جانشینِ حكیم الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء-۱۴۳۹ھ/۲۰۱۸ء (۱)

بہ قلم:        مولانا نور عالم خلیل امینی

چیف ایڈیٹر ’’الداعی‘‘ عربی و استاذ ادبِ عربی

دارالعلوم دیوبند

سناہے خاك سے تیری نمود تھی ؛ لیكن

تری سرشت میں تھی كوكبی ومہتابی

            شنبہ: ۲۶؍ رجب  ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۸ء كو ، ۲بج كر ۱۷منٹ پر حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب نوراللہ مرقدہ (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء   –   ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۳ء ) سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند كے صاحب زادئہ اكبر حضرت مولانا محمد سالم قاسمی معروف بہ ’’خطیب الاسلام ‘‘ نے دیوبند میں دارالعلوم سے متصل اپنے دولت كدے پر جان جان آفریں كے سپرد كردی۔ إنا للہ وإنّا إلیہ راجعون۔ وہ تقریباً عرصہ دوسال سے رہینِ فراش تھے۔ وفات سے كوئی ایك ہفتہ قبل زیادہ بیمار ہوگئے ۔ ۷؍اپریل =   ۱۹؍رجب كو انھیں مقامی ڈاكٹر:  ڈی .كے. جین، كے ہسپتال میں داخل كیا گیا؛ كیوں كہ اُنھیں سانس لینے  میں شدید دشواری ہورہی تھی ۔۵؍اپریل =  ۱۷؍رجب سے ہی انھوں نے كھانا لینا چھوڑدیاتھا۔ مذكورہ ڈاكٹر نے كہا كہ انھیں كم زوری كے علاوہ كوئی بیماری نہیں ہے،كمزوری كی وجہ سےہی سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔چناں چہ اُس نے مشورہ دیا كہ آكسیجن رسا مشین  ’’كار ڈی ایك مانیٹر ‘‘ Cardiac Monitor یعنی سانس اور دل كی دھڑكن كو مربوط ومنظم ركھنے والی مشین مُیَسَّرْ ہو،  تو بہتر ہے كہ انھیں گھر ہی  پر ركھا جائے،  وہاں زیادہ آرام رہے گا۔ ان كی زندگی كے گنے چنے اوقات رہ گئے ہیں، ہر چند كہ موت وحیات خداكے ہاتھ میں ہے ۔ چناں چہ اہلِ خانہ اُنھیں ۸؍اپریل= ۲۰؍رجب كو گھر لے آئے اور اُن كے رہایشی كمرے میں مذكور الصدر مشین كے ذریعے اُن كی حالت كو مستحكم ركھنے كی كوشش كی جاتی رہی، ایك ڈاكٹر ہمہ وقت مصروفِ خدمت رہا ، اہل خانہ اور متعلقین بھی تیمارداری كی سعادت سے شب وروز بہرہ یاب رہے؛ لیكن كوئی تدبیر پیش نہ گئی ۔ وقتِ آخر آبِ زم زم كے دوتین گھونٹ دیے جانے كے دوران اُنھوں نےاز خود اپنے سر كو بائیں جانب سے دائیں جانب كرلیا اور آخری سانس لے لی۔ رَحِمَہ اللہ تَعَالَی وأَدْخَلَہ جَنَّةَ الْفِرْدَوْسِ مَعَ الْأَنْبِیَاءِ وَالْأَخْیَارِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ ۔ انتقال كے وقت اُن كی عمر سال ہاے ہجری كے اعتبار سے ۹۴سال اور سال ہاے عیسوی كے لحاظ سے ۹۲سال تھی ؛ كیوں كہ ان كی تاریخِ ولادت ۸؍جنوری ۱۹۲۶ء مطابق ۲۲؍جمادی الاُخری ۱۳۴۴ھ ہے۔

            تیمارداری كے دوران اہلِ خانہ نے قرآن پاك كی تلاوت كا خاصا اہتمام كیا، ایك شب میں تلاوت كے دوران ایك خاص قسم كی بڑی لطیف خوشبو اُن لوگوں كو محسوس ہوئی ، جو كئی منٹ تك باقی رہی۔  مولاناؒ كے خادم نے بتایا كہ ہم لوگوں كے دل نے كہا كہ كیا عجب كہ یہ فرشتۂ رحمت كی آمدكی علامت اور اللہ كے خاص فضل وكرم كے نزول كا اشارہ ہو۔

            ان كی وفات كی خبر دیوبند، اندرون ملك اور بیرون ملك میں برقِ خاطف كی طرح پھیل گئی اور علما وطلبہ وخواص كے ساتھ عوام كا ان گنت مجمع اُن كے خاكی جسم كو دیكھنے كے لیے ٹوٹ پڑا۔ مغرب بعد ہی اُن كے جنازےكو  دارالعلوم دیوبند كے دارالحدیث تحتانی میں زیارت ِ عام كے لیے ركھ دیا گیا تھا۔ یہاں بھی قبل عشا اور بعدعشا لوگوں كی  بھیڑختم ہونے كا نام نہیں لے رہی تھی۔

            ۲۶ – ۲۷؍رجب=۱۴ – ۱۵؍اپریل : شنبہ  یك شنبہ كی رات میں ٹھیك دس بجےاُن كی نماز جنازہ دارالعلوم كے مشہور احاطئہ  مولسری میں اُن كے فرزندِ اكبر مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف نے پڑھائی ۔  نماز جنازہ اور تدفین میں ہزاروں كے مجمع نے شركت كی۔ بھیڑ كی وجہ سے بڑی دشواری سے قبرستانِ قاسمی میں جنازہ پہنچا ، كوئی12:30بجےرات میں تدفین سے فراغت ہوئی۔     

            جمعرات: ۲۴؍رجب ۱۴۳۹ھ مطابق  ۱۲؍اپریل ۲۰۱۸ء كو كوئی ۱۰بجے صبح كو راقم الحروف جامعہ انور دیوبند كے استاذ عزیزمكرم مولانا وصی احمد قاسمی كے ہم راہ  مولانا رحمة اللہ علیہ كے دولت كدے پر عیادت كے لیے پہنچا اور لرزیدہ قدم اُن كے مكان كے دروازہ میںداخل ہوا تو معلوم ہواكہ ’’نانوتہ ‘‘ (اُن كے آبائی وطن) سے كچھ مردوخواتین اُن كی عیادت كو آئی ہوئی ہیں۔اُن كے ہمہ وقت كے خادم مولانا شاہد مدھوبنی  بغل كے كمرے میں دوچارمنٹ انتظار كرنے كےلیے ہمیں بیٹھنے كی دعوت دے ہی رہے تھے كہ اندر كسی ذریعے سے مولانا سفیان قاسمی كو راقم كی آمد كی خبر ہوگئی ۔ وہ اور اُن كے صاحب زادے مولانا شكیب قاسمی ڈائركٹر حجة الاسلام اكیڈمی دارالعلوم وقف لپك كر ہماری طرف كو آئے اور مذكورہ مرد وخواتین كو كسی اور كمرے میں كركے فوراًحضرت مولانا ؒ كے كمرے میں بلالیا۔ جیسے ہی ان كے چہرے پر نظر پڑی ایسا لگا كہ مسافرِ جنت لیٹا ہوا اپنی راہ تك رہا ہے اورر فیقِ سفر فرشتےكے انتظار میں  بے چین لمحوں كو بہ مشكل گزار رہا ہے۔ مشینی تاروں كا سلسلہ اُن كے اردگرد پھیلا ہوا، تھا  ناك پر پلاسٹك كا ایك ڈھكن نما غلاف پڑاہوا تھا اور وہ پریشانی كے ساتھ منھ كھول كر سانس لے رہے تھے، گویا ناك سے سانس لینا مشكل ہورہا تھا۔

