سوال: کیا مسلمانوں کو ترکی پرندہ کا گوشت کھانا جائز ہے؟
ایک پرندہ ہوتا ہے جس کا نام ’’ترکی‘‘ (TURKEY) ہے، کیا اس پرندہ کا گوشت مسلمان کو کھانا جائز ہے؟ کسی نے بتایا کہ ترکی پرندہ کا کاروبار کرنا اور اس کا گوشت کھانا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کیا یہ صحیح ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: انگریزی میں جس پرندے کو ترکی (Turkey)کہتے ہیں ، یہ مرغ ہی کی ایک قسم ہے، اسے عربی میں دیک رومي یا دجاجۃ رومیۃ کہتے ہیں اور مرغ اور اس کی تمام اقسام شریعت میں حلال وجائز ہیں ؛ اس لیے ترکی پرندہ کا گوشت کھانا اور اس کا کاروبار کرنا جائز ہے اور جو لوگ ناجائز کہتے ہیں ، ان کی بات صحیح نہیں ۔
وما لا مخلب لہ من الطیر فالمستأنس منہ کالدجاج والبط، والمتوحش کالحمام والفاختۃ والعصافیر والقبج والغراب الذي یأکل الحب والزرع والعقعق ونحوھا حلال بالإجماع (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح، ۶: ۱۹۴، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)، ونقلہ عنہ فی الھندیۃ (کتاب الذبائح، الباب الثاني في بیان ما یؤکل من الحیوان وما لا یؤکل، ۵: ۲۸۹، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)، وانظر المورد، انکلیزي – عربي، ص ۹۹۸ أیضاً۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۰؍۵؍ ۱۴۳۹ھ = ۲۸؍۱؍۲۰۱۸ء، یکشنبہ |
====================
سفر قصر کا حکم
سوال : ایک عورت نے حالت حیض میں ۴۸ میل دور جانے کے قصد وارادہ سے سفر شروع کیا، جب منزل اس کی ۱۰ کیلو میٹر باقی رہ گئی تو وہ پاک ہوگئی تو کیا اس کو نماز میں اتمام کرنا ہوگا؟ فقہ وفتاویٰ میں اتمام نماز کا حکم پایا جارہا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ عورت کو مسافر شرعی بننے کے لیے کیا یہ ضروری اور شرط ہے کہ وہ پاک حالت میں سفر شروع کرے تبھی وہ مسافر شرعی بنے گی ورنہ نہیں ، بینوا توجرو فقط والسلام
المستفتی ادارہ تحقیق المسائل روشن باغ الہ آباد یوپی انڈیا
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جی ہاں ! عورت کے مسافر شرعی بننے کے لے سفر شروع کرتے وقت اس کا حیض اور نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے، اگر وہ سفر شروع کرنے کے وقت حیض یا نفاس میں ہو تو اس کی سفر شرعی کی نیت معتبر نہ ہوگی؛ کیوں کہ حیض یا نفاس والی عورت نیت کی اہلیت تو رکھتی ہے ؛ لیکن حیض یا نفاس کی حالت نیت کی اعتباریت سے مانع ہے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عورت، حیض یا نفاس میں نماز کی مکلف نہیں ہوتی اور اس کا یہ عذر سماوی ہے ؛ البتہ پاک ہونے کے بعد اگر منزل مقصود سفر شرعی کی مسافت پر ہو تو وہ وہاں سے مسافر شرعی ہوجائے گی(اختری بہشتی زیور مدلل، ۲: ۴۹، مسئلہ: ۱۲، مطبوعہ:کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور، فتاوی محمودیہ جدید۷: ۵۰۲، سوال: ۳۵۹۹، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)۔
طھرت الحائض وبقي لمقصدھا یومان تتم فی الصحیح (الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ۲:۶۱۹، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)، قولہ: ’’ تتم فی الصحیح ‘‘: کذا فی الظہیریۃ، قال ط: وکأنہ لسقوط الصلاۃ عنھا فیما مضی لم یعتبر حکم السفر فیہ، فلما تأھلت للأداء اعتبر من وقتہ (رد المحتار)، منعھا من الصلاۃ ما لیس بصنعھا فلغت نیتہ من الأول (المصدر السابق)۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۴؍۵؍ ۱۴۳۹ھ = ۱۱؍ ۲؍۲۰۱۸ء، یکشنبہ |
=====================
سوال : آن لائن ٹریڈنگ کے بارے میں ،ایک ویب سائٹ ہے ،شپَڑتوپتِون نام سے جس پر کچھ سامان (سونا ،چاندی ڈالر وغیرہ )کا ریٹ بتا تاہے جس کا ریٹ بدلتا رہتا ہے ،ہمیں اس میں کچھ پیسے لگا کر کچھ سیکنڈ کے اندر بتانا ہوتا ہے کہ ریٹ کم ہو گا یا زیادہ۔اگر ہماری بات کچھ سیکنڈ بعد صحیح نکلی تو ہمارا پیسہ بڑھ کر واپس ملتا ہے اور صحیح نہ ہونے پر ہمارا پیسہ کمپنی رکھ لیتی ہے ۔
براہ کرم، بتائیں کہ اس طرح کا کام کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آن لائن ٹریڈنگ کی جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے، یہ در حقیقت خرید وفروخت کی شکل نہیں ہے؛ بلکہ یہ واضح طور پر جوے کی شکل ہے ؛ کیوں کہ جواب صحیح ہونے کی صورت میں پیسہ بڑھ کر واپس ملتا ہے اور بہ صورت دیگر اصل پیسہ بھی واپس نہیں ملتا اور جوا شریعت میں قطعی طور پر حرام وناجائز ہے اور اس میں جو زائد پیسے ملتے ہیں ، وہ بھی حرام ہیں ؛ اس لیے سوال میں مذکور آن لائن ٹریڈنگ کی شکل اختیار کرنا جائز نہیں ہے ، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا واجب وضروری ہے۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا الآیۃ (البقرۃ: ۲۷۵)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (المائدۃ:۹۰)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲:۷۲، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)، وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمدؒ،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث:۶۵۱۱)، {وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقۃ (معالم التنزیل ۲:۵۰)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارۃً وینقص أخری، وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۲؍۴؍ ۱۴۳۹ھ = ۳۱؍۱۲؍۲۰۱۷ء یکشنبہ |
=====================
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلۂ ذیل کے بارے میں ؟
ہم تجارت پیشہ لوگ ہیں ہم لوگوں سے مال خریدکر کمپنیوں کو دیتے ہیں ساری رقم ہماری نہیں ہوتی؛ بلکہ دیگر لوگوں کی بھی ہوتی ہے اور یہ کمپنیاں صرف اکائونٹ میں پیسہ بھیجتی ہیں جو حکومت کی نظر میں رہتا ہے اور اس پر انکم ٹیکس لگاتے ہیں اور اگر ہم اپنی ضرورت کے لیے کچھ رقم دے کر قسطوں پر کار خریدتے ہیں تو حکومت ہم سے بازپرس کرتی ہے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے تو اگر حکومت کو معلوم ہوجاتا ہے تو وہ ٹیکس لگاتی ہے؛ اس لیے ہم بینک میں قسطوں پر پیسہ جمع کرکے لون پر گاڑی لینا چاہتے ہیں جب کہ ہم سرکار کو انکم ٹیکس دے رہے ہیں تو شرعاً ہمارا یہ عمل کیسا ہے؟
محمد فیضان، سروٹ، مظفرنگر
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے، احادیث میں سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے؛ اس لیے شوروم سے نئی گاڑی لینے کے لیے بینک سے سودی قرض لینا ہرگز جائز نہیں ، سخت حرام ہے، ایسی صورت میں آدمی کو چاہیے کہ کرایہ کی گاڑیوں سے کام چلائے یا سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ سے دو چار سال استعمال شدہ گاڑی خریدکر اس سے کام چلائے ؛ البتہ اگر کسی شخص کے پاس شوروم سے نئی گاڑی خریدنے کے لیے دیگر اخراجات سے خالی مطلوبہ رقم موجود ہے ؛ لیکن وہ انکم ٹیکس ادا کردہ نہیں ہے ، یعنی: حکومت کی نظر میں غیر قانونی ہے، جس کی بنا پر اگر بینک سے لون نہ لیا جائے تو انکم ٹیکس کے حوالے سے مختلف پریشانیوں کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں محض انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ظاہری طور پر بینک سے لون لینے کی گنجائش ہوگی؛ کیوں کہ یہاں بینک سے سودی قرض کسی فائدے کی غرض سے نہیں لیا جارہا ہے؛ بلکہ صرف انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ، یعنی: دفع ظلم کے لیے لیا جارہا ہے ؛ اس لیے اس صورت میں ان شاء اللہ گناہ نہ ہوگا(مستفاد: فتاوی نظامیہ اوندرویہ، ۱: ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: تھانوی آفسیٹ پرنٹرس ، دیوبند، مسائل سود، مرتبہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم ص۲۴۴، ۲۴۵، مطبوعہ: حراء بک ڈپو، دیوبند)۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیۃ (البقرۃ: ۲۷۵)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۵؍۵؍ ۱۴۳۹ھ = ۲۳؍ ۱؍۲۰۱۸ء یکشنبہ |
————————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:102، شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون ۲۰۱۸ء
٭ ٭ ٭