مولانا محمد یعقوب مدراسیؒ دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت

از:  مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

استاذ  دارالعلوم دیودرگ

            دار العلوم دیوبند نہ صرف ایک مدرسہ ہے، اور ایک عظیم دینی درس گاہ ہے، بلکہ یہ ایک دبستان فکر کانام ہے، جس نے ہر جہت اور محاذ پر دین کا دفاع کا کام کیا ہے، فضلائِ دالعلوم دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے دین کے دفاع کا ہر جہت پر کام کر رہے ہیں ، تقریری، تحریری، تدریسی، تصنیفی، اصلاحی، سیاسی، سماجی، دینی وملی مختلف گوشوں پر ابنائے دار العلوم کے نقوش ثبت ہیں ، ان مختلف گوشوں کے حوالہ سے علماء دیوبند کی فہرست تیار کر لیجیے، آپ کو سیاسی، سماجی، رفاہی، تدریسی، تقریری، تصنیفیسرگرمیوں میں آپ کو ابنائے دار العلوم سرگرداں اور ہمہ تن عمل نظر آئیں گے، انھوں نے دین کے حوالے سے کسی بھی محاذ سے رخنہ اندازی کو برداشت نہیں کیا ہے، دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی ہے، یہ جس محاذ پر بھی رہے، خلوص وللہیت،  سادگی،  سادہ لوحی، تواضع اور مسکنت ان کا وصف خاص اور نشانِ امتیاز رہاہے،زہد وتقوی، دنیاکی محبت سے کوسوں دور رہے ہیں ، انھوں خالق اور مخلوق، خدا اور کنبہ خدا کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا ہے۔  تاریخ گواہ ہے اور یہ مہر وماہ، یہ گردش لیل ونہار تاریخ دار العلوم کے حوالہ سے شاہدِ عدل ہیں ، دارالعلوم دیوبند نے انسانیت کو کیا دیا ہے، اس کا ایک ایک سپوت بسا اوقات اس کا اس دنیائے فانی سے چلاجانا ایک علاقے کو ویران کردیتا ہے، اس کو شہر خموشاں بنا دیتا ہے ۔

            استاذ مکرم حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ وہ شہہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں ایک شعلہ ہے، ہر سرو یہاں مینارہ ہے

========

اس وادیٔ گل کا ہر غنچہ، خورشیدِ جہاں کہلایا ہے

جو رند یہاں سے اٹھا ہے، وہ پیر مغاں کہلایا ہے

اس بزم جنوں کے دیوانے، ہر راہ سے پہنچے یزداں تک

ہیں عام ہمارے افسانے، دیوارِ چمن سے زنداں تک

            ابھی صبح یہ خبر ملی نمونہ اسلاف، قدوۃ العلماء،اکابر کی پاکیزہ روایات کا محافظ، ستودہ صفات کی حامل شخصیت رکن شوری دار العلوم دیوبند اس دنیا میں نہیں رہے، حیاتِ مستعار کے لمحات کو خدمت خلق وخدمت دین میں لگا کراس دنیائے فانی سے سدھا ر گئے، جن سے میری مراد حضرت مولانا محمد یعقوب مدراسی رحمہ اللہ ہیں ، یہ جنوبی ہند کے ہوش مند عالم دین،  امت کا درد رکھنے والے مصلح ، ہر سطح پر امت کے مسائل اور مشاکل کے تئیں کڑھنے اور کسک محسوس کرنے والے تھے، انھوں نے ہر محاذ پر کام کیا، دین اور اہل دین کی سرپرستی، فروغ دین کے لیے منبر ومحراب اور محاذ سے اپنے کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو بھی دنیا میں آیا اسے جانا ہے، لیکن بعض جانے والے اپنے کارہائے نمایاں اور انمٹ نقوش کے ذریعے ہمیشہ دلوں میں اپنی تازگی چھوڑ جاتے ہیں ، آپ کا وجود خطۂ جنوب خصوصاً تامل ناڈو کے لیے بڑا سرمایہ افتخار کا تھا:

موت اس کی ہے کرے جس کا  زمانہ افسوس

یوں  تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

            شاعر کہتا ہے :

جیتے ہو تو کچھ کیجیے زندوں کی طرح

مردوں کی طرح جیے تو کیا خاک جیے

            مولانا محمد یعقوب بن جناب محمد اسماعیل صاحب میل وشارم کے متوطن تھے( خطہ میل وشارم وہی ہے جو اس وقت بزرگوں اور اللہ والوں کی آماجگاہ بنا ہواہے، جو علم ظاہری وباطنی کا حسین سنگم ہے)  ۲۷؍ رجب ۱۴۵۳ھ؍۲۱؍نومبر ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف میں پائی، پھر عربی کی ابتدائی تعلیم کے لیے تامل ناڈ مشہور زمانہ مدرسہ ’’ جامعۃ الباقیات الصالحات‘‘ کا رخ کیا، پھر اعلی تعلیم کے لیے مادر علمی دار العلوم دیوبند تشریف لائے، کئی سال زیر تعلیم رہ کر ۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۹ء میں دستار فراغت حاصل کی ۔

            فراغت کے بعد سبیل الرشاد بنگلور، مظاہر العلوم سیلم، جامعۃ الباقیات الصالحات، مدرسہ حسینہ کایم کولام کیرا وغیرہ میں تدریسی وانتظامی خدمات کی انجام دی، ۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵ء سے اب تک مدرسہ کاشف الہدی مدراس میں بحیثیت مدرس اور اب قریب تا دم تحریرصدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

            ۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶ء کو اپنی دور بین نگاہ، وسعت فکر، علمی گہرائی وگہرائی اور قوتِ فیصلہ کی لیاقت کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اس کے علاوہ حضرت کا فیض تمل ناڈو کے امیر شریعت، اور صوبائی مجلس تحفظ ختم نبوت ومجلس تحفظ شریعت کے صدر کی حیثیت بھی نمایاں رہا ہے، ریاست کے مختلف مدارس کے سرپرست، نگرانِ کار ہونے کے ساتھ احقاقِ حق، ابطالِ باطل کے محاذ پر سرگرم عمل رہے ہیں ۔

            آپ کی باقیات صالحات حضرت مولانا عبد الوہاب ویلوی بانی باقیات الصالحات کے فتاوی کی ترتیب بھی ہے، آپ کے خطبات کا مجموعہ ’’ خطبات وشارم ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے ۔

            جہاں ایک طرف آپ میدان تدریس کے شہسوار کی حیثیت سے طالبان علوم نبوت کی تشنگی کا سامان مختلف مدارس، سبیل الرشاد بنگلور، جامعہ الباقیات الصالحات ویلور، اور مدرشہ کاشف الہدی کی مسند تدریس سے کرتے رہے، وہیں دوسری طرف عوام الناس کی رہنمائی ورہبری کا فریضہ بھی موقع بموقع امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند وغیرہ کے اکابر کے قائدہ اداروں کے ذریعے انجام دتے رہے، میل وشارم کی معروف پاکتنی مسجد کے منبر سے اپنی قیمتی نصائح اور پند وموعظمت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو بھی گرماتے رہے۔

            آپ بالجملہ اوصاف کے باوصف سادگی اور قناعت پسند تھے، زہد وقناعت کے مجسم، بڑے بڑے مالداروں سے بزرگانہ اور رہبرانہ تعلقات کے باوجود دنیا کو اپنے قریب آنے بھی نہیں دیا اور آپ نے نہ صرف سادگی کے ساتھ زندگی گذاری ؛ بلکہ اخفائے حال اور شانِ استغناء کے ساتھ خدمت دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، بقول بعض جہاں آپ کا سادہ لباس جہاں حضرت نانوتوی کی یاد تازہ کراتا تو آپ کی بے نیازی قطب عالم حضرت گنگوہیؒ کی عکاسی کرتی اور جرأت وحمیت میں شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کی مجسم نظر آتے ۔

محاسن اتنے کہ یکساں ہے ظاہر وباطن

جو کامیابی کے دونوں جہاں میں ہیں ضامن

            آپ کی سادگی کے باوصف تمام اکابر علماء دیوبند آپ کا حد درجہ احترام بجالاتے، آپ کے ساتھ قدر واحترام کے ساتھ پیش آتے ۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts