سوال: حضرت مفتی صاحب! ہر پروڈکٹس (مصنوعات) پر حلال کا لیبل ہونا ضروری ہے؟ اگر حلال نہ لکھا ہو تو کیا وہ چیز کھا سکتے ہیں؟ امریکہ ، برطانیہ ، سنگاپور اور ایسے ہی بہت سے ممالک کے چاکلیٹس جو مارکیٹ میں ملتے ہیں، کیا وہ کھا سکتے ہیں؟ جہاں حلال نہیں ہے۔

            ہر پروڈکٹس کے جزو ترکیبی دیکھ کر حلال نہ ہو تب بھی جزو ترکیبی ہی دیکھ کے کھا سکتے ہیں؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

حامدًا ومصلیا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:

            عام کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرسکتے ہیں، اگرچہ ان پر ’’حلال‘‘ کا لیبل نہ ہو؛ البتہ اگر کسی چیز سے متعلق قابل اعتماد ذریعے سے مشتبہ ہونا معلوم ہو تو پھر احتیاط کرنا چاہئے، اسی طرح گوشت سے تیار شدہ مصنوعات سے بھی احتیاط ضروری ہے الا یہ کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ تیار کردہ ہوں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی چیز پر ’’حلال‘‘ کا لیبل اس بات کی یقینی دلیل نہیں ہے کہ اس میں کوئی ناپاک یا حرام چیز کی آمیزش نہیں کی گئی ہے؛ اس لیے آج کل بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے خصوصاً گوشت پر مشتمل چیزوں کے سلسلے میں۔

            (۲) کھا سکتے ہیں؛ البتہ اگر احتیاط کریں تو بہتر ہے۔

            (۳) محض اجزائے ترکیبی کی فہرست دیکھ کر کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر ’’حلال‘‘ ہونے کا فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ قلیل مقدار میں ہونے کی وجہ سے بعض اجزائے ترکیبی کا آئٹم ظاہر نہیں کیا جاتا نیز بعض چیزوں کے لیے ’’کوڈ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جس کی حقیقت تک پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔                                                                      فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۶؍۱۲؍۱۴۳۸ھ =۱۸؍۹؍۲۰۱۷ء دوشنبہ

====================

’’سور المؤمن شفاء‘‘ کی تحقیق

            مندرجہ ذیل حدیث کا ترجمہ اور مطلب کیا ہے ؟ اس کو تفصیل سے سمجھائیں ، اور کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ حدیث ’’سؤر المؤمن شفاء‘‘ جاء فی کنز العمال (۱/۴۳۲) حدیث: (۵۷۴۸) ’’من التواضع أن یشرب الرجل من سؤر أخیہ، ومن شرب من سؤر أخیہ رفعت لہ سبعون درجۃ، ومحیت عنہ سبعون خطیئۃ وکتبت لہ سبعون حسنۃ‘‘۔

            ۲- بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ مؤمن کا بچا ہوا کھانا یا پانی وغیرہ اس میں شفاء ہے کیا ایسا کہنا اور اس پر عمل کرنا شرعاً صحیح ہے یا غلط اور اسکی حقیقت کیا ہے ؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

حامدًا ومصلیا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:

            (۱،۲)  یہ دونوں حدیثیں ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، متعدد محدثین نے انھیں موضوعات میں شمار کیا ہے، چناں چہ کنز العمال میں ثانی الذکر حدیث ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:  وفیہ نوح بن أبي مریم وأوردہ ابن الجوزي في الموضوعات، أورد القاری الہروی فی کتابہ الموضوعات الصغری رقم: ۱۵۰، حدیث سور المؤمن شفاء قال العراقي: ہکذا اشتہر علی الألسنۃ ولا أصل لہ بہذا اللفظ وذکر کذلک برقم:۱۴۴، ریق المؤمن شفاء، لیس لہ أصل مرفوع إلخ (کنز العمال: ۳؍۱۱۵، رقم: ۵۷۴۸، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)؛ البتہ کشف الخفاء وغیرہ میں ہے کہ حدیث کے الفاظ اگرچہ ثابت نہیں ہیں؛ لیکن معنی صحیح ہے اور بخاری شریف کی ایک حدیث سے اس پر استدلال کیا؛ لہٰذا اس حدیث کے مفہوم پر عمل کرنے کی گنجائش ہوگی یعنی شفا کی نیت سے کسی مومن کے پس خوردہ کا استعمال جائز ہوگا۔ ’’ریق المؤمن شفاء‘‘ لیس بحدیث؛ ولکن معناہ صحیح، ففي الصحیحین کان النبي ﷺ إذا اشتکی الإنسان الشيء إلیہ أوکانت بہ فرحۃ أو جرح قال بإصبعہ – سبابتہ بالأرض- ثم رفعہا لہ وقال باسم اللّٰہ تربۃ أرضنا، بریقۃ بعضنا، یشفي لسقیمنا بإذن ربنا إلخ (کشف الخفاء، ۱؍۴۹۸، رقم: ۱۴۰۵، ط: المکتبۃ العصریّۃ) نیز دیکھیں: اللآلی المنثورۃ: (ص: ۳۹۷)           فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند محمد اسد اللہ غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۱؍۲؍۱۴۳۹ھ =۱۱؍۱۱؍۲۰۱۷ء شنبہ

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:102‏،  شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء

٭        ٭        ٭

Related Posts