از: مفتی محمد وقاص رفیعؔ

M.waqqasrafi1986@gmail.com

            آج مؤرخہ۱۴؍ اپریل سنہ ۲۰۱۸ء کو بعد از نمازِ ظہر سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے فرزند ارجمند، حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کے پڑپوتے، اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے آخری شاگرد، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ بھی سفرِ آخرت کے لئے روانہ ہوگئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ وہ گزشتہ چند دنوں  سے بوجہ ضعف و نقاہت اور دیگر کئی عوارض و امراض کے سبب شدید علیل اور ہسپتال میں  داخل تھے۔

            مولانا سالم قاسمی ؒ برصغیر کے مشہور علمی، مذہبی اور دینی خانوادۂ قاسمیؒ کے چشم و چراغ اور گل سرسبد تھے، آپؒ مشہور محدث ، مفسر، مبلغ اور دار العلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب قاسمی صاحب ؒ کے خلف اکبرو جانشین، حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے پڑپوتے، علوم قاسمیہؒ کے امین و پاسباں  اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے شاگردِ رشید و صحبت یافتہ تھے۔ آپؒ مؤرخہ۲۲؍جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ بمطابق ۸؍جنوری ۱۹۲۶ء بروز جمعۃ المبارک کو ہندوستان کے مشہور ضلع سہارن پور کے معروف قصبہ دیوبند میں  پیدا ہوئے۔

            سنہ ۱۳۵۱  ہجری میں  مولانا سالم قاسمیؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم قرآنِ مجید سے شروع کی اور حضرت قاری شریف حسن گنگوہی ؒ سے ناظرہ و حفظ قرآنِ کریم کی تعلیم مکمل کی۔ پھرفارسی کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور فارسی کے چار سالہ نصاب کی تکمیل مولانا محمد عاقل ؒ، مولانا محمد ظہیر ؒ اور مولانا سید محمدحسن ؒ وغیرہ فارسی کے جید اور ممتاز اساتذہ سے کی۔فارسی کا نصاب مکمل کرنے کے بعد سنہ۱۳۶۲ہجری میں  آپ ؒ نے عربی نصاب کا آغاز کیا اور اُس وقت کے ماہر اور جید اساتذہ کی زیر نگرانی مختلف علوم و فنون کی تکمیل کرکے سنہ ۱۳۶۷ ہجری بمطابق ۱۹۴۸ عیسویں  میں  ازہر الہند دار العلوم دیوبند سے آپؒ نے دورۂ حدیث کا امتحان دے کرکے سند فراغت حاصل کی۔

            مولانا سالم قاسمی ؒ کی تعلیم و تربیت دار العلوم دیوبند میں  اکابر دیوبند کی آغوش میں  ہوئی۔ آپؒ نے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ،شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی دیوبندی ؒ، جامع المعقول والمنقول مولانا محمد ابراہیم بلیاوی ؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی ؒ، مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانیؒ،شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ،مولانا سید اختر حسین میاں  ؒ، مولاناقاری محمد اصغر ؒ، مولاناعبد السمیع ؒ، مولانا عبد الاحد ؒ، اور مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ وغیرہم جیسے مشاہیر اہل علم و فضل کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور سعودی عرب کے محدث جلیل شیخ عبد اللہ بن احمد الناخی سے اجازتِ حدیث حاصل کی۔

            مولانا سالم قاسمیؒ کا دار العلوم دیوبند سے فراغت کے معاً بعد دار العلوم دیوبند ہی میں  بطورِ مدرس تقرر ہوا۔ جہاں  آپؒ نے اپنے اکابر و اساتذہ کی زیر نگرانی اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا ۔ شروع میں  ابتدائی عربی درجات کے بعض اسباق نور الایضاح اور ترجمۂ قرآن پاک وغیرہ  آپؒ کے ذمے لگے، جب کہ بعد میں  بڑے اسباق شرح عقائد ، ہدایہ، مشکوٰۃ، ابوداؤد اور بخاری شریف کے اسباق پڑھانے کی سعادت آپ کے حصے میں  آئی۔

            مولاناسالم قاسمی ؒ نے شروع میں  بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے قائم کیاتھا لیکن وہ اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد مولانا قاری طیب قاسمی ؒ سے ہی لیتے رہے اور آخر کار اُنہیں  کے مجازِ بیعت و ارشاد ہوکر اُن کے متوسلین اور خلفاء کی اصلاح و تربیت فرماتے رہے۔چنانچہ آپؒ سے سلوک و ارشاد میں  تربیت و اجازت پانے والوں  کی ایک بڑی تعداد ہے اور اجازت پانے والوں  کی تعداد سو سے متجاوز ہے۔

            سنہ ۱۹۶۶ عیسوی میں  مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو عصری جامعات کے طلبہ و طالبات کے لئے آسان بنانے کی غرض سے ’’جامعہ دینیات دیوبند‘‘ کے قیام میں ، دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے کام یاب انعقاد میں ، اسی طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام میں  اور سنہ ۱۹۸۳ عیسوی میں  بعض باہمی اختلافات کی بناء پر دار العلوم (وقف) دیوبند کے قیام و استحکام میں  مولانا سالم قاسمیؒ کا انتہائی عظیم اور اہم ترین کردار رہا ہے۔

            علاوہ ازیں  مولانا سالم قاسمیؒ کے دورانِ تدریس دار العلوم دیوبند میں  ایک تحقیقی شعبہ ’’مجلس معارف القرآن‘‘ کا قیام عمل میں  آیا جس کے آپؒ ذمہ دار مقرر ہوئے۔ اسی طرح سنہ ۱۹۸۳ء سے لے کر سنہ ۲۰۱۴ء تک دار العلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم رہے۔ سنہ ۲۰۱۴ء سے لے کر تاحال دارالعلوم (وقف) دیوبند کے صدر مہتمم رہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کے سابق رکن اور آخرتک سینئر نائب صدر رہے ۔ آل انڈیا مجلس مشاورت کے سابق صدر اور موجودہ سرپرست رہے۔آل انڈیا رابطۂ مساجد کے سرپرست رہے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سرپرست رہے۔ مجلس شوریٰ مظاہر العلوم (وقف) سہارن پور کے سرپرست رہے۔ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس انتظامیہ و شوریٰ کے رکن رہے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے رکن رہے۔ ششماہی عربی مجلہ محکمہ ’’وحدۃ الامۃ‘‘ ، ماہنامہ اردو ’’ندائے دار العلوم (وقف) دیوبند، سہ ماہی انگریزی مجلہ ’’وائس آف دار العلوم‘‘ اور اندرون و بیرون ملک مختلف دینی و ملی مراکز اور اداروں  کے نگران اور سرپرست رہے ۔

            مولانا سالم قاسمیؒ کی انہی دینی و علمی خدمات کو دیکھ کر مصر کے صدر جناب حسنی مبارک نے مصری حکومت کی طرف سے مصر کا سب سے بڑااعزاز ’’نوط الامتیاز‘‘ یعنی برصغیر کے ممتاز عالم دین کا نشانِ امتیاز کا ایوارڈ آپؒ کو عطاء کیا۔ دوسرا اعزاز ’’جائزۃ الامام محمد قاسم النانوتویؒ (ترکی) آپؒ کو عطا کیا گیا اور تیسرا اعزاز ’’حضرت شاہ ولی اللہؒ‘‘ آپؒ کو عطاء کیا گیا۔

            مولانا سالم قاسمیؒ نے دیگر دینی و علمی خدمات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں  بھی اپنی صلاحیتوں  کا خوب مظاہرہ کیا ہے اور مندرجہ ذیل کتابیں  تصنیف فرمائی ہیں : (۱) قرآنِ کریم کے اردو تراجم کا جائزہ (۲)تاج دارِ ارضِ حرم کا پیغام (۳) مردِ غازی (۴) ایک عظیم تاریخی کارنامہ (۵) رسالۃ المصطفیٰ (۶) سفر نامۂ برما (۷) مجاہدین آزادی (۸) مبادیٔ الترجمۃ الاسلامیۃ (عربی)

            مولانا سالم قاسمیؒ نے جس انداز میں  دار العلوم (وقف) دیوبند کی خدمات سرانجام دیں  اور جن نامساعد حالات میں  آپؒ نے دار العلوم (وقف) دیوبند کی سرپرستی فرمائی اور جس حکمت عملی و خوش اسلوبی سے اسے نبھایا اسے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل و انعام ہی سمجھنا چاہیے ۔ ورنہ:

ایں  سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

            انسان دُنیا میں  جتنا چاہے زندہ رہے لیکن ایک نہ ایک دن اُسے موت ضرور آنی ہے اور اُس نے آگے جاکر اپنے رب کے حضور پیش ضرور ہونا ہے، مولانا سالم قاسمی صاحبؒ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا کہ تقریباً پون صدی تک قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں  لگاتے لگاتے آخر کار اُنھوں  نے بھی مؤرخہ۱۴؍ اپریل سنہ۲۰۱۸عیسوی بمطابق۲۷؍رجب المرجب سنہ۱۴۳۹ ہجری بروز ہفتہ  داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا ا ور سفرِآخرت کے لئے روانہ ہوگئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

            اللہ تعالیٰ سے دُعاء ہے کہ وہ اُنہیں  کروٹ کروٹ سکھ ، چین اور راحت والی زندگی نصیب فرمائے اور اُن کے لواحقین و متوسلین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts