ناقابل فراموش چہرہ شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نور اللہ مرقدہ ہمارے ’’پھول ابا‘‘ (۱۸۹۸-۱۹۴۹ء)

از:مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

دارالسلام اسلامک سینٹر،مالیرکوٹلہ،پنجاب

            دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم دینی درس گاہ کے قیام میں جو لوگ پیش پیش رہے ان میں  ایک نمایاں  نام مولانافضل الرحمن عثمانی دیوبندی کا بھی ہے۔ ۱۲۴۷ھ ان کا سالِ پیدائش ہے۔ دارالعلوم کے قیام کے وقت ان کی عمر۳۵ سال تھی۔ دارالعلوم دیوبند ۱۵؍محرم ۱۲۸۳ھ (۳۰؍جنوری ۱۸۶۶ء) یوم پنجشنبہ قائم ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے تعلیم کی ابتدائی منزلیں  اپنے وطن دیوبند میں  طے کرنے کے بعد دہلی کالج میں  مولانا مملوک العلی کی شاگردی کا فخر حاصل کیا۔ فارسی ادب میں  خصوصی مہارت رکھتے تھے۔خودبھی ادیب وشاعر تھے۔ مولانا اصغر حسین محدث دارالعلوم دیوبندنے ان کا ذکر ’’خاقانیِ ہند ‘‘ سے کیا ہے(حیات شیخ الہنداز مولانامیاں اصغر حسین صفحہ ۱۷)۔ مادۂ تاریخ نکالنے میں بڑے ماہر تھے۔

            حکومت ہند کے ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر فائز ہوکر مختلف ضلعوں  میں  تعینات رہے۔ اسی سلسلے میں  آپ کا قیام بجنور میں  تھا کہ ۱۰؍محرم ۱۳۰۵ھ (۱۸۷۹ء) کو ان کی تیسری اہلیہ صدیقہ خاتون کے بطن سے مولانا شبیر احمد عثمانی تولد ہوئے۔ مولانا شبیر احمد کا نام ان کے والد نے فضل اللہ رکھا تھا۔

            مولانا فضل الرحمن نے ۱۲۸۳ھ سے ۱۳۲۵ھ تک بیالیس سال دارالعلوم کی بے لوث خدمت انجام دی اور اس درس گاہ کوپروان چڑھایا۔ عمر کے آخری لمحے تک مدرسے کے رکن رکین رہے۔ ۳؍جمادی الاول ۱۳۲۵ھ (۱۵؍جون ۱۹۰۷ء)بروز ہفتہ بوقت ظہر خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کا مزار دیوبند کے قبرستانِ قاسمی میں  شیخ الہند مولانا محمودالحسن اور شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمد مدنی کے مزار کے برابر میں  ہے۔آپ کے مزارپرکوئی کتبہ نہیں  ہے۔

٭      مولانافضل الرحمن کی اولاد میں تین نمایاں نام

            مولانافضل الرحمن کے اولاد میں تین نام ایسے ہیں  جن کو ہندوستان کی دینی اور علمی تاریخ کبھی فراموش نہیں  کرسکے گی۔ ایک میرے حقیقی دادا حضرت مولانامفتی عزیزالرحمن عثمانی جوکہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول ہوئے او ران کے ہزاروں فتاویٰ کے مطبوعہ مجموعے آج بھی ان کی فقہی بصیرت کے جیتے جاگتے نمونے کی شکل میں  موجودہیں ۔۱۷؍جمادی الآخر ۱۳۴۷ھ کو رحلت فرمائی۔

            دوسرے مولانا حبیب الرحمن عثمانی جو کہ دارالعلوم کے پانچویں  مہتمم ہوئے۔فہم وفراست، علم و فضیلت میں  نہایت ممتاز تھے۔۴؍رجب ۱۳۴۸ھ (دسمبر ۱۹۴۷ء) کوجہان فانی سے رخصت ہوئے۔

            تیسرے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی۔حضرت علامہ نے ۱۳۱۱ھ میں  حافظ محمد عظیم دیوبندی سے تعلیم کا آغازکیا۔۱۳۱۲ھ میں  دارالعلوم میں  داخل ہوئے اورحافظ نامدار خاں  سے قرآن کریم پڑھا۔۱۳۱۵ھ میں  دارالعلوم میں  فارسی کے استادمنشی منظوراحمدؒ سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۳۲۵ھ (۱۹۰۸ء) میں  دورۂ حدیث میں  درجہ فضیلت ۹۹فی صدنمبر حاصل کیے۔ دورۂ حدیث میں  بخاری اورترمذی حضرت شیخ الہند مولانامحمودالحسن سے پڑھی۔

٭        مولانا کی ذہانت اور علم کا حال یہ تھا کہ طالب علمی کے زمانے میں  ہی اپنے ہم سبقوں کو نیچے کے طلبا کو تعلیم دیتے تھے(دارالعلوم کی سالانہ رپورٹ ۱۳۳۳ھ میں  درج ہے):

            ’’مولوی صاحب موصوف مولاناشبیر احمدعثمانی اس زمانے میں  جیسا کے خود تحصیل علم میں  مصروف تھے۔طلبہ کو درس دینے میں  اپنا بہت سا وقت صرف کرتے تھے طلبا تمام علوم کی کتابیں  آپ سے بے تامل پڑھتے تھے۔ (صفحہ ۲۰)

٭        سلسلہ تعلیم کی تکمیل ۱۳۲۵ھ سے پہلے ۱۱؍ذیقعدہ ۱۳۲۳ھ (۱۹۰۵ء) میں  حضرت علامہ کی شادی موضع وچٹی کے سید خاندان میں  ام ہانی بنت بلند بخت سے ہوگئی۔ لوگ ان کو پھول اماں کہا کرتے تھے۔بڑی نیک دل اور خوش مزاج تھیں ۔ مولانا کے ان سے کوئی اولاد نہیں  ہوئی؛ا س لیے انھوں  نے اپنی بھتیجی بابو فضل حق صاحب کی صاحبزادی منیبہ خاتون عرف منی کو اپنی بیٹی بنالیا تھا۔ محترمہ پھول اماں  مارچ ۱۹۷۲ء کے پہلے ہفتے میں  بہ مرض فالج کراچی میں  انتقال فرماگئیں ۔پھول اماں  پان بہت کھایاکرتی تھیں ۔مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھرمیں  چوری ہوگئی تو چور صاحب نے ساری رات پھول اماں  کے سرہانے رکھے ہوئے پان کے بٹوے میں سے خوب پان کھائے۔صبح سامان کے ساتھ ان کے پان کا بٹوہ بھی صاف تھا۔یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھااور اسی روز سحری کے کھانے وغیرہ ہم لے کر گئے تھے۔بچپن کے کیا پرلطف ایام تھے۔آپا اماں  کے لڑکے یعیش ہمارے دوست تھے اور سارا وقت مولانا کے گھر کھیلتے کودتے گزرتا تھا۔ایک مرتبہ میں  مولانا کے زینے سے لڑھک گیااور پیشانی پردو سینگ نما ابھار کافی وقت تک رہے۔

٭      معاملات میں  تقویٰ

            دیوبند میں  مولانا نے ۱۳۴۷ھ میں  محلہ شاہ رمزالدین میں  میرے مکان کے برابر میں  اپنامکان بنوایا تھا اور اس وقت سستے زمانے میں  اس پر بیس ہزار روپے لاگت آئی تھی۔ یہ مکان انھوں نے اپنی بھتیجی آپا منی جن کو انھوں  نے اپنی بیٹی بنالیا تھا ان کے نام کردیا تھا اور خود آپا منی کو اپنی رہائش کے وجہ سے دس روپے ماہوار کرایہ دیتے تھے۔ یہ تھا وہ تقویٰ جو مولانا کی زندگی میں  رچ بس گیا تھا۔ معاملات میں  یہ احتیاط کم ہی ملتی ہے۔

٭      دارالعلوم میں  خدمت ِ تدریس

            فارغ ہوتے ہی ۱۳۲۶ھ (۱۹۰۹ء) میں  مولانا باقاعدہ دارالعلوم دیوبند میں  مدرس ہوگئے اور کیوں کہ طالب علمی کے زمانے میں  ہی آپ کے علم و فضل کے چرچے شروع ہوچکے تھے؛ اس لیے اعلیٰ کتابوں  کا درس ابتدا میں  ہی دینے لگے۔

٭      مدرسہ فتح پوری میں  صدرمدرسی

            ابھی دارالعلوم میں  درس دیتے ہوئے کچھ مہینے ہی ہوئے تھے کہ دہلی کے مدرسہ فتح پوری میں  صدرمدرس کی ضرورت ہوئی اور مولوی عبدالاحد مالک مطبع مجتبائی کی فرمائش پر مولاناحبیب الرحمن صاحب نے حضرت علامہ کو وہاں  بھیج دیا۔ شعبان ۱۳۲۷ھ (۱۹۱۱ء) تک آپ نے وہاں  دورۂ حدیث اور دوسرے اعلیٰ درجات کی کتابیں  پڑھائیں ۔

٭      دوبارہ دارالعلوم میں

            شوال ۱۳۲۸ھ میں  آپ کو دوبارہ دارالعلوم دیوبندمیں  بلالیا گیا۔ ۱۳۳۲ھ کی روئیداد دارالعلوم دیوبند میں  ہے کہ:’’۱۳۲۶ھ میں  آپ مدرسہ فتح پوری دہلی کے مدرس اول مقرر ہوکرگئے۔۱۳۲۸ھ تک وہاں  رہے۔ ممبران مدرسہ کو یہ پسند نہ تھا کہ ایسے لائق اور کارآمد شخص کو دارالعلوم سے جدا رکھا جائے؛ اس لیے شوال ۱۳۲۸ھ میں  دیوبند بلالیے گئے۔‘‘(صفحہ ۲۰)

٭      تدریس کے علاوہ دوسرے مشاغل

            ۱۳۴۹ھ تک حضرت علامہ دارالعلوم میں  درس و تدریس کے علاوہ مختلف مناظروں ،جلسوں  اوردارالعلوم کے لیے فراہمیِ سرمایہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔

٭      حج بیت اللہ کی سعادت

            شعبان ۱۳۴۷ھ (۱۹۱۸ء) میں  آپ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔اس کے لیے آپ نے اپنے حصے کی زمین اور مکان نوسوروپے میں  اپنے بڑے بھائی مولوی مطلوب الرحمن کو فروخت کردئے۔

٭      دارالعلوم کے صدرمہتمم اورسیاسی سرگرمیاں

            ۱۳۵۴ھ (۱۹۳۵ء) سے ۱۳۶۲ھ (۴۵-۱۹۴۴ء) تک صدرمہتمم رہے۔حضرت علامہ کی سیاسی سرگرمیاں  ۱۹۱۲ء/ ۱۳۳۰ھ سے ہی شروع ہوچکی تھیں ؛ جب کہ جنگ بلغام کا اعلان ہوا اور خلافت کی سرگرمیاں  شروع ہوئیں ۔جمعیۃ علماء ہند کے ہراجلاس میں  ،تحریک آزادی میں  مولانا پیش پیش تھے۔ اسلام کے دفاع اور مناظروں  میں  سرگرم تھے۔اکتوبر ۱۹۴۵ء میں  کلکتہ میں  جمعیۃ علماء اسلام کی بنیادپڑی اور ۷؍دسمبر۱۹۴۵ء کو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ودیگر حضرات وفد جمعیۃ علماء ہند سے گفتگو کے بعد حضرت علامہ نے جمعیۃ علماء اسلام کی صدارت قبول فرمائی۔

٭      حضرت علامہ کے علمی کارنامے

            شیخ الہند مولانا محمودحسن نے مالٹا کی قید کے زمانے میں  قرآن مجید کا اردو ترجمہ فرمایااور تفسیری نوٹ لکھے۔شیخ الہند مکمل ترجمے کے بعد سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کے فوائد تحریر کرپائے تھے کہ ان کا وصال ہوگیا۔ مذکورہ سورتوں  بقرہ و نساء کے علاوہ باقی پورے قرآن مجید کے تفسیری فوائد حضرت علامہ کے قلم سے ہیں  جو انھوں  نے ۹؍ذی الحجہ ۱۳۵۰ھ کو مکمل فرمائے۔ اہل علم جانتے ہیں  کہ قرآن مجید کے یہ مختصرتفسیری فوائد جامعیت کے اعتبار سے بڑی بڑی تفسیروں  پر بھاری ہیں ۔

            حدیث کی کتاب صحیح مسلم کی عربی شرح فتح الملہم دیکھیے۔ یہ کتاب ان کے علم کی وسعت فہم و بصیرت اور تعبیر کی ندرت کی گواہی دیتی نظر آئے گی۔ تنہا یہ کتاب ہی ا س کے لیے کافی ہے کہ ان کو بجا طورپر’’شیخ الاسلام‘‘ کہا جائے۔

            افسوس ہے کہ یہ کتاب ان کی حیات میں  مکمل نہ ہوسکی اور اب اس کو تکملہ فتح الملہم کے نام سے ہمارے دور کے قابل فخر عالم دین دارالعلوم کراچی کے نائب رئیس حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مکمل کیا ہے۔اللہ نے یہ سعادت ان کے حصے میں  لکھی تھی۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

٭      حضرت علامہ کی خطابت

            ایک طرف جہاں  وہ محدث اورمفسر تھے دوسری طرف بہترین متکلم،فلسفۂ اسلام کے ترجمان اور اعلیٰ درجے کے خطیب بھی تھے۔ میں  نے اپنے بچپن میں  ان کی دوایک تقریریں  سنی ہیں ۔ ابوالکلام آزاد جیسے خطیب سردھنتے تھے تو حضرت علامہ کی تقریروں  پر اور حیدرآباد کے نظام میرعثمان علی خان بے ساختہ ’’واہ مولانا‘‘ کہہ اٹھتے۔

            اللہ تعالیٰ نے ان کو تقریر کے علاوہ تحریر کی خوبیوں  سے بھی نوازا تھا۔ نازک سے نازک مضمون کو ان کا حکیمانہ قلم ا س طرح لکھتا چلا جاتا تھا کہ ایک ایک تہہ کھلنے کے بعد جب حقائق سامنے آتے توبے اختیار زبان ’’سبحان اللہ‘‘ پکار اٹھتی۔ ان کا حکیمانہ قلم حرکت کرتا تو علم و حکمت کے بیش بہا موتی نکل کر سامنے آتے۔

٭      چہرے سے صداقت اور منھ سے پھول جھڑتے تھے

            ’’خدا کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں  ہوسکتا‘‘مدینہ طیبہ کے قبیلہ بنوقینقاع کے یہودی عالم حضرت عبداللہ بن سلام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد بے اختیار پکار اٹھے تھے کہ خدا کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں  ہوسکتا۔تاریخ نے ان الفاظ کی امانت اپنے سینے میں محفوظ رکھی ہے۔

            رسول اللہ ؐ کے داماد ذو النورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ نسب کے اس فرد فضل اللہ المعروف بہ شبیر احمد عثمانی کے چہرے سے صداقت،علم اورتقویٰ اسی طرح برستے تھے کہ ان کو دیکھنے والا پہلی نظر میں  ہی کہہ اٹھتا تھا ’’یقینا یہ ایک عالم باعمل کا چہرہ ہے‘‘۔ بولتے تھے تو منھ سے جیسے پھول جھڑتے تھے؛ا س لیے ہم لوگ ہی نہیں ، دوسرے بہت سے بھی انھیں  ’’پھول ابا‘‘ کہتے تھے۔

            مجھے ناز ہے کہ میں  نے پھول ابا کے نورانی چہرے کی زیارت کی ہے اور ان کانوں نے پھول ابا کی شیریں  آواز سنی ہے۔پھول ابا جب باہر سے آتے تھے تو ہم سب بچے دوڑ کران کا استقبال کرتے تھے۔انھیں  بچوں سے بہت پیار تھا۔وہ ہم سب کو پیسے دیا کرتے تھے۔اس زمانے میں اکثر وہ مجھے آٹھ آنے دیتے تھے اور اس وقت اٹھنی کی بڑی اہمیت تھی۔ بچوں  کو پیار کرنے اور پیسے دینے کے بعد وہ رخصت ہوکرگھرمیں جایا کرتے تھے۔

            مجھے اس پر بھی ناز ہے کہ انھوں  نے ہی میرا نام رکھا۔میرے کانوں میں اذان دی اور میری تحنیک کی۔ میری نانی مرحومہ زینب معصومہ بتایا کرتی تھیں  کہ انھوں  نے پیار سے جب تمہاری ناک پرانگلی رکھی توتمہیں  چھینک آگئی تو فرمایا یہ بچہ بڑا حساس ہوگا اور ان کا کہنا صحیح ثابت ہوا۔ میری نانی مرحومہ کے وہ سگے ماموں  تھے۔اکثروہ ان کی باتیں  سنایا کرتی تھیں  اور وہ باتیں  میرے ذہن نشین ہوجایا کرتی تھیں ۔ایک مرتبہ نانی اماں  نے ایک انگریز کا قصہ سنایا۔قصہ یہ ہے کہ:

٭      نبی ؐ کے ارشاد مبارک کی حکمت

            ایک انگریز نے حدیث میں  پڑھا کہ حضرت محمدؐ نے ارشادفرمایا کہ جب تم صبح کو سوکراٹھو توکسی برتن میں  اس وقت تک ہاتھ نہ ڈالو جب تک دونوں  ہاتھ تین مرتبہ نہ دھولو۔ پتہ نہیں  رات کو تمہارے ہاتھ بدن کے کس کس حصے پر پڑے ہوں ۔

            انگریز نے یہ حدیث پڑھ کر اس بات کی تحقیق کرنے کے لیے کہ اس ارشاد میں  کیا حکمت ہے پانی لے کر اس کو ٹیسٹ کراکے ایک ٹب میں  رکھ لیا اور روزانہ صبح کو اٹھ کر ٹب کے اس پانی میں  ہاتھ ڈال دیتا تھا۔ سات دن کے بعد ا س پانی کو ٹیسٹ کرانے کے لیے لیبارٹری میں  بھیجا تو معلوم ہوا کہ پانی میں  زہریلے اثرات پیدا ہوگئے ہیں ۔

            اس نے سمجھا کہ رات کو جب آدمی سوتا ہے تو تمام جراثیم ان کے ناخنوں  میں آجاتے ہیں ۔ جب وہ ہاتھ دھولیتا ہے تو جراثیم صاف ہوجاتے ہیں  ورنہ وہ جراثیم اس چیز میں  منتقل ہوجاتے ہیں  جس میں  وہ ہاتھ ڈالتا ہے۔

            آپؐ کے اس ارشاد کی حکمت پروہ حیرا ن رہ گیا۔

٭      حضرت علامہ کی مؤتمرعالم اسلامی میں  شرکت

            پھول ابا حضرت علامہ شبیراحمدعثمانی نے ایک وفدکے ساتھ مئی ۱۹۲۶ء میں  مؤتمرعالم اسلامی کے اجلاس میں  شرکت کی۔اس وفد میں علامہ سید سلیمان ندوی،مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی، مولانا محمدعلی  تھے۔حضرت علامہ کی سوانح حیات پر جو کتابیں  لکھی گئی ہیں  جن میں  تجلیات عثمانی، انوار عثمانی اور حیات عثمانی شامل ہیں ۔ ان میں  اس کی پوری تفصیلات درج ہیں ۔ان میں  دیکھا جاسکتا ہے۔

٭      حضرت علامہ کا سیاسی مسلک

            حضرت علامہ کا سیاسی مسلک یہ تھا کہ مسلمان اپنی مذہبی اور دینی شناخت کے ساتھ ایک مستقل ملت ہیں ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں  کا ایک مستقل مرکز ہو جہاں وہ آزادی کے ساتھ تمام احکامات الٰہیہ کو نافذ کرسکیں ؛ا س لیے انھوں  نے جمعیۃ علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اسی چیز کو آگے بڑھایا۔

٭      وفات حسرت آیات

            ہردنیامیں  آنے والے کو ایک نہ ایک دن دنیا سے جانا ہے۔جامعہ عباسیہ بہاول پور کی تعمیرجدید کا سنگ بنیاد رکھنے اور نصاب وغیرہ کے سلسلے میں   مشورے کے لیے ۸؍دسمبر ۱۹۶۹ء کو بہاول پور روانہ ہوئے۔ تیرہ کی شب میں   بخار ہوا اور سینے میں   کچھ تکلیف رہی۔ صبح کی طبیعت ٹھیک ہوگئی تھی۔ ۹؍بجے پھر سینے میں   کچھ تکلیف ہوئی اور سانس میں   رکاوٹ اور گھٹن محسوس ہوئی۔ گیارہ بج کر چالیس منٹ پر اللہ کا بلاوا آگیا اور واصل بحق ہوگئے۔ اس وقت وہ وزیر تعلیم بھاول پور کی کوٹھی پر تھے۔مولانا بدرعالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنی (متوفی اکتوبر ۱۹۶۵ء بمقام مدینہ منورہ) جو اس وقت بھاول پور میں   مقیم تھے انھوں   نے مولانا عثمانی کو غسل دیا۔ پھرآپ کی میت کو لکڑی کے تابوت میں   بندکرکے کراچی لایاگیاجہاں  بے شمار مسلمانوں  نے نماز جنازہ پڑھی اور مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے نماز پڑھائی اور آپ کا جسد خاکی اسلامیہ کالج جمشیدروڈ کراچی میں  سپردخاک کردیا گیا۔اسلامیہ کالج توبعدمیں بنا جو دراصل اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی کے ماتحت کھولاگیا۔علامہ اس سوسائٹی کے صدر تھے۔ برابر میں  مولانا سیدسلیمان ندوی کا مزار ہے۔ اللہ ان سب پر اپنی رحمتیں  نازل فرمائے۔

٭        حضرت علامہ مرحوم کا علم وسیع اورعمیق تھا۔اجتماعی معاملات میں  فکری اعتدال تھا۔اللہ نے ان کو شگفتہ اوررواں  قلم دیا تھا۔دل نشین خطابت کا ملکہ تھا۔مزاج مدبرانہ تھا۔ ان کی یہ ساری صلاحتیں  دین کی خدمت اور امت مسلمہ کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال ہوتیں ۔وہ ان بزرگوں  میں  سے تھے جن کی نظیریں  ہر دور میں  گنی چنی ہی ہوا کرتی ہیں ۔ان کی علمی تحقیقات ہماری تاریخ کا گراں  بہا سرمایہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے توقع ہے کہ ان کی خدمات جلیلہ شرف قبولیت سے نوازی جائیں  گی اور اللہ تعالیٰ ان سے وہ معاملہ فرمائیں  گے جو اپنے محبوب بندوں  کے ساتھ فرماتے ہیں ۔دیوبند میں  میرا اور ان کا مکان ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے،اللہ میرے اوپربھی رحم وکرم فرمائے اور جنت میں  بھی اسی طرح ساتھ عطا فرمائے۔ آمین۔

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

*             *             *

Related Posts