            چند منٹ بیٹھ كر راقم واپس ہوا تو مولانا محمد سفیان اور مولانا شكیب دروازےتك ہمیں چھوڑنے كے لیے آئے،  ہم نے وقتِ رخصت عرض كیا كہ آپ لوگ بڑے خلوص واہتمام سے تیمارداری كے حوالے سے حق پیدری ادا كررہے ہیں اور جب تك حیات ہیں اور كرلیجیے اِن شاء اللہ یہ آپ لوگوں كے لیے بہ راہ راست اور یقینی طور پر داخلۂ جنت كا ذریعہ ہوگا ۔ مولانا سفیان نے كہا كہ آپ صحیح فرمارہے ہیں ؛ كیوں كہ ہر نعمت كا كوئی نہ كوئی بدل ہے، باپ ماں كی نعمت كا كوئی بدل نہیں۔

            برصغیر كے مدارس ، علمی ودینی اداروں اور ملی تنظیموں كے لیے خصوصًا اور پوری دنیا كے دینی ، دعوتی اور اسلامی حلقوں كے لیے عموماً حضرت مولانا كی وفات كی خبر بے حساب صدموں كا باعث بنی ؛ اِسی لیے سبھوں نے اِیصالِ ثواب كا اہتمام كیا، تعزیتی جلسے ہوے، اُن كی گراں مایہ علمی،  دینی، دعوتی ، اجتماعی اور ملی خدمات كوبے پناہ سراہاگیااور ان كی وفات كو بہ جاطور پر عظیم ملی ودینی وعلمی خسارہ قرار دیا گیا۔

            ہر چند كہ حضرت مولاناؒ نے طویل العمری میں وفات پائی اور علم ودین كی خدمت سے بھر پور زندگی گزاری،  زمانے كی گردشوں اور شب وروز كے تغیرات كا خوب خوب مشاہدہ كیا، تجربات ومشاہدات كی دھوپ چھاؤں اور حالات وواقعات كی نیرنگیوں سے اتنی بار گزرے كہ مزید تجربوں اور مشاہدوں كی كوئی تمنا رہ گئی تھی نہ كوئی حسرت۔ گنے چنے لوگوں كو ہی جن كو اللہ تعالی اپنے دین كی طویل خدمت كی غیر معمولی سعادتوں سے نوازكر اُن كے نامۂ اعمال كو بوجھل بناناچاہتا ہے؛ اُن كے ایسی دراز عمری سے نوازتا ہے ۔وہ بالعموم صحت مند رہے كسی الم ناك اور خطرناك بیماری میں مبتلا نہ ہوے۔ پرہیزی تدبیروں اور كھانے پینے میں احتیاط كی پابندی كی اذیت سے بھی عام طور پر بچے رہے، حتی كہ وہ شكر خوری كے سلسلے میں اپنی شہرت كے باوجود الحمدللہ شكر كی كثیر الامراض وخطیر العوارض بیماری كا كبھی شكار نہ ہوے۔ عرصے سے اُن كی ٹانگوں بالخصوص گھٹنوں اور پنڈلیوں میں خاصی كم زوری كی شكایت تھی جس كی وجہ سے وہ صحیح طور پر نہیں چل پاتے تھے اور اٹھنے بیٹھنے میں بھی دشواری ہوتی تھی؛ لیكن صحت كی عمومی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے كی جہ سے ، بڑے حوصلہ مند اور كثیر الاسفار تھے۔

            لیكن سن رسیدگی كے طویل وطبعی دورانیے كو عبور كرنے كے بعدبھی  اُن كی موت سے نہ صرف علما وطلبہ وخواص اور نہ صرف جماعتوں اور تنظیموں كو غیر معمولی صدمہ ہوا؛ بل كہ  برصغیر اور پوری دنیا كے اُن سارے مسلمانوں كو بہت رنج والم ہوا، جو اُن كے مقام ومرتبے سے آشنا تھے؛كیوں كہ وہ خاكی نسب اور علمی ودینی سلسلے دونوں اعتبار سے غیر معمولی عظمت كے حامل تھے۔ اُن كا سلسلۂ نسب ۴۸ واسطوں سے حضرت ابوبكر صدیق رضی اللہ سے جاملتا ہے۔ جو حسب ذیل ہے:

            (مولانا ) محمد سالم (قاسمی) ، بن محمد طیب، بن محمد احمد، بن محمد قاسم،  بن اسدعلی، بن غلام شاہ، بن محمد بخشں، بن علاء الدین ، بن محمد فتح، بن محمد مفتی ، بن عبدالسمیع، بن محمد ہاشم، بن شیخ شاہ محمد ، بن قاضی طہٰ، بن شیخ مفتی مبارك، بن امان اللہ،  بن جمال الدین، بن قاضی شیخ میران بڑے، بن قاضی مظہرالدین، بن نجم الدین الثانی، بن نورالدین الرابع، بن قیام الدین، بن ضیاء الدین، بن نورالدین الثالث،بن نجم الدین ،بن نورالدین الثانی، بن ركن الدین، بن رفیع الدین، بن بہاء الدین، بن شہاب الدین، بن خواجہ یوسف، بن شیخ خلیل ، بن صدرالدین، بن شیخ ركن الدین سمرقندی، بن صدر الدین الحاج، بن اِسماعیل الشہید، بن نورالدین القتال، بن شیخ محمود، بن بہاء الدین، بن عبداللہ ، بن زكریا، بن شیخ نور، بن شیخ سراج ، بن شیخ شادی صدیقی ، بن وحید الدین، بن مسعود، بن عبدالرزاق، بن قاسم ، بن محمد، بن ابوبكر ، بن ابوقحافہ۔ (نسب نامہ،  مرتبہ مولانا مفتی محمود احمد صدیقی نانوتوی ركن مجلس شوری دارالعلوم دیوبند، حسب ِ ہدایت حضرت حكیم الاسلام قاری محمد طیب ؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، مطبوعہ الجمعیة پریس دہلی، ص ۵)

            اس عظیم خاندان كی سب سے پہلی شخصیت جو’’  خراسان‘‘سے ہندوستان وارد ہوئی، وہ قاضی میران بڑے بن قاضی مظہر الدین كی شخصیت ہے، جن كا  سلطان بہلول لودھی (۸۵۵  -۸۹۴ھ  =  ۱۴۵۱- ۱۴۸۹ء) كے زمانے میں ۸۷۸ھ/ ۱۴۷۳ء میں دہلی میں ورود مسعود ہوا۔ قاضی میران  نانوتہ كے صدیقی شیخ زادگان كے مورث اعلی ہیں ، جو نانوتہ میں مُتَوطّن ہوے ۔ ’’میران ‘‘ خراسان كے علاقے میں اشراف واعیان میں استعمال ہونے والا نام تھا۔ چناں چہ امیر تیمور كے صاحب زادے كا نام  ’’ میران شاہ ‘‘ تھا جس نے ۸۰۶ھ/ ۱۴۰۳ء میں وفات پائی۔ قاضی میران، حافظِ قرآن اور جلیل القدر علما وصلحا میں سے تھے۔ اُن كے علمی ودینی كمالات كی خبر پاكر ، سلطان بہلول لودھی نے ۸۶۴ھ/ ۱۴۶۰ء میں اُنھیں جاگیر عطاكركے  تحریر كردہ فرمان شاہی كے ساتھ نانوتہ كی قضا وخطابت پر مامور فرمایا اور نانوتہ میں بس جانے كا حكم صادر كیا۔ سلطان بہلول كے بعد ، سلطان سكندر لودھی (۸۹۴ – ۹۲۳ھ = ۱۴۸۸ –  ۱۵۱۷ء)نے انھیں نانوتہ سے بلواكر فرامینِ مذكورہ كی تجدید كردی۔ قاضی صاحب كی تاریخِ ولادت ۸۰۵ھ/ ۱۴۰۲ء اور تاریخ وفات ۱۴؍رجب ۹۰۲ھ مطابق ۱۱؍فروری ۱۴۹۷ء ہے۔ سنۂ ہجری كے حساب سے ۹۷سال اور سنۂ   عیسوی كے اعتبار سے ۹۵سال عمر پائی۔

            جب كہ مولانا محمد سالم قاسمیؒ كا دینی وعلمی سلسلہ بانی ِدارالعلوم دیوبند حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۲۴۸ھ/۱۸۳۲ء = ۱۲۹۷ھ /۱۸۸۰ء ) سے جاملتا ہے، جو دورِ آخر میں ہند میں سرمایۂ  ملت كے واقعی نگہبان ثابت ہوے كہ اپنے وقت میں اسلام كے خلاف اٹھنے والے فتنوں كی نہ صرف اپنے علمِ بے پناہ اور تدبیرِ حكیمانہ سے سركوبی كی؛ بل كہ دینِ اسلام كو اپنی اصلیت پر برقرار ركھنے كے لیے،  وقت كے مُسَلَّحْ اور استعماری حكومت كی طرف سے ہمہ گیر طور پر مدد یافتہ ومنصوبہ بند ثقافتی وتہذیبی ہمہ جہت تازہ دم حملوں كے سامنے دارالعلوم دیوبند كی شكل میں سدِّ سكندری اور ناقابلِ تسخیر قلعہ قائم كیا ، جو ہنوزدین وشریعت كے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان اور سیلِ بے پناہ كے سامنے اپنے شكوہ وجلال كے ساتھ اس طرح كھڑا ہے،  جس كی نظیر مسلمانوں كی زائد از ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔تصور كیجیے كہ اگر دارالعلوم دیوبند كی شكل میں دیوہیكل دینی وتعلیمی وتربیتی پناگاہ تعمیرنہ ہوئی ہوتی  تو اسلام كو اِس دیار سے حرفِ غلط كی طرح مٹادینے كے لیے كی جانے والی مسلسل ، زبردست اور ہمت شكن وحیران كن وخوف ناك كوششوں كا مقابلہ كرنے كی كیا تدبیر ہوسكتی تھی؟۔ درالعلوم دیوبند نے اس دیار میں اسلام اور مسلمانوں كی مكمل دینی شناخت كے ساتھ بقاكی راہ دكھائی، اُس كے بحرزخار سے ہزاروں نہریں مدرسوں اور تنظیموں كی شكل میں نكلیں اور نكلتی جارہی ہیں جو اِس وسیع تر علاقے كے كونے كونے كو سیراب كررہی اور شجرِ اِسلام كو  سرسبز وشاداب ركھنے میں اپنا كردار ادا كررہی ہیں۔

            یہ عظیم اور ناقابلِ فراموش كارنامہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی كے پردادا حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ كا ہے۔ مولانا محمدسالم قاسمی ؒ اس عظیم خانوادے كے دینی ماحول میں پیدا ہوے اور پرورش پائی، جس میں ہر طرف دین داری، زہدوتقوی اوردینی تعلیم وتربیت كا چرچا تھا، یہی اس خاندان كا اوڑھنا بچھونا تھا، مولانا محمد سالم كے دادا حافظ مولانامحمد احمد بن محمد قاسم نانوتویؒ نے علمی عظمت اور دینی قدرومنزلت اپنے عظیم والد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ سے ورثے میں پائی تھی؛ اس لیے یہ دونوں عظمتیں اُن كے لیے اكتسابی سے زیادہ موروثی تھیں وہ عالمِ صالح كے سوا كچھ اور كیا ہوتے ۔اُنھیں  – مولانا حافظ محمد احمدؒ  – كو دارالعلوم دیوبند كے سفینے كے ناخدا ہونےكی عظیم وہمہ جہت صلاحیتوں كی متقاضی ذمّےداری اِسی علمی وراثت كے حق دار وارث ہونے كی وجہ سے ملی، جس كو اُنھوں نے ہنر مندانہ طور پر سنبھالا اور دارالعلوم كی ظاہری وباطنی ترقی میں مسلسل ۴۰سال تك  لائقِ تسجیل كردارادا كیا۔

            مولانا محمد سالم قاسمی ؒ كے والد ماجد حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، دارالعلوم كے سابق مہتمم اور حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ كے پوتے اور حافظ مولانامحمد احمد كے صاحب زادئہ  اكبر تھے۔ حضرت حكیم الاسلام ؒ نے ۱۳۴۱ھ سے ۱۳۴۸ھ تك اپنے والد ماجد كے دورِ اہتمام میں اور اُن كی حیات میں نیابتِ اہتمام كو چار چاند لگائے اور ۱۳۴۸ھ سے ۱۴۰۲ھ تك كم وبیش ۵۴سال  دارالعلوم كے مستقل مہتمم رہے اور اپنی باوقار علمی  ودینی شخصیت سے دارالعلوم كی نہ صرف عالم گیر شہرت كا ذریعہ بنے؛  بل كہ دارالعلوم كو اُن كی شخصیت كی وجہ سے اتنی ترقی ہوئی جس سے زیادہ كا اس دور كے فریم میں تصور بھی نہیں كیا جاسكتا تھا۔ وہ اپنی ساحرانہ شخصیت ، اپنے مردانہ جمال، عالمانہ كمال، حكیمانہ كلام، منفردانہ خطابت اور اسلام كی سچی اور مؤثر وساحرانہ ترجمانی اور دارالعلوم كے علم و عمل كی اجتماعیت كا عكس جمیل ہونے والی ذات سِتُودَہ صفات كی وجہ سے سفر وحضر ،میں ہر جگہ دارالعلوم كے واقعی ترجمان، اُس كے لسانِ حال اور اُس كے مكمل وجود كا بھر پور انعكاس تھے۔  وہ كہیں نزول فرماتے تو محسوس ہوتا تھا كہ پورا دارالعلومآگیا ہے، حتی كہ حكیم الاسلام كا تصور دارالعلوم كے بغیر اور دارالعلوم كا تصور حكیم الاسلام كے بغیر نہیں ہوپاتا تھا، اگر كسی نے ’’ حضرت مہتمم صاحب‘‘ كا لفظ ادا كیا تو برّ صغیر كے گوشے گوشے میں ہر ایك كا ذہن مہتمم دارالعلوم دیوبند: حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ ہی كی طرف جاتا تھا۔ جب تك وہ حیات تھے ایسا لگتا تھا كہ اِس لفظ كو اداكركے اگر كسی نے كسی اور مدرسے كے مہتمم كو مراد لیا ، تو اس نے اس لفظ كے ساتھ توناانصافی كی ہی ، اس نے حكیم الاسلام ؒ كا رتبہ گھٹانے، اُن كی حق تلفی كرنے اور لائقِ مؤخذہ گناہ كرنے كی جرأت بھی كی ہے۔ ایسا لگتا تھا كہ دارالعلوم كا اہتمام اُنھی كے لیے وجود میں آیا تھا اور وہ خود دارالعلوم كے اہتمام ہی كے لیے مخلوق ہوے تھے، كسی اور مدرسے كے ذمے دارِ اعلی كو اگر كوئی ’’ مہتمم ‘‘ كہتا ہے ، تو یہ مجازی استعمال ہے اور حكیم الاسلام ہی كا فیضان ہے۔ غالبؔ (اسداللہ خاں غالبؔ ۱۲۱۲ھ/ ۱۷۹۷ء – ۱۲۸۵/۱۸۶۹ء)نے ایك شعر میں كسی تجمل حسین خاں كے لیے كہا تھا:

دیا ہے اور كوبھی؛ تا اُسے نظر نہ لگے

بنا ہے عیش تجمّل حسین خاں كے لیے

            غالبؔ نے اپنے شعر میں اپنے موصوف كے لیے جو كچھ كہا ہے ، خدا ہی كو معلوم ہے كہ اس میں كتنی صداقت تھی یا صرف شاعر كا شاعرانہ تخیل یا مبالغہ تھا؛ لیكن حكیم الاسلام ؒ كے لیے بجاطور پر كہا جاسكتا ہے كہ دارالعلوم كے كارہاے اہتمام اور اہتمام كے منصبِ عالی كے لیے وہ جس درجہ موزوں اور چست تھے، پتہ نہیں اب اس كے لیے اِتنی موزوں كوئی اور عظیم شخصیت مخلوق ہوگی یا نہیں ؟ خداے عظیم وجلیل ہر چیز پر قادر ہے ؛ لیكن بظاہرِ احوال شاید ایسا كرنا اب اس كی مرضی نہیں ہے ۔ اس راقم كو یہ كہنے میں ذرابھی مبالغہ نہیں لگتا كہ درالعلوم كے منصب اہتمام پر وہ جتنے موزوں ؛ بل كہ زیبا لگتے تھے، راقم نے اپنی زندگی میں چند شخصیتوں كو ہی اپنے مُفَوَّضَہ عہدوں كے لیے اِتنا لائق اور موزوں پایاہے۔ دنیا كا ہر كام بڑےسے بڑے لائق اور بے مثال انجام دہندہ كے بعد بھی، كسی نہ كسی طرح انجام پذیر ہوتا رہتا ہے؛ لیكن كسی بھی كام كو انجام دینے والی جب كوئی ایسی شخصیت دنیا سے اٹھ جاتی ہے،  جیسی كہ حكیم الاسلام كی تھی تو ایسا لگتا ہے كہ وہ كام اپنے انجام پر گریہ وزاری كررہا ہے  اور اپنے سابق انجام دہندہ كو بے تابی سے تلاش كررہا  اوراُس كی یاد میں لہو رورہا ہے۔

            مولانا محمد سالم قاسمیؒ كے لیے علمی ودینی سطح پر بڑابننے كے لیے الحمدللہ میدان ہم وار اور ماحول تیار تھا۔ جیساكہ عرض كیا گیا وہ پردادا حجة الاسلام الامام محمد قاسم نانوتویؒ، دادا فخر الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد احمدؒ  اور والد محترم حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ  تك كے علم وفضل كے ایك نورانی سلسلے كی ایك خوب صورت كڑی تھے۔ اُن كی والدہ محترمہ یعنی حكیم الاسلام ؒ كی زوجہ ’’حنیفہ خاتون‘‘ (متوفاة ۱۰؍محرم ۱۳۹۴ھ مطابق ۱۵؍فروری ۱۹۷۴ء) بھی انتہائی صالحہ عابدہ اور خوش اوقات خاتون تھیں، وہ صرف اس اعتبار سے عظیم نہ تھیں كہ وہ رام پور منیہاران  ضلع سہارن پور كے ایك اعلی خاندان سے تعلق ركھتی تھیں ، جس كا سلسلہ ٔ  نسب جلیل القدر صحابی یعنی میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تك پہنچتا ہے ؛ بل كہ وہ اس لیے بھی عظیم تھیں كہ برصغیر كی عظیم شخصیت حكیم الاسلام ؒ كی زوجہ بنیں اور اس سے بڑھ كر یہ كہ وہ خود اپنے مولی سے مضبوط تعلق ركھتی تھیں اور یہی عظمت سب سے بڑی عظمت ہے، جس سے وہ بہرہ یاب تھیں۔ حضرت حكیم الاسلام رحمة اللہ نے اُن كے متعلق ’’ جذبات الم ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:

            ’’خود اپنی ذات سے بھی نہایت صالحہ ، پابندِ اوقات اور اپنے معمولات پر مستقیم تھیں۔  میں اُن كے معمولات،  غبط كی نگاہوں سے دیكھا كرتا تھا اور بسا اوقات ذہن میں یہ تصور بندھ جاتا ہے كہ شاید یہی خاتون میرے لیے بھی نجات كا ذریعہ بن جائے۔  مرحومہ كو فرائض كی ادایگی كا حد درجہ اہتمام تھا، گھر كے كیسے ہی اہم كام میں مصروف ہوں، اذان كی آواز سنتے  ہی ہر كام سے بیگانہ وار اُٹھ كر ، اول اوقات میں نماز اداكیے بغیر مطمئن نہ ہوتی تھیں ، ایك ہزار دانے كی تسبیح اُن كے سرھانے رہاكرتی تھی، نماز عشاكے بعد ایك ہزار بار كلمۂ  طیبہ اور وقتِ خواب اَدعیۂ ماثورہ پڑھنے كا معمول تھا، جو سفر وحضر میں جاری رہتا تھا ، نمازصبح كے بعد تلاوت ِ قرآن كریم اور حضرمیں بغیر كسی شدید اور غیر اختیاری مجبوری كے ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ حج كا بھی ایك شغف دل میں تھا، میری معیّت میں سات بار حج وزیارتِ روضۂ  اقدس سے مشرف ہوئیں‘‘۔

            ’’حج ونماز اور اوقات كی پابندی كے ساتھ ، اُن میں اداے زكاة كا شغف یہ تھا كہ پائی پائی كا حساب كركے عمومًا ماہ رمضان میں زكاة ادا كیا كرتی تھیں، شہر كے عزیزوں میں سے غربا اور بالخصوص غریب بیواؤںكی فہرست اُن كے سامنے رہتی تھی۔ ( جذبات الم، ص:۶-  ۷)

            جس سعادت نصیب آدمی كو ایسی نیك اور تعلق مع اللہ كی حامل والدہ تربیت كے لیے نصیب ہوجائے ، اس كے نصیبے كا دھنی ہونے میں كیا شبہہ ہوسكتا ہے ، چناں چہ اُنھوں نے اُن ساری اخلاقی خرابیوں سے مُنَزَّہ زندگی گزاری جن سے نہ صرف عوام ؛ بل كہ خواص كا دامن بھی بالعموم آلودہ ہوتا ہے ۔ وہ كسی كی غیبت كرتے نہ كسی كی برائی سنتے، نہ كسی كا برا چاہتے ، نہ برا كہتے ، وہ حددرجہ خفا ہونے پر بھی اپنے خردوں اور خادموں كو زیادہ سے زیادہ ’’احمق ‘‘ كہتے ، اُن كی مجلسیں صرف علمی ، دینی اوردعوتی باتوں كے لیے ہوتیں۔ اپنے ماتحتوں سے ہمیشہ ہمدردانہ معاملہ كرتے ۔ ان كے آرام وراحت كا اپنے سے زیادہ خیال ركھتے ، بڑھاپے كی بڑھتی ہوئی كم زوری اور اعذار كے بعد بھی اُن كا حال یہ رہا كہ  بہ وقت سحر حوائج بشریہ سے فارغ ہوكر وضوكركے مصلیٰ پربیٹھ جانے كے بعد فجر كی نماز كے لیے اپنے خادم كو جگاتے؛ تاكہ اسے زیادہ زحمت نہ ہو اور جوانی كی بھر پور نیند میں ضرورت سے زیادہ خلل نہ ہو۔  اُن میں خاندانی اور موروثی شرافت ومروت كوٹ كوٹ كربھری ہوئی تھی۔ اُن كے خاص خادم مولانا محمد شاہد قاسمی مدھوبنی نے اس راقم كو بتایا كہ مدھوبنی ضلع كے گاؤں ’’دملہ‘‘ كے مدرسہ’’  محمودالعلوم ‘‘ میں ۱۶؍جمادی الاولی ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۲؍مئی ۲۰۰۸ء كو ایك بڑا جلسہ منعقد ہوا ، جس میں بہار كے وزیر اعلی نتیش كمار بھی مدعو تھے، جس نشست میں حضرت مولانا ؒ كا خطاب تھا، اسی میں نتیش صاحب نے شركت كی ، جب وہ پٹنہ واپس ہونے لگے تو اُنھوں نے حضرت سے اصرار كیا كہ آپ كو چوں كہ پٹنہ كے راستے سے واپس ہونا ہے؛ اس لیے آپ ہمارے ساتھ ہی ہیلی كوپٹر پر چلیں۔  مولانا ؒ نے نتیش صاحب سے پوچھا كہ اُس میں كتنے آدمیوں كی جگہ ہے، اُنھوں نے كہا ۴آدمیوں كی ۔ مولانا ؒ نے فرمایا پھر میں كس طرح آپ كے ساتھ جاسكوں گا، جب كہ آپ ، ڈرائیور، باڈی گارڈ اور میں چار آدمی ہوجاتے ہیں ، تو ہمارا خادم كہاں بیٹھے گا ؛ كیوں كہ میں اس كو چھوڑكر سفر نہیں كرسكتا؛ لہٰذا آپ اپنے ہیلی كوپٹر پر جائیں ، ہم دونوں میزبان كی فراہم كردہ كار سے آتے ہیں۔ نتیش صاحب نے كہا ہمارا باڈی گارڈ كسی گاڑی سے آجائےگا آپ مع خادم ہمارے ساتھ چلیں۔

            وہ اپنے خردوں اور خادم كے ساتھ بے تكلفانہ برتاؤ كرتے ، جب تك خادم دسترخوان پر بیٹھ نہ جاتا ، كھانا تناول فرمانا شروع نہ كرتے۔ وہ زندگی كے معاملات میں شفافیت پر عمل كرتے،  تَعَاشَرُوا كَالْإخْوَانِ وتَعَامَلُوا كَالأَجَانِبِ  اُن كا شیوئہ زندگی تھا، وہ اپنے بچوں اور گھروالوں كے ساتھ بھی اسی رویے پر كار بند رہتے ۔ شرعی معاملات میں وأشَدُّہم فِی أَمْرِ اللہ عُمَرَ ہی اُن كا معمول تھا۔ شریعت كے دائرے میں چھوٹے سے چھوٹا اور معمولی آدمی بھی اُن سے كسی جھجك كے بغیر اپنی بات منواسكتا تھا۔

            یہ ساری صفات اُن كی غیر معمولی انسانیت اور مروت وشرافت كے ساتھ اُن كی صالحیت كی دلیل ہیں۔اُن كی صالحیت اور سعادت مندی كی دلیل وہ خواب بھی ہے، جو اُن كے جلیل القدر والد حكیم الاسلام نوراللہ مرقدہ نے، اُن كے سلسلے میں فلسطین كی زیارت كے دوران ۱۳۸۳ھ / ۱۹۶۳ء میں شہر بیت المقدس میں دیكھا تھا، جب اُن كی  – مولانا محمد سالم كی – عمر ۳۷سال كی تھی اور اُن كے فضل وكمال كے بال وپر مكمل طور پر نكلے نہ تھے، جس كو حكیم الاسلام نے لبنان كے شہر بیروت میں قیام كے دوران اپنی ڈائری میں تاریخی وثیقے كے طور پر اپنے دستِ مبارك سے قلم بند كرلیا تھا، جو درجِ ذیل ہے:

            ’’    نحمدہ ونصلی

            آج یكم جمادی الاولی ۱۳۸۳ھ یوم جمعہ كی شب میں بہ مقام بیت المقدس احقر نے حسبِ ذیل خواب دیكھا، جو بلاشبہہ از قسمِ مُبَشِّرَات ہے اور جو یہ ہے كہ

            ’’ میں دیوبند میں ہوں اور معلوم ہوا ہے كہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائے ہوے ہیں ۔ ذہن میں یہ ہے كہ تشریف آوری دارالعلوم میں ہوئی ہے، لوگ اشتیاقِ زیارت میں ہیں اور میں اِرادہ میں ہوں كہ زیارت سے مشرف ہوں۔ اِس درمیان میں كچھ یوہی سا یاد ہے كہ دارالعلوم میں حضورؐ نے كسی اجتماع میں شركت فرمائی ؛ مگر یہ پورا یاد نہیں ؛ بل كہ وہم سا ہے ۔ اسی دوران میں ، میں ایك اونچی جگہ پر ہوں اور سامنے ایك لانبی سڑك ہے نیجے كی طرف اُتر تی ہوئی نامكمل ، ایسی جیساكہ شاہی قلعوں میں سلامی دار (ڈھلوان دار) راستے ہوتے ہیں، جو قلعے كے بالائی حصے كی طرف جاتے ہیں، جیسے آگرہ كے قلعے میں شاہی محلات كو جانے والا راستہ كافی چڑھتا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی كچھ یاد پڑتا ہے كہ یہ سڑك سر سبز ہے ۔

            ’’ میں دیكھتا ہوں كہ حضورؐاس سڑك سے گزررہے ہیں یعنی مدرسے آرہے ہیں اور قیام گاہ پر تشریف لے جارہے ہیں (قیام گاہ وہ مكان ہے جس میں نائب مہتمم صاحب  –  مولانا مبارك علی – اور مولانا مدنی كا مكان ہے) لیكن اُس وقت تك میں اُس مكان كو اُن حضرات كا نہیں سمجھ رہا ہوں ؛ بل كہ مدرسے كا كوئی استعمالی مكان جان رہاہوں۔ حضورؐ مذكورہ راستے سے اُتر رہے ہیں ایك چادر ہ میں ملبوس ہیں اور چادرہ پورے بدن پر اوڑھے ہوے ہیں اور كچھ اِس طرح خمیدہ چل رہے ہیں جیسے نیچے كی طرف اُترنے والا كچھ جھك كر چلتا ہے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی ذہن میں لیے ہوے ہوں كہ یہ سڑك حضورؐ ہی كے لیے مخصوص طور پر بنائی گئی ہے جو اِحاطۂ  مدرسہ كی اندرونی اور پرائیوٹ سڑك ہے، عام گزرگاہ نہیں ہے اور اِس لیے بنائی گئی ہے كہ حضور ؐ  كو مجمع كے ساتھ چلنے میں تكلیف نہ ہو؛ اس لیے آپؐ   تنہا ہی تشریف لے جارہے ہیں اور میں دیكھ رہا ہوں اور خیال یہ ہے كہ آپ كی قیام گاہ پر حاضر ہوكر زیارت سے مُشَرَّفْ ہوںگا، چناں چہ اس كے بعد میں قیام گاہ پر حاضر ہوا ؛ مگر معلوم ہواكہ آرام فرمارہے ہیں ؛ اِس لیے اِس خیال سے لوٹا كہ بعد میں جاؤں گا۔ میں مكان پر پہنچا تو میاں سالم پہنچ گئے اور میں نے كہا كہ بھائی ! حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوے ہیں حاضری كا اور ملنے كا اہتمام كرو، اِس پر سالم نے كہا كہ میں الحمد اللہ مل چكا ہوں اور خدمتِ اقدس میں حاضری بھی دے چكا ہوں اور مجلسِ پاك میں بیٹھ بھی چكا ہوں اور دستِ مبارك پر بیعت كركے آرہا ہوں ۔ اِس پر میری خوشی كی انتہا نہ رہی اور میں نے دعا بھی دی اور مبارك باد بھی دی  ۔ وَالْحَمْدُ لِلہ أَوَّلًا وَآخِرًا۔

محمد طیب             

نزیل الیوم فی ’’بیروت‘‘ (لبنان)

   یكم جمادی الاولی ۱۳۸۳ھ      

۲۰؍ستمبر ۱۹۶۳ء یوم جمعہ     

            وہ واقعتاً مُرُوَّت كا پتلا تھے، اس كا كچھ اندازہ واقعۂ   ذیل سےہوگا ۔ مصر كے ایك سفر میں جس میں راقم كو اُن كی ہم ركابی كی سعادت حاصل رہی ۔  جانے كے سفر میں ’’دبئی  ‘‘ میں قاہرہ كے لیے اور آنے میں ’’دبئی  ‘‘ ہی میں انڈیا كے لیے فلائٹ تبدیل كرنی تھی ۔جانے كے سفر میں تو ’’دبئی‘‘  میں قدرے كم ركنا ہوا؛ لیكن ہندوستان واپسی كے وقت ہمارے پاس مكمل ایك دن اور آدھی رات كا وقت تھا، دبئی میں ایك  ’’مظفر كولا بھٹكلی‘‘ہوا كرتے تھے جو  پیسے كے كاروبار سے جڑے ہونے كی وجہ سے خاصے سرمایہ دار تھے، ان كو كسی طرح قاہرہ سے مولانا ؒ  كی واپسی اور دبیٔ میں پڑاؤ كی خبر ہوگئی ۔ وہ اپنی گاڑی ہوائی اڈے پر لے كر آگئے ، گورنمنٹ كے اہل كاروں بالخصوص ہوائی اڈے كے عملے سے اُن كی خاصی جان پہچان تھی، اُنھوں نے اُن لوگوں سے مل كر چند ہی منٹوں میں ہمارے ’’ دبئی   ‘‘ شہر میں جانے كی اجازت حاصل كرلی اور اپنی كوٹھی پر لے گئے، وہاں ہم نے اچھی طرح آرام وعافیت كے ساتھ ٹھہراؤ كے وقفے كو گزارا، ورنہ ہوائی اڈے كے اصول كے مطابق ہم قریب كے كسی ہوٹل میں قیام كرتے اور بہت بے كیفی كے ساتھ ڈیڑھ دن كو ایك ہفتہ سمجھ كر ’’ہجر ‘‘ والی كیفیتوں كے ساتھ اذیت گزیدہ گزارتے ۔

            مولاناؒ كا جومقام ومرتبہ مسلمانوں كی نگاہ میں تھا، راقم كو اِس كی وجہ سے اِس كا اندازہ تھا كہ یہاں كے قیام میں لوگ بڑی تعداد میں ملنے آئیں گے اور اُن میں سے خاصے لوگ ہدیے بھی پیش كریں گے؛ اس لیے  ہم نے راستے میں كار كی سیٹ پر بیٹھتے ہی حضرت سے عرض كردیا تھا كہ حضرت!  یہاں لوگ ہدایا پیش كریں گے تو آپ منع فرمادیجیے گا اور یہ كہہ  دیجیے گا كہ آپ لوگ كوریر وغیرہ كے ذریعےاِنھیں ازخود بھیجوادیں ، كیوں كہ لگیج میں گنجایش نہیں اور ہاتھ كا ایك بریف كیس پہلے سے ہے اور رفیق سفر (یعنی راقم) كا اپنا بھی ہاتھ كا سامان ہے، وہ كس طرح كوئی اور سامان ہاتھ میں لے كر جائے گا،كیوں كہ میں تو كچھ بھی اٹھانے كے لائق نہیں ہوں ؛ لیكن جب لوگ ہدیے كی برسات كرنے لگے تو حضرت مولانا ؒ نے كسی كو منع نہیں كیا؛ لیكن اُنھیں اندازہ تھا كہ اتنی مقدار سامان كی نہ فلائٹ كے اندر لیجانی ماذون بہ ہوگی اور نہ اس كو راقم جیسا یا خود ان جیسا كوئی آدمی ہاتھ میں اٹھا كر چل سكےگا، تو ہوائی اڈے پر انھوں نے سب سامانوں كو لگیج میں ڈال دیا اور اچھی خاصی رقم وزن كے بدلے میں ادا كی۔  راقم نے عرض كیا حضرت ! آپ نے ناچیز كی گزارش كو خیال میں نہیں ركھااور اب یہ اتنی بڑی رقم جو خرچ ہوگئی تو گویا آپ سارے سامان خریدكر لے جارہے ہیں، اس كا كیا فائدہ ہوا؟فرمایا: لوگ محبت سے دے رہے تھے ، اگر ہم اُنھیں منع كرتےتو اُن كے دلوں كے آب گینوں كو ٹھیس لگتی ، محبت وعقیدت بے بہا ہوتی ہے ؛ اس لیے جو كچھ خرچ ہوا اب اس كو كیا سوچنا ہے۔

            اسی كے ساتھ وہ عالمانہ وقار اور صالحانہ اطوار كا نمونہ تھے۔ وہ وعظ وخطابت میں اپنے عظیم والد حكیم الاسلام ؒ كا عكس تھے، اُن كی مجلسی گفتگو اور جلسوں كی تقریریں حكیمانہ اور علمی اشارات واستنباطات سے پر ہوتی تھیں ۔  وہ پرمغز، معنی خیز، اور دقیق زبان میں بولتے اور تقریر كرتے تھے، نیز وہ تیز بولتے جیسے وہ متعلقہ موضوع كے مواد ومشمولات وتعبیرات ولفظیات كو رٹے ہوے ہوں۔ جوانی اور اُدھیڑ عمر ی میں تو ان كی تقریریں خواص كے لیے بالخصوص اور عوام كے لیے بالعموم بڑے فائدہ كا ذریعہ رہیں؛ لیكن اواخرِعمر میں جب بڑھاپے كا اثر زبان وطرز كلام پر بھی پڑگیا تھا، اچھے اچھے علما كے لیے بھی اُن كی باتوں سے فائدہ اٹھانا آسان نہیں رہ گیا تھا؟ ہاں جولوگ اُن كے لب ولہجے، طرز ادا اور تقریر وتحریر اور عام مجلسی گفتگو كی اُن كی لفظیات سے واقف تھے ، وہ اُن كی زندگی كے آخری سالوں كی تقریروں اور عام علمی باتوں كو بھی خوب سمجھ لیتے اور خوب خوب فائدہ اٹھاتے تھے۔ علمی نكات اور حكیمانہ اشارات  كی كثرت كی وجہ سے بھی اُن كی باتیں عوام كے لیے دشوار ہوتی تھیں؛ نكات خیزی اور لطائف  ریزی  اُنھیں اپنے عظیم خاندان سے ورثے میں ملی تھی، بالخصوص اپنے پردادا حجة الاسلام الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور اپنے والد ماجد حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سے ۔ مولانا محمد سالم ؒ ہر موضوع كی گفتگو كو اصولی قالب میں پیش كرتے، نیز كسی تقریر اور وعظ میں اپنے موضوع كے دائرے سے باہر نہ جاتے اور اپنے موضوع كی حق تلفی اور نا انصافی كا تو اُن سے تصور بھی نہیں كیا جاسكتا تھا۔

            وہ درس دیتے ، یا تقریر كرتے ، یا كسی تقریب كی سرپرستی یا صدارت كرتے ہوے محوِكلام ہوتے، تو مُخَاطَب كا دل اِس اعتماد ویقین سے پر ہوتا كہ وہ ایك پختہ علم، قادر الكلام، بلیغ اللسان، رموزِ شریعت كے شناسا، احكام دینی كے رازداں عالم كے سامنے بیٹھا ہوا اُن كے افكار كے موتیوں سے اپنے دامن كو بھررہا ہے، وہ جو كچھ سن رہا ہے وہ پتھر كی لكیر ہے؛ كیوں كہ علم وحكمت اِس عالم كو وراثتًا ابًا عن جدّ ملاہوا نہ ختم ہونے والا وہ خزانہ ہے جو ہر’’ اُ چكے‘‘  اور ’’چور‘‘ كی دست رس سے باہر ہے؛ اسی لیے وہ اس كو  تہی دامنی كے خدشے كے بغیر دائیں بائیں لٹاتا جارہا ہے۔

            مولانا محمد سالم قاسمی ؒ تقریر وتحریر میں بڑی حدتك اپنے والد محترم كی مثال تھے۔ اپنے باپ ، دادا اور پردادا كی چھوڑی ہوئی علمی امانت وصالحیت اور مروت وشرافت كے امین ہونے كے منصب پر پورا اُترنے كی سچی كُوشش كرنے والے اپنے خاندانِ عالی شان كےآخری حوصلہ مندانسان تھے۔ اُن كے وجود سے دیوبندیت كے پرشكوہ قلعے كی پہرہ داری كا بھرم جس طرح تسلسل كے ساتھ قائم رہا، خداكرے كہ آیندہ بھی اسی معیار پر قائم رہے۔دیوبندیت خداكے دین كی اَصالت كا عنوانِ جلی ہے ۔ اُس كے عَلَم برداروں نے زائد از دو صدی سے اس دیار میں دین وایمان كو اپنی اصلی حالت میں اور مسلمانوں كو صحیح اسلام پر ثابت قدم ركھنے میں بے نظیر كردار ادا كیا ہے۔ اِن شاء اللہ خدائے قدیر اُس كے پاسبان ایك كے بعد دوسرا پیدا كرتا رہے گا۔

            حكیم الاسلام ؒ كی وفات سے جوخلا پیدا ہوا تھا، وہ حقیقت یہ ہے كہ ابھی تك پر نہیں ہوا؛ كیوں كہ اُن كے ایسی بھاری بھركم اور ہمہ جہت شخصیت آسانی سے ہاتھ نہیں آتی ؛ كہ وہ گردشِ لیل ونہار كے ایك خاص سعادت مندانہ دورانیے كی دین ہوتی ہے؛ لیكن  مولانا محمد سالم قاسمیؒ اپنی خطیبانہ صلاحیت ، عالمانہ لیاقت، قائدانہ بصیرت اور مُدَبِّرانہ سوجھ بوجھ كی وجہ سے بہت حدتك اُن كی جانشینی كا حق ادا كررہے تھے۔ اُدھیڑ عمری كے بعد وہ رنگ روپ ، سج دھج ، نشست برخواست میں بھی اُن كی ٹروكاپی (True Copy) لگنے لگے تھے، زندگی كے آخری مرحلوں میں تو وہ ہو بہ ہو حكیم الاسلام ؒ محسوس ہوتے تھے ایسا لگتا تھا كہ حكیم الاسلام ؒ كو حیاتِ نو مل گئی ہے اور وہ دوبارہ زندہ ہوكر ہمارے سامنے آگئے ہیں۔

            مولانا مرحوم اپنی كلاہ پرشكوہ كے ذریعے، جو تاجِ آراستہ كی طرح اُن كے سرپر اِستادہ رہتی تھی، اپنے سرخ وسفید مكھڑے كے ذریعے ، جس پر اپنی اور آباكی نیكی كانور ، تجلی ریز رہتا تھا؛اپنی كشادہ پیشانی كے ذریعے ، جس پر سجدوں كا نشان خالِ عروسی كی طرح سجتا تھا؛اپنی ہلالی شكل كی خم دار گھنیری ابروؤں كی وجہ سے ، جن سے اُن كی فراخ آنكھوں كا حسن دوبالا ہوجاتا تھا؛ اپنی ستواں ناك كی وجہ سے، جو اُن كی اور اُن كے آباكی عظمت كی پہرے دار لگتی تھی؛اپنے كتابی چہرے كی وجہ سے جو كھلی كتاب كی طرح دیرینہ مجدوشرف اور مفكرانہ تجربوں كا شاہدِناطق تھا؛اپنی گھنیری داڑھی كی وجہ سے ، جس كے بالوں سے بڑھاپے    میں سفید ہوجانے كے بعد فرشتوں كی سی معصومیت اور تقدس برستا تھا؛اپنی خوب صورت چھڑی كی وجہ سے جودین وشریعت میں كَتَرْ بَیْوَنْت كرنے والوں كے لیے گویا عصاے موسیؑ بن جانے كے لیے اُن كے ہاتھ میں مچلتی رہتی تھی؛ اپنے سفید لباس كی وجہ سے ، جو اُن كے جسم پر اس طرح جچتا تھا جیسے موزوں قدوقامت كے صرف اُنھی كی طرح كے كسی اِنسان پر؛ وہ حكیم الاسلامؒ كا شبیہ ِ مُجَسَّمَ تھے۔

            مولانا سالم قاسمی رحمة اللہ علیہ كو خدانے طویل العمری سے نوازا،  جس كے سارے اوقات كو دین وعلم ودعوت وملت كی خدمت میں صرف كیا اور نیك نامی حاصل كی ، نیكی سے بھری پُری زندگی خداے كریم كی بہت بڑی نعمت ہے جس سے وہ اپنے اُن خاص خاص بندوں ہی كو نوازتا ہے، جن كو اپنے فضل وكرم كے بے پایاں حصوں سے نوازنا چاہتا ہے۔

            ایك خاص بات یہ ہے كہ وہ اپنی عمردراز كے طویل دورانیےمیں بالعموم صحت مندرہےاور راقم كی معلومات كے مطابق نزلے زكام جیسی ہلكی پھلكی كثیر الوجود وبالعموم ہوجانے والی بیماریوں كے علاوہ كوئی بڑی یابُری بیماری اُنھیں نہیں لاحق ہوئی،  جو اُن كے قیمتی اوقات كو تادیر ضائع كرتی اور علمی ودینی مشاغل سے اُنھیں بہت دنوں كے لیےمشغول ركھتی ۔ وہ شكر ہر چیز میں بالخصوص چائے میں ’’اعتدال‘‘ سے زائد استعمال كرتے جتنی عام طور پر لوگ نہیں استعمال كرتے ؛ لیكن الحمد للہ وہ آخر آخر تك شكر كے اِیذا رساں وكثیر العوارض مرض سے بالكل محفوظ رہے ۔ كھانے پینے میں وہ كسی احتیاط پر كبھی عمل پیرا نہ ہوے، جب كہ بڑھاپے میں تو صرف احتیاط پر عمل كرنا طبی اور طبعی دونوں طور پر ضروری ہوتا ہے۔ ہر سن رسیدہ آدمی كھانے كے سلسلے میں  ’’یہ لینا ہے اور یہ نہیں لینا ہے ‘‘ كی ناقابل علاج بیماری كا شكار ہوجاتا ہے؛ لیكن الحمد للہ مولاناؒ اس بیماری سے بھی بالكلیہ محفوظ رہے۔

            درالعلوم كے ایك لائق فاضل مولانا اسعد قاسم سنبھلی قاسمی نے مرادآبادمیں اپنی جامعہ كی عمارت كے سنگِ بنیاد كے موقع سے جمعہ: ۲۷؍ذی قعدہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۴؍نومبر ۲۰۱۰ء كو حضرت مولاناؒ كے ساتھ اِس راقم كو بھی مدعوكیا تھا۔ ۱۱بجے كے قریب ناشتہ ہوا جس میں بہت سی مٹھائیاں ، پوریاں ، كچوریاں ، چھولے ، بریڈ، مكھن ، پاپے اور انواع واقسام كی وہ چیزیں تھیں جن كو ازقبیل ناشتہ لوگ لیا كرتے ہیں ۔ اتفاق سے دسترخوان پر میزبان نے مولانا ؒ كے بالكل سامنے اس راقم كو بیٹھنے كی سعادت دی، جو جوانی سے ہی شكر كے مرض اور اس كے بڑھتے رہنے والے عوارض كا شكار ہے؛ لہٰذا وہ بھی اُسی مرحلہء عمر سے احتیاط كی مجبوری سے  دوچار ہے ؛ اِس لیے اُس نے چند چیزیں احتیاط كے تقاضے كے بہ موجب اپنی پلیٹ میں لیں اور وہی سب كچھ مولانا ؒكی طرف بڑھانا چاہا تو اُنھوں نے فرمایا:مولانا ! آپ بس اپنی پلیٹ تك محدود رہیں اور اپنے خادم سے فرمایا: بھائی ! ہمارے لائق چیزیں ڈالو۔ اس نے دسترخوان كے مشمولات كی اكثر وہ چیزیں تھوڑی تھوڑی اُن كی پلیٹ میںڈالیں جن سے بیماری سے بچے رہنے كی حالت میں بھی بڑھاپے كی وجہ سے آدمی ضرور بچتا ہے۔ چناں چہ خادم نے بڑیڈ كی پیسوں پر وافر مقدارمیں مكھن كی پرتیں جمائیں اور اُن كے ہاتھ میں تھمادیا۔ راقم نے عرض كیا حضرت! یہ تو اس عمر میں بہت نقصان دہ ہے، حضرت نے فرمایا: الحمدللہ ہمارے لیے كچھ بھی نقصان دہ نہیں ہے، انڈے بھی حضرت نے ابلے ہوے اور نیم فرائی لیے، البتہ یہ كہ گرم ہونے كی شرط سے مشروط فرمادیا، جس كا نظام دسترخوان كے بغل والے كمرےمیں قائم تھا،چائے میں تقریباً تین چمچی شكر ڈالی ؛ لیكن ایك گھونٹ نوش فرمانے كے بعد ہی فرمایا كہ بھئی ! آدھی چمچی  اور ڈال دو۔ نماز جمعہ كے بعد افتتاحی تقریر ہوئی ، پھر سنگ بنیاد كی كارروائی عمل میں آئی، پھر ناشتے والی جگہ پر ہی كھانے كا دسترخوان سجا اور وہی كھانے طرح طرح كے چنے گئے جو بالعموم مہتم بالشان لوگوں كی قابلِ ذكر تقریب میں چنے جاتے ہیں: بریانی ، قورمے ،كئی طرح كے گوشت ، دہی بڑے ، تہاری، نہاری، تلی ہوئی مچھلیاں اور نان اور آخر میں لی جانے والی متنوع مٹھائیاں۔ مولاناؒ نے ہر ایك یااكثر كھانوں میں سے كچھ نہ كچھ لیا؛ لیكن راقم كے تعجب كی حد نہ رہی جب اُنھوں نے خادم سے فرمایا: قورمے كی ایك آدھ بوٹیاں میری پلیٹ میں ڈال دو، ایك صاحب جن كے ہاتھ میں ڈونگا تھا  اس احتیاط سے دو بوٹیاں نكال اُن كی پلیٹ میں ڈالنی چاہیںكہ وہ شوربہ اور تری سے آلودہ نہ رہیں، حضرت نے خادم سے كہا: تم خود یہ كام كیوں نہیں كرتے ۔ چناں چہ اس نے شوربے اور تری سے لبریز بوٹیاں اُنھیں دیں اور اُنھوں نے مزے سے تناول فرمایا۔راقم رشك كرتا رہا كہ اللہ ہرایك كو بڑھاپے میں اسی طرح كی صحت دے۔

            اواسطِ ربیع الاول ۱۴۲۰ھ مطابق اَواخر جون ۱۹۹۹ء میں جمہوریۂ    مصر كی وزارتِ اوقاف كی طرف سے منعقدہ كانفرنس میں شركت كے لیے  حضرت مولانا ؒ كی طرح یہ راقم بھی مدعو تھا ۔ حسنِ اتفاق كہ نہ صرف آمد ورفت كے سفر میں ؛ بل كہ رفاقت گاہ كے حوالے سے سے بھی (كہ الخیام ہوٹل میں جو ساحلِ نیل پر واقع اور قاہرہ كا سب سے بڑا ہوٹل ہے  ہم دونوں كے اقامتی كمرے ایك دوسرے سے ملے ہوے تھے)  اور كانفرنس كی نشستوں میں شركت نیز ہوٹل كے ڈائننگ ہال میں ناشتے اور كھانے كے لیے ایك ساتھ جانے آنے اور كھانے كی میز پر بھی صحبت كی سعادت رہی۔ اُس وقت یعنی آج سے كم وبیش ۱۹برس پہلے مولانا ؒ كی صحت زندگی كے آخری دنوں سے یقیناً بہتر تھی ؛ اس لیے اُس وقت تو اور بھی پرہیز كا كوئی مسئلہ نہ تھا۔ ناشتے میں بہ طور خاص  ایك سے زائد ابلے ہوے نیز نیم فرائی انڈے تولیتے ہی بریڈ مكھن كا بھی  استعمال كرتے ، كورن  فلیكس، گرم دودھ میں ڈال كر تو ضرور ہی تناول فرماتے ، اس سے زیادہ یہ كہ پیپسی ، كوكا كولا، پھلوں كے رس ہر چیز تھوڑی تھوڑی مقدار میں لیتے ۔ اُن كا طریقہ یہ ہوتا كہ وہ ذرا ذرا لیتے ؛ لیكن ساری چیزیں لیتے ۔ یہ راقم چوں كہ اُس وقت بھی شكر كا مریض تھا؛ اِس لیے اُس كو احتیاط كی زنجیروں میں جكڑا رہنا پڑتا تھا۔ مولانا اكثر فرماتے: مولانانورعالم !تم كس طرح پرندوں كی طرح كھانا لیتے ہو؟ راقم عرض كرتا: حضرت! اللہ تعالی نے آپ كو ذاتی علم وفضل اور نیكوں كی اولاد ہونے كی وجہ سے صحت وعافیت سے نوازاہے؛ جس سے خاك سار محروم ہے؛ اِس لیے آپ كے لیے وہی بہتر ہے جو آپ كرتےہیں  اور خاك سار كے لیے وہی مناسب ؛ بل كہ ناگزیر ہے، جو وہ كرتا ہے۔

            بہ ہركیف یہاں تو حضرت كی صحت وعافیت كی بات ہورہی تھی ، جس میں اس خوش گوار اور یادگار سفر كے ایك حصے كا تذكرہ بھی آگیا، یہاں سفر كےایك اور جزو كا تذكرہ بھی بے محل نہ ہوگاكہ ’’فندق الخیام‘‘ (خیام ہوٹل ) جس میں ہمارا قیام تھا كےاستقبالیے پررخصت كے وقت، اپنے برئ الذمہ ہونےكا، كا غذ لینے كے بعد ہی،ہوٹل سے رخصت ہونے كا نظام تھا۔ اس راقم كو تو آسانی سے وہ كاغذ مل گیا ، مولانا رحمة اللہ علیہ سے استقبالیہ كے ملازم نے چارسو ڈالر كا مطالبہ كیا ۔ راقم نے آگے بڑھ كے اس سے عربی میں غصہ ورانہ لہجے میں كہا: ہم لوگ یہاں مہمان تھے، آپ كی وزارت كی دعوت پرآئے تھے، آپ ہم لوگوں سے كس چیز كا اتنا بڑا ’’جرمانہ‘‘ وصول كررہے ہیں؟ اس نے مولاناؒ كی طرف اشارہ كرتے ہوے كہاكہ اِنھوں نے مہمانوں كے لیے متعین كردہ ماكولات سے زیادہ چیزیں لیں ہیں نیز كپڑے بھی بہت دھلوائے ہیں؛اِس لیے یہ رقم ان پر واجب الادا ہے، راقم نے اُس كو سمجھا یا كہ یہ آپ لوگوں كی غلطی ہے كہ آپ لوگوں نے ہمیں اِس سلسلے كا كوئی ہدایت نامہ كانفرنس كے پورے وقفے میں نہیں دیا، آپ كو چاہیے تھاكہ ہر مہمان كے كمرے میں یہ ہدایت نامہ ڈلوادیتے كہ ہمیں ہوٹل یا كانفرنس كے ذمے داروں كی طرف سےكیا كیا چیزیں ’’مباح ‘‘ اور كیا كیا چیزیں  ’’حرام‘‘ ہیں، ہم صرف  ’’مباح ‘‘ لینے پر اكتفا كرتے اور ’’حرام ‘‘ كے قریب بھی نہ جاتے ۔ خیر اُس نے ہماری بات كو درخورِ اعتنا سمجھا اور ہمیں بخشتے ہوے اُس نے’’بے باقی ‘‘ كا، كاغذ مولانا ؒ كو جاری كردیا ۔ مولانا ؒكو اس كا بڑا افسوس رہاكہ عربی لوگ اِتنے بداخلاق ہوگئے ہیں كہ مہمانوں كی تكریم كی صفت سے بالكلیہ عاری ہوگئے ہیں۔ وہ اس واقعے كا واپسی كے سفر كے دوران باربار تذكرتے رہے۔ راقم نے عرض كیا حضرت! یہ تو مصری ہیں جو ہم ہندوستانیوں كے بالكل ہم مزاج ہیں ؛ لیكن عام عربی كی دینی حالت ہم لوگوں سے بھی گئی گزری ہوگئی ہے اور وہ ہوٹل كا اہل كار تو نہ معلوم كہ عیسائی تھا یا مسلم ؛ كیوں كہ اكثر اس طرح كی جگہوں پر مصر میں عیسائی ہی متعین ہوتے ہیں۔

(باقی آئندہ)

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:102‏،  شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء

٭        ٭        ٭

Related Posts