از: مولانا عبیدالرحمن قاسمی               

ریسرچ اسکالر شعبۂ عربی (بی۔ ایچ۔ یو، بنارس)

            میر غلام علی آزاد بلگرامی (۱۱۱۶-۱۲۰۰ھ مطابق  ۱۷۰۴-۱۸۷۶ء)ہندوستان کی ان مایہ ناز شخصیتوں  میں  سے ایک ہیں  جن پر ہندوستانی تاریخ کو فخر حاصل ہے،اور ان کا علمی سرمایہ ہندوستانی مسلمانوں  کے لیے باعث صد افتخار ہے۔آزاد بلگرامی عربی اور فارسی دونوں  زبانوں  کے ماہر ادیب اور شاعر ہیں ۔آپ کی پیدائش بلگرام میں  ہوئی جو کہ علما اور فضلا کا منبع رہا ہے؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلگرام کی علمی اور روحانی فضیلت کی شناخت آزاد بلگرامی کی کتابوں  کی وجہ سے ہوئی ہے۔چند ہی شخصیتیں  ہیں  جو علم وفضل کی دنیا میں  مشہور ہوئیں جن میں آزاد بلگرامی کا نام سر فہرست ہے،کہا جاتا ہے کہ ’’تاج العروس‘‘ -عربی زبان کی جامع اور مکمل لغت -کے مصنف بھی بلگرامی ہیں ،چہ جائیکہ یہ موضوع مؤرخین کے نزدیک مختلف فیہ ہے،ہندوستانی مؤرخین ان کو بلگرامی کہتے ہیں  جبکہ عرب مؤرخین اس کا انکار کرتے ہیں (۱) ۔

            آزاد بلگرامی نے اپنی تمام تر ابتدائی تعلیم شیخ محمد طفیل اترولوی سے حاصل کی،حدیث وفقہ، زبان وادب، سیر ومغازی اپنے نانا شیخ عبد الجلیل بن میر احمد بلگرامی سے پڑھی، اور ان ہی دونوں  علما کی مصاحبت میں  تمام علوم وفنون کی مہارت حاصل کی۔

            ۱۱۵۰ھ میں  حرمین شریفین کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے ، اور وہاں  ایک سال سے زائد عرصہ قیام کیا، اسی دوران شیخ محمد حیات سندھی (متوفی :۱۱۶۳ھ) سے صحیح بخاری پڑھی،اور صحاح ستہ کی روایت اوردرایت کی سند حاصل کی،نیز شیخ عبد الوہاب طنطاوی مصری (متوفی:۱۱۵۷ھ) سے علم حدیث میں  مہارت حاصل کی، اور اپنا شعری تخلص’’آزاد‘‘ شیخ کے سامنے پیش کیا تو انھوں  نے یہ سن کر کہا’’أنت من عتقاء اللّٰہ‘‘اور۱۱۵۲ھ میں  ہندوستان واپس ہوئے ،اورنگ آباد میں  قیام کیا ،اور وہیں  (۱۲۰۰ ھ-۱۸۷۶ء )میں  وفات پائی(۲)۔

            آزاد بلگرامی کا شمار بلگرام کے صاحب علم وفضل علما میں  کیا جاتا ہے،وہ اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں ۔اخلاقِ کریمانہ کے مالک،حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار،علم وفضل میں  باکمال شخصیت کے مالک ہیں ،آپ کی تصانیف میں  تاریخ وتبصرہ کا پہلو غالب ہے اور یہی آپ کا تصنیفی فن بھی ہے۔ عربی،فارسی دونوں  زبانوں  میں  آپ کی تصانیف ہیں  اور اشعار کا مجموعہ بھی،عربی دواوین کی تعداد دس ہیں ،ان کو دو انتخاب میں  جمع کردیا گیا ہے۔پہلا ’’السبعۃ السیارۃ‘‘ اور دوسرا ’’مختارات دیوان آزاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔آزاد کے یہ دواوین الگ الگ جزو کی صورت میں  بھی شائع ہوئے ہیں  اور ان کے قلمی نسخے ہندوستان کی مختلف لائبریریوں  میں  موجو د ہیں (۳)۔

            آزاد کی اردو شاعری کی نظیر نہیں  ملتی ہے،مگر ہندی شاعری سے متأثر تھے،لیکن اشعار نہیں  کہے ہیں ۔عربی شاعری کی تمام صنف میں  طبع آزمائی کی ہے۔خاص کر مدح نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں  آپ کے مستقل قصیدے ہیں  اور ان قصائد میں  روح کی تڑپ اورسوزش عشق ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت میں  کہے گئے اشعار کی وجہ سے اپنے آپ ’’حسان الہند‘‘ لقب کا سزاوار گردانتے ہیں  :

چوں  مدح رسول کام من شد

حسان الہند نام من شد

            چونکہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں  گزاری اور یہی کام صدیوں  بعد ہندوستان کی سرزمین سے آزاد بلگرامی نے انجام دیا تو یہ لقب آپ کی پہچان بن گیااور یہی نہیں  ؛بلکہ آزاد نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب بیان میں  نت نئی تعبیرات کا بھی اختراع کیا؛ جس کی نظیر ماضی کے شعراء میں  نہیں  ملتی۔فقیر محمد جہلمی کے الفاظ ہیں :

        ’’إن آزاد قد أوجد فی مدحہ للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم معاني کثیرۃ نادرۃ لم یوفق مثلہا لأحد من الشعراء المفلقین، وأبدع فی قصائدہ المدحیۃ مخالص لم یبلغ مداہا فرد من الفصحاء المستشدقین‘‘(۴)

            آزاد کی طبیعت میں  شعر گوئی رچی بسی تھی،جس صنف میں  شعر کہنا چاہتے اس کے لیے موزوں  الفاظ آپ کے ذہن میں  صف بستہ ہو جاتے؛گویا بحر زخار سے موتی چن رہے ہوں ،یہی وجہ تھی کہ ایک دن یا اس سے کم میں  بھی مکمل قصیدہ کہہ لیتے تھے۔

            صاحب نزہۃ الخواطر فرماتے ہیں :

            ’’ولہ فی التغزل طور خاص یعرف أصحاب الفن، ومنحہ اللہ قدرۃ علی النظم بحیث ینظم قصیدۃ کاملۃ فی یوم واحد بل فی بعضہ علی کیفیۃ یراہا الناظرون، وکل ما یتوجہ تحضر المعاني لدیہ صفا صفا ویتمثل بین لدیہ فوجاً فوجاً‘‘(۵)

            آزاد کی شاعری اور اس کے محاسن کا جہاں  عرب وعجم نے اعتراف کیا ہے وہیں  بعض لوگوں  نے آپ کی شاعری میں  عجمی اور غیر معروف عربی الفاظ کی آمیزش،معنوی غموض،اور ہندوستانی تعبیرات کی تعریب کا الزام لگایا ہے۔ ان کی نظر میں  اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عرب ان اشعار کو سمجھنے سے قاصر ہو گئے،لیکن ان سب کے باوجود آزاد کی عربی دانی ،علوم عربیہ ادبیہ کی مہارت کا سبھی اعتراف کرتے ہیں ۔علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسر معصومی نے بھی آزاد کی شاعری پر تنقید کی ہے۔

            علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

            ’’آزاد کا عربی اور فارسی کلام اگرچہ کثرت سے ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے چہرۂ کمال کا داغ ہے، اس سے انکار نہیں  ہو سکتا کہ وہ عربی زبان کے بہت بڑے ادیب ہیں  نہایت نادر کتب ادبیہ پران کی نظر ہے، لغات ومحاورات ان کی زبان پر ہیں ، لیکن کلام میں  اس قدر عجمیت کہ اس کو عربی کہنا مشکل ہے، ان کو اس پر ناز ہے کہ انھوں  نے عجم کے خیالات عربی زبان میں  منتقل کئے ہیں  لیکن نکتہ سنج جانتے ہیں  کہ یہ ہنر نہیں  بلکہ عیب ہے۔ 

خطا نمودہ ام

وچشم آفرین دارم

            پروفیسر ابو محفوظ کریم المعصومی نے بھی’’آزاد‘‘ کی شاعری پرتقریباً علامہ شبلی جیسا ہی تبصرہ کیا ہے کہ’’ آزاد ‘‘ کی شاعری کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں  ہندوستانی تعبیرات کا کثرت سے استعمال ہو ا ہے اور ان کی شاعری میں  عربی اسلوب وتعبیرات کی چاشنی نہیں  ملتی ہے۔

             لکھتے ہیں :

            ’’إن أبرز شیء یعد ممیزۃ شعر العلامۃ ’’آزاد‘‘ وجہۃ نظر الشعر الہندي قد یکون ذلک أکبر عیب فی کلامہ من وجہۃ نظر الشعر العربي، دخلت فی شعر ’’آزاد‘‘ تعبیرات ہندیۃ حتی أصبح کلامہ لا یخلو فیہا فی أي حال من الأحوال؛ ولذلک لا نجد فی کلامہ أسالیب عربیۃ‘‘(۶)۔

            آزادکی شاعری میں  عجمی اور غریب الفاظ کی آمیزش یا ہندوستانی تعبیرات کی ترجمانی کی وجہ سے ان کی شاعری کو ان چہرۂ کمال کا داغ گرداننا یا ان کی شاعری میں  عجمی ،غیر عربی اسلوب کی تخلیط کو عیب قرار دینا تنقیدی تشدد کا مظہر ہے،جب کہ اس طرح کے افکار ونظریات عرب کے بڑے بڑے شعراکے کلام میں  بھی جا بجا موجود ہیں  ۔متنبی اور معری کے بارے میں  ابن خلدون کے الفاظ اس پر شاہد ہیں :

            ’’کان الکثیر ممن لقیناہ من شیوخنا فی ہذہ الصناعۃ الأدبیۃ یرون أن نظم المتنبي والمعري لیس ہو من الشعر شیء؛ لأنہما لم یجر یاعلی أسالیب العرب من الأمم‘‘(۷)

            نیز’’آزاد‘‘کازمانہ جاہلیت یا اسلام کا زمانہ نہیں ؛بلکہ عربی زبان کے تعلق سے انحطاط کا زمانہ تھا۔ایسے حالات میں  ہندوستان کی سرزمین سے عربی زبان وادب کے جوہر شناس کا پیدا ہونا اور اس ربانی زبان میں  فی البدیہ اشعار کہنا کسی کرامت سے کم نہیں  تھا۔صرف عجمی تعبیرات یا عجمی افکار کی عربی ترجمانی کی وجہ سے ’’آزاد‘‘کی شاعری کو بے وزن نہیں  کیا جا سکتا ہے۔’’آزاد‘‘ نے اپنی شاعری میں  تقلید محض سے کام نہ لے کر چند جدید صنف کا بھی اختراع کیا ہے جو آپ کی ادبی مہارت، زبان دانی او راختراعی ذہن پر دلالت کرتا ہے۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں  کہ آزادنے عربی شاعری میں  ایک نئے باب کی بنیاد رکھی جو ان سے پہلے شعرا کے کلام میں  ناپید ہے۔

            فقیر محمد جہلمی اپنی کتاب ’’حدائق الحنفیۃ‘‘ میں  آزاد کی شاعری میں  گوناگوں  خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

            ’’آزاد کے عربی زبان میں  سات دیوان ہیں ،جن کو ’’سبع سیارہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آزاد نے ان قصائد میں  جدید صنف شاعری میں  طبع آزمائی کی ہے جس کی نظیر دوسرے شعرا کے یہاں  نہیں  ملتی ہے۔ اہل ہند میں  سے کسی کو نہیں  سنا گیا کہ ان کا عربی میں  بھی مجموعہ کلام ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں  کہے گئے دیوان میں آپ نے ایسے عمدہ معانی،نادر تعبیرات کا اختراع کیا ہے جس کی مثال متقدمین ماہر شعرا اور فصحا کے کلام میں  نہیں  ملتی۔ غزل کہنے کا آپ کا ایک خاص طرز تھا جس کو ارباب فن بخوبی جانتے ہیں (۸)۔

            شاعری کے علاوہ آزاد بلگرامی کو تاریخ وتذکرہ جیسے موضوع سے خاص شغف ہے جس کا مظہر آپ کی کتاب’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ ہے۔بقیہ دوسری کتابیں  فارسی زبان میں  ہیں  جس میں  ’’مآثر الکرام‘‘ کو خاص شہرت حاصل ہوئی اور علماوفضلا کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔عربی زبان میں  قصائد ،شرح،تنقیدوترجمہ اور حدیث جیسے اہم موضوعات پر آزاد کی دوسری کتابیں  بھی ہیں  جن میں  اکثر مخطوطہ کی شکل میں  ہندوستان کی مختلف لائبریریوں  میں  موجود ہیں  جن کا مختصر تعارف ذیل کی سطروں  میں  پیش کیا جاتا ہے۔

            (۱) ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ آزاد کی عربی تصانیف میں  سب سے مشہور یہی کتاب ہے۔مصنف کے بیان کے مطابق ۱۱۷۷ھ؍۱۷۶۳ء میں  اس کی تالیف ہوئی۔یہ کتاب چار فصلوں  پر مشتمل ہے۔

            فصل اول: ’’فیما جاء من ذکر الہند فی التفسیر والحدیث‘‘ تفسیر وحدیث میں  ہندوستان کے بارے میں  جو روایات یا اشارے ملتے ہیں  ان کے بارے میں ۔

            اس موضوع پر آزاد نے ایک مستقل رسالہ’’ شمامۃ العنبر فیما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے نام سے تصنیف کیا تھااور اسی رسالہ کو’’سبحۃ المرجان‘‘ کا فصل اول بنادیا’’لقد ألفت من قبل رسالۃ فی ہذا الباب فاجعلہا جزء ا من ہذا الکتاب‘‘۔

            اس باب میں  ’’آزاد‘‘ نے تفسیر وحدیث میں  واردان روایات کو جمع کردیا ہے جو ہندوستان کی فضیلت بیان کرتی ہیں  جن میں  سے اکثر کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں ۔ان روایات کے بارے یہ نہیں  کہا جا سکتا کہ یہ سب جھوٹی ہیں  یا ان کی کوئی اصل نہیں  ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسرائیلی روایات کے متعلق فرما یا ہے کہ اگر وہ روایتیں  قرآنی تصریحات کے عین مطابق ہیں  تو ان کو بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ صحیح ہیں ،اور جن روایتوں  میں  عقیدۂ توحید کے منافی بات کہی گئی ہو یا اس سے عصمت انبیاء علیہم السلام پر حرف آتا ہو تو اسے رد کردیا جائے گااور اس کا بیان کرنا نا جائز ہوگا۔مگر جن روایات کا تعلق واقعات عالم سے ہو تو وہ سچی بھی ہو سکتی ہیں  اور جھوٹی بھی،اس سلسلے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد’’فلاتصدقوہ ولا تکذبوہ‘‘ معیار تحقیق ہوگاکہ نہ اس کی مکمل تصدیق کی جائے گی اور نہ ہی ان کو یکسر رد کردیا جائے گا۔اس باب میں  بیان کردہ احادیث اسی قبیل کی ہیں ۔ آزاد بلگرامی کی علمی مہارت، تحقیقی قابلیت اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت؛کیونکہ علم حدیث میں  آپ نے اپنے وقت کے عظیم محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے، نیز بخاری شریف کی ’’کتاب الزکاۃ‘‘ کی شرح ’’ضوء الدراری فی شرح البخاری‘‘ اس پر شاہد عدل ہے کہ آپ عظیم محدث بھی ہیں ۔ تو ان روایات کو ذکر کرنے میں  آپ نے محدثانہ بصیرت سے بھی کام لیا ہوگا۔درحقیقت ’’آزاد‘‘ کا یہ عظیم کارنامہ ہے سیکڑوں  کتابوں  میں  بکھری ہوئی ان روایات کو جمع کرنا جن کا تعلق ہندوستان سے ہے یا اس کی فضیلت کو ذکر کرتا ہے ایک مشکل کام ہے جن کا معترف ہر ناقد ہے۔اس باب نے کتاب کی عظمت کو دوبالا کردیا ہے(۹)۔

            فصل ثانی: ’’فی ذکر العلماء‘‘ اس فصل میں  ہندوستان کے صاحب تصانیف علما کا تذکرہ ہے۔ آزاد بلگرامی ان اولین تذکرہ نگاروں  میں  ہیں  جنہوں  نے ہندوستانی صاحب تصانیف علماوفضلا کے احوال وکوائف کو عربی زبان میں  کتابی شکل میں  پیش کیا ہے۔

            یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی سرزمین علمی اعتبار سے ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے ،عربوں  کی ہندوستان آمد کے بعد اس سرزمین کو خوب عروج حاصل ہوا اور اس سے پیدا ہوئی نسلوں  نے ان علوم کو اوج ثریا تک پہونچانے میں  کوئی کسر نہ چھوڑی؛لیکن افسوس عرب تاریخ دانوں  نے ہندوستانی صاحب تصانیف علماوفضلا اوریہاں  کی نابغۂ روزگار شخصیتوں  کو یکسر فراموش کردیا۔چنانچہ ابن حجر نے ’’الدرر الکامنۃ‘‘ میں  ،سخاوی نے ’’الضوء الامع‘‘ میں  ، شوکانی نے’’البدر الطالع‘‘ میں ، حضرمی نے ’’النور السافر‘‘ میں ، محبی نے’’خلاصۃ الأثر‘‘میں ، مرادی نے ’’سلک الدرر‘‘ میں ، اتنے کثیر علما نے اپنی ان تصانیف میں  چند ہی ہندوستانی فضلا کا ذکر کیا ہے جن میں  سے اکثر ہندوستان سے ہجرت کرکے عرب ملکوں  میں  آباد ہوگئے تھے،علامہ سخاوی اپنے اس دعوی’’انہ ذکر کل من یستحق التعریف مصریا کان أو شامیاً، حجازیا أو یمنیاً، رومیا أو ہندیا، مشرقیا أو مغربیا‘‘ کے باوجود صرف ۳۸؍ہندوستانی فضلا کا ذکر کرسکے، جب کہ ان سے اکثر عرب ملکوں  میں  آباد ہو گئے تھے اور جن کا ہندوستان سے صرف نسلی تعلق تھا۔ عرب تذکرہ نگاروں  کا ہندوستانی علما سے عدم اعتنا کی سب سے اہم وجہ ان کے تذکروں  کا عربی زبان میں  نہ ہونا تھی(۱۰)۔  جس کی شروعات آزاد بلگرامی نے ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ جیسی عظیم الشان کتاب لکھ کر کی ،نیزاس کا تکملہ سید عبد الحی حسنی نے ’’نزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر‘‘   جیسی عظیم انسائیکلوپیڈیا لکھا۔

            دوسری فصل میں  جن صاحب تصانیف علما کا ذکر آیا ہے ان کی فہرست ’’محمد سعیدالطریحی‘‘ کے تحقیق کردہ نسخہ (۲۰۱۵ م میں  عراق اور بیروت سے شائع) کے مطابق درج ذیل ہے۔

            (۱) ابو حفص ربیع بن صبیح السعدی البصری (ص:۷۳)، (۲) مسعود بن سعد بن سلمان اللاہوری(ص: ۷۳)،(۳) الحسن الصغانی اللاہوری (ص: ۷۵)،(۴) شمس الدین یحی الاودی (ص: ۷۶)،(۵)حمید الدین الدہلوی (ص:۷۶)، (۶) قاضی عبد المقتدر بن قاضی رکن الدین الدہلوی (ص: ۷۷)،(۷) معین الدین العمرانی الدہلوی (ص:۸۶)، (۸) احمد التانیسری (ص:۸۷)، (۹) قاضی شہاب الدین بن شمس الدین بن عمر الدولۃ آبادی (ص:۸۹)، (۱۰) الشیخ علی بن الشیخ المہائمی (ص:۹۰)،(۱۱) الشیخ سعد الدین الخیرآبادی (ص:۹۳)، (۱۲) عبد اللہ بن الہداد العثمانی (ص: ۹۴)، (۱۳) مولانا الہداد الجون پوری (ص: ۹۵)، (۱۴) الشیخ علی المتقی (ص: ۹۵)، (۱۵) الشیخ محمد طاہر الفتنی (ص: ۹۷)، (۱۶) الشیخ وجیہ الدین العلوی الغجراتی (ص: ۱۰۱)، (۱۶) الشیخ ابو الفیض المتخلص بفیضی الاکبر آبادی (۱۷) السید صبغۃ اللہ البروحی (ص: ۱۰۴)، (۱۸) سید صبغۃ الدین سیدروح اللہ الحسنی(ص:۱۰۵)،(۱۹) الشیخ احمد بن الشیخ عبد الاحد الفاروقی السرہندی (ص:۱۰۶)، (۲۰)ملا عصمۃ اللہ السہارنفوری (ص: ۱۱۵)، (۲۱) مولانا الشیخ عبد الحق الدہلوی (ص:۱۱۵)، (۲۲) الشیخ نور الحق بن الشیخ عبد الحق الدہلوی (ص:۱۱۷)،(۲۳) الملا محمود الفاروقی الجونفوری (ص: ۱۱۷)، (۲۴) الملا عبد الحکیم السیالکوتی (ص: ۱۳۲)، (۲۵)الشیخ عبد الرشید الجونفوری (ص: ۱۳۳)، (۲۶) میر محمد زائد بن قاضی محمد اسلم الہروی الکابلی (ص: ۱۳۴)، (۲۷) ملا قطب الدین شہید السہالوی (ص: ۱۴۶)، (۲۸)مولوی قطب الدین شمس آبادی (ص: ۱۴۷)، (۲۹) قاضی محب اللہ البہاری (ص:۱۴۸)، (۳۰) حافظ امان اللہ بن نور اللہ بن حسین بنارسی (ص: ۱۴۹)،(۳۱) شیخ غلام نقشبند بن شیخ عطاء اللہ الکھنوی (ص:۱۵۰)، (۳۲) شیخ احمد المعروف بملا جیون امیٹھوی (ص: ۱۵۱)، (۳۳) شیخ عبد الجلیل بن سید احمد الحسینی الواسطی بلگرامی (ص:۱۵۲)، (۳۴) سید علی سید احمد شیرازی (ص: ۱۶۰)، (۳۵) سید محمد بن سید عبد الجلیل بلگرامی (ص:۱۶۴)، (۳۶)سید سعد اللہ السلونی (ص: ۱۶۷) (۳۷)سید طفیل محمد بن سید شکر اللہ الاترولوی (ص:۱۶۸)، (۳۸)شیخ نور الدین بن شیخ محمد صالح احمد آبادی (ص:۱۷۵)،(۳۹) ملا نظام الدین بن قطب الدین شہید سہالوی (۱۷۶)،(۴۰) شیخ محمد حیات سندھی (ص: ۱۷۷)، (۴۱) شیخ عبد اللہ بن سالم بصری مکی (ص: ۱۸۰)، (۴۲)محمد یوسف بن محمد اشرف بلگرامی (ص:۱۸۴)، (۴۳) مولانا قمرالدین اورنگ آبادی (ص:۱۸۷)،(۴۴) میر نور الہدی بن سید قمر الدین (ص: ۲۰۱)، (۴۵) غلام علی بن سید نوح الواسطی بلگرامی (ص:۲۰۷)۔

            فصل ثالث: محاسن کلام سے متعلق ہے اور اس میں  ان صنایع بدایع کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں  ہندوستانیوں  یا خود مؤلف نے اختراع یا استخراج کیا ہے اس فصل میں  ۵؍مقالے ہیں  جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

المقالۃ الأولی:                    فی المحسنات التی نقلتہا عن الہندیۃ الی العربیۃ

المقالۃ الثانیۃ:                    فی المحسنات استخرجہا المؤلف

المقالۃ الثالثۃ:                    فی نوع من مستخرجات الأمیر خسرو الدہلوي

المقالۃ الرابعۃ:                   فی النوعین المختصین بالعرب

المقالۃ الخامسۃ:                   فی القصیدۃ البدیعیۃ

فصل رابع:                       عشاق اور معشوقات کے بیان میں  ہے۔

            علامہ شبلی نعمانی آزاد کی تصنیفات کا تذکرہ کرنے کے بعد بر سبیل تبصرہ لکھتے ہیں  :

            ’’تصنیفات مذکورہ میں  سے ’’سبحۃ المرجان‘‘ او ر’’مآثر الکرام‘‘ تذکرہ علما کی حیثیت سے قابل لحاظ ہیں  اگرچہ حالات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے ہیں  ،لیکن جو لکھا ہے مستند لکھا ہے قدما کے حالات میں  اختصار کے لیے تو عذر موجود تھا کہ ماخذوں  کا پتہ نہیں ؛ لیکن اپنے زمانے کے علما کے حالات میں  بھی نہایت اختصار برتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کو تاہ قلمی ان کا خاصہ ہے(۱۱)۔

            (۲)       ’’شمامۃ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ یہ آزاد کا ایک مستقل رسالہ ہے جس میں  حدیث وتفسیر کی ان تمام روایات کو جمع کردیا گیا ہے جو ہندوستان کے فضائل کے تعلق سے ہیں ۔آزاد سے پہلے کسی نے بھی کتب حدیث وتفسیر میں  منقول ہندوستان کے فضائل کی روایات کو جمع کرنے پر کوئی توجہ نہیں  دی تھی۔انھوں  نے سیکڑوں  کتابوں  میں  بکھری ہوئی ان تمام روایتوں  کو جمع کردیا جو کہ آزاد کا عظیم کارنامہ ہے، بعد میں  اس رسالے کو ’’سبحۃ المرجان‘‘ میں  شامل کردیا گیا اس رسالہ پر مزید تبصرہ کے لیے ’’سبحۃ المرجان‘‘ لکھا گیا ۔تبصرہ ملاحظہ ہو۔

            (۳)      ’’السبعۃ السیارۃ‘‘ یہ آزاد کے سات دواوین کا مجموعہ ہے ۔شاعری آزاد کا خاص مشغلہ تھا، جس کا مظہر ان کے یہ دواوین ہیں  جن میں  شاعری کی اکثر صنفوں  میں  کہے گئے اشعار جمع کردیے گئے ہیں  جس کی تعداد ہزاروں  ہے۔ ان دواوین کو دیکھ کر آزاد کا یہ دعوی صحیح لگتا ہے کہ کسی بھی غیر عربی ہندوستانی نے اتنی کثرت سے عربی اشعار نہیں  کہے ہیں ، ’’السبعۃ السیارہ‘‘ کے علاوہ آزاد کے دیگر دیوان بھی ہیں  جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

            ۱-         ’’الدیوان الثامن‘‘ اس دیوان کا قلمی نسخہ مدینہ یونیورسٹی او رعلی گڑھ یونیورسٹی کی آزاد لائبریری میں  موجود ہے۔

            ۲-        ’’الدیوان التاسع‘‘ یہ دیوان ’’تحفۃ الثقلین‘‘ کے نام سے مطبع نور الانوار ،آرہ، بہار سے ۱۸۷۷ ء میں  شائع ہواتھا، اس دیوان کا قلمی نسخہ بھی آزاد لائبریری علی گڑھ میں  موجود ہے۔

            ۳-        ’’الدیوان العاشر‘‘ اس دیوان کا ایک نسخہ ذخیرئہ سبحان اللہ علی گڑھ میں  موجود ہے۔دوسرا نسخہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں  ہے جس میں  تینوں  دیوان ایک ساتھ ہیں ۔

            ان دواوین کے دیگر نسخے ہندوستان او ربیرون ہندوستان کی مشہور لائبریریوں  میں  پائے جاتے ہیں ۔

            ۴-        ’’ضوء الدراري فی شرح صحیح البخاري‘‘ یہ بخاری شریف کی کتاب الزکاۃ تک کی شرح ہے ، اصلا ًیہ شرح علامہ قسطلانی کی شرح بخاری کی تلخیص ہے، آزاد کا کوئی مستقل کام نہیں ، انھوں  نے یہ شرح اپنے حرمین شریفین کے قیام کے دوران تصنیف کی تھی۔

            صاحب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ لکھتے ہیں :

            ’’شرح ممزوج بالمتن ملخص من القسطلاني، صنفہ بالحرمین الشریفین‘‘(۱۲)

            اس کتاب کا واحد قلمی نسخہ ندوۃ العلماء کی لائبریری میں  ہے۔

            ۵-        ’’شفاء العلیل فی الإصلاحات علی أبیات أبی الطیب المتنبي‘‘اس کتاب میں  آزاد بلگرامی نے عربی کے مشہور شاعر متنبی کی غلطیوں  کا تعاقب کیا ہے۔ اور اس کی اصلاح بھی فرمائی ہے یہ اپنی نوعیت کا انوکھا رسالہ ہے جو کہ آزاد کی وسیع اور ناقدانہ نظر کا غماز ہے لیکن متنبی کی فروگذاشتوں  کو منظر عام پر لانے والے آزاد پہلے شخص نہیں  ہیں ؛بلکہ متقدمین میں  ’’ثعالبی‘‘ (متوفی:۴۲۹ھ) جیسے امام اللغۃ نے نہایت تفصیل کے ساتھ متنبی کے عیوب ومحاسن کو اپنی کتاب ’’یتیمۃ الدہر فی محاسن أہل العصر‘‘ میں  بیان کیا ہے۔ متنبی کے حوالے سے انھوں نے اس کتاب میں  ہر رطب ویابس کو جمع کردیا ہے۔ لکھتے ہیں :

            ’’أنا مورد فی ہذا الکتاب ذکر محاسنہ ومقابحہ،ما یرتضی وما یستہجن من مذاہبہ فی الشعر وطرائقہ، وتفصیل الکلام في نقد شعرہ، والتنبہ علی عیونہ وعیوبہ، والإشارۃ إلی غررہ وعررہ، وترتیب المختار من قلائدہ بدائعہ، بعد الأخذ بطرف من طرق أخبارہ ومتصرفات أحوالہ، وما نکثر فوائدہ وتحلو ثمرتہ‘‘(۱۳)۔

            متنبی کی عربی شاعری کے حوالے سے شاید کسی نے اتنی تفصیل کے ساتھ اس کے محاسن ومقابح کو ذکر کیا ہوگا۔

            حسن زیات متنبی کی شاعری کے عیوب کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

            ’’بیت المتنبی یضیق أحیاناً بمعناہ، فیعز  فہمہ وتبعد غایتہ منہ، فیطیش سہمہ وقد بلغ  من  إہمالہ اللفظ أن وقع بعض المساوی، کاستکراہ اللفظ، وتعقید المعنی، واستعمال الغریب، وقبح الطالع، ومخالفۃ القیاس، وکثرۃ التفاوت فی شعرہ، والخروج فی البالغۃ الی الإحالۃ‘‘(۱۴)۔

            کہ کبھی کبھی متنبی کی شاعری میں  معنی اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ اس کا سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے، اور الفاظ سے بے توجہی کی بنا پر عبارت میں  خلل پیدا ہو جاتا ہے، جیسے نامانوس الفاظ، معنوی پیچیدگی، غریب او رقلیل الاستعمال الفاظ کا استعمال ،بے وزن مطالع، قیاس کی مخالفت، شعر میں  تفاوت، اور مبالغہ میں  حد سے زیادہ تجاوز کرکے محال تک پہونچادیا جاتا ہے۔

            اس میں  شک نہیں  کہ متنبی ایک معنی آفریں  شاعر ہے، جس نے عربی شاعری کو قدیم شعرا کی بندشوں  اور تقلیدی ذہنیت کی غلامی سے آزاد ی دلائی اور عربی شاعری میں  رومانی طرز انشا کی بنیاد ڈالی، مگر کثرت سے کہے گئے اشعار نئی روش کی اختراع نے کچھ خامیاں  بھی پیدا کیں  جس کی گرفت اہل لغت نے کی۔

            ۶-        مظہر البرکات: مثنوی مولانا رومؒ کے طرز پر کہے گئے عربی اشعار کا مجموعہ ہے جس میں  تقریباً ۳۷۰۰؍ اشعار ہیں  ،آزاد نے دعوی کیا ہے کہ اس سے پہلے کسی نے بحر خفیف میں  مزدوجہ نہیں  کیا ہے۔ اس مثنوی میں  اخلاقی اور فلسفی افکار کو مثنوی معنوی کی طرح حکایتی نیز تمثیلی اسلوب میں  پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔نواب صدیق حسن خان نے مظہر البرکات کو ’’آزاد ‘‘ کا گراں  قدر کارنامہ شمار کیا ہے۔ مظہر البرکات کے اشعار میں  بھی غرابت ،ہندوستانی افکار واسلوب کی ترجمانی جیسے عیوب نے ’’آزاد‘‘ کا پیچھا نہیں  چھوڑا، بسا اوقات اشعار اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں  کہ قاری مراد تک پہنچنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔

            ’’ثم إن معظم ہذہ الحکایات لا تتضح معانیہا وأہدافہا،فکثیرا ما تنتہی الحکایۃ یبقی القاری فی حیرۃ من أمرہ فی استخراج مغزاہا‘‘(۱۵)۔

            عربی اشعار وقصائد میں  آزاد کا طرز نگارش قاری کے ذہن کو فہم مراد میں  بڑی رکاوٹ کا سبب ہے،اگر ہم اس اسلوب کوجو کہ ان کے چہرۂ کمال کا داغ شمار کیا گیا ہے یہ مانتے ہوئے تسلیم کرلیں  کہ آپ عجمی ہیں ، اور عربی اشعار کی حلاوت غیر عربی شعراء کے کلام میں  فطری طور پر پیدا نہیں  ہو سکتی ہے؛ مگر ان عیوب سے ’’آزاد‘‘ کے فارسی اشعار بھی مبرا نہیں  ہیں ۔

            شبلی کہتے ہیں : ’’فارسی کی بھی یہی حالت ہے، سیکڑوں  ہزاروں  اشعار ہیں  ، ایک شعر بھی ایسا نہیں  نکلتا جو اہل زبان کا کلام سمجھا جائے‘‘۔

            ہندوستانی شعراء کے فارسی اشعار کے بارے میں  ’’والہ داغستانی‘‘ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ:

            ’’اس نے جابجا تصریح کی ہے کہ ہندوستانی شعراء جس زبان میں  شعر کہتے ہیں  خدا جانے کس ملک کی زبان ہے‘‘(۱۶)۔

            ۷-        ’’تسلیۃ الفؤاد فی قصائد آزاد‘‘ یہ آزاد کے چند قصائد کا مجموعہ ہے ،ڈاکٹر زبیر احمد کی تحقیق کے مطابق اس کا مخطوطہ کتب خانہ عارف حکمت مدینہ منورہ میں  موجود ہے۔

            ۸-        ’’مرآۃ الجمال‘‘ ۱۰۵؍ اشعار پر مشتمل عربی نظم ہے جس میں معشوقہ کے سراپا کو بیان کیا گیا ہے، اور ہر عضو کی صفت میں  دو شعر کہے گئے ہیں ۔

            نمونۂ  کلام ملاحظہ ہو:

            معشوقہ کی آنکھ کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

طرفا الحبیبۃ ما کران تعارضا

وتغافلا عن رؤیۃ الجیران

أو نرجسان علی غصین واحد

وہما بماء مسکر نضران

منھ کا وصف بیان کرتے ہیں :

وفم الحبیبۃ حقۃ محمرۃ

فیہا لآلی الماء والتبیان

یاقوتۃ مثقوبۃ لکنہا

بالثقب خالیۃ عن النقصان

            ’’مثنوی سر اپائے معشوق‘‘ کے نام سے آزاد کا ایک دوسرا قصیدہ بزبان فارسی بھی ہے جس میں  معشوقہ کے سراپا کو نہایت عمدگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس مثنوی میں  آزاد نے اپنی شاعرانہ قادرالکلامی کا بھر پور مظاہرہ بھی کیا ہے۔۱۲۱۵؍ اشعار پر مشتمل یہ مثنوی بھی شائع نہیں  ہوئی ہے اس کے قلمی نسخے مختلف لائبریری میں  موجود ہیں ۔

            ۹-    ’’  أرج الصبا فی مدح المصطفی‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں  کہا گیا ایک قصیدہ ہے اس قصیدے کا قلمی نسخہ ندوۃ العلماء لکھنو کے کتب خانہ میں  موجود ہے۔آزاد نے اپنے قصیدوں  میں  اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ سب کی ابتدا نعتیہ اشعار سے کی ہے۔

            خو د فرماتے ہیں :

            ’’ثم إنی حملت رأیۃ الدرایۃ فی المیادین ورتبت من أشعار سبعۃ دواوین و أودعتہا دولۃ الإنارۃ، وسمیتہا بالسبعۃ السیارۃ، وصدرت کل واحد منہا بمدح النبی الکریم، وجعلتہ أقوی الوسائل إلی الفوز العظیم ، ثم أردت أن أخرج منہا القصائد النبویات، وأصنع قلادۃ علی حدۃ من الکواکب الدریات فقدمت بہذہ النسخۃ الفائتۃ، وآثرت بہذہ الجملۃ الرائقۃ سنۃ سبع وسبعین ومأۃ وألف، وسمیتہا ’’أرج الصبا فی مدح المصطفی‘‘ وأہدیتہا إلی الجناب الأعظم والفضاء الأکرمﷺ(۱۷)۔

            اس کے علاوہ آزاد بلگرامی کی اور بھی نہایت گراں  قدر خدمات بزبان عربی وفارسی موجود ہیں ، جن میں  سے اکثر زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں ۔ جن کے قلمی نسخے ملک اور بیرون ملک کے کتب خانوں  میں  دستیاب ہیں ۔ فارسی زبان میں  (۱) مآثر الکرام،(۲)سرور آزاد،(۳)ید بیضا،(۴) خزانۂ عامرہ ہیں ، ان میں  بھی مآثر الکرام کی اہمیت وافادیت سے اہل علم خوب واقف ہیں ۔

٭        ٭        ٭

حواشی:

(۱)            http://midaulhind.blogspat.in/20161051blog-post.html

(۲)          الحسنی، عبد الحئی. نزہۃ الخواطر (الإعلام) ج۶؍ص:۷۷۱، بیروت: دار ابن حزم۔مطبوعہ ۱۹۹۹ء۔

(۳)          عباس، پروفیسر سید حسن. مقالات عباس .ص:۴۷۔

(۴)           حسین، محمد محامد. حسان الہند  …مجلۃ الداعی ،عدد ۴؍مارس ۲۰۱۲ء نقلا عن الحدائق الحنفیہ ص:۴۵۶۔

(۵)          الحسنی، عبد الحئی . نزہۃ الخواطر (الإعلام) ج:۶؍ص:۷۷۳-۷۷۲، بیروت :دار ابن حزم، ۱۹۹۹ء مطبوعہ۔

(۶)          حسین، محمد محامد. حسان الہندمجلۃ الداعی ،العدد ۴؍مارس ۲۰۱۲ء۔

(۷)          ایضاً۔

(۸)          جہلی، فقیر محمد. حدائق حنفیہ (اردو) .ص:۴۷۲، کراچی :مکتبہ ربیعہ PDF۔

(۹)           ادروی، اسیر. افکار عالم.ج:۲؍ص:۲۶۱، دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی، ۲۰۰۸ء، مطبوع۔

(۱۰)         القاسمی، عبید الرحمن. السید عبد الحئی الحسنی مجلۃ عرفان، عدد:۴؍، ۲۰۱۵ء، چھپرہ: عرفان ایجو کیشنل سوسائٹی، پرنٹ۔

                                                www.obaidqasmi.blogsdot.com

(۱۱)          نعمانی، شبلی. مقالات شبلی. ج:۵؍ص:۱۲۸، اعظم گڑھ: دار المصنّفین، ۲۰۱۲ء، مطبوع۔

(۱۲)         الحسنی، عبد الحئی . نزہۃ الخواطر (الإعلام) ج:۶؍ص:۷۷۱، بیروت :دار ابن حزم، ۱۹۹۹ء مطبوع۔

(۱۳)         نیسا پوری، ثعالبی. یتیمۃ الدہر.ج:۱؍ص:۱۲۰، بیروت: دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۸۳ء،PDF۔

(۱۴)         زیات، حسن. تاریخ الادب العربی.ص:۲۱۹،بیروت: دار المعرفہ،۱۹۹۷ء، مطبوع۔

(۱۵)         القاضی، عبد الماجد. دراسۃ نقدیۃ لشعر غلام  مجلہ ثقا فۃالھند،جلد ۶۷،عدد ۳،۲۰۱۶ء

(۱۶)     نعمانی، شبلی. مقالات شبلی. ج:۵؍ص:۱۳۱۔۱۳۰، اعظم گڑھ: دار المصنّفین، ۲۰۱۲ء، مطبوع۔

(۱۷)         القاسمی، عبید الرحمن. مجلۃ عرفان ،جلد :۲؍شمارہ:۲،ص:۱۶۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

*             *             *

Related Posts