سوال: اگر والدین مال دار ہیں اور اولاد بچوں والی اور مال دار نہیں ؛ بلکہ اولاد جو کماتی ہے اس سے کچھ بچتا نہیں ۔ اولاد کرائے پر رہتی ہے ، چھوٹے مکان میں رہتی ہے ، والدین کے بہت سارے مکان و نوکر ہیں ؛ مگر والدین اپنے گھر میں کم رہتے ہیں اور اولاد جو مالی لحاظ سے کمزور ہے اس کے گھر میں کمرے بھی نہیں مہمان کے لیے۔ اب اولاد کے بچے شادی کی عمر کو پہنچ رہے ہیں ، مگر اولاد کے پاس شادی کے پیسے بھی نہیں ۔  والدین کہتے ہیں ہمارے حقوق پہلے ، بعد میں بیوی بچوں کے ہیں ۔ والدین اولاد کی مالی مدد کرایہ وغیرہ میں بھی نہیں کرتے اور گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے بلکہ والدین کے خرچ کو پورا کرنے کے لیے قرض بھی اولاد پر چڑھ چکا ہے ۔ اس صورت میں شریعت میں کیا حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا ومصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: اگر والدین کے پاس مال ہے کہ اس سے ان کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں توا ولاد پر ان کا نان نفقہ شرعا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح اگر ان کے پاس مکان ہے تو اولاد پر ان کی رہائش کا انتظام کرنا شرعا ضروری نہیں ہے ؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں والدین کو چاہیے کہ اگر کوئی خاص عذر نہ ہوتو اپنے مکان میں رہائش اختیار کریں ،اور اپنے مال سے ہی اخراجات پورے کریں بالخصوص جب کہ اولاد کو والدین کے اخراجات کی بنا پر تنگی کا سامنا ہے ؛البتہ اولاد کو چاہیے کہ ان کی دیکھ ریکھ کا مناسب بندوبست کرے ، اگر ان کی خدمت کے کیے کسی فرد کی ضرورت ہو تو اس کا انتظام کرے نیز خود بھی ان کی خبر گیری کرے ، اولاد کی یہ ذمے داری بہر حال باقی رہے گی۔

فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

الجواب صحیح:  زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۳۰؍۴؍۱۴۴۰ھ=۷؍۱؍۲۰۱۹ء

            سوال: زید کا سوال ہے مسجد میں پلاسٹک کی ٹوپی رکھنا کیسا ہے ؟ اور اس ٹوپی سے نماز درست ہے یا نہیں ؟ صحیح کیا ہے ؟ لوگوں نے ایک رواج بنا رکھا کہاں تک درست ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا ومصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: مسجدوں میں پلاسٹک وغیرہ کی جو میلی کچیلی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں ، ان میں نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے،  نماز ہو جاتی ہے، لوگوں کو چاہیے کہ علماء اور صلحاء جس طرح کی گول یا لمبی سر کے ساتھ چپکی ہوئی ٹوپیاں پہنتے ہیں ، اس طرح کی ٹوپیاں پہن کر نماز ادا کیا کریں ، ٹوپیاں اپنے گھروں سے لے کر جائیں ، مسجد میں رکھی ہوئی ٹوپیاں استعمال نہ کریں ، یہ رواج قابل ترک ہے؛ بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ مسجد میں اس طرح کی ٹوپیاں رکھا ہی نہ کریں ۔ مستفاد: وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا فی بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا ۔۔۔۔۔ فسرہا فی شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ الخ (درمختار مع الشامی: ۲؍۴۰۷، ط: زکریا) ۔

فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

الجواب صحیح:  زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱؍۴؍۱۴۴۰ھ=۹؍۱۲؍۲۰۱۸ء

==============================

            سوال: میرے ایک عزیز سرکاری اسکول میں استاد ہیں ، انھیں الیکشن ڈیوٹی لازمی حکم کے تحت کرنی پڑتی ہے ، اس ڈیوٹی میں جب ووٹ پڑ رہے ہوتے ہیں تو حالات بالکل ہنگامی ہوتے ہیں اور کسی کو لمحے بھر کے لیے بھی پولنگ اسٹیشن چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی، ایسے میں ظہرکی نماز کبھی اور عصر اور مغرب کی نماز عموماً نہیں پڑھ پاتے ، ان نمازوں کی وہ بعد میں قضا پڑھ لیتے ہیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            حامدًا ومصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ: پولنگ اسٹیشن چھوڑنے کی اجازت تو نہیں ہوتی؛ لیکن ضرورت پڑنے پر قضائے حاجت کے لیے جانے کی اجازت تو ہوتی ہوگی، وقت ہونے پر قضائے حاجت کے لیے چلا جائے اور بعد فراغت بہ عجلت فرض نمازکسی گوشے میں کھڑے ہوکر پڑھ لیا کرے، نماز اسلام کا ایک اہم رکن ہے، انتہائی شدید مجبوری (مثلاً دشمن کا خوف یا کسی مریض کی جان جانے کا خطرہ) کے بغیر اس کا ترک جائز نہیں ہے۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالی: إن الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتاً (النساء: ۱۰۳) ۔۔۔۔۔ إذ التاخیر بلا عذر کبیرۃ لاتزول بالقضاء بل بالتوبۃ أو الحج، ومن العذر العدوّ وخوف القابلۃ موت الولد؛ لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام أخرھا یوم الخندق الخ (درمختار مع الشامی: ۲؍۵۱۸، ط: زکریا)۔

فقط  واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

الجواب صحیح:  زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۷؍۴؍۱۴۴۰ھ=۱۵؍۱۲؍۲۰۱۸ء

==============================

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts