از: مولانا محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند
’’ طوالع الانوار‘‘ عظیم المرتبت محدث اور عالم دین شیخ علامہ محمد عابد سندھی انصاری ؒ(۱۲۵۷- ۱۱۹۰ھ مطابق ۱۸۴۱-۱۷۷۶ء)کی لکھی ہوئی الدر المختار (مصنفہ علامہ حصکفیؒ)کی نہایت ضخیم شرح ہے جس کے نسخے اس وقت مصر، ترکی ، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ کی کچھ لائبریریوں میں بطور مخطوطہ موجود ہیں اور اس کا مکمل نسخہ بڑی تقطیع کے تقریباً ساڑھے نو ہزار اوراق یعنی بیس ہزار صفحات(سولہ جلدوں ) پر مشتمل ہے۔ اگر یہ کتاب تحقیق و تعلیق کے بعد شائع کی جائے تو تقریباً پچاس ساٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ ذیل کی سطور میں اسی گوہر نایاب کا مختصر تعارف اور عظیم مصنف کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔
علامہ محمد عابد سندھی انصاری ؒ
علامہ محمد عابد سندھی اپنے وقت کے ایک جلیل القدر عالم دین، محدث ، فقیہ ، مناظر ، شاعر اور طبیب تھے۔ علامہ محمد عابد سندی ابن احمد علی بن محمد مراد بن یعقوب حافظ بن محمود انصاری خزرجی حیدرآباد سندھ کے شمال میں ندی کے کنارے ۱۱۹۰ھ/۱۷۷۶ء میں بمقام سیون پیدا ہوئے۔ ہندوستان میں اُس وقت مغل حکومت قائم تھی اور اب یہ علاقہ پاکستان میں واقع ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب میزبان رسول حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے دادا نے عرب ہجرت کی جو شیخ الاسلام سے ملقب تھے اور اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔
آپ نے اپنے چچا شیخ محمد حسین بن محمد مراد کے علاوہ مکہ ومدینہ اور یمن کے برگزیدہ علماء سے بھی تعلیم حاصل کی، جن میں چند حضرات یہ ہیں : علامہ عبد الرحمن بن سلیمان بن یحی بن عمر الہدل، شیخ یوسف بن محمد بن العلا المزجاجی، شیخ محمد طاہر سنبل، مفتی عبد الملک القلعی، شیخ صالح بن محمد العمری الفلانی۔ دادا کے انتقال کے بعد چچا کے ساتھ یمن آگئے جہاں تقریباً تیس سال تک مقیم رہے۔ یمن کے شہر زبید، حدیدہ اور صنعاء وغیرہ میں قیام رہا۔ یمن کے نمایاں علماء میں آپ کا شمار تھا۔ مصر کے حکمرانوں خاص طور پر محمد علی پاشا تک براہ راست رسائی حاصل تھی ؛ چناں چہ مختلف امور کے سلسلے میں مصر کا متعدد بار سفر بھی کیا۔ والیِ مصر محمد علی کی طرف سے مدینہ کے علماء کے سربراہ بنا کر بھیجے گئے۔ عمر کا آخری چوتھائی حصہ مدینہ منورہ میں گذرا اور مسجد نبوی (علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) میں درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا ۔ تفسیر و فقہ کے علاوہ خاص طور پر صحاح ستہ کا درس روایۃً اور درایۃً دیتے تھے۔ ۱۷؍ ربیع الاول ۱۲۵۷ھ مطابق ۱۸۴۱ء میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اورجنۃ البقیع میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس دفن کیے گئے۔(۱)
طوالع الانوار شرح الدر المختار
حضرت علامہ محمد عابد سندھی انصاریؒ نے متعدد اہم کتابیں اور بے شمار رسائل لکھے جن میں ’’طوالع الانوار شرح الدر المختار‘‘ سب سے اہم اور ضخیم ہے۔ علامہ محمد ابن علی علاء الدین الحصکفی ؒ کی مشہور زمانہ کتاب ’’الدر المختار‘‘ کی متعدد شرحیں یا حواشی لکھے گئے ہیں جن میں حاشیۃ الطحطاوی اور رد المحتار مشہور ہیں ۔ علامہ محمد عابد سندھیؒ کی ’’طوالع الانوار الدر المختار‘‘ کی مکمل شرح ہے اور وہ حاشیۃُ الطحطاوی اور رد المحتار کی طرح حاشیہ نہیں ہے۔ یہ کتاب ۱۲۴۳ھ سے ۱۲۵۱ھ کے درمیان لکھی گئی ہے۔ اس میں الدر المختار کے مسائل کی شرح بڑی تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے؛ اس لیے یہ کتاب فقہ حنفی کی انتہائی مفصل اور مطول کتابوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ علامہ محمد عابد سندھیؒ نے ایک عظیم محدث ہونے کی حیثیت سے فقہی مسائل سے متعلق احادیث کا بہترین ذخیرہ جمع فرمادیا ہے جس میں انھوں تطبیق، توفیق اور ترجیح کے ساتھ احادیث کے درجات کو بھی بیان کیا ہے۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ مسائل کے دلائل کے ذیل میں انھوں نے اولاً قرآن کریم اور پھر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل و شواہد ذکر کیے ہیں ؛ اسی لیے یہ کتاب موجودہ زمانے کے تقاضے کے پیش نظر قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ فتوی نویسی میں بہت ممد و معاون ہوگی۔
علاوہ ازیں علامہ سندھیؒ نے فقہی عبارتوں کے متون پر بڑی تحقیقات پیش کی ہیں جو الدر المختار کی دیگر شروح و حواشی میں نہیں پائی جاتیں ۔ نیز خاص بات یہ ہے کہ اکثر مسائل کی تشریح میں انھوں نے چاروں فقہی مکاتب کے فقہاء و علماء کے اختلافات کو بھی ذکر کیا ہے۔ ہندوستان سے تعلق کی وجہ سے انھیں ہندوستانی علماء کی فقہی تصانیف اور مجموعہ ہائے فتاوی کا خوب علم تھا؛ چناں چہ انھوں نے اس شرح میں ہندوستان میں لکھی جانے والی فقہ و فتاوی کی کتابوں کے جابجا حوالے دیے ہیں ۔ انھوں نے اس شرح میں اصول فقہ کی روشنی میں لغوی، نحوی اور صرفی تحقیقات بھی درج کی ہیں ، اس سے نتائج اخذ کیے ہیں اور کلیات وضع کیے ہیں ۔ علامہ سندھیؒ نے اس کتاب کو اپنے شاگردوں کو آٹھ سال تک پڑھایا ہے اور یہ ان کی آخری تصنیف ہے۔ یہ درحقیقت علم کا سمندر ہے جو موتیوں سے بھرا ہوا ہے ۔
علمائے احناف میں جنھوں نے طوالع الانوار سے استفادہ کیا ہے ان میں شیخ عبد القادر الرفاعی المصری (متوفی ۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء) سرفہرست ہیں ۔ شیخ رفاعی تقریرات الرافعی کے مصنف ہیں جو حاشیہ ابن عابدین (فتاوی شامی) کا حاشیہ ہے۔ اس کتاب میں جابجا طوالع الانوار کا حوالہ موجود ہے۔ صاحب تقریرات نے علامہ شامیؒ پر جو استدراکات کیے ہیں ، ان میں سے اکثر طوالع الانوار سے ہی لیے گئے ہیں ۔ (۲)
طوالع الانوار کے مخطوطے
طوالع الانوار ابھی تک مخطوطہ کی شکل میں محفوظ ہے اور شائع نہیں ہوئی ہے۔ مصر، ترکی، سعودی عرب، نیدر لینڈ ، پاکستان اور ہندوستان میں اس کے مکمل و غیر مکمل نسخے موجود ہیں جن کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
(۱) اس مخطوطہ کا مکمل نسخہ المکتبۃ الأزھریۃ قاہرہ میں موجود و محفوظ ہے جسے صاحب تقریرات رافعی علامہ عبد القادر الرفاعیؒ نے مکتبہ کو ہدیہ کیا تھا۔ یہ مخطوطہ سولہ(۱۶)جلدوں میں ہے جو نو ہزار پانچ سو بائیس (۹۵۲۲)اوراق (تقریباً بیس ہزار صفحات)پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ ۱۲۹۳ھ تا ۱۲۹۶ھ (۱۸۷۶ء تا ۱۸۷۹ء) کے درمیان لکھا گیا ہے۔ اس مخطوطہ کو متعدد نساخوں نے خوبصورت تحریر میں لکھا ہے ۔ (۳)
(۲) طوالع الانوار کا دوسرا مکمل قلمی نسخہ استنبول (ترکی) کے مشہور زمانہ توپکاپی پیلیس میں موجود ہے جو آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جن کا نمبر بالترتیب ۴۱۶۱ سے ۴۱۶۸ تک ہے ۔ یہ نسخہ تین ہزار تین سو ساٹھ (۳۳۶۰)اوراق یعنی چھ ہزار سات سو بیس (۶۷۲۰) بڑے صفحات پر مشتمل جس کے ہر ورق میں سینتیس (۳۷) سطریں ہیں ۔ (۴)
(۳) اس مخطوطہ کا ایک مکمل نسخہ پاکستان میں ہے جس کے بارے میں ایک محقق سندھی عالم دین مولانا غلام مصطفی قاسمی کا کہنا ہے کہ اس نسخہ کو علامہ محمد عابد سندھیؒ نے اپنے شیخ طریقت حضرت محمد زمان سندھی ؒ(لواری ضلع ٹانڈومحمد خان) کو ہدیہ میں پیش کیا تھا۔ لواری کی جس لائبریری میں یہ نایاب نسخہ محفوظ ہے اس کو حکومت سندھ نے سیل کر رکھا ہے ۔ (۵)
(۴) اس کتاب کے پہلے دو حصوں کا مخطوطہ نسخہ مکتبہ مولد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (مکہ مکرمہ) بھی محفوظ ہے جو فقہ حنفی کے تحت پانچ (۵) اور ۱۰۸ نمبر پر موجود ہے۔ یہ نسخہ مصری نسخہ جیسا ہے، اس کے ہر ورق میں ۲۳ سطریں ہیں ۔ اس مخطوطہ کے اخیر میں اس نسخہ کے مالک شیخ عبد اللہ سراج نے صاحب کتاب علامہ سندھی کا مختصر تعارف بھی لکھا ہوا ہے۔ پہلا حصہ چار سو چوراسی (۴۸۴) اوراق پر مشتمل ہے اور کتاب الطہارۃ سے شروع ہوتا ہے، جب کہ دوسرا حصہ چار سو ستاسی (۴۸۷)اوراق پر مشتمل ہے جس میں کتاب الصلوٰۃ (تا الصلوٰۃ فی الکعبۃ)کے مسائل درج ہیں ۔ (۶)
(۵) اس کتاب کا ایک حصہ بہ شکل مخطوطہ الجامعۃ الإسلامیۃ مدینہ منورہ کی لائبریری میں موجود ہے ۔ یہ نواں حصہ ہے جو ’’کتاب الشرکۃ‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور کتاب الوقف پر ختم ہوتا ہے۔ یہ نسخہ ۱۲۴۷ھ مطابق۱۸۳۱ء میں لکھا گیا ۔ فقہ حنفی میں ۳۰۵؍ نمبر پر درج ہے ۔ اسی نسخہ کی مائکروفلم ۴۲۰۶ نمبر پر درج ہے۔ (۷)
(۶) اس کتاب کا ایک مخطوطہ مکتبہ سید امین بن الحسان العلوانی المدنی میں موجود تھا جسے ۱۳۰۱ھ میں نیدر لینڈ (ہالینڈ) لے جایا گیا ۔لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری کے آن لائن کیٹیلاگ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی پانچ جلدیں (دوم تا پنجم اور ہشتم) لائبریری کے مشرقی مخطوطات میں (2956 a-e نمبر)محفوظ ہیں ۔ ان جلدوں کے کل اوراق بالترتیب 476, 478, 479, 588, 570 ہیں ۔ (۸)
(۷) ہندوستان میں مولانا آزاد عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ ٹونک (راجستھان) میں اس کے پہلے حصہ کی دو مخطوطہ نقلیں موجود ہیں جو کتاب الإمامۃ تک پہنچتی ہیں ۔ ایک نسخہ کے کل اوراق ۴۶۴ اور دوسرے نسخہ کے اوراق ۳۷۹ ہیں اور وہ حوالہ نمبرات ۱۳۷۲/۴ اور ۱۳۷۳/۴ پر موجود ہیں ۔(۹)
(۸) طوالع الانوار کے مکمل نسخے کی ایک مائکرو فلم ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کی لائبریری میں محفوظ ہے جو فقہ حنفی کے ذیل میں ۱۱۶تا ۱۳۱ نمبر پر درج ہے۔ نیز، اس کی اولین چار جلدوں کی مائکرو فلم الجامعۃ الإسلامیۃ مدینہ منورہ کی لائبریری میں بھی ہے جو ۹۴۹۶، ۹۵۸۹، ۹۵۹۲، ۹۵۷۹ پر موجودہے۔(۱۰)
مختلف ویب سائٹوں پر طوالع الانوار کے مخطوطات کے متعدد نسخے بشکل پی ڈی ایف موجود ہیں ۔
طوالع الانوار پر تحقیق و ایڈٹ کا کام
طوالع الانوار پر ابھی تک غیر مطبوعہ ہے، تاہم پاکستان کی یونیورسٹی آف سندھ اور کویت یونیورسٹی میں اس کتاب کے کچھ اجزاء پر تحقیقی کام ہوا ہے جس کی کچھ تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
(۱) یونیورسٹی آف سندھ کی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز (قسم مقارنۃ الادیان والثقافۃ الإسلامیۃ) میں ڈاکٹر عبد الغفور سندھی نے شیخ غلام مصطفی قاسمی کی سرپرستی و نگرانی میں کتاب الطہارۃ سے باب المیاہ تک بہ طور پی ایچ ڈی تجزیہ و تحقیق کا کام کیا ہے ۔
(۲) یونیورسٹی آف سندھ کی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر عبد الرشید بن محمد موسی لغاری نے ثناء اللہ بھٹو کی سرپرستی و نگرانی میں باب المیاہ سے باب الحیض تک بہ طور پی ایچ ڈی تجزیہ و تحقیق کا کام کیا ہے جو سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ پی ڈی ایف کی شکل میں آن لائن دستیاب ہے۔
(۳)تیسرا تحقیقی کام بہ طور پی ایچ ڈی اسی یونیورسٹی میں ڈاکٹر نور احمد سندھی نے ڈاکٹر ثناء اللہ بھٹو کی سرپرستی و نگرانی میں انجام دیا ہے۔ یہ کام باب الانجاس سے شروط الصلوٰۃ تک ہوا ہے۔
(۴) چوتھا تحقیقی کام اسی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ثناء اللہ بھٹو کی سرپرستی و نگرانی میں محمد طاہر عبد القیوم سندھی نے ایم فل کی ڈگری کے لیے انجام دیا ہے۔ یہ کام باب الانجاس سے شروط الصلوٰۃ تک ہوا ہے۔ یہ کام باب کیفیۃالصلوٰۃ سے باب الإمامۃ تک ہے۔ (۱۱)
(۵) جامعۃ الکویت کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق طوالع الانوار کے مخطوطے پر ایک کام یونیورسٹی کے کلیۃ الدراسات العلیا میں برنامج الفقہ المقارن وأصول الفقہ کے تحت ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے ابراہیم عبد الغفار الطاہری نے شیخ خالد فالح العتیبی کی نگرانی میں انجام دیا ہے۔ یہ تحقیقی کام کتاب الإقالۃ سے باب القرض کے اخیر تک انجام دیا گیا ہے اور کل ۴۱۷صفحات پر مشتمل ہے۔ (۱۲)
(۶) یرموک یونیورسٹی (اردن) میں لقمان خالد مشاری عبد اللہ الحماد نے شیخ ذیاب عبد الکریم عقل کی نگرانی میں بہ طور پی ایچ ڈی مقالہ طوالع الانوار کے کتاب القضاء سے تا عبارت ــ’’ولا یطلب القضاء بقلبہ ولا یسألہ بلسانہ ‘‘ تحقیقی کام انجام دیا ہے جو یونیورسٹی کی لائبریری کے تحقیقی مقالات کے ذیل میں دستیاب ہے۔ (۱۳)
معلوم ہوا ہے کہ سندھ یونیورسٹی میں ابتدائی اجزاء پر مزید کچھ تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح کویت یونیورسٹی میں بھی پورے کتاب المعاملات پر کچھ طلبہ اپنی پی ایچ ڈی کے منصوبے کے تحت تحقیقی کام کر رہے ہیں ۔
طوالع الانوار کو منظر عام پر لانے کی ضرورت
عجیب بات ہے کہ علامہ ابن عابدین شامیؒ (متوفی ۱۸۳۶ء ) جو علامہ عابد سندھیؒ کے ہم عمر اور ہم زمانہ ہیں ، ان کا حاشیہ برصغیر میں بیحد عام اور مقبول ہوا؛ لیکن علامہ سندھیؒ کی طوالع الانوار جیسی عظیم تالیف علمائے ہند کی نظروں سے اوجھل رہی؛ جب کہ ایک طرف علامہ سندھیؒ سے ان کے وطنی تعلقات بھی تھے اور وہ حرم مدینہ جیسی مرکزی جگہ قیام پذیر بھی تھے جہاں اقصائے عالم سے حجاج و زائرین کی آمد و رفت کا سلسلہ برابر جاری رہا کرتا ہے۔ عام طور پر تذکرہ نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ذیل میں طوالع الانوار کا نام لیا ہے؛ لیکن اس کی ضخامت اور اس کی تفصیلات سے عموماً یہ تذکرے خالی ہیں ۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ طوالع الانوار ، الدر المختار کی دیگر تمام شروح و حواشی کے مقابلے میں فائق اور عظیم ہے۔ اب یہ عالی ہمت اہل علم اور اصحاب تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گمنام علمی خزانہ کو سامنے لائیں ؛ تاکہ امت کے علماء و طلبہ اس عظیم علمی سرمایہ سے استفادہ کرسکیں ۔
علامہ سندھیؒ کی دیگر تالیفات
علامہ محمد عابد سندھی نے اس عظیم فقہی موسوعہ کے علاوہ حدیث و تفسیر اور دیگر موضوعات پر دیگر متعدد وقیع کتابیں لکھیں جن میں ماضی قریب تک بیشتر کتابیں مخطوطوں کی شکل میں تھیں ؛ لیکن کچھ اصحاب تحقیق کی کوششوں سے اب متعدد کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں ۔ دستیاب معلومات کے مطابق کچھ مصنفات اور رسائل کا ذکر ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
(۱) المواہب اللطیفۃ علی مسند الإمام بی حنیفۃ : مسند امام اعظم ابوحنیفہؒ کی یہ بسیط شرح ہے۔ اس کتاب کے جزء ثانی کا ایک قلمی نسخہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں بھی موجود ہے جو بڑے سائز کے ۱۹۰؍ اوراق پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ میں ۲۷؍ سطریں ہیں ۔ یہ جلد کتاب النکاح سے شروع ہوتی ہے اور کتاب القیامۃ پرختم ہوتی ہے۔ (۱۴) اب مولانا تقی الدین صاحب ندوی کی تحقیق کے بعد سات جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔
(۲)ترتیب مسند الإمام أبی حنیفۃ: مخطوطہ ، ۸۵۱ اوراق ، اب طبع ہوچکی ہے۔
(۳) ترتیب مسندالإمام الشافعی : ایک جلد میں مطبوع ہے۔
(۴) معتمد الألمعی المہذب فی حل مسند المام الشافعی المرتب : امام شافعی ؒ کی مسند کی شرح ، اس کتاب کا مخطوطہ ۵۰۰؍ اوراق پر مشتمل ہے، لیکن شرح مکمل نہ ہوسکی۔
(۵) منحۃ الباری فی جمع روایات صحیح البخاری : یہ اطراف بخاری پر نہایت اہم کتاب ہے۔اس کتاب کا قلمی نسخہ ۴۸۳؍اوراق پر مشتمل ہے۔ شعبۂ عربی کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر محمود حسن سندھی نے ۲۰۱۱ء میں اپنی پی ایچ ڈی پروگرام میں اس مخطوطہ کی تحقیق ہے جو کتاب الإیمان سے کتاب الدعوات تک ہے۔ تیرہ سو صفحات کا یہ مقالہ پروفیسر محمد عبد الرشید نعمانی کی نگرانی میں لکھا گیا ہے۔
(۶) شرح تفسیر ثلاثۃ أجزا ء من القرآن الکریم من تفسیر البیضاوی : مخطوطہ، ۴۳۴ ؍اوراق
(۷) شرح تیسیر الوصول لابن البدیع : (۱۶۰۰؍ احادیث کی شرح ، کتاب الحدود تک)
(۸) شرح بلوغ المرام للحافظ ابن حجر: نامکمل
(۹) شرح ألفیۃ السیوطی فی مصطلح الحدیث
(۱۰) حصر الشارد من أسانید محمد عابد : اس کتاب کا مخطوطہ ۱۵۴؍اوراق رپر مشتمل تھا۔ خلیل بن عثمان جبور السبیعی کی تحقیق سے مکتبۃ الرشید ریاض سے ۱۴۲۴ھ میں ۷۴۰؍ صفحات میں شائع ہوئی ہے۔
(۱۱) روض الناظرین فی اخبار الصالحین
(۱۲) الأبحاث فی المسائل الثلاث (۱۳) إخراج زکاۃ الحب بالقیمۃ (۱۴) الزام عساکر الإسلام بالاقتصار علی القلنسوۃ طاعۃً للإمام (۱۵) إیجاز الألفاظ لإعانۃ الحفاظ (۱۶) تغیر الراغب فی تجدید الوقف الخارب (۱۷) رسالۃ فی تقبیل الصحابۃ رضی اللہ عنہم ید رسول اللّٰہ ﷺ ورأسہ الشریف، وحکم التقبیل عامۃ (۱۸) رسالۃ فی التوسل وأنواعہ وأحکامہ (۱۹) الحظ الأوفر لمن أطاق الصوم فی السفر(۲۰) رسالۃ فی حکم إطعام الطعام فی مناسبات الفرح والترح (۲۱) الخیر العام فی أحکام الحمام (۲۲) سلافۃ الألفاظ فی مسائل الحفاظ (۲۳) شفاء قلب کل سؤل فی جواز من تسمی بعبد النبی وعبدالرسول (۲۴) غنیۃ الزکی فی مسألۃ الوصی (۲۵) فک المحنۃ بمعالج الحقنۃ(۲۶) القول الجمیل فی إبانۃ الفرق بین تعلیق التزویج وتعلیق التوکیل (۲۷) رسالۃ فی کرامات الأولیاء والتصدیق بہا (۲۸)کشف الباس عما رواہ ابن عباس مشافہۃً عن سید الناس ﷺ (۲۹) کف الأمانی عن سماع الأغانی (۳۰) منال الرجال فی شرح شروط الاستنجاء (۳۱) مجموعۃ حواش علی عدد من کتب الفقہ الحنفی(۳۲) نافع الخلق فی الطب (۳۳) مناہج الصرفیین (۳۴) مجالس الأبرار(۳۵)مجموعۃ إجازات وغیرہ(۱۵)
علامہ محمد عابد سندھیؒ اور علمائے دیوبند
ہندوستان کے متعدد علماء نے حضرت علامہ محمد عابد سندھیؒ سے پڑھا ہے اور ان سے حدیث کی اجازت حاصل کی ہے؛ ان میں سب سے نمایاں نام حضرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلویؒ (متوفی ۱۲۹۶ھ) کا ہے جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ وغیرہ علمائے دیوبند کے حدیث کے استاذ ہیں اور علمائے دیوبند کی سند حدیث انھیں کے واسطے سے حضرت شاہ اسحاق دہلویؒ (متوفی ۱۲۶۲ھ) سے ہوتی ہوئی مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ تک پہنچتی ہے۔ حضرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلویؒ نے علامہ محمد عابد سندھیؒ سے ۱۲۵۰ھ میں پندرہ سال کی عمر میں بخاری پڑھی ہے اور انھیں ان سے اجازت عامہ بھی حاصل رہی ہے۔ (۱۶)
صاحب الیانع الجنی نے حضرت علامہ سندھی ؒ کا ذکر بہت وقیع الفاظ میں کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
’’ویرویہ شیخنا عن القدوۃ الحافظ الحجۃ المتقن الورع ، محدثِ دار الہجرۃ وسلالۃ ذوي آل النصرۃ، إمام المسلمین وناصیۃ الفقہاء والمحدثین، علم الہد ی والسنۃ و الصابِر عند البلاء والمحنۃ، شیخ الحرم النبوی في حیاتہ والثاوي بترب طابۃ بعد مماتہ الشیخ المبارک محمد المعروف بعابد الأنصاري ثم الخزرجي ثم السندي۔۔۔۔‘‘(۱۷)
صحیح بخاری کی سند اس طرح ہے:
’’ویرویہ شیخنا العلامۃ من طریق الحافظ المتقِنِ عابد الأنصاري بأسانیدہ المتکثرۃ المذکورۃ في کتابہ حصر الشارِد ۔۔۔۔۔ ویرویہ الحافظ الأنصاري رحمہ اللّٰہ تعالی ورضي عنہ عن شیخہ الحافظ المحدثِ صالح بن محمد العمري المسوفي الشہیر بالفلاني، عن شیخہ العلامۃ محمد بن محمد بن سنۃ العمري بالفلاني، بإجازتہ من الشیخ أبي الوفا أحمد بن محمد العجل، عن مفتی مکۃ قطب الدین محمد بن أحمد النھروالی، عن الحافظ نور الدین أبي الفتوح أحمد بن أحمد بن عبد اللّٰہ بن أبي الفتوح الطاؤسي، عن البابا یوسف الہروي، عن محمد بن شادبخت الفارسي الفرغاني، بسماعہ لجمیعہ علی الشیخ أحمد – أحد الأبدال بسمرقند – أبي لقمان یحییٰ بن عمار بن مقبل بن شاہان الختلاني وقد سمِع جمیعہ عن محمد بن یوسف الفربري، بسماعِہ عن أبي عبد اللّٰہ محمدِ بن إسماعیل البخاري رضي اللّٰہ عنہ.‘‘(۱۸)
حواشی
(۱) حالات کے لیے دیکھیے: (الف) حکیم عبد الحئی الحسنی، نزہۃ الخواطرو بہجۃ المسامع والمناظر، ، دار ابن حزم بیروت۱۹۹۹ء ، جزء ہفتم، ص۱۰۹۶تا ۱۰۹۸(ب) محمد محسن بن یحییٰ الترہتی، الیانع الجنی من اسانید الشیخ عبد الغنی، مطبوعہ اروقہ عمان ۲۰۱۶ء ، ص ۱۳۴ تا ۱۴۰(ج) محمد بن علی الشوکانی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع، دارالمعرفۃ بیروت،ج ۲، ص ۲۲۷(د) الأعلام للزرکلی الدمشقی، دارالعلم للملایین ۲۰۰۲ء ، جلد ۶، ص ۸۰-۱۷۹۔ وغیرہ ۔ سائد بن محمد یحییٰ بکداش مدنی نے علامہ محمد عابد سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی مفصل سوانح عمری لکھی جو ۲۰۰۲ء میں دارالبشائر الاسلامیۃ مدینہ منورہ سے الإمام الفقیہ المحدث الشیخ محمد عابد السندي الأنصاري رئیس علماء المدینۃ المنورۃ فی عصرہ کے نام سے ساڑھے پانچ سو صفحات میں شائع ہوچکی ہے۔
(۲) سائد بن محمد یحییٰ بکداش مدنی، الإمام الفقیہ المحدث الشیخ محمد عابد السندي الأنصاري، دارالبشائر الاسلامیۃ مدینہ منورہ۲۰۰۲ء، ص ۴۱۳-۴۱۰، ۳۹۵
(۳) ایضاً ، ص ۴۰۲-۴۰۱
(۴) ایضاً ، ص ۴۰۳
(۵) Noor Ahmed Chandio, Dr. Mukhtiar A. Kandhro, Dr. Bashir Ahmed Rind, Introducing Tawali’ al-Anwar: A Commentary on Durr al-Mukhtar, International Research Journal of Arts & Humanities (IRJAH) Vol. 42, ISSN: 1016-9342, p 191
(۶) سائد بکداش، الشیخ محمد عابد السندی، ص ۴۰۴-۴۰۳
(۷) ایضاً ، ص ۴۰۵-۴۰۴
(۸) ایضاً ، ص ۴۰۵؛ خزانۃ التراث -فہرس المخطوطات، مرکز الملک فیصل، رقم تسلسلی:49779؛ آن لائن کیٹلاگ آف لیڈن یونیورسٹی (Ansari, Muhammad Abid As-Sindi Al-Madani, Tawali Al-Anwar ala ‘d-Durr Al-Mukhtar Commentary – Vol. 2-5, 8.)
(۹) مفتی احمد نادر قاسمی، علمائے ہند کا فقہی سرمایہ، ایفا پبلیکیشنز، نئی دیلی ۲۰۱۴ء ، ص ۴۸۸
(۱۰) سائد بکداش، الشیخ محمد عابد السندی، ص ۴۰۳-۴۰۲
(۱۱) http://sindhsalamat.com/threads/12913
(۱۲) نمبر مقالہ : م 258.1 ب تح (http://catalog.library.kuniv.edu.kw)
(۱۳) نمبر مقالہ:لقم217.4، بار کوڈ نمبر: JUA0797366/JUA0797367 (http://hip.jopuls.org.jo)
(۱۴) مفتی ظفیر الدین مفتاحی، تعارف مخطوطات،دارالعلوم دیوبند۱۹۷۰ء ، جلد اول، ص ۱۳۷
(۱۵) تفصیل کے لیے دیکھئے: سائد بکداش، الشیخ محمد عابد السندی
(۱۶) محمد محسن بن یحییٰ الترہتی، الیانع الجنی من أسانید الشیخ عبد الغنی، عمان ۲۰۱۶ء ، ص ۱۱
(۱۷) ایضاً ، ص ۳۹
(۱۸) ایضاً ، ص ۵۸-۵۷
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:103، جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء