ایک عظیم شخصیت خطیب الاسلام حضرت مولانا محمدسالم قاسمیؒ

از:مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی                                        

صدرمفتی دارالعلوم (وقف) دیوبند، دارالسلام اسلامی مرکز، مالیرکوٹلہ

             میری نانی مرحومہ (زینب معصوم) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں  فرمایا کرتی تھیں  کہ۔۔۔۔

            ’’یہ بھائی طیب صاحب جو اب بڑے سے نظرآتے ہیں  چھوٹے سے بھی ایسے ہی تھے،ماموں  حبیب کی انگلی پکڑے ہوئے آیا کرتے تھے۔‘‘

            یعنی وضع قطع،چال ڈھال، بات چیت میں  بچپن ہی سے یہی انداز تھے۔۔۔۔بس اب چھوٹے سے بڑے ہوگئے ہیں ۔

            اصل میں  میرے دادا کے حقیقی بھائی حضرت مولانا حبیب الرحمن ؒنے جو کہ میری نانی کے حقیقی ماموں تھے، حضرت حکیم الاسلام کی تعلیم و تربیت بڑے خاص انداز میں  کی تھی۔ان میں  شروع سے شائستگی اور سلیقہ مندی تھی۔ خود حضرت حکیم الاسلام بتایا کرتے تھے کہ تایا جی یعنی مولانا حبیب الرحمن مجھے ایک ایک بات علم،تجربے اور انتظام کے متعلق وقتا فوقتا اس طرح بتایا کرتے تھے جیسے بچوں  کو سبق پڑھاتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف بزرگان دین کی خصوصی توجہات سے حضرت حکیم الاسلام کی شخصیت نکھرتی چلی گئی اور انھوں  نے نہ صرف ہندوپاک میں  بلکہ عالم اسلام میں  دارالعلوم دیوبند کا نام روشن کردیا۔۔۔ وہ اکابردیوبند کے حقیقی ترجمان اور ان کے  فکر وعمل کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔

            حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے بڑے صاحب زادے خطیب الاسلام حضرت مولانا محمدسالم قاسمی نوراللہ مرقدہ کی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی اور ان کو اپنی جانشینی کے لئے ہرطرح سے تیارکردیا۔۔۔۔ خطیب الاسلامؒ میں  اپنے والد کی جھلک صاف نظرآتی تھی۔وہ زندگی بھردین کی خدمت میں  لگے رہے۔دارالعلوم دیوبند میں  مدرس رہے اورہرکتاب کو بڑی محنت سے پڑھایا۔وقت کے بڑے پابندتھے۔کچھ اخلاقی اوصاف ان میں ایسے تھے جوکم ہی لوگوں  میں پائے جاتے ہیں ۔میں  نے کبھی ان کی زبان سے کوئی جھوٹ بات نہیں  سنی،کبھی کسی کی غیبت نہیں  کرتے تھے۔وعدے کے بڑے پابند تھے۔اپنے والد کی طرح تقریروتحریر میں  مہارت حاصل کی اور بجا طور پر خطیب الاسلام کا لقب پایا۔

            میرا ان سے تعلق کئی طرح سے رہا۔ چھوٹی عمرسے میں ان کے گھرجایا کرتا تھا کیوں کہ ان کے چھوٹے بھائی مولانامحمداسلم قاسمیؒ تقریبامیرے ہم عمر تھے۔ کم عمری سے حضرت حکیم الاسلام سے عقیدت مندانہ تعلق رہا اورمیں  ان کی مجلسوں  میں  شریک ہوتا تھا۔ حضرت حکیم الاسلام کا معمول تھا کہ وہ اکثر وبیشتر میری نانی مرحومہ سے ملنے کے لئے ہمارے گھرتشریف لایاکرتے تھے۔نانی ان سے بڑی تھیں ، ان کو آپا کہا کرتے تھے اور نانی کے ساتھ کافی دیرتک پرانی یادیں  تازہ کرتے تھے۔

            خطیب الاسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمیؒ سے میرا دوسرا تعلق استاذ اور شاگردی کا رہا۔میں  نے ان سے دارالعلوم دیوبند میں  شرح وقایہ پڑھی تھی جس کا ذکر میں  نے اپنی کتاب’’میرے قابل احترام اساتذۂ کرام‘‘ میں  کیا ہے۔

            دوسرا تعلق مولانا سے رشتے داری کا قائم ہوگیاکہ ان کے بیٹے محمدعدنان قاسمی سے میری بیٹی کی شادی ہوگئی۔دونوں  ماشاء اللہ خوش و خرم آباد ہیں ۔رشتے داری کی وجہ سے بے تکلف گھرآناجانا ہوگیا اور یہ بات سامنے آئی کہ مولانا ہر موقعے پررشتے داری اور تعلق کی پاسداری کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہیں ۔ موقع خوشی کا ہو یا غم کاکبھی ایسا نہیں  ہوا کہ وہ تشریف نہ لائے ہوں ۔مجھے ان کے ساتھ ایک مہینہ حج کے لئے ایک ساتھ ایک کمرے میں  رہنے کا اتفاق ہوا اورمیں  نے یہ بات محسوس کی کہ وہ بہت اچھے ساتھی ہیں ۔ہنسنا بولنا اور اس بات کا خیال رکھنا کہ میرے رفیق کو میری وجہ سے  تکلیف نہ ہو۔یہ سب باتیں  کھل کرسامنے آئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی محبت سے بڑا فائدہ ہوتا تھا اور آخر یہ بھی ہوا کہ انہوں  نے ازراہ عنایت مجھے تحریری طور پر ’’خلافت ِ بیعت‘‘ عطا فرمائی۔ میری خواہش تھی کہ دارالعلوم دیوبند سے میری کوئی نسبت قائم رہے،انہوں  نے صدرمہتمم کے طورپریہ حکم جاری کیا کہ مجھے مجلس مشاورت دارالعلوم (وقف) کا ممبربنایا اور صدر مفتی دارالافتاء مقرر کیا۔ میرے ساتھ ہمیشہ ان کی عنایتیں  بے پناہ رہیں ۔ وہ ہندوستان کے سرکردہ علماء میں  سے تھے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر تھے۔علم و فضل اوربصیرت کے اعتبار سے ان جیسے لوگ بہت کم ملیں  گے۔ان کے جانے سے عالم اسلام ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔یہ خلا جو ان کے جانے سے پیدا ہوا ہے آسانی سے پرنہ ہوسکے گا۔

            اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں  نازل فرمائے ،ان کے درجات بلند ہوں  اور ہمیں  اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

*             *             *

Related Posts