضہ بھی انجام دیتے رہنا چاہیے اور تمام لوگوں کو ان کے اس کردار کو تسلیم کرنا چاہیے۔

            اس وقت اس سلسلے میں سب سے زیادہ جس چیز پر توجہ کی ضرورت ہے وہ ایسے اختلاف سے پرہیز کرنا ہے جو ان کو کمزور کرنے والا ہو۔ یہ ملت اس وقت اپنے اداروں کے ضعف کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ورنہ اس کے نقصانات بہت دور رس ہوں گے، بلاشبہ اختلاف رائے سب کا حق ہے؛ لیکن اس کا ایسا اظہار جس سے ادارے کمزور ہوں ، بدنیتی یا ناسمجھی ہی کہلائے گا۔

            حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جس انداز سے دوسروں کی طرف سے نہایت دور رس اور باریک بینی پر مبنی اقدامات کیے جارہے ہیں ، ایسے حالات میں ادارے ہی نہیں شخصیات بھی ملت کی ضرورت بن گئی ہیں ۔ اس لیے شخصیات کی بھی ایسی مخالفت سے احتراز ہونا چاہیے جو اُن کو مجروح کردے۔ سوائے اس کے کہ اُن کی جانب سے ایسے نظریات یا اقدامات سامنے آئیں جن کو گوارا کرنا، شرعی یا انتظامی اعتبار سے واضح طور پر غلط اور مضر ہو، تب ان سے کھل کر اختلاف کیا جانا چاہیے؛  لیکن اس میں بھی کسی ذاتی عناد کا دخل نہ ہو؛ بلکہ پورے اخلاص اور سوز دروں کے ساتھ اپنی بات پیش کی جائے اور اصلاح کی کوشش جاری رکھی جائے۔

            یہ چند اشارات ہیں ، جن پر کھل کر گفتگو کے لیے کسی دوسری فرصت اور دوسرے موقع ومحل کا انتظار ہے؛ کیوں کہ یہ یقینا اس وقت کا ایک ایسا موضوع ہے جس نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اگر مسلمانوں کے تمام طبقات بالخصوص علماء کرام، ان معاملات میں اپنے کردار کی نزاکت کا صحیح ادراک اور احساس کرلیں تو بہت سے فتنوں کا سدباب ہوجائے گا اور بہت سے نزاعات حل ہوجائیں گے اور امت اپنے تعمیری کاموں میں زیادہ یک سوئی کے ساتھ سرگرم عمل ہوسکے گی۔

            علماء کرام کو حق وباطل کی حدود کی بھرپور حفاظت کے ساتھ آپسی ربط کو مستحکم کرنا چاہیے، معاملات ومسائل پر علمی اسلوب میں تبادلۂ خیال کا ماحول پیدا کرنا چاہیے، بے ضرورت موضوعات ومباحث کو چھیڑنے سے احتراز کیا جائے اوراپنی بات پیش کرنے میں اسلوب اور لہجہ کی شائستگی اور تعبیر کی درستگی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، ایک دوسرے کی خوبیوں کے اعتراف کا مزاج بنایا جائے اور طے شدہ مسائل کو زیر بحث نہ لایا جائے۔ مجموعی اعتبار سے امت کے اندر برداشت، نرمی، خیرخواہی، صبر وضبط اور احترام کا ماحول بنانے کے لیے کام کیا جائے اور ہر وقت اس بات سے ہوشیار رہنے کی کوشش کی جائے کہ ہمارے کسی قول وعمل سے غیروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل جائے اور ہمارے ادارے ضعف کا شکار نہ ہوجائیں ۔

            بقول اقبال مرحوم۔

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

اور

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر

شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts