از:   مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

اشاعت اسلام

            صحابیات نے اپنی نیک طینتی سے صرف اسلام ہی قبول نہیں کیا تھا؛ بلکہ انھوں نے  اسلام کی اشاعت کے لیے بھی ہر ممکن قربانی پیش کی ۔بخاری کتاب التیمم میں یہ روایت ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے ایک سفر میں ایک عورت کو پکڑ کر رسول اللہ … کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے پاس پانی کے مشکیزے تھے ۔اور صحابہ ؓنے پانی کی ضرورت سے ہی اسے پکڑا تھا؛لیکن رسول … نے اس کا پانی لیا تو اس کی قیمت بھی ادا کی ۔اس عورت کو رسول اللہ کی اس اعلی دیانت کی وجہ سے اسی وقت آں حضرت … کی نبوت کا یقین ہوگیا اور اس اثر سے اس کا پورا قبیلہ مسلمان بھی ہوگیا ۔

            حضرت ام شریک ؓ ایک صحابیہ تھیں ،جو آغاز اسلام میں خفیہ طور پر قریش مکہ کی عورتوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرتی تھیں ؛قریش کو ان کی خفیہ دعوتی سر گرمیوں کا علم ہوا تو انھیں کفار نے مکہ سے نکال دیا۔ (اسد الغابہ)

            سیدہ ام حکیم بنت الحارثؓ کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی ،فتح مکہ کے دن وہ تو مسلمان ہوگئیں ؛لیکن ان کے شوہر عکرمہ بھاگ کر یمن چلے گئے ۔ام حکیم ؓ نے یمن کا سفر کیا اور اپنے شوہر کو دعوتِ اسلام دی۔ وہ بیوی کی دعوت پر مسلمان ہوکر رسول اللہ … کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو رسول اللہ … انھیں دیکھ کر خوش ہوئے ۔(موطا امام مالک کتاب النکاح ،باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ )

نو مسلموں کی کفالت

             ابتدائے اسلام میں جو لوگ اسلام لاتے تھے ؛ان کو مجبوراً اپنے گھر ،بار اہل وعیال اور مال وجائیداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے اس وقت اشاعتِ اسلام کے ساتھ اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ ان نو مسلموں کی کفالت کی جائے ۔ صحابیات ؓ نے ان کی کفالت میں نمایا ں حصہ لیا ۔چنانچہ حضرت ام شریکؓ  کا گھر گویا نو مسلموں کے لیے مہمان خانہ بن گیا تھا ،یہاں تک کہ رسول اللہ … نے فاطمہ بنت قیسؓ کو صرف اس بناء پر ان کے گھر عدت گذارنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر نو مسلم مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے پر دہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا(مسلم ،کتاب الطلاق، باب المطلقہ ثلاثا لانفقۃ لہا ۔کتاب الفتن باب فی خروج الدجال )

خدمت ِمجاہدین

            جہاد ایک اعلی عبادت ہے ۔جو خاص حالات میں مردوں پر فرض ہے ۔ صحابۂ کرامؓ مرد ہونے کی وجہ سے بنفس نفیس جہاد میں شریک ہوتے تھے ۔صحابیات عورت ہونے کی وجہ سے اگر چہ بنفس نفیس میدانِ کارزار میں شریک نہیں ہوسکتی تھی؛ لیکن جہاں تک جذبۂ جہاد کی بات ہے تو صحابیات بھی اس معاملہ میں مردوں سے پیچھے نہیں ؛بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں ؛البتہ ان کے لیے سب سے موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام وآشائش کا سامان بہم پہنچانا تھا ۔اس حوالہ سے سیدہ ام عطیہؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلیمؓ ،سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہن کا نام نمایاں ہے ۔سیدہ ربیع بنت معوذؓ کہتی ہیں کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ پانی پلاتے تھے مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لاتے تھے ۔( بخاری ،کتاب الجہاد باب رد النساء القتلہ )

            سیدہ رفیدہ ؓ نے مسجد نبوی میں خیمہ کھڑا کررکھا تھا ،جو لوگ زخمی ہوکر آتے تھے وہ ان کا اسی خیمہ میں علاج کرتی تھیں ؛چنانچہ سیدنا سعد بن معاذ ؓ  غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا ۔(اصابۃ ،تذکرۃ سیدہ رفیدہ )

            ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے چادر تقسیم فرمائی ایک چادر بچ گئی کسی نے کہا اپنی بیوی کو دے دیں کہنے لگے ام سلیطؓ اس کی زیادہ مستحق ہیں ؛کیوں کہ وہ غزوہ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہمیں پلاتی تھیں ۔(بخاری کتاب الجہاد ،باب حمل النساء القرب الی الناس ) 

بدعات کا استیصال

            دین کے لییبدعت گھن کی طرح ہے؛ اس لیے بااثر صحابیاتؓ نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی نخل اسلام میں گھن نہ لگنے پائے ۔مثلا غلافِ کعبہ کی عزت وحرمت مسلمانوں میں بہت زیادہ تھی۔ سیدہ عائشہؓ سے اس واقعہ کو بیان کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس تعظیم کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہیں فرمایا ہے (جب غلاف کعبہ سے اتر گیا تو اس کا کسی طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔(عین الاصابہ بحوالہ سنن بیہقی )

امر بالمعروف نہی عن المنکر

            ایک دفعہ حضرت عائشہؓ ایک گھر میں مہمان بنیں ، میزبان کی دد لڑکیوں کو جو جوان ہوچکی تھیں دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں ۔اس پر آپ نے تنبیہ کی اور تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے، رسول اللہ نے یہی فرمایا ہے ۔ (مسند احمد بن حنبل ج۶ص ۶۹)

            سیدہ عائشہ ؓ کے گھر میں کچھ کرایہ دار رہتے تھے، ان کی نسبت ان کو معلوم ہواکہ وہ نرد کھیلتے ہیں ، تو وہ سخت بر افروختہ ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر کے باہر نہ پھینک دوگے تو میں اپنے گھر سے نکلوا دو ں گی ۔(الادب المفرد۔ باب الادب واخراج الذین یلعبون النرد )

            ایک دن ان کی بھتیجی سیدہ حفصہؓ بنت عبد الرحمن نہایت باریک دو پٹہ اوڑھ کر سامنے آئیں ۔ سیدہ عائشہ ؓ  سخت ناراض ہوئیں اور اسی وقت غصہ میں اس کو پھاڑ دیا پھر فرمایا کہ تم نہیں جانتیں کہ اللہ تعالی نے سورئہ نور میں کیا احکامات نازل فرمائے ہیں ۔اس کے بعد انھیں دبیزکپڑے کادو پٹا منگواکر اوڑھایا ۔(موطا امام مالک کتاب اللباس )

علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت

            محدثین ؒنے روایت حدیث کے لحاظ سے صحابہ کے پانچ طبقے قرار دیے ہیں اور تقریبا ہر طبقہ میں صحابہ کے ساتھ صحابیات بھی شامل ہیں ۔اول مکثرین ۔ہزار یا اس سے زیادہ روایت والے۔ حضرت سیدہ عائشہ ؓ  کاشمار اسی طبقہ میں ہوتاہے۔دوسرا طبقہ :پانچ سو یا اس اسے زیادہ روایت والے۔ تیسرا سو یا اس سے زیادہ روایت والے ۔ اس طبقہ میں حضرت ام سلمہ ؓہیں ،چوتھا طبقہ ۔جن کی روایت چالیس سے ایک سو ہو، ان میں بکثرت صحابیات شامل ہیں مثلا سیدہ ام حبیبہ ؓ ،سیدہ میمونہؓ ،سیدہ ام عطیہ انصاریہؓ ،سیدہ حفصہؓ ،سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ ،سیدہ ام ہانی ؓ وغیرہ۔ پانچواں طبقہ جن کی روایت چالیس یا اس سے کم ہو ۔اس طبقہ میں بھی بکثرت صحابیات موجود ہیں ۔ مثلا سیدہ ام قیس ، سیدہ فاطمہ بنت قیس ،سیدہ ربیع بنت معوذ ،سیدہ برہ بنت صفوان ،سیدہ کلثوم بنت حصین ،حضرت جداء بنت وہب رضی اللہ عنہن وغیرہ

حدیث فہمی کا اعلی معیار

             روایت کی روح تک پہنچ جانا اور اس کے صحیح مفہوم کو جاننا اسے درایت حدیث کہتے ہیں ۔کہا جاسکتا ہے کہ  اس فن کی ابتداء حضرات صحابیات سے ہی ہوئی حضرت سیدہ عائشہ نے مختلف روایتوں پر تنقید کی اس کے ظاہری مفہوم کو قرآن کریم کی آیتوں سے معارض قرار دے کر اسے رد کردیا اور اس کے صحیح مفہوم کی نشاندہی فرمائی ۔ان کے استدراکات کو ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔جس کا نام ہے ۔ ’’عین الاصابہ فیما استدرکتہ السیدہ عائشہ علی الصحابہ‘‘۔ان میں سے بعض استدراکات درج ذیل ہیں :

            (۱) حضرت عائشہؓ نے میت کے اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلاکیے جانے کی روایت پر۔آیت کریمہ’’لَا تَزِرَ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی‘‘ (کسی کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا) کی وجہ سے استدراک کیا اور فرمایا کہ صرف اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلاکیا جانا مذکورہ آیت کے خلاف ہے؛البتہ اگر میت زندگی میں جاہلی نوحہ کا عادی رہا ہو یا اس کے لیے وصیت کرگیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا تو وہ میت عذاب میں مبتلا ہوگا ۔

            (۲)اسی طرح آپ نے شب اسراء ومعراج میں رویت باری کی روایات پراستداراک کیا اور دلیل کے طور پر آیت کریمہ  پیش کوکیا : ’’لاَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ‘‘(الانعام: ۱۰۳) یعنی نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے ۔اس کی ذات لطیف ہے اوربا خبر ہے ۔

            (۳)ایک روایت ہے کہ نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے اس روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے آپ نے نقد فرمایا: ’’مَا أَصَابَ مِن مُّصِیبَۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِی کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیرٌ‘‘ (الحدید۲۲) یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا ۔یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔

            (۴)سماع موتی کی روایت پرذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے نقد فرمایا : إِنَّ اللَّہَ یُسْمِعُ مَن یَشَائُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ۔(الفاطر ۲۲) (ترجمہ : اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے اور تم ان کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں )

            (۵)نکاح متعہ کی روایت پر ذیل کی آیت کریمہ کی وجہ سے حضرت ام المومنین نے نقد فرمائی اور انھیں جوں کا تو قبول کرنے سے انکار کردیا : وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ (المومنون ۵،۶)یعنی ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ؛ مگر اپنی بیویوں اور باندیوں پر۔

            اسی طرح فقاہت اور معاملہ فہمی کی ایک مثال ام المومنیں حضرت ام سلمہؓ کا مشورہ ہے ۔ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابۂ کرامؓ شدت حزن میں رسول اللہ کے حکم کے باوجود قربانی کرنے سے وقتی طور پر رکے ہوئے تھے توام المومنین کے مشورے پر رسول اللہ… نے پہلے قربانی فرمائی۔ پھر آپ کی اتباع میں تمام صحابہ نے قربانی کی۔

چار مثالی خواتین

            ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا :بہترین عورتیں چار ہیں : (۱)مریم بنت عمران ،(۲)حضرت خدیجہ ،(۳)سیدہ فاطمہ زہراء(۴) اور سیدہ آسیہ فرعون کی بیوی ۔

            اس میں درحقیقت چاربہترین کردار پر روشنی ڈالی گئی ،جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی ہوئے ۔ایک ماں کا کردار ،مریم بنت عمران ۔ایک عظیم بیوی کا کردار سیدہ خدیجہ ۔ایک عظیم بیٹی کا کردار ،سیدہ فاؓطمہ اور ایک عظیم عورت کا کردار سیدہ آسیہؓ ہیں ۔

            جلیل القدر محدث ابن عساکرؒ فرماتے ہیں کہ میرے اساتذہ میں اسّی سے زیادہ خواتین ہیں ۔

            علی مردان خان والی زابلستان کی اکلوتی بیٹی گیتی آراء بیگم پہلی مسلمان خاتون تھیں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں عورتوں کو فن سپاہ گری سیکھانے کے لیے باضبطہ مدرسہ قائم کیا تھا ۔

ٍ         طرابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبد اللہ نے جس پامردی اور ہمت کا مظاہرہ کیا اسی بنا پر علامہ اقبالؒ نے انھیں آبروئے ملت کا خطاب دیا۔اسی طرح تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا محمد جوہر  اور مولانا شوکت علی کی امی جن کا نام آبادی بانو بیگم جو ’’بی اماں ‘‘ کے نام سے مشہورتھیں ؛انھوں نے انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا ۔ان کے تعلق سے مشہورِزمانہ نظم  ایک خاتون کی عزم وہمت کی داستان رقم کررہی ہے :

بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹے خلافت پر دے دو

ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی جان بیٹا خلافت پر دے دو

بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا کلمہ پڑھ کر خلافت پہ مرنا

ہوتے میرے اگر سات بیٹے،کرتی سب کو خلافت پہ صدقے

حشر میں حشر بر پا کروں گی ،پیش حق تم کو لے کے چلوں گی

ہیں یہی دین احمد کے رستے، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

            ایک زمانے میں جب ایسا لگ رہا تھا کہ پورے عالم اسلام پر تاتا ریوں کا غلبہ ہوجائے گا ایسے حالات میں وہ خواتین ہی تھیں ؛جنھیں زبردستی منگولوں نے اپنی بیوی بناکر اپنے حرم میں داخل کرلیا تھا؛ لیکن یہ مسلم خواتین وہاں بھی اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کرسکیں اور اپنے شوہر کو اور منگول شاہزادو ں کو اسلام کی خوبیاں بتا تی رہیں ۔خدا کی شان ان کی تبلیغی کوششوں سے تاتاری سرداروں اور شہزادوں کے دل میں نرمی پیداہوئی اور تاتاری قبائل بتدریج حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا:

ہے عیاں شورش تاتار کے فسانہ سے

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے

            اس کے بعد کے زمانے کے بھی سیکڑوں واقعات ہیں جن میں خواتین اسلام کے مثالی کارناموں سے اسلامی تعلیمات ،اسلامی دعوت اور اسلامی تہذیب وثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ ضرورت ہے کہ ان بلند حوصلہ خواتین کے کارناموں کو اپنایا جائے اورانھیں کے نقشِ قدم پر  فروغِ اسلام کے لیے موجودہ عہد کی خواتین کو تیار کیا جائے ؛تو ان شاء اللہ موجودہ منظر نامہ کافی حد تک بدل سکتا ہے۔ وماذلک علی اللہ بعزیز۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